پچھلے کچھ عرصے سے پاکستان میں دومحاذوں پر جنگ ہورہی ہے اور دونوں طرف نقصان بے تحاشا ہورہا ہے۔ ایک محاذ پاکستان کی مسلح افواج اور شمالی علاقوں کے قبائلیوں کے درمیان کھلا ہوا ہے اور دوسرا محاذ کراچی میں سیاسی، طلبا اور لسانی تنظیموں کے درمیان کھلا ہوا ہے۔
پہلے محاذِ جنگ میں جہاں بے شمار شمالی علاقوں کے مسلمان قتل ہوئے ہیں وہیں پاکستانی افواج کا بھی بے پناہ جانی نقصان ہوا ہے۔ ابھی کل ہی اگر شمالی علاقوں کے سینکڑوں مسلمانوں کو ہلاک کرنے کا حکومتِ پاکستان نے دعویٰ کیا ہے تو دوسری طرف پاک افواج کے بھی بیس جوان ایک میس میں بم پھٹنے سے ہلاک ہوئے ہیں اور بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق ایک سکول پر راکٹوں کے حملے میں نوے سے زیادہ جوان مرگئے ہیں۔
اسی طرح کراچی میں کل جامعہ کراچی کے قریب منی بس پر فائرنگ سے ایک طلبا تنظیم کے ارکان سمیت سات افراد ہلاک ہوگئے ہیں۔ اس کیساتھ ساتھ کراچی بار ایسوسی ایشن کے راجہ ریاض ایڈووکیٹ کو قتل ہوئے ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں ہوا کہ آج کراچی بار ایسوسی ایشن کے ایک اور رکن عتیق احمد قادری کو فائرنگ کرکے شدید زخمی کردیا گیا ہے۔ اس پر طرہ یہ ہے کہ لسانی اور سیاسی تنظیمیں پرتشدد بیانات دینے سے بھی باز نہیں آ رہی ہیں۔
چونکہ کراچی میں حکومت ایک لسانی تنظیم کی ہے جو خود اس تنازعے میں ملوث سمجھی جارہی ہے اسلیے وفاقی حکومت کی مداخلت کے بغیرموجودہ خونریزی کا رکنا ناممکن ہے۔ پتہ نہیں ہماری سیاسی، طلبا اور لسانی تنظیمیں ہرمسئلے کا حل بندوق کی گولی کو کیوں سمجھتی ہیں۔ انہیں چاہیے کہ کراچی کی بگڑتی ہوئی صورتحال کو مذاکرات سے کنٹرول کرنے کی کوشش کریں۔
ہمیں حیرانی کراچی کے مقامی اردو بلاگرز پر بھی ہورہی ہے جو اس صورتحال پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ وہ نہ تو اس صورتحال کا غیرجانبدارانہ جائزہ پیش کررہے ہیں اور نہ ہی مزمت کررہے ہیں۔
ابھی رمضان کے مہینے کے پیغام میں جنرل صدر مشرف کا بیان چھپا ہے جس میں انہوں نے کہا ہے ” روزہ صبر، استقلال اور ایثاروقربانی کا درس دیتا ہے”۔ مگر جب ہم جنرل صاحب کی موجودہ کارکردگی دیکھتے ہیں تو وہ بالکل مختلف نظر آتی ہے۔ انہوں نے نوازشریف کی آمد پر جو سیاسی کارکن پکڑے تھے وہ رمضان کے صدقے رہا کرکے کوئی بڑا کارنامہ انجام نہیں دیا۔ وہ لوگ ویسے ہی رہا ہونے والے تھے کیونکہ نواز شریف کی دوبارہ جلاوطنی کے بعد ان کو زیر ہراست رکھنے کی ضرورت ختم ہوگئ تھی۔
اگر جنرل صدر مشرف نے رمضان کے صدقے کچھ کرنا ہی ہے تو پھر اپنے کہے پر عمل کرکے دکھائیں۔ یعنی اگر وہ روزے سے ہیں تو پھر ان میں صبر، استقلال اور ایثاروقربانی کا جذبہ پیدا ہوجانا چاہئے۔ یہ جذبہ ان سے تقاضا کرتا ہے کہ وہ شمالی علاقوں میں جاری جنگ اس مقدس ماہِ رمضان میں بند کردیں اور اپنی افواج وہاں سے واپس بلوا لیں۔ یہ کوئی عراق نہیں ہے کہ افواج واپس بلانے سے حالات مزید خراب ہوجائیں گے۔ بلکہ قبائلی پہلے کی طرح سکون سے رہنے لگیں گے۔ اسی طرح کراچی کی سیاسی، طلبا اور لسانی تنظیموں سے بھی گزارش ہے کہ وہ رمضان کے تقدس کا خیال رکھتے ہوئے ایک دوسرے پر گولیاں چلانا بند کردیں اور رمضان کے مہینے میں صلح کا ہاتھ ایک دوسرے کی طرف بڑھائیں۔ یہی ہم سب اور پاکستان کیلیے بہتر ہے۔
No user commented in " رمضان میں جنگ بندی کا صائب مشورہ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply