ابھی کل ایک محفل میں ایک صاحب نے صدقہ خیرات دینے کی بات چھیڑ دی۔ سب لوگوں سے رائے پوچھی گئی تو ہر ایک نے خیرات کے مختلف طریقے بتائے۔ کسی نے کہا کہ افریقہ میں لوگوں کی مدد کرو، کسی نے مقامی نو مسلم کی مدد کرنے کی بات کی، کسی نے پاکستان میں غریب طلبا کو مالی امداد دینے کی سفارش کی، کسی نے زلزلہ زدگان کی داد رسی کا کہا اور کسی نے اپنی تنخواہ میں سے ہر ماہ اڑھائی فیصد زکوٰۃ دینے کی تجویز پیش کی۔ بہرحال وہاں موجود تمام لوگ اس بات پر متفق تھے کہ خدا نے ہمیں جن نعمتوں سے نواز رکھا ہے ان کے شکرانے کے طور پر ہمیں غریبوں کی مدد ضرور کرنی چاہیے۔
ہم بھی کہاں چپ رہنے والے تھے۔ ہم نے نبی پاک صلعم کے ایک واقعے سے اپنا نقطہ نظر پیش کرنا شروع کیا۔ نبی پاک صلعم کے پاس جب ایک سائل آیا تو آپ نے اسے کہا کہ وہ اپنی چادر بیچ کر کلہاڑا خریدے اور اس کلہاڑے سے لکڑیاں کاٹ کر اپنا اور اپنے بچوں کا پیٹ پالے۔
ایک انٹرویو کے دوران بنگلہ دیش کے مائکرواکانومی کے بانی نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر یونس نے کچھ اسی طرح کی بات کی۔ انہوں نے کہا کہ وہ حاجت مند کو مچھلی دینے کی بجائے مچھلی پکڑنے والا کانٹا دیں گے تاکہ اگلی دفعہ وہ بھیک مانگنے کی بجائے خود اپنی محنت سے مچھلی پکڑ کر خود بھی کھائے اور اپنے خاندان کو بھی کھلائے۔
اسی طرح ایدھی امین کی بھیک مہم کا ہم نے حوالہ دیا اور کہا کہ ایدھی صاحب اس طرح ملک میں مفت کھانے والوں کی تعداد میں اضافہ کرنے کا موجب بنیں گے۔ اگر عبدالستار ایدھی اس بھیک مہم کی بجائے پاؤں پر کھڑے ہونے کی مہم شروع کرتے اور اس فنڈ سے لوگوں کو کاروبار شروع کرنے میں مدد دیتے تو وہ مفت لنگروں سے زیادہ بہتر ہوتا۔
ہم نے خود ایک فنڈ قائم کیا ہوا ہے جس کی مدد سے ہم غریب طلبا کو تعلیمی وضائف دیتے ہیں اور اس کی وجہ صرف اور صرف یہ ہے کہ ایک خاندان کا ماہانہ خرچہ دینے کی بجائے اس کے کسی بچے کو تعلیم دلوا دو تاکہ وہ اس خاندان کا مستقل سہارا بن جائے۔
ابھی ہمارا بیان جاری تھا کہ اہک صاحب نے لقمہ دیا۔ کہنے لگے چند ماہ قبل وہ اپنے والد کی وفات پر اسلام آباد گئے اور وہاں پر انہوں نے سنا کہ تندوروں پر حاجت پسند لوگ روٹی لینے آتے ہیں۔ وہ تندور پر پہنچے اور تندورچی سے کہا کہ وہ ان لوگوں کو دس دس روٹیاں پکا کر دے دے۔ تندورچی کہنے لگا صاحب جی ان لوگوں کیلیے دو دو روٹیاں ہی کافی ہیں کیونکہ یہ لوگ روٹیاں کھاتے نہیں بلکہ بیچتے ہیں۔ ان صاحب نے واقعی اس دن دیکھا ایک ویگن آئی اور ان لوگوں کی روٹیاں ویگن میں ڈال کر لے گئ۔ پتہ یہ چلا کہ روٹیوں کا ڈھیر گوالوں کو بیچ دیا جاتا ہے جو انہیں بھینسوں کو کھلا دیتے ہیں۔
لب لباب یہی تھا کہ غریبوں کی مدد کریں مگر اس طرح کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہو سکیں ناں کہ وہ مستقل بھکاری بن جائیں۔ دوسرے خیرات چھان بین کرکے دیں تاکہ آپ کا پیسہ ضائع نہ ہو۔ اس بات کو آگے بڑھاتے ہوئے ایک صاحب فرمانے لگے کہ چھان بین کرنا ضروری نہیں اور اس کا فیصلہ اللہ پر چھوڑ دینا چاہیے۔ انہوں نے ایک واقعہ بھی سنایا۔ کہنے لگے کہ ایک نیک آدمی نے ایک عورت کو خیرات دی بعد میں انہیں بتایا گیا کہ وہ تو طوائف ہے۔ وہ کہنے لگے ہو سکتا ہے شاید وہ اس حلال کی رقم سے رنڈی بازی سے توبہ کر لے۔ اسی طرح ایک آدمی کی مدد کی جو بعد میں ڈاکو نکلا۔ ہم نے لقمہ دیا اور کہا اگر اس نیک آدمی کو معلوم ہوتا کہ وہ طوائف اور ڈاکو ہیں تو وہ کبھی ان کی مدد نہ کرتا۔
یعنی خیرات دینے سے پہلے ایک بار تسلی ضرور کرلینی چاہیے کہ آپ کی رقم جائز مقصد کیلے استعمال ہو گی اور اس کے ضائع ہونے کا امکان کم ہو گا۔
6 users commented in " خیرات کا مناسب طریقہ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackسلام،
ایک دفعہ پھر آپ نے دل کی بات چھین لی۔
افضل بھائی، باتیں تو ہو گئیں اب کام کریں۔ اچھا ہے کچھ لوگوں کو مچھلی پکرنا سکھائیں ناں کہ مچھلی دیدیں۔
ُپلان کیا ہے؟
فدا، ہم آپ کی بات سے متفق ہیںکہ باتوں کی بجائے عمل کرکے دکھانا چاہیے۔ کچھ آپ بھی مشورہ دیں کہ کیا کرنا چاہیے۔ ہم نے جیسا کہ کہا اپنی بساط کے مطابق غریبوں کی تعلیم کیلیے کچھ کر رہے ہیں۔ اب آپ بتائیں کہ ہم جیسے لوگ کس طرح باتوں کی بجائے عمل کر کے دکھائیں۔
ھمارا ایک ڈرائیور تھا جسے میں نے کھا تھا کہ اسکی مدد کرونگا جب اسکی بیٹی میڈیکل کالج میں جاۓ گی تو۔
اس بات کو 4،5 سال ھو گے، اب وہ ڈرائیور ھمارے پاس کام نھیں کرتا۔
میں خود پاکستان میں نھیں ھوں، مگر مجھے اپنا وعدہ بار بار یاد آتا ھے۔ انشآاللہ جب پاکستان جاؤنگا توضرور اسے ڈھونڈوں گا۔
Its not very hard if you live in US/Europe. Just visit http://tcfusa.org/ and enroll your self in their plan and they would deduct some money every month from your credit card or bank account. You can also send them money via pay pal.
TCF may be doing a good job, but I prefer to do some personal investing.
even if its very small.
This gives me a first hand knowledge of the creditibility of the person seeking help and also cuts down the administrative cut of 8-10% (organizations charge to meet the expenses.
ویسے ایدھی صاحب کی بات بھی بری نہیں ہے۔
افلاس کا یہ عالم ہے کھ لوگ اپنے بجون کو خود مار رہے ہیں۔
اللہ اور کرم کرے، آمین۔
Leave A Reply