کچھ عرصہ قبل ایک سردار ہمارے ایک دوست سے ملے اور انکم ٹیکس بھرنے کیلیے مدد مانگی۔ اس نے ایک اچھے کاروباری انداز میں ان کی مدد کی اور انہوں نے اس کی مانگ سے بڑھ کر فیس ادا کی۔ اس کے بعد ایک دن انہوں بتایا کہ وہ اپنا مکان جو تین سو میل دور دوسرے شہر میں ہے اپنے کرائے دار کو فروخت کر رہے ہیں۔ وہ کرائے دار ایک پاکستانی ہے اور اس نے اپنے اکاؤنٹنگ کا کاروبار اس مکان میں شروع کیا ہوا ہے۔
پاکستانی نے ان سے گزارش کی کہ وہ مکان کی قیمت کاغذات میں زیادہ دکھائیں تاکہ وہ مورٹگیج اتنی لے سکے کہ اسے ڈاؤن پےمنٹ پلے سے نہ دینی پڑے۔ اس طرح سردار صاحب کو بھی فائدہ ہوجائے گا کہ انہیں پراپرٹی کے منافع پر ٹیکس نہیں دینا پڑے گا۔ جب انہوں نے دوست کی رائے مانگی تو دوست نے انہیں کہا کہ اگر وہ ان کی جگہ پر ہو تو کبھی یہ ڈيل نہ کرے کیونکہ اس میں ان کا فائدہ کم اور کوفت زیادہ ہے۔ دوسرے اس نے ان سے یہ بھی پوچھا کہ وہ لوگ کیسے ہیں۔ سردار صاحب کہنے لگے کہ لوگ اچھے ہیں، اپنے دیسی بھائی ہیں اور اسی لیے انہیں فائدہ پہنچانے کا سوچا ہے۔ دوست نے انہیں دوتین بار یہی دہرایا کہ اس طرح کی ڈیل کرنے سے پہلے تسلی کرلیجئے گا کہ پاکستانی بھائی اچھے ہیں اور وہ دھوکہ نہیں کریں گے۔
دوست کا خیال تھا کہ پاکستانی بھائی ان کا مکان لازمی مارکیٹ ریٹ سے کم پر خرید رہے تھے۔ جب انہوں نے سردار سے پوچھا تو انہوں بتایا کہ وہ واقعی مکان کچھ سستا بیچ رہے ہیں کیونکہ وہ چاہتے ہیں کہ یہاں بیٹھے بٹھائے ہی ڈیل ہوجائے اور انہیں وہاں کے چکر نہ لگانے پڑیں۔
بات آئی گئ ہوگئی اور اس ہفتے سردار صاحب نے پھر دوست کو فون کیا اورعجیب کہانی سنانی شروع کردی۔ کہنے لگے ابھی ڈیل فائنل بھی نہیں ہوئی تھی کہ ان کے کرائے دار نے بیسمنٹ کرائے پر دے دی اور انہیںبتایا تک نہیں۔ جب ان کی درخواست پر ان کا دوست گھر دیکھنے گیا تو اس نے بیسمنٹ میں لائٹ جلتی دیکھی۔ معلوم کرنے پر پتہ چلا کہ بیسمنٹ میں کوئی رہتا ہے۔
سردار نے جب اپنے کرائے دار سے شکایت کی تو وہ غصے میں آگیا اور اس نے پہلے تو انہیں کرایہ دینے سے انکار کردیا اور بعد میں دھمکیاں دینی شروع کردیں کہ وہ ان کیخلاف گورنمنٹ کے مختلف محکموں میں شکایات درج کردے گا۔
مکان کا سودا درمیان میں ہی رہ گیا اور سردار صاحب نے پہلے کرائے دار کے گورے پارٹنر سے بات کرکے کرایہ نکلوایا۔ اس کے بعد جب کرائے دار نے ایک اور دھمکی بھرا خط لکھا تو سردار نے وکیل کے ذریعے اسے مکان خالی کرنے کا نوٹس دے دیا۔ اب کیس کورٹ میں ہے اور بقول سردار کے کیس اس کے حق میں ہوجائے گا کیونکہ بیسمنٹ کے کرائے دار جو گوری لڑکی ہے کو جب پتہ چلا کہ مکان مالک سردار ہے تو اس نے سردار کے حق میں گواہی دے دی۔
بعد میں سردار کو پتہ چلا کہ پاکستانی کرائے دار ان کا مکان چالیس ہزار ڈالر سستا خرید رہا تھا جب کہ بیسمنٹ کے کرائے سے اس نے زیادہ سے زیادہ چار ہزار ڈالر بچانے کی کوشش کی ہوگی جو وہ بھی اس بعد میں واپس کرنے پڑے۔ دوست اور ہم تب سے اپنے پاکستانی بھائی کی ہوشياری یعنی بیسمنٹ کرائے پر دینے یا بیوقوفی یعنی چالیس ہزار ڈالر فائدے والی ڈیل گنوانے پر حیران ہورہے ہیں۔
سردار صاحب نے بتایا کہ دیکھو ایک ہمارا دوست بھی پاکستانی ہے جس نے انہیں نیک مشورہ دیا اورایک وہ بھی پاکستانی ہے جس نے انہیں دھوکہ دینے کی کوشش کی۔ سردار صاحب نے دوست کے مخلص مشورے کا شکریہ ادا کیا جس کی وجہ سے انہیں چالیس ہزار ڈالر کا مفافع ہوا۔ سردار نے اعتراف کیا کہ ہمارے دوست کے مشورے کی وجہ سے ڈیل لیٹ ہوئی اور وہ نقصان سے بچ گیا۔
اب آپ سوچیں رہے ہوں گے کہ ہمارا دوست بھی کوئی دوست ہے جس نے ایک پاکستانی کے مفافعے پر لات مار دی اور اس کے مقابلے میں ایک سکھ کی طرفداری کی اور اسے فائدہ پہنچایا، لیکن یہ سوچ غلط ہے۔ ویسے ہم نے دیارغیر میں اپنے پاکستانیوں سے زیادہ سرداروں کو وفادار اور مخلص پایا ہے۔ پتہ نہیں کیوں؟
1 user commented in " کیسے کیسے لوگ – ہوشیاری یا بیوقوفی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ نے بھی پاکستانی دانش کا بھانڈا پھوڑ ہی دیا!
اب سرداروں کے لطائف بند ہی ہوجانے چاہیئیں اور سیدھے سبھاؤ پاکی جوکس کا چلن عام کرنا چاہیے تاکہ ہماری خوش فہمی رفع ہوسکے۔
Leave A Reply