جس شاہراہ سے بھی آپ گزریں، آپ کو دونوں اطراف پلاسٹک کے بیگوں کی بھرمار نظر آئے گی۔ یہاں تک کہ درختوں پر بھی پلاسٹک بیگ لٹکے نظر آئیں گے۔ ہر چھوٹے شہر یا قصبے کے محلوں کی نالیوں میں پلاسٹک کے تھیلے اور چپس کے خالی پیکٹ پڑے نظر آئیں گے۔ حال ہی میں ہم نے اپنی آنکھوں سے یہ مناظر دیکھے۔ ان کی وجہ سے جگہ جگہ نالیاں بند پڑی تھیں اور نالیوں کا گندہ پانی گلیوں میں بھرا ہوا تھا۔ اگر نالیاں بند نہیں تھیں تو اس پلاسٹک کے سوریج سسٹم میں داخل ہونے کے قوی امکانات تھے۔ ہماری حکومت اور لوکل انتظامیہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہے کہ پلاسٹک کے شاپنگ بیگ ہی ہمارے سوریج سسٹم کی ناکامی کے ذمہ دار ہیں۔ لیکن علم ہونے کے باوجود کوئی ایسا قدم نہیں اٹھایا گیا جس کی وجہ سے پلاسٹک کے بیگ سوریج سسٹم میں داخل نہ ہوسکیں۔
کئی غیر ممالک میں تو پلاسٹک کے تھیلوں کے استعمال پر پابندی لگائی جاچکی ہے اور کئی پابندی لگانے پر غور کررہےہیں۔ تہذیب یافتہ اور پڑھے لکھے معاشروں میں تو لوگ کوڑا کرکٹ ایک منصوبے کے تحت تلف کرتے ہیں یعنی وہ گھر کا کوڑا کرکٹ ایک ڈرم میں ڈالتے ہیں اور وہ ڈرم ہفتہ وار لوکل انتظامیہ اٹھا کر کسی ایک جگہ پر ڈمپ کردیتی ہے۔ دوسرے لوگ گلیوں اور سڑکوں کو صاف رکھتے ہیں اور شاذونادر ہی استعمال شدہ اشیاء یعنی سگریٹ کی خالی ڈبیاں، پلاسٹک کے تھیلے اور چپس کے خالی پیکٹ سرعام پھینکتے ہیں۔ تیسرے تہذیب یافتہ معاشروں میں سوریج زمین سے دس بیس فٹ نیچے ہوتا ہے اور وہاں پر ننگی نالیوں کا رواج تک نہیں ہے۔ ہاں بارش کے پانی کے اخراج کیلیے گٹر بنے ہوئے ہیں لیکن ان پر بھی ڈھکن ہوتے ہیں تاکہ گندگی اندر داخل نہ ہوسکے۔ اتنی پابندی کے باوجود تہذیب یافتہ ممالک ری سائیکلنگ کو بھی اپنائے ہوئے ہیں اور پلاسٹک اور گتے کے ڈبے اور کاغذات کو ری سائیکل کرتے ہیں۔
ادھر ہم ہیں کہ نہ تو خود صفائی کا خیال رکھتے ہیں اور نہ انتظامیہ صفائی کی طرف توجہ دیتی ہے۔ انتظامیہ تو یہ بھی تکلیف نہیں کرتی کہ عام پبلک کو صفائی کی طرف مائل کرے اور پلاسٹک کے تھیلوں کے نقصانات سے آگاہ کرے۔ سب سے پہلے انتظامیہ کو چاہیے کہ وہ عام پبلک کو سوریج کے بلاک ہونے کی وجوہات، پھر ان کے تدارک کے بارے میں آگاہ کرے اور اس کے بعد ان ہدایات پر سختی سے عمل کرائے۔ ہمارے خیال میں تو صفائی پر پورا ایک کورس پرائمری سے لیکر ہائی سکول کے نصاب میں شامل ہونا چاہئے۔ اس کورس میں پریکٹیکل بھی شامل ہوں یعنی طلبا کو شہر میں لے جاکر انہیں گندگی دکھائی جائے اور اگر ممکن ہوسکے تو ان سے صفائی بھی کرائی جائے۔ اس کے علاوہ کونسلرز کو گلی گلی گھوم کر لوگوں کو پلاسٹک کے تھیلوں کے نقصانات سے آگاہ کرنا چاہیے۔
اس کے ساتھ ساتھ قانون بھی بنانا چاہیے جس کی رو سے ان گھر والوں کو جرمانہ کیا جاسکے جن کے گھروں کے آگے پلاسٹک کے تھیلے نالی میں گرے ہوئے ملیں۔ ہمارے لاقانونیت کے شکار معاشرے کو قانون پر عمل کرانا ناممکن ہے کیونکہ جب تک لوگوں میں شعور نہیں جاگے گا اور قانون کی اہمیت سے واقفیت نہیں ہوگی قانون سازی وقت کا ضیاع ہی تصور ہوگی۔
موجودہ غیرتہذیت یافتہ پاکستانی معاشرے کو راہ راست پر لانے کیلیے سکولوں کا سہارا لینا پڑے گا۔ حکومت کو چاہیے کہ وہ سکولوں میں ٹیکنیکل تعلیم کیساتھ ساتھ معاشرے کے سدھار کیلیے ایسے کورسز متعارف کرائے جن کو پڑھ کر لوگ ایک باعمل شہری بن سکیں۔ انہیں صفائی کی قدر ہو اور وہ قانون پر نہ صرف عمل کریں بلکہ لاقانونیت کو بھی ختم کرنے کیلیے حکومت کا ساتھ دیں۔ یہی ایک طریقہ ہے ملک میں صفائی کا نظام درست کرنے کا اور سوریج کی بلاکیج روکنے کا۔
2 users commented in " پلاسٹک کے تھیلے اور سوریج سسٹم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہر خریدار پلاسٹک کے ٹھیلوں کے بجائے اپنی ٹوکری یا کپڑے کا تھیلا استمعال کرے تو یہ مسلہ حل ہوسکتا ہے۔
Leave A Reply