یہ سبق آموز واقعہ ہمارے دادا نے بہت پہلے سنایا تھا۔ ہمارے پڑدادا کے دوست عبد اللہ بہت مخلص آدمی تھے۔ ان کے دوست علی کو اپنا حکمت کا کاروبار شروع کرنے کیلیے مدد کی ضرورت پڑی تو وہ عبداللہ کے پاس آیا اور اس سے چند ماہ کیلے رقم ادھار مانگی۔ یہ بات یاد رہے کہ علی نے اس وقت سو روپے بنئے کے کاروبار میں لگا رکھے تھے جس نے اسے سات سال بعد تین گنا واپس کرنے کا وعدہ کررکھا تھا۔
عبداللہ نے اپنی بیوی کا دس تولے سونا علی کواس شرط پر ادھار دیا کہ وہ سونا ہی واپس کرے گا۔ علی نے سونا پانچ روپے فی تولہ بیچ کر پچاس روپے سے دوائیوں کا کاروبار شروع کردیا۔
علی کا کاوربار جلدی پھل پھول نہ سکا اور وہ ادھار وقت پر واپس نہ کرسکا۔ عبداللہ نے بھی تقاضا نہ کیا اور اس طرح ادھار دیے تین سال بیت گئے۔ اس دوران علی نے عبداللہ کو بتایا کہ بنئے کو دیے ہوئے سو روپے اسے ایک سال میں تین گنا ملنے والے ہیں اور جب بنیا اسے تین سو روپے واپس دے گا تو وہ اس کا ادھار لوٹا دے گا۔ عبداللہ پھر بھی کچھ نہ بولا اور دوست کے کاروبار کی کامیابی کی دعائیںمانگتا رہا۔
جب بنئے نے علی کو تین سو روپے واپس کیے تو اس نے عبداللہ کو اس کے پچاس روپے اپنے دوست کے ہاتھ بھجوا دیے۔ رقم واپس کرتے ہوئے نہ ہی اس نے عبداللہ کا شکریہ ادا کیا اور نہ ہی پوچھا کہ رقم پوری ہے کہ نہیں۔ دوست کی بیوی نے علی کی بیوی کو بتایا کہ انہوں نے ادھار سونے ک شکل میں واپس کرنے کی بجائے رقم واپس کی ہے اور اس رقم سے اب سونا دس تولے کی بجائے آٹھ تولے ملتا ہے۔ یعنی علی کو رقم دس تولے سونے کی قیمت کے حساب سے واپس کرنی چاہیے تھی جو اب ساٹھ روپے بنتی ہے یا پھر سونا واپس کرنا چاہئے تھا۔ علی کی بیوی نے یہ وعدہ کیا کہ وہ اوپر کے دس روپے علی سے چوری چھپے واپس کردے گی مگر علی سے بات نہیں کرے گی۔ بعد میں عبداللہ کی بیوی نے اس بات کا گلہ عبداللہ اور علی کے مشترکہ دوست کی بیوی سے کیا تو تب میاں بیوی نے عبداللہ کا شکریہ ادا کیا مگر پھر بھی یہ تک نہ پوچھا کہ رقم پوری ہے یا نہیں۔
اس کے بعد عبداللہ اندر ہی اندر پیچ و تاب کھاتا رہا اور اس نے علی سے اپنی بیوی کے کہنے پر اسلیے ذکر نہیں کیا کہ وہ یہ سوچ کر کہیں ناراض نہ ہوجائے کہ علی صرف دس روپے کی ڈز اپنے دوست کی خاطر برداشت نہ کرسکا۔ مگر اس کے ذہن سے یہ خیال نکل نہ سکا کہ ایک طرف تو علی نے اپنے پچاس روپے بنئے کے پاس رکھ کر تین گنا کرلیے اور دوسری طرف اس کا دس تولہ سونا بھی پورا واپس نہیں کیا۔
اب دادا نے ہمارے امتحان کیلیے یہ سوال ہم پر داغ دیا اور پوچھا کہ کیا علی کو عبداللہ سے بات کرنی چاہیے تھی یا نہیں؟ ہمارے پاس اس بات کا سیدھا سادھا جواب تھا کہ ہاں کرنی چاہیے تھی اور اسے جتلانا چاہیے تھا کہ علی نے ادھار وعدے کیمطابق نہیں لوٹایا۔ مگر دادا کہنے لگے بیوقوت دس روپے سے زیادہ عبداللہ کو دوستی پیاری تھی اور اس نے گلہ نہ کرکے دوستی بچالی۔
ہم اس کے بعد یہ سوچتے رہ گئے کہ عبداللہ نے تو دوستی بچا لی مگر کیا علی کو اس بات کا احساس ہوا کہ نہیں؟
آپ کا کیا خیال ہے کہ کیا علی نے عبداللہ کیساتھ جان بوجھ کر وعدہ خلافی کی ؟ کیا عبداللہ کو علی کا وعدہ یاد دلانا چاہیے تھا یا نہیں؟
یہ بات یاد رہے کہ سو سال پہلے دس روپے کی اتنی ہی اہمیت تھی جتنی آج کروڑ روپے کی ہے۔
1 user commented in " کیسے کیسے لوگ – یارانے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackbaaz auqat aik waqaey ko dekh ker hum faisle ki hikmat ko samajh nahi sakte. yeh bhi ho sakta hai ali ka koi aisa ahsaan ho jis ki waja se Abdullah ne khamoshi ikhtiyar ki ho.
doosri baat yeh hai k agar abdullah ko ali ka amal bura nahi laga to theek hai magar jub bura laga to kehna bhi chahiye. warna yehi choti choti baatein dil mein reh jati hain.
aur phir yeh k jub apne ghalatiyon ki nishan dehi nahi kerte to ghalatiyan aadat ban jati hain. ubb jo shks apne dost ko dhoka de sakta hai woh kisi ko bhi de sakta hai aur phir dhoke se kamaye hua rizq halal hone mein bhi shak paida hota hai.
Leave A Reply