آج تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان غلط پلاننگ کیساتھ جب پنجاب یونیورسٹی پہنچے تو انہیں ناں صرف حزیمت اٹھانی پڑی بلکہ گرفتاری بھی دینی پڑي۔ عمران خان جنہوں نے اعلیٰ انتظامی صلاحیتوں کی وجہ سے پاکستانی کرکٹ ٹیم کو کامیابیاں دلائیں سیاست کی سمجھ بوجھ سے عاری ہونے کی وجہ سے آج اپنی ہی حلیف جماعت کی طلبا تنظیم کے ہاتھوں پٹائی کرا بیٹھے۔
عمران خان سے کوئی پوچھے کہ سیاست میں اتنے سال جھک مارنے کے بعد انہوں نے ابھی تک یہ بھی نہیں سیکھا کہ جس جگہ پر جلسہ کرنے جانا ہو وہاں کے ماحول کا پہلے جائزہ لے لینا ضروری ہوتا ہے۔ ان کے حامی طلبا بھی شاید اپنی مخالف تنظیم کی قوت کا اندازہ نہ لگا سکے اور اپنے لیڈر کو ان کے سپرد کربیٹھے۔ جمعیت طلبا کے لڑکوں نے پہلے تو عمران خان کو ایک کمرے میں محبوس کردیا، پھر چھترول کرتے ہوئے کیمپس سے باہر نکال دیا جہاں پولیس نے انہیں گرفتار کرلیا۔ اس طرح عمران کا سارا احتجاج ناکامی سے دوچار ہوگیا۔
عمران خان شاید ابھی تک اسی زعم میں تھے کہ طلبا اب بھی انہیں ایک عظیم کرکٹر سمجھ کر عزت دیں گے انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ سیاست میں آنے کے بعد ہیروازم پیچھے رہ جاتا ہے اور سیاسی پارٹي اور اس کے نظریات سیاستدان کی پہچان بن جاتے ہیں۔
عمران خان کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ اسلامی جمعیت جیسی کٹڑاسلامی طلبا تنظیم آزاد خیال لوگوں کو پسند نہیں کرتی۔ ہمیں یاد ہے ہمارے دور میں جمعیت نے کبھی کیمپس میں میوزیکل پروگرام نہیں ہونے دیا تھا۔ ایک دفعہ پی پی پی کی طلبا تنظيم نے پروگرام کرنے کی کوشش کی تھی اور جمعیت والوں نے خیمے اکھاڑ پھینکے تھے۔ پتہ نہیں عمران خان کو کیا سوجھی کہ وہ اس عمر میں طلبا کی لیڈری کرنے کیلیے پاکستان کے سب سے بڑے تعلیمی ادارے میں بناں پلاننگ گھس گئے اور اپنی عزت خراب کر بیٹھے۔
ہمیں امید ہے عمران خان نے آج کے واقعے سے بہت کچھ سیکھا ہوگا اور آئندہ وہ جہاں بھی جائیں گے پہلے مخالفین کی قوت کا اندازہ ضرور لگا لیا کریں گے۔
20 users commented in " عمران خان کی غلط پلاننگ کی سزا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعمران خان نے کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو لیکن مجھے یہ واقعہ اپنا جامعہ کراچی کا دور یاد کرواگیا ۔ لگتا ہے اب تک جمعیت کے کارکنوں کے ذہن سے اللہ میاں کی پولیس کا بھوت نہیں اترا۔ عمران خان کی پلاننگ غلط تھی یا صیحح اس سے قطع نظر احتجاج کا مقصد تو ایک ہی تھا ۔۔ کیا جمیعت کے کارکن اتنے کند ذہن ہیں ؟ یا ان سے عمران خان کی طلبا میں مقبولیت برداشت نہیں ہوئی؟ ویسے کالجوں اور جامعات میں جمیعت کی غنڈہ گردی حد سے زیادہ بڑھ گئی ہے خاص طور پر جب وہ طالبان طرز کی حرکتیں کرتے ہیں تو مودودی صاحب کی فکر سے میلوں دور چلے جاتے ہیں۔
اس تحریر کہ بعد پنجاب یونیورسٹی کے جمعیت کے ناظم نے عمران خان اور جماعت اسلامی کے امیر العظیم پر الزام لگایا ہے کہ انہوں نے طلبا تحریک کو سیاسی رنگ دینے کی کوشش کی جو غلط تھا۔
اس کے بعد جماعت اسلامی نے جمعیت طلبا کی عمران خان کیساتھ زیادتی کا سختی سے نوٹس لیا ہے اور معاملے کی تحقیق کیلیے ایک کمیٹی بٹھا دی ہے۔
ویسے عمران خان کیساتھ جو کچھ ہوا اس کھچڑی کی ہمیں سمجھ نہیں آسکی۔ جمعیت نے پہلے سے احتجاج کو روکنے کا اعلان کررکھا تھا اور جماعت اسلامی نے کوئی ایکشن نہ لیا۔ دوسری طرف عمران خان نے بھی کوئی حفاظتی اقدام نہیں اٹھایا تھا۔ اب کون سچا ہے اور کون جھوٹا یہ اللہ جانتا ہے۔
آج جو کُچھ عمران خان کے ساتھ ہُوا اور اُس ميں اُن کي جو بھي خطا ہو يا نا ہو وہ بجاۓ خُوداتنا زيادہ افسوسناک ہے کہ سواۓ دُکھ کے اور کُچھ نہيں سُوجھتا کيا ہم لوگ اتنے بے حس ہو چُکے ہيں کہ کُچھ بھی سمجھنے کی صلاحيّت سے عاری ہو گۓ ہيں مُلک کو بُھول کر صرف اپنی ذات کے مدار ميں چکّر لگا رہے ہيں اپنی ساری اقدار کا پامال کرنا شايد ہم بہت اچھی طرح جانتے ہيں کاش کہ اپنی اس سوچ کو بدل پانے کی طاقت رکھيں جمعيت کے طُلباء کيا ہميشہ ہی اپنی ايسی روايات کا پالن کرتے رہيں گے گول گول دائروں ميں گُھومنے والے اس سے نکلنے کو شايد حماقت سمجھتے ہيں اپنے سے آگے کسی کو بھی نا گرداننا اور احسان فراموشی شايد ہماری سرشت ميں شامل ہو گيا ہے اورسرشت کہيں يا فطرت وہ کبھی تبديل نہيں ہوتی دُعاگو ہُوں کہ ہميں اپنی غلطيوں سے خُود سبق سيکھنا آ جاۓ ورنہ زمانہ تبديلی کا يہ عمل اپنے طريقے سے کرنے کا فن جانتا ہے اللہ تعاليٰ سب کو اپنی امان ميں رکھے،آمين
دُعاگو
شاہدہ اکرم
عمران خان ۔۔۔۔ اک ہیرو۔۔۔۔ لیکن ایسی قوم کا جس قوم نے اپنے سب سے بڑے محسن کو قید میں جانے دیا وہ بھلا عمران خان کو کیا جانے۔
گالی بھی دینے کو نہیں دل کر رہا میرا جمیعت والوں کو کہ گالی بہت ہی کم ہو گی ان کیلیے۔ پتہ نہیں وہ کونسی مائیں ہیں جنہوں نے ان لڑکوں کو جنم دیا جن لڑکوں نے آج عمران خان سے دست درازی کی۔۔۔۔ ان لڑکوں نے یہ تک نہیں سوچا کہ اس لیڈر کو مار رہے ہیں جس نے ہمیشہ پاکستان کا نام روشن کیا۔
یہی وہ لیڈر ہے جس نے پاکستان بننے کے بعد قوم کو ورلڈ کپ کا تحفہ دیا پھر کینسر ہسپتال کا تحفہ دیا۔ میں گالی نہیں دینا چاہتا ان لڑکوں کو جنہوں نے عمران خان کو مارا کیونکہ قصور ان کا نہیں ان کی مائوں کا ہے جنہوں نے اتنی گندی اولاد پیدا کی۔ پس ۔۔۔۔۔
جتنی بھی مذمت کی جائے کم ہے۔۔۔۔ افسوس میں پاکستان میں نہیں ہوں ورنہ کم از کم پانچ سات ایسے کتوں کے سر پھاڑ ہی دیتا جینھوں نے عمران پہ بزدلانہ حملہ کیا
نادان دوست سے عقلمند دشمن بہتر ہے
جو ہوا یقین جانیں بہت برا ہوا، انجانے میں ہوا یا جان کر لیکن اس میں شامل عناصر کے خلاف جماعت اسلامی کو سخت ایکشن لینا پڑے گا۔
اب میرے مخاطب اشرف علی صاحب ہیں۔ محترم! بہت اچھی بات بھی اگر گالی دے کر اور گندے لہجے میں کی جائے تو اس کا اثر الٹا ہوتا ہے۔ کیا آپ کو اچھا لگے گا کہ آپ کے کسی غلط عمل کی وجہ سے آپ کی معصوم ماں پر انگلی اٹھائی جائے۔ نہ ہی میں یہ چاہوں گاکہ میرے غلط کرتوتوں پر گالیاں میری ماں کو ملیں۔ امید ہے آئندہ آپ اوپر دہرائے گئے الفاظ دوبارہ استعمال نہیں کریں گے اور سوچ کر پھر بات کریں گے۔ ماں بہت عظیم ہستی ہے اور اس کی قدر ضرور آپ کو بھی ہوگی۔ اور بڑے بھی یہی کہتے ہیں کہ پہلے تولو، پھر بولو۔
بہت خوب، تو یہ ایک کٹر اسلامی تنظیم کی قوت کا مظاہرہ تھا، لوگ اسے خوامخواہ ہی غنڈہ گردی سمجھ رہے ہیں۔ واقعی عمران خان جیسے “آزاد خیال” شخص کو پنجاب یونیورسٹی جیسے اسلام کے گڑھ میں داخل ہونے کی سزا ملنی چاہیے تھی۔ یہی کچھ ایم کیو ایم والے کریں تو وہ دہشت گرد قرار پاتے ہیں اور جب جمیعت اور جماعت والے کریں تو اسلامی غیرت کا نمونہ۔
عمران کی سوچ (کم از کم سیاسی ایشوز کی حد تک) جس جماعت اور تنظیم سے زیادہ ملتی جلتی ہے تو جماعت اور جمعیت ہی ہیں ۔ معلوم نہیں یہ سب کچھ کیسے ہوا یا کیا گیا ۔ مجھے تو پہلے پہل یقین ہی نہیں ہو پارہا تھا کہ یہ ایسا ہوگیا ہے ۔
عمران کی سیاسی ناپختگی اپنی جگہ لیکن غلطی بہرحال جمعیت کے کارکنان کی ہے جنہوں نے ایسی غلط حرکت کرڈالی ۔
کچھ مزید متعلقہ باتیں :
× عمران کا مزاج کارزار سیاست سے میل نہیں کھاتا اور نہ ہی وہ اس میدان کے کھلاڑی ہیں وہ اگر خود کو انسانیت کی خدمت اور فلاح و بہبود تک محدود کرلیتے تو شائد پاکستان اور اس کے باسیوں کا کچھ بھلا ہوتا ۔
× جمعیت ہمیشہ سے ایک آزاد تنظم کا دعویٰ کرتی چلی آرہی ہے ۔ اس واقعے کے بعد جماعت کی سینئر قیادت نے اس پر ایکشن لینے اور ذمہ داروں کے خلاف کاروائی کی بات کی ہے ۔ اس سے معلوم ہوگا کہ جمعیت کہاں تک آزاد ہے اور کیا وہ جماعت کی ذیلی تنظیم یا طلبا ونگ ہے یا نہیں ؟
× ایک بھائی نے غلط زبان استعمال کی ہے جو نہیں ہونا چاہیئے ۔ لیکن افضل نے بھی ایسا تبصرہ شائع کرکے ٹھیک نہیں کیا ۔ انہیں یہ تبصرہ مٹا دینا چاہیئے تھا ۔
× افضل اور کامران نے ماضی میں جمعیت کی طرف سے طلبا کی سرگرمیوں کے خلاف اقدامات پر تنقید کی ہے ۔ مثبت اور بیلنس سوچ رکھنے والوں نے ہمیشہ اس سے اختلاف کیا ہے اور یہ بجا بھی ہے کیونکہ اگر جمعیت والے اپنے بقول “ناپسندیدہ“ سرگرمیوں کے خلاف اس طرح کے اقدامات کرتے ہیں تو پھر وہ یا ہم لوگ فوج اور جنرل مشرف کو کس طرح تنقید کا نشانہ بناسکتے ہیں کیونکہ وہ بھی تو اپنے تیئں “ناپسندیدہ“ سرگرمیوں ہی کے خلاف “کام“ کررہے ہیں ۔
× مجھے عمران سے گرفتاری سے بچنے کے لئے کئے جانے والے کوششوں پر بھی حیرت رہی ۔ انہوں نے ایک صحافی کو بتایا تھا کہ وہ پولیس کو گھر میں آتے دیکھ کر دیوار پھلانگ گئے اور بھاگ نکل آئے ؛ آخر کیوں ؟ گرفتاری سیاسی عمل کا حصہ ہے اور احتجاج کا حصہ بھی ۔ کیا عمران جنرل صاحب کے خلاف کوئی مسلح تحریک شروع کرانا چاہتا تھا جس کے لئے اس کی زیرزمین موجودگی ضروری تھی ۔ کیونکہ سیاست میں کوئی زیرزمین سرگرمیاں نہیں ہوتی بلکہ سب کچھ برسرزمین اور کھلم کھلا ہوتا ہے ۔
اول تو یہ کہ عمران خان کے ساتھ زیادتی بلکہ بدتمیزی کی گئی ۔ درست کہ عمران خان کو ایک دن پہلے دیئے گئے بیان کو مدِ نظر رکھنا چاہیئے تھا لیکن اسے باعزت طریقہ سے واپس بھیجا جا سکتا تھا ۔
اس واقعہ میں اسلامی جمیعت طلباء کے لوگوں نے ثابت کر دیا ہے کہ وہ لوگ جماعتِ اسلامی سے متفق نہیں ہیں ۔ اس کی وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے کہ اس تنظیم میں خود غرض لوگ شامل ہو چکے ہیں جن کو حکومت نے ایجنسیوں کے ذریعہ خریدا ہوا ہے ۔
مجھے صرف اس بات پر حیرت ہے کہ وہاں کوئی بھی انصاف پسند موجود نہ تھا ۔ اگر آج کے طلباء کی یہ حالت ہو چکی ہے تو اس ملک کو بچانا مشکل ہے ۔
جماعت اسلامی ایک ایسا بے وقوفوں ٹولہ ہے جس میں ہر بے وقوف کا باریش ہونا ضروری ہے تو پھر برا مانتے ہیں۔۔۔ پھر میں جب کہتا ہوں کہ۔۔۔ آپ لوگ برا مانتے ہیں۔۔۔ یہ قاضی چور چاچا پراچہ سب جمیعت ہی کی تو پیداوار ہیں۔۔۔۔
جمیعت و جماعت سے آپ کس بات کی توقع رکھتے ہیں؟ جس جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی ہو موہن داس کرم چند گاندھی نے، جس جماعت کے امیر کو پینٹاگون میں بریفنگز دی جاتی ہوں اور جس جمعیت کا واحد کام اسلام کے نام پر دہشت گردی کرنا اور غیر جماعتیوں کی تذلیل کرنا ہو ان سے اور کیا توقع کریںگے؟ ان کا تو صرف ایک کام ہے، امت کے دل سے حُبِ رسول ختم کرنا اور اس کی پیٹھ پر وار کرنا اور یہ کام یہ ہمیشہ سے کرتے آئے ہیں اور کرتے رہیں گے۔ نجانے لوگ ان کے نقلی روپ کو اصل کیوںسمجھ بیٹھتے ہیں
جمیعت نے ایک مرتبہ پھر اپنا حقیقی روپ دکھا دیا ہے۔ عمران خان جب طلبا کے مظاہرے کی قیادت کے لیے پنجاب یونیورسٹی پہنچا جمیعت کے کارکنوں نے اس وقت ایک کمرے میں بند کر دیا اور اس سے مطالبہ کیا کہ وہ فوری طور پر یونیورسٹی سے چلا جائے۔ بعد میں جماعت اسلامی کے رہنما اور جمیعت کے سابق ناظم اعلی امیرالعظیم نے عمران خان کو رہا کروانے کی کوشش بھی کی۔ بعد میں پولیس عمران خان کو گرفتار کرکے نامعلوم مقام پر لے گئی۔ اس وقت جبکہ سول سوسائٹی آمریت کے شکنجے میں جکڑی ہوئی ہے اور اس کے خلاف جدوجہد کے لیے باہمی اتحاد اور مشترکہ جدوجہد کی ضرورت ہے وہاں پر ان غنڈہ عناصر کو محض پنجاب یونیورسٹی پر اپنی چودہراہٹ قائم کرنے کی فکر لاحق ہے۔ جنرل مشرف کو واقعی کسی تحریک مزاحمت کی جانب سے فکر لاحق نہیں ہونی چاہیے، اس کو سبوتاژ کرنے کے لیے کچھ لوگ پہلے ہی تیار بیٹھے ہیں۔
ان کو جب ایم کیو ایم والے ڈندے او گولیاں مارتے یہں تو پھر کچھ نہیں کرسکتے جبکہ ایک اصول پسند اور بے ضرر انسان کے ساتھ جن سے بہت سارے لوگوں کی امیدیں وابستہ ہیں یہ سلوک کیا۔۔بڑی شرمندگی والی حرکت ہے۔۔۔۔۔ ذلالت کی انتھا ہے
میں ایک مرتبہ پھر عمران کے ساتھ بدتمیزی کی مذمت کرتا ہوں ۔
“جمیعت و جماعت سے آپ کس بات کی توقع رکھتے ہیں؟ جس جماعت کے پہلے سالانہ اجلاس کی صدارت کی ہو موہن داس کرم چند گاندھی نے،“
اس جملے پر جناب اسلم جٹ صاحب سے پوچھنا ہے کہ کیا آپ نے تاریخ میں پی ایچ ڈی کی ڈگری لی ہے ۔ – بے شک اختلاف کیجئے ، تنقید کیجئے ، مذمت کیجئے لیکن تاریخ کو مت بگاڑیئے ۔ یہ قابل قدر معلومات آپ نے کہاں سے حاصل کی ، ذرا ہم بھی تو جانیں !!
جمیعت سے اس کے علاوہ اور کیا توقع کی جا سکتی تھی۔
آپ نے لکھا
“اسلامی جمعیت جیسی کٹڑاسلامی طلبا تنظیم آزاد خیال لوگوں کو پسند نہیں کرتی۔ “
بہت اچھا ہے ، لیکن اس تنظیم کے ریکارڈ پر تو اسلامی فکر کے حامل لوگوں کے خلاف بھی غنڈہ گردی کے الزامات ہیں۔
اور دوسرا کیا عمران کیا آزاد خیال ہے؟ میں نہیں سمجھتا کہ ایسا ہو۔
اگر آپ مندرجہ ذیل تین نکات:
فضل الرحمن کی حکومت نوازی اور ایم ایم اے میں اس کی جماعت کی اکثریت
جماعت اسلامی کا دیوبندی ووٹوں کے لیے فضل الرحمن کے خلاف ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے واضح موقف اختیار نہ کرنا
عمران خان کی فضل الرحمن کی منافقت پر شدید تنقید
پر غور کریں تو جمیعت کی غنڈہ گردی آسانی سے سمجھ آجاتی ہے۔
وقار علی روغن۔ تاریخ نھیں پڑھی، تبھی تو یہ حال ھے۔۔۔۔۔۔ آب میں اس جماعت کی تاریغ کے کون کون سے سیاہ باب سے پردہ اٹھاوں۔۔۔۔ آپ کو مطالعہ کا مفت مشورہ دوں گا۔۔۔۔۔
جماعت ایک ایسی نظریاتی بنیاد میں گندھی ہوئی ہے جو فاشزم سے قریب ہے (اس پر ہمیں حیرانی نہیں ہونی چاہیے کہ اس ملک میں اسلام کو کس کس طریقے سے استعمال کیا گیا۔) جنرل یحییٰ خان کے بعد سے جماعت نے خفیہ ایجنسیوں کے گھر کی باندی کا کردار ادا کیا ہے جبکہ یہ ایجنسیاں وہ سیاہ قوتیں ہیں جو ہمیشہ سے جمہوریت مخالف رہی ہیں ۔ جماعت کی پالیسی ہی یہ رہی ہے کہ اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کيلئے انہوں نے ننگی جارحیت اور بربریت و تشدد کا مظاہرہ کیا ہے ۔ یقیناً جب پاکستان کے تعلیمی نظام کی تباہی کا مستندتاریخی نوحہ لکھا جائیگا تو اس میں جماعت کی ڈنڈا بردار فورس کے کرتب و کرتوت نمایاں اہمیت کے حامل ہونگے۔
جماعت اور اسکے کارکنو ں کو سزا دینے کے حوالے سے اگر کوئی تادیبی قدم اٹھایا جاتا ہے تو ہم اسے خوش آئند قرار دیں گے۔اگر جماعت اور جمعیت کو کوئی سبق سکھا سکا ہے تو وہ شاید ایم کیو ایم ہے۔یقیناً1980ء کی دہائی میں ضیائی دور میں ازسر نوجنم لینے کے بعد اگر ایم کیو ایم نے کوئی اچھا کام کیا ہے تو وہ کراچی میں جماعت کو خود اسکے اپنے تخلیق کردہ حربوں کا مزہ چکھانا ہے۔ اگر اور کچھ نہیں تو صرف اسی ایک خدمت کے عوض ایم کیو ایم کی مدح سرائی کی جانی چاہیئے۔
عمران خان کے ساتھ ہتک آمیز سلوک پر مبنی واقعہ اس امر کی وضاحت کے لئے کافی ہے کہ مذہبی جماعتیں خصوصاً قاضی حسین احمد کی جماعت اسلامی اور مولانا فضل الرحمان کی جمعیت علمائے اسلام کو جمہوری عمل میں کسی طرح بھی قابل اعتماد نہیں قرار دیا جا سکتا۔ انکا ہمیشہ اپنا ہی ایک نکتہ نظر ہوتا ہے اور یہ ہمیشہ ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ نتھی رہنے کو ترجیح دیتی نظر آتی ہیں ۔
جس طرح پنجاب یونیورسٹی میں عمران کی تذلیل کی گئی،تشدد کا نشانہ بنایا گیا اس کے بعد دہشت گردی کے الزام میں گر فتار کیا گیا ۔ایک ایسا شخص جو قومی ہیرو اور اربوں روپے چندہ کے ذریعے اکٹھا کر کے کینسر ہسپتال تعمیر کرواتا ہے صرف عوام کیلئے ۔یہ صرف باتیں بناتے ہیں اس کاعملی مظاہرہ کر کے دکھایا ہے۔
گورنر خالد مقبول جیسے تنگ نظر ،شاید تاریخ میں یاد بھی نہ رکھے جائیں ۔جس طرح وائس چانسلر کے ساتھ مل کر جماعتی غنڈہ عناصر کے ذریعے عمران خان کے ساتھ بد سلوکی کروائی پھر انہی کے ہاتھوں گرفتار کروایا ۔ موجودہ وائس چانسلر جماعت کے سابق طالب علم رہنما رہ چکے ہیں ،اس شرمناک واقعہ نے جماعت اسلامی کے نام پر دھبہ لگا دیا ہے ۔کیا ان کی حکومت کے ساتھ کسی قسم کی مفاہمت ہے ؟اس کا جواب قاضی حسین احمد ہی دے سکتے ہیں ،ان کے جنرل کے خلاف بیانات بھی مشکوک ہو چکے ہیں
تھنڈر اسکواڈ (جمعیت) نے ثابت کردیا کہ وہ واقعی آمریت کے ساتھ ہے اب جمیعت والے جو بھی توجیہ پیش کریں نا قابل قبول ہے، یہ اس تنطیم کی پرانی دھشتگردی ہے۔ اس کا سد باب کیا جائے۔ اس سے بہتر تو سیکیولر قوتیں ہیں۔ یہ ایک کھلی حقیقت ہے کہ ملا ملٹری کی ہی پیدائش ہے تو ان کو برا بھلا کہنے سے کیا فائدہ
اس سال 12 مئی کو چیف جسٹس افتخار چوہدری نے کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرنے کے لیے کراچی آنے کی کوشش کی تھی تو ایم کیو ایم نے پورے شہر میں آگ لگا دی تھی ۔ اس کا مقصد صرف یہ باور کرانا تھا کہ کراچی ایم کیو ایم کی جاگیر۔ آج کے واقعے سے یہ پتا چلتا ہے کہ جماعت اسلامی اور جمیعت کسی طرح بھی ایم کیو ایم اور اے پی ایم ایس او سے کم نہیں ہیں۔ جس طرح ایم کیو ایم نے کراچی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا ہے اسی طرح سے جمیعت نے بھی گزشتہ کئی دہائیوں سے پنجاب یونیورسٹی کو یرغمال بنا کر رکھا ہوا۔ جماعت اسلامی کا یہی وطیرہ رہا ہے کہ وہ مختلف قومی اداروں میں نفوذ کرکے ان کی جڑیں کھوکھلی کر کے انہیں تباہی کی طرف لے جاتی ہے۔
مشرقی پاکستان اور اب کے واقعات کو یکجا کر کے دیکھیں تو منظر بخوبی واضع ہوجائے گا ۔ مشرقی پاکستان کا جو سانحہ ہوا ۔ ۔ اس کی ابتداء تو قیامِ پاکستان سے ہی ہو گئی تھی ۔ علماء کا وہ گروہ جس نے قیامِ پاکستان کی مخالفت کی تھی ۔ قیامِ پاکستان کے بعد کس طرح نئی حکمتِ عملی وضع کرکے اپنا کام کرتے رہے ۔ آپ اگر تاریخ کے اوراق پلٹیں تو دیکھیئے 1970 کی انتخابی مہم کے دوران شوکت اسلام کا مظاہرہ کیا تھا ۔ وہ مظاہرہ ہی ایک ایسا نقطعہ تھا جہاں اس گروہ کا اصل مزاج ظاہر ہوا ۔ یہی وہ لمحہ تھا جب ملک واضع طور پر دو نظریاتی گروہ میں بٹ چکا تھا ۔ اور شوکت اسلام نے ایک گروہ کی انتہا پسندی کو ظاہر کردیا تھا ۔ پھر یہی انتہا پسندی مشرقی پاکستان میں عسکری پسندی کی شکل میں ظاہر ہوئی ۔ ان لوگوں نے اسلام کے نام پر فوج کے ساتھ مل کر بنگالیوں کے خلاف ہتھیار اٹھا ئے ۔ بنگالی سوسائٹی کے تاروپود ہلاد یئے ۔وہاں کے دانشوروںکو قتل کیا پھر پی این اے کے دوران اس مزاج نے نظامِ مصطفے کا نعرہ لگا کر کس طرح قوم کے اعصاب پر سوار ہونے کی کوشش کی ۔ اور ملک کی وہ تمام قوتیں جو پاکستان کی معاشی ترقی اور سول سوسائٹی کے خلاف تھیں انہوں نے نئے جدید ترقی پذیر پاکستان کے خلاف اتحاد بنا لیا ۔ 1970 میں یہ ایک پھر فوج کی گود میں جا بیھٹے ۔ کچھ عرصے بعد افغانستان کے حالات تبدیل ہوئے اور پھر یہ لوگ افغان جہاد کے نام پر فوج کے دست و بازو بن گئے اور افغان جہاد کے نام پر ملک اور ملک کے باہر سے ڈالرز ، ہتھیار اور ڈرگ جیسے وسائل سمیٹتے رہے ۔ اب جو کچھ ہورہا ہے اسی کا پھل ہے جو ساری قوم کاٹ رہی ہے ۔ ہوسکتا ہے کہ ان کا مقصد اعلی و ارفع رہا ہو ۔ مگر ان کا طریقہ کار شروع دن ہی سے یہ رہا ہے کہ فوج کا ساتھ دیا جائے ۔ عسکریت کا راستہ چنا جائے اور وقت پڑے تو آمروں کی حمایت سے بھی دریغ نہیں کیا جائے ۔ 17 ھویں ترمیم اور اب کے شمالی علاقاجات کے حالیہ واقعات کے تناظر میں اس سارے معاملے کو دیکھیں تو یہ بات صاف سامنے آجاتی ہے کہ یہ ایک ذہن ہے ۔ مزاج ہے ۔ میں اب اس مزاج کے بارے میں آپ سے کیا کہوں ۔ آپ خود سمجھ سکتے ہیں کہ اس کے کیا رنگ و ڈھنگ ہیں اور اس کے ڈانڈے کہاں سے ملے ہوئے ہیں ۔ انہوں نے پہلے کیا کیا تھا اور اب کیا کرنے جا رہے ہیں ۔ !
جمعیت کی یہ شرمناک اور گری ہوئی حرکت تمام عمر یاد رہے گی اور جمعیت کے مکروہ فعل کی سند کے طور پر ہمیشہ استعمال کی جاتی رہے گی۔ یقنی طور پر اس حرکت کے بعد پنجاب یونیورسٹی سے جمعیت کا زوال تیز تر ہو جائے گا اور آئندہ چند سالوں میں جمعیت کا صرف نام رہ جائے گا سیاہ حروف میں۔۔۔۔۔
۔۔
جٹ بھائی !
میں نے ایک سوال کیا تھا ، جس کا جواب نہیں ملا ۔ ہاں خاطر جمع رکھیں میں نے آپ کی پوری تقریر اطمینان سے پڑھ لی ہے ۔ تاہم جواب نہیں ملا !!!
ہاں اگر مہاتھما گاندھی نے جماعت کے پہلے اجلاس کی صدارت کی ہے تو یہ جماعت کے وقار کو بڑھانے والی بات ہے کیونکہ گاندھی جی پوری دنیا میں دور جدید میں امن کے پیامبر مانے جاتے ہیں ۔ (اس سے اختلاف کیا جاسکتا ہے لیکن بہرھال یہ سوچ موجود ہے اس کی موجودگی سے انکار ممکن نہیں ) تو اس طرح تو آپ کو جماعت کی عزت افزائی کررہے ہیں ، کیوں کیا خیال ہے آپ کا ؟
اچھی خبر یہ ہے کہ عمران خان کیساتھ جمعیت نے جو سلوک کیا اس کی نہ صرف تمام کالم نگاروں نے مزمت کی ہے بلکہ پنجاب یونیورسٹی میں ہزاروں طلبہ نے مظاہرہ کرکے عمران خان کیساتھ اظہار یکجہتی کیا ہے۔
اس واقعے سے جہاں جمیعت اور اسلامی جماعت کی ساکھ متاثر ہوئی ہے وہیں عمران خان کا قد مزید اونچا ہوگیا ہے۔ عمران خان کی پٹائی میںشامل حالانکہ جمیعت نے سترہ کارکن معطل کردیے ہیںمگر جو بدنامی کمائی ہے اس کا شاید وہ ازالہ نہ کرسکے۔
عمران خان کی پٹائی تو ان کے کام ایسے آئی جیسے کبڑے کو پڑی لات اس کا کبڑا پن سیدھا کردیتی ہے۔
امید یہی ہے کہ عمران حلیف جماعت کی اس غداری سے دلبرداشتہ نہیںہوں گے اور سیاست کے پرخار راستے پر چلتے رہیںگے۔
“عمران خان شاید ابھی تک اسی زعم میں تھے کہ طلبا اب بھی انہیں ایک عظیم کرکٹر سمجھ کر عزت دیں گے انہیں یہ معلوم نہیں تھا کہ سیاست میں آنے کے بعد ہیروازم پیچھے رہ جاتا ہے اور سیاسی پارٹي اور اس کے نظریات سیاستدان کی پہچان بن جاتے ہیں۔“
یہ پتہ نھیں کون سے ارسطو کا فلسفہ ھے۔ ھیرو ، ھیرو ھی رھتا ھے۔۔۔۔ جب تک وہ زیرو بننے والا کام نہ کرے۔۔۔۔۔اور پاکستان جیسی جذباتی قوم۔۔۔۔ کے لئے، ھیرو۔۔۔۔ ھیرو ھی رھے گا۔۔۔۔۔۔ کیا، عمران خان جیسے لوگ اس بنجر زمین پر روز روز پیدا ھوتے ھیں۔۔۔؟
عمران خان کی عزت اور لوگوں میں نہیں تو کم از کم ہمارے دل میں تو اور بڑھ گئی ہے، اور رہا جمعیت ، تو وہ تو ایم کیو ایم کا پنجابی ورژن ہے۔
Leave A Reply