کامیابی کے گنے چنے اصول ہیں یعنی محنت، لگن اور جہدِ مسلسل لیکن ان پر عمل اتنا ہی مشکل ہے جتنا کے ٹو کی چوٹی سر کرنا۔ اگر ہم اپنے ارد گرد نظر دوڑائیں تو ہمیں لوگ محنت سے جی چراتے، فضول وقت ضائع کرتے اور ایک کام ادھورا چھوڑ کر دوسرا کام کرتے نظر آئیں گے۔ اس کے بعد اگر کوئی ان کی ناکامی کی وجہ پوچھے تو خدا پر سارا الزام دھر دیں گے یعنی کہیں گے کہ یہی خدا کی مرضی تھی۔
آئیں آج جہدِ مسلسل کی خوبیوں کیساتھ ساتھ اس پر عمل کتنا دشوار ہوتا ہے کے متعلق غوروفکر کریں اور سوچیں کیا واقعی جہدِ مسلسل پر عمل نہ کرنا ہماری ناکامی کی سب سے بڑي وجہ ہے۔
سادہ سی مثال امتحان کی تیاری کی لے لیجیے۔ ہم میں سے بہت کم لوگ ایسے ہوں گے یا تھے جنہوں نے روزانہ باقاعدگی سے مطالعہ جاری رکھا اور ناکامی کو شکست دی۔ اکثریت نے آج کا کام کل پر ٹالنے کی عادت اپنائی اور امتحان کی تیاری صرف امتحان سے ایک دن پہلے کرنے کی کوشش کی جو وقت کی کمی کی وجہ سے ادھوری رہی اور فیل ہوگئے لیکن سب سے یہی کہتے رہے کہ محنت تو بہت کی مگر پرچہ بہت مشکل تھا۔ خدا کے بندے پورے سال کی پڑھائی ایک دن میں کرنے کے بعد پرچہ مشکل نہیں لگے گا تو کیا لگے گا۔
اسی طرح آپ کرکٹ کھیل رہے ہیں اور وقت گزرتا جارہا ہے۔ آپ ہر اوور کے بعد کہتے ہیں کہ بس آخری اوور اور اس کے بعد نماز پڑھنے مسجد جائیں گے۔ آپ کا آخری اوور ختم نہیں ہوتا اور ظہر، عصر اور مغرب کا وقت ختم ہوجاتا ہے۔ پھر آپ ارادہ کرتے ہیں کہ کل ایسا نہیں کریں گے مگر یہ سلسلہ تب تک جاری رہتا ہے جب تک آپ روزگار میں مصروف ہوکر کرکٹ کھیلنا چھوڑ نہیں دیتے۔
بادشاہ تیمور کی کہانی تو ہم سب نے سن رکھی ہے کہ کس طرح اس نے ایک چیونٹی کو کنویں سے باہر نکلنے کی بار بار ناکام کوشش کرتے دیکھا اور آخرکار کامیاب ہو ہی گئی اور اس کے بعد تیمور بھی جنگ جیت گیا۔ اسی طرح کی زندہ مثالیں ہمارے آگے پیچھے اب بھی موجود ہیں۔ آپ کے محلے میں ایسے لوگ ہوں گے جنہوں نے مسلسل محنت سے کامیابی حاصل کی ہوگی۔ کوئی وقت کی قدر کرکے ڈاکٹر بن گیا ہوگا اور کوئی ایک کام یکسوئی سے کرتے کرتے اتنا ماہر ہوگیا کہ لوگ اس کے ہنر کو دیکھ کر عش عش کر اٹھتے ہوں گے۔
ہم نے جب انجینئرنگ کی ڈگری حاصل کی تو ایک صاحب اپنے بیٹے کے ساتھ ہمیں مبارک دینے آئے۔ لڑکا جو اس وقت دسویں جماعت میں پڑھتا تھا ہم سے مخاطب ہوا اور بولا “جس نسخے پر عمل کرکے آپ نے کامیابی حاصل کی وہ نسخہ مجھے بھی بتایے”۔ ہم نے اسے کہا کہ بھائی تم سجھو کہ اگلے تین سال تمہیں قید ہوگئی ہے اور جیل میں پڑھائی کے علاوہ کوئی اور کام نہیں کرسکتے۔ اس قید سے رہائی کا صرف اور صرف ایک ہی طریقہ ہے کہ تم اعلٰی نمبروں سے ایف ایس سی کرو تاکہ میڈیکل کالج میں داخلے کیلیے کوالیفائی کر سکو۔ اس کے بعد ہم نوکری کے چکر میں اپنا شہر چھوڑ گئے اور کافی عرصے بعد جب واپس آئے تو وہی لڑکا ہمیں ملا اور کہنے لگا کہ اس نے ہمارے مشورے کو پلے باندھ لیا اور آج وہ ڈاکٹر بن کر اپنے پاؤں پر کھڑا ہے۔
ہم لوگ چونکہ چھوٹے دل کے لوگ ہیں جو بات بات پر جذباتی ہوجاتے ہیں مگر تھوڑی دیر بعد سب کچھ بھول کر پھر خرافات میں پڑ جاتے ہیں۔ جمعہ کی نماز کے خطبہ میں خطیب آپ کے جذبات کیساتھ کھیلتا ہے اور آپ کی آنکھوں میں آنسو لے آتا ہے۔ اس وقت آپ عہد کرتے ہیں کہ گناہوں سے توبہ کرکےآج سے ہی پانچ وقت کی نماز پڑھنا شروع کردیں گے مگر ابھی ایک ہفتہ بھی نہیں گزرتا اور آپ پانچ نمازوں کو کم کرتے کرتے پہلے ایک نماز پر آتے ہیں اور بعد میں وہ بھی چھوڑ دیتے ہیں۔ آپ دوبارہ نمازی بننے کی تب کوشش کرتے ہیں جب خطیب آپ کے جذبات سے پھر چھیڑچھاڑ کرتا ہے۔
آپ نے دیکھا ہوگا آپ کا جاننے والا ایک شخص ایک کے بعد دوسرا کام شروع کرتا رہا اور جہاں سے شروع ہوا تھا وہیں رہا۔ اس کے مقابلے میں دوسرا آدمی ایک ہی کام میں مگن رہا اور اسی میں مہارت حاصل کرکے کامیابی حاصل کرلی۔ یونہی تو نہیں کہتے کہ پانی کا قطرہ اگر ایک جگہ پر مسلسل گرتا رہے تو وہ بھی پتھر میں سوراخ کردیتا ہے۔
کامیابی حاصل کرنے کا تیربہدف مگر مشکل نسخہ جہدِ مسلسل ہے۔ کوئی بھی کام شروع کرنے سے پہلے اس کی پلاننگ ضروری ہے مگر جب آپ وہ کام شروع کرلیں تو پھر اسی کے ہوجائیں۔ دیکھیے گا ایک دن آپ کے فن کو دنیا مانے گی۔ بس جلدبازی سے پرہیز کیجئے گا وگرنہ کسی ڈبل شاہ کے ہتھے چڑھ جائیں گے جو آپ کو کنگال کردے گا۔
4 users commented in " جہدِ مسلسل "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاایسا لگا که یه ساری باتیں مجھے سمجھانے کے لیے لکھی گئیں هیں ـ
اب جا که میںنے فیصله کیا ہے که جاپان ميں هی کوئی کاروبار كرنا ہے ـ
ورنه ساری جوانی یه كرتے اور وه كي پلان بناتے گزر گئی ـ
میرےساتھ چلے هوئے میرےهی جیسے اج اپنے ناموں كے ساتھ سابقے اور لاحقے لگا رہے هیں
جاپان كی مہربانی سے
یا اپنی مستقل مزاجی كو بركت سے
افضل صاحب !
آپ نے تو جیسے دل کے تار چھیڑ دیئے ہیں ۔ تحریر پڑھتے ہوئے مجھے بھی خاور کی طرح محسوس ہوا کہ کوئی بزرگ مجھے سرزنش کررہا ہے ۔ لیکن میری کیا پوچھیئے میری تو ساخت ہی عجیب ہے ۔ چاہوں تو کوئی بھی کام کرلوں لیکن ہروقت یہ کھٹکا لگا رہتا ہے کہ کیا میں یہ کام کرسکوں گا یا کرسکتا ہوں اور اسی سوچ کی وجہ سے اب تک کنفیوژڈ ہوں ۔ اس میں کچھ خاندانی مسائل کا بھی ہاتھ ہے لیکن بہرحال مسئلہ وقت پر فیصلہ کرنے اور مشکلات کے سامنے ڈٹ جانے کا ہے تاہم مشکلات کے سامنے ڈٹ جانے کے لئے بھی ویژن چاہیئے ورنہ بندہ ایک دن بھی کھڑے نہیں رہ پائے گا ۔ اگر آپ کو یاد ہو تو میں نے پہلے بھی آپ سے کچھ مشورے لئے تھے اور میں آج دبئی میں ہوتے ہوئے بھی اسی مقام پر کھڑا ہوں ؛ کچھ سمجھ ہی نہیں آتا ۔ دراصل میں چاہتا ہوں کہ کوئی مجھے انلائز کرکے مجھے بتا دے کہ آپ فلاں کام کرو ! کیا میں حق بجانب ہوں ؟
روغانی بھائی،
اپنے بلاگ پر لکھئے اپنے بارے میں۔ ہو سکتا ہے ہم سب مل کر آپکو کوئی مشورہ دے سکیں۔
Leave A Reply