امریکہ کی غلط پالیسیوں کی وجہ سے اسے مسلمان ملکوں میں پزیرائی نہیں مل رہی۔ خاص طور پر اسرائیل کی طرف امریکی جھکاؤ کی وجہ سے مسلمان امریکہ پر ابھی تک مکمل اعتماد نہیں کرتے۔ جس ملک میں آزادنہ انتخابات ہوتے ہیں اس ملک میں امریکہ مخالف سیاسی جماعتیں فتح حاصل کرلیتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں کے اکثر ممالک میں ڈکٹیٹرشپ رائج ہے ۔
امریکی پالیسیوں سے نفرت کی موجودہ مثال پاکستان کے انتخابات میں صدر مشرف کی پارٹی مسلم لیگ ق کی شکست ہے۔ مگر یہ الگ بات ہے جیتنے والی پارٹی دوبارہ امریکی حمایت کیلیے کوششیں شروع کردیتی ہے اور انہیں کرسی پر بٹھانے والے عوام کو وقتی طور پر بھول جاتی ہے۔ یہی روایت آصف زرداری نے امریکی سفارت خانے میں امریکی سفیر اور صدارتی کیمپ کے عہدیداروں سے ملاقات کرکے قائم رکھی ہے۔ دوسری طرف نواز شریف بھی پیچھے نہیں رہے اور انہوں نے بھی لاہور میں متعین امریکی کونسلر برائن ڈی ہنٹ سے ملاقات کرکے زرداری کو باور کرایا ہے کہ وہ بھی امریکہ کی گڈ بک میں ہیں۔
آج آصف زرداری نے برطانوی سفیر سے بھی ملاقات کی ہے۔ پہلے صرف ہم پر امریکی دباؤ ہوا کرتا تھا لیکن نو گیارہ کے بعد جب سے افغانستان پر اتحادیوں نے قبضہ کیا ہے برطانیہ دوبارہ سے متحرک ہوچکا ہے۔ اسی طرح یورپی یونین کے ممالک بھی پاکستانی پالیسیوں پر اثرانداز ہو رہے ہیں۔
ان ملاقاتوں سے ہمارے مستقبل کے حکمران کیا یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ فوج اور اسٹیبلشمنٹ ان کیساتھ پنگا لینے سے پہلے جان لے کہ ان کی پیٹھ پر بھی غیرملکی ہاتھ ہے۔ پاکستانی حکومتوں کے بننے اور ٹوٹنے میں پہلے بھی غیرملکی ہاتھ رہا ہو گا مگر اب تو یہ راز نہیں رہا۔ ہمارے سیاستدان پہلے سفیروں سے خفیہ ملاقاتیں کیا کرتے تھے کیونکہ ان سے ڈکٹیٹشن لینا قومی غیرت کے منافی سمجھا جاتا تھا۔ اب ناں سیاستدان غیرملکی سفیروں سے ملتے ہوئے کتراتے ہیں اور ناں عوام اس بات کا برا مناتے ہیں۔ بلکہ سیاستدان تو اب غیرملکی سفیروں کیساتھ ملاقاتوں کے ڈھٹائی سے فوٹو بنوا کر اخباروں میں چھپواتے ہیں۔
نواز شریف اور آصف زرداری کی امریکی، برطانوی اور دوسرے سفارتکاروں سے ملاقاتوں سے اب یہی نتیجہ نکلتا ہے کہ ہم آئندہ بھی غلام ہی رہیں گے۔ ہماری مستقبل کی حکومتیں غیرملکی پالیسیوں کی حمایت کرتی رہیں گی چاہے اس کے بدلے میں اپنا ملک افغانستان بن جائے۔ ہم لوگ قومی مفادات کو اپنے ذاتی مفادات پر قربان کرتے رہیں گے چاہے ہمارا ملک دیوالیہ ہوجائے۔ ان بنک اکاؤنٹس بھر جائیں، ہمارے قرضے معاف ہو جائیں چاہے اس کے بدلے جتنی مرضی مہنگائی ہوجائے۔ وہ توغیروں کے مفادات کی رکھوالی کرتے رہیں گے۔
مستقبل کے حکمرانو، خدا کیلیے اپنے ملکی مفادات کو اولیت دینا اور مخلوقِ خدا کی بھلائی کیلیے اپنے ذاتی مفادات کو قربان کردینا۔ خدا کا دیا تمہارے پاس سب کچھ ہے، تمہیں مزید دولٹ اکٹھی کرکے کیا مل جائے گا۔ آج بینظیر نہیں رہی تو کل تم بھی نہیں رہو گے۔ تمہاری کرپشن اور لوٹ کھسوٹ تمہارے کسی کام نہیں آئے گی۔
کرو مہربانی تم اہل زمیں پر
خدا مہرباں ہوگا عرشِ بریں پر
No user commented in " کیا ہم غیر ملکی مفادات ہی پالتے رہیں گے؟ "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply