راشد کامران صاحب نے عورت کو گھورنے کا موضوع ایسا چھیڑا جو پھیلتا ہی جارہا ہے مگر ابھی تک ہم یہ طے نہیں کرپائے کہ مرد کو کیسے اس بدنام زمانہ عمل سے روکا جائے۔ ابھی تک فرحت صاحبہ ، بدتمیز[نام کے] صاحب اور قدیر صاحب اس موضوع پر اپنی رائے کا اظہار کرچکے ہیں۔
کیوں ناں اس مسئلے کیلیے سب کو ٹیگ لگا دیا جائے تاکہ ہربلاگر کم از کم ایک دفعہ اس دکھتے مسئلے کا حل اپنی پوسٹ میں بیان کرے۔ چلیں ابتدا ہم کرتے ہیں۔ اس موضوع کو ہم دوحصوں یعنی دو قسطوں میں تقسیم کرتے ہیں۔ پہلی قسط میں وجہ بیان کی جائے گی اور دوسری قسط میں اس کا حل۔
عورتوں کو گھورنے کی وجہ
چرند پرند انسان حیوان سبھی جنسی تسکین چاہتے ہیں اوران میں سے انسان ایک واحد حیوان ہے جو اسے حاصل کرنے کیلیے ایک سے زیادہ طریقے اپناتا ہے۔ اگر آج انسان اس تسکین سے محروم ہوجائے تو عورت اور مرد برابر ہوجائیں گے اور کوئی کسی کو نہ تو چھیڑے گا او نہ ہی گھورے گا۔ مغرب میں آپ دیکھیں عورت کو اسی لیے سرعام نہیں گھورا جاتا کہ وہاں پر انسان کو جنسی تسکین حاصل کرنے کی آزادی ہے۔ لڑکے لڑکیاں مڈل سکول سے ہی جنسی تعلقات استوار کرلیتےہیں۔ اس کا سب سے بڑا فائدہ معاشرے کو یہ ہوتا ہے کہ جنس مخالف کی کشش کم ہوجاتی ہے اور اس طرح مرد عورت دونوں اپنے اصل مقصد یعنی اپنی کامیاب زندگی کیلیے تگ و دو جاری رکھتے ہیں۔ جب کہ پاکستان میں لڑکے لڑکیوں کا ذہن جنسی خواہشات کی تکمیل کیلیے سرگرداں رہتا ہے اور وہ اچھی طرح اپنے کیریئر پر توجہ بھی نہیں دے پاتے۔
انسان نے ہمیشہ خوب تر کی تلاش جاری رکھی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک عام سا لڑکا جب ایک فیشن ایبل اور ماڈرن لڑکی کو دیکھتا ہے تو پھر دیکھتا ہی جاتا ہے۔ جب پکی عمر کا آدمی اپنی سیدھی سی بوڑھی بیوی کے مقابلے میں ایک جوان اور حسین عورت کو میک اپ میں دیکھتا ہے تو پھر اس کی آنکھیں جھپکنا بند کردیتی ہیں۔ اسی قسم کے بھوکے شکاری اگر عورت کو پردے میں دیکھیں گے تو اس کی ننگی آنکھوں اور ہاتھوں پر نظریں جما دیں گے۔ اگر کسی وجہ سے یہ بھی نظر نہ آئیں تو بھی ان کی آنکھیں باپردہ عورت کا اس آس میں پیچھا کرتی رہیں گی کہ شاید اس کے جسم کا کچھ حصہ نظر آجائے۔ مغرب میں جب پاکستانی نیا نیا آتا ہے تو وہ گوری میموں کی نیم عریاں چھاتیوں اور ٹانگوں کو دیکھتا ہی جاتا ہے۔ مگر جب وہ چند سال یہاں رہنے کے بعد اس ماحول کا عادی ہوجاتا ہے توپھر اسکیلیے ان چیزوں میں کشش باقی نہیں رہتی۔ ہوسکتا ہے اس دوران وہ جنسی تسکین کا ذریعہ بھی ڈھونڈ لیتا ہو مگر وہ گوریوں کو گھورنا بند کردیتا ہے۔ ہاں شروع میں اگر گھورنے والی چوری کوئی گوری میم پکڑ لے تو وہ آگے سے مسکرا دیتی ہے۔ اس کا مسکرا کر یہ تنبیہ کرنا ہوتا ہے کہ اس نے آپ کو گھورتے ہوئے دیکھ لیا ہے جو اسے اچھا نہیں لگا۔
ہماری ایلیٹ کلاس کا بھی اگر جائزہ لیا جائے تو ان میں بھی گھورنے کا رواج نہیں ہے ۔ اس کی سب سے بڑی وجہ یہی ہے کہ وہ مادر پدر آزاد ہوتے ہیں اور ان کی جنسی تسکین کی راہ میں ان کے والدین رکاوٹ نہیں بنتے۔ آپ کو اگر لاہور، کراچی یا اسلام آباد کے پوش علاقوں میں جانے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے نوٹ کیا ہوگا کہ وہاں کوئی کسی کو گھورنے کی کوشش نہیں کررہا ہوگا۔ ہاں وہاں پر بھی مزدور طبقہ آتی جاتی امیرزادیوں کو گھور رہا ہوگا اور اس کی یہی خواہش ہوگی کہ کاش اس کی شادی ایسی عورت کیساتھ ہوجائے۔
انسان جنسی تسکین کیلیے فحش گفتگو کا سہارا بھی لیتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے معاشرے میں لغوزبان استعمال کرنے والے فنکار سٹیج ڈراموں کے ذریعے فلموں اور ٹي وی سے زیادہ پیسہ کما رہے ہیں۔
ہمارا معاشرہ مردوں کا معاشرہ ہے اور اس وجہ سے زیادہ تر عورتوں کی گواہی معتبر نہیں مانی جاتی۔ اگر عورت کسی مرد کی غلط نظروں کی شکایت کربھی دے تو بھی اس کی فیملی اسی کو ہی موردالزام ٹھراتی ہے اور اسے ہی احتیاط کا درس دیتی ہے۔ مغرب میں چونکہ عورت آزاد ہے اسلیے وہ بلا جھجک مرد کیخلاف شکایت کرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ مغربی معاشرے میں لوگ ایک دوسرے کی مرضی کے بغیر چھوتے تک نہیں۔ یہاں تک کہ شادی شدہ مرد کا اپنی بیوي کیساتھ زبردستی ہمبستری کرنا بھی جرم شمار ہوتا ہے۔ اگر میاں بیوی راضی تو کیا کرے گا قاضی کا اطلاق مغربی معاشرے پر پورا پورا ہوتا ہے۔ لڑکی لڑکا اپنی مرضی سے جوچاہیں کریں سب جائز ہے مگر مرضی کے بغیر لڑکی کو چھونا لڑکے کیلیے جیل جانے کا سبب بن سکتا ہے۔
ہمارے معاشرے میں مرد عورت گھورنے کے عمل کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھراتے ہیں۔ مرد کی دلیل یہ ہوتی ہے کہ
وہ عورت ہی کیا جس پہ نظر پڑے تو اٹک جائے
عورت تو وہ ہے جس پہ نظر پڑے تو جھک جائے
اور عورت کا جواب یہ ہوتا ہے کہ
وہ مرد ہی کیا جو عورت کو ذلت دے
مرد تو وہ ہے جو عورت کو عزت دے
ایک بات طے ہے کہ ہم جتنا چاہے زور لگا لیں جنسی تسکین کو روک نہیں سکیں گے۔ یہی وجہ ہے کہ ہرمعاشرے میں رنڈی خانوں کا وجود رہا ہے اور آنٹي شمیم جسی عورتوں کا کاروبار لال مسجد والے بھی بند نہیں کرا سکے۔ یہ الگ بات ہے کہ غیرمہذب معاشروں میں رنڈی خانوں میں غیرقانونیت کا دور دورہ ہوتا ہے اور مہذب معاشروں میں قانون کی عملداری۔ ضیاالحق کے دور میں جب ہیرامنڈی بند کی گئی تو ان لوگوں نے محلوں کی کوٹھیوں میں کاروبار شروع کردیا جو اب اسلام آباد کو بھی اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔
معاشرے کو آپ جتنا چاہے مہذب بنالیں، جب تک انسان کی جنسی تسکین کا بندوبست نہیں ہوگا مردعورتوں کو گھورنا بند نہیں کریں گے۔ یہ سلسہ ازل سے چلتا آرہا ہے اور چلتا رہے گا۔ مہذب سے مہذب لڑکا بھی جنسی تسکین کی راہ ڈھونڈ لیتا ہے۔ اگر اس کی لڑکی تک رسائی نہیں ہے تو وہ لڑکوں کے پیچھے پڑ جائے گا اور اگر وہ بہت ہی زیادہ شرمیلا اور ڈرپوک ہے تو پھر مشت زنی سے کام چلا لے گا۔ یہاں تک کہ اکا دکا واقعات امام مسجد اور مؤذن کی جنسی بے راہ روی کے بھی منظرعام پر آتے رہے ہیں۔ مغربی معاشرے میں پادری تک اس جرم میں ملوث پائے گئے ہیں۔ لڑکے لڑکیوں نے شروع میں تو زبان بند رکھی لیکن بڑے ہونے پر انہوں نے سارے راز فاش کردیے۔
ہمارے معاشرے میں جنسی گھٹن ہی لڑکوں کو ہمجنسوں کیساتھ بدفعلی پر مجبور کرتی ہے جسے اب “گے” کا نام دے دیا گیا ہے۔ یہ مرض ہمارے معاشرے میں شروع سے عام رہا ہے اور شاید ہی کوئی لڑکا اس سے بچا ہوگا۔ اور کچھ نہیں تو بہانوں بہانوں سے ایک دوسرے کو مس کرکے جنسی تسکین حاصل کرلی گئ ہوگی۔
جنسی تسکین کیلیے پہلے پہل سینماؤں میں ٹوٹے چلا کرتے تھے۔ بعد میں وی سی آر نے یہ گناہ گھروں تک پہنچا دیا۔ اب لڑکے لڑکیاں انٹرنیٹ کا سہارا لے رہے ہیں اور نیٹ کیفے بلیو فلموں کو دیکھنے کے اڈے بن چکے ہیں۔ کئی نیٹ کیفے والے تو ڈیٹنگ کا بزنس بھی کررہے ہیں۔
ایک وقت تھا جب لڑکے لڑکیاں ایکد دوسرے کو راستے میں یا پھر گھریلو میل جول میں پھنسایا کرتے تھے۔ اب ٹیلی کمیونیکیشن کے انقلاب نے یہ کام بھی آسان کردیا ہے۔ لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو ایس ایم ایس اور چیٹنگ کے ذریعے پٹا رہے ہیں۔ نیٹ کے ذریعے متعارف ہو کر شادی کے بندھن میں بندھنے کے واقعات اب سننے کو مل رہے ہیں۔
جنسی بے راہ روی جس کا آغاز گھورنے کے عمل سے بھی شروع ہوتا ہے کی وجہ وہ لوگ بھی ہیں جو اپنی جوان بیویوں کو چھوڑ کر روزی کمانے کیلیے باہر چلے جاتے ہیں۔ بعد میں وہ عورتیں محلے کے لڑکوں یا اپنے رشتہ داروں کیساتھ ناجائز تعلقات استوار کرلیتی ہیں۔ ان عورتوں کی بے راہ روی ان کی اولاد پر بھی اثرانداز ہوتی ہے اور وہی اولاد آگے چل کر گھورنے کے عمل میں شریک ہوجاتی ہے۔
آپ بھی کہیں گے کہ آجا کے تان ہم نے جنسی تسکین پر کیوں توڑی۔ لیکن آپ اس بات سے انکار نہیں کرسکتے کہ مردوں کے عورتوں کو گھورنے کی جنسی تسکین کے علاوہ کوئی وجہ ہو ہی نہیں سکتی۔ بدقماش اسلیے گھورتا ہے کہ وہ جنسی تسکین کے پیشے سے تعلق رکھتا ہے۔ شریف اسلیے گھورتا ہے کہ اس کے علاوہ اس کے پاس جنسی تسکین کا آسان طریقہ اور کوئی نہیں ہوتا۔
اگلی قسط میں ہم اس مسئلے کا حل پیش کریں گے۔
9 users commented in " عورتوں کو گھورنا – پہلا حصہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیں نے بڑوں کے ڈر سے اس موضوع پر زیادہ نہیں لکھا تھا ۔ اچھی بات ہے کہ آپ نے تفصیلی انداز میں ان عوامل پر روشنی ڈالی ہے اور دوسرے بڑوں کی طرح ٹالنے والے انداز سے کام نہیں لیا۔
حضرت آپ نے تو موضوع کا حق ادا کردیا۔۔ “میں اس مضمون پر اپنا کی بورڈ توڑتا ہوں“ کئی سوالات اور مسائل ذہن میں بری طرح ہلچل مچا رہے ہیں ۔۔ لیکن اس سلسلے کی دوسری پوسٹ تک انکا اظہار ملتوی کرتا ہوں کیونکہ ہوسکتا ہے آپ ان کے جوابات اس میں دے دیں۔
mera zaati khayal bahesiyat aik aurat k yeh hai k auraton ko ghoorne ya tang krne k masle ko aap isolate ker ke nahi dekh sakte. agar sirf sexual insatisfaction ka masla ho to married hazrat yeh kaam na karein. ya phir kum az kum khooobsurat biwion k shohar in harkaat se baaz rahein. maamla zara ziada ghambeer hai. iss ka taaluq tarbiyat se ziada jora ja sakta hai. hamare haan achayee burai k liye murawija miyar ”log kia kahin ge” hain. lehaza her woh kaam jo logon ki nazron mein bura bane baghair kiya ja sake woh theek hai ya phir kum az kum acceptable hai. ubb auraton ko ghoorte waqt hazraat apne hi jaise hazraat k darmiyaan hote hein aur sub aik hi jaisi harkaat mein mulawis hote hein lehaza sub durust hai.
doosri cheez yeh k shuroo se hi hamare haan bachon ko amooman aurat ki hisiyat mard se kum hi batayee jati hai. aurat aik aisa fard hai jis ki kuch khas izzat o wuqat na ki jaey to bhi chalta hai lehaza inherently na sirf mard balke auratein khud bhi consiously or unconsiously aurat ko aik fard ki hasiyat se poori izzar nhi dete
yehn maghrib mein agar koi naya naya Asian ayan aur asay kise gori ‘ kali ko goray to wo bura man jatien hain kiyee baar to police bulla li jati hai , aur kiyee baar ghorany waly ko galiien sunni partien hain ., magr phir bhi humary haan k bechray baz naih atay khas tour pr jo nay nay aya hon , LOL ,
میں اپنے علم اور مشاہدہ کی بنا پر “مذکر دنیا میں خاتون” سے اتفاق کروں گا ۔ جنسی حس ہونا اور جنسی حوس دو مختلف عمل ہیں ۔ بنادی چیز تربیت ہے جس کا ہمارے ملک میں فقدان ہے ۔ قرآن و سنّت اور نفسیات کے ماہرین کے مطابق پچے کی تربیت کا آغاز ماں کے پیٹ میں ہی شروع ہو جاتا ہے ۔ مغربی دنیا نے بے راہ روی کا جو طریقہ اختیار کیا ہے ہماری قوم کی منزل بھی یہی ہو گی اگر اللہ نے بہتری کی کو صورت پیدا نہ کی ۔ میں آپ سے متفق نہیں ہوں کہ جنسی تسکین کی آسانی نے مغربی دنیا میں لڑکیوں یا عورتوں کے ساتھ ان کی مرضی کے خلاف کسی جنسی فعل کا سدِباب کر دیا ہے ۔ امریکہ اور یورپ میں اب بھی وہ سب کچھ ہوتا ہے جس کا آپ نے اپنے ملک کے متعلق ذکر کیا ہے ۔ اسے دیکھنے کیلئے آپ کو وقت اور پیسہ چاہیئے اور جس جگہ آپ ہوں وہاں کے معاشرہ کو سمجھنے کی جستجو ۔ اگر کوئی ہمخیال مقامی دوست بن جائے تو بہت آسانی ہو جاتی ہے ۔ آپ لوگ مجھے اس ناپسندید موضوع پر لکھنے پر مجبور کر رہے ہی ۔ وقت مال اور اللہ کو منظور ہوا تو آپ سب کے بعد میں لکھوں گا اپنے تجربات پاکستان میں اور دوسرے ملکوں میں ۔
bhai aurtain bhe ghoorti hain balka JAM k ghoorti hain. aj kal tu 15/16 k larki bhe ghoorne me koi jhijak mehsoos nai karti, khali mard he badnaam hotay hain.
salam, to all,.
i JUST WANT TO SAY THAT WOMENS HAS BAD HABBIT TO SHOW THEMSELVES , THATS WHY GENTS
Leave A Reply