موجودہ حالات کو دیکھتے ہوئے ہمیں تو یہی لگتا ہے کہ لوگ باعمل مسلمانی کی بجائے نام کی مسلمانی کی طرف سرکتے جا رہے ہیں۔ یہ الگ بات ہے کہ ہر کوئی تبدیلی کو اسی نظر سے دیکھے گا جو جیسے ماحول میں رہ رہا ہو گا۔ مسجد میں پانچ وقت کی نماز پڑھنے والے کو نمازیوں کی تعداد بڑھتی ہوئی نظر آئے گی۔ مسجد سے دور رہنے والے کو سب مسلمان صرف نام کے مسلمان ہی نظر آئیں گے۔ لیکن یہ حقیقت ہے کہ ماحول انسان کی تبدیلی میں بہت بڑا کردار ادا کرتا ہے۔ جس طرح کچھ عرصہ قبل طالبان کی قید میں برطانوی انگریز صحافی عورت نے اسلام قبول کیا اور اب باعمل مسلمہ کی زندگی گزار رہی ہے اسی طرح کئی باعمل مسلمان بھی یورپ میں آنے کے بعد ماڈریٹ مسلمان بن جاتے ہیں۔
ہمارے سامنے ہمارے دوست کی زندگی کے بیس سال ہیں۔ ان بیس سالوں میں وہ بھی ماحول کے اثر سے بچ نہ سکے۔ بیس سال قبل جب وہ پاکستان میں رہتے تھے اور پیر گھمگھول شریف کے مرید تھے، وہ پانچ وقت کے نمازی، بیوی کو پردہ کرانے والے ایک فٹ کی داڑھی کیساتھ باعمل مسلمان تھے۔ ان کی داڑھی اس وقت اتنی بڑی تھی کہ موٹر سائیکل چلاتے ہوئے وہ درمیان میں دو حصے ہو جایا کرتی تھی۔ یہاں تک ہمارا خاندانی تعلق ہونے کے باوجود ہم نے ان کی بیگم کو نہیں دیکھا ہوا تھا۔
پھر وہ یورپ آگئے اور دو سال تک انہوں نے یورپی معاشرے کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ داڑھی بھی ویسی کی ویسی ہی رہی اور شلوار قمیض بھی پہنے رکھی۔ دو سال بعد ان کی فیملی بھی یورپ آگئی۔ اس کے بعد پہلی تبدیلی ان میں یہ آئی کہ بیوی کا برقعہ اتروا دیا اور اسے باہر جانے کی اجازت دے دی۔ پھر جب وہ نوکری کی تلاش میں نکلے تو انہیں اپنی داڑھی بھی چھوٹی کرنی پڑی۔ ان بیس سالوں میں ان کی داڑھی اب گھٹ کر ایک انچ سے بھی کم رہ گئی ہے جو موٹر سائیکل چلاتے ہوئے حرکت تک نہیں کرتی۔
لیکن اس تبدیلی کے باوجود وہ اب بھی پانچ وقت کے نمازی ہیں، قرآن کی روزانہ تلاوت کرتے ہیں اور انہوں نے اپنے بچوں کی اسلام کیمطابق تربیت کی ہے۔ ان کی بیٹی کی شادی ایک باعمل اور باریش مسلمان کیساتھ ہوئی ہے جو کچھ دنوں میں عمرہ کرنے کے بعد یمن میں اسلامی تعلیم لینے کیلیے ایک سال قیام کریں گے۔ ان کا بیٹا بھی باعمل مسلمان ہے اور ہائی سکول میں پڑھتا ہے۔
کہنے کا مطلب یہ ہے کہ آدمی جتنا بھی کٹڑ کیوں نہ ہو ماحول یعنی معاشرہ اس پر اپنا اثر ضرور چھوڑتا ہے۔ یہ تو ایک باعمل اور انتہائی مستقل مزاج شخص کی مثال ہے۔ اس سے آپ ان مسلمانوں پر معاشرے کی تبدیلی کا اندازہ لگا سکتے ہیں جو پہلے ہی کچے پکے مسلمان ہیں۔ اب اس طرح کے مسلمان کب تک یورپی معاشرے کی یلغار سے بچ پائیں گے۔ اب یورپی معاشرے کا اثر قبول کرنے کیلیے یورپ جانے کی بھی ضرورت نہیں رہی، میڈیا نے یہ کام بھی آسان کر دیا ہے۔ اب ہمارے اپنے ڈرامے گرل فرینڈ بوائے فرینڈ کا کلچر متعارف کرا چکے ہیں اور رہی سہی کسر انڈین اور یورپی چینل پوری کر رہے ہیں۔
تبدیلی کی جو رفتار ہم نے میڈیا اور انٹرنیٹ کی وجہ سے پچھلے دس سالوں میں دیکھی ہے اس کی ماضی میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ پہلےوالدہ برقع پہنا کرتی تھی تو بیٹی سر پر چادر لیا کرتی تھی، اب والدہ سر پر چادر لیتی ہے تو بیٹی نے دوپٹہ لینا شروع کر دیا ہے۔ وہ دن دور نہیں جب والدہ دوپٹہ اوڑھنے لگے گی اور بیٹی ننگے سر ساتھ چلا کرے گی۔
اس تبدیلی کو صرف اور صرف حکومت کی مشترکہ کوششیں ہی روک سکتی ہیں یعنی اگر حکومت چاہے گی کہ مسلمان باعمل بن جائیں تو یہ ممکن ہو سکے گا یا پھر کوئ معجزہ ہی اب مسلمانوں کو بے عملی سے روک سکے گا۔ اب انفرادی کوششیں بیکار ہیں کیونکہ ان انفرادی کوششوں کا مقابلی ایک مضبوط میڈیا اور سیکولر حکومتوں کیساتھ ہے۔
3 users commented in " معاشرے کا اثر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کی یہ بات:
کافی غلط معلوم ہوتی ہے۔ اخلاقیات اور اقدار حکومتوں کے زور سے نہیں بنتے۔
پہلی بات تو یہ ہے کہ اسلام میں داڑھی ہے ۔ داڑھی میں اسلام نہیں ۔ اسلام ایک جدید اور روشن خیال مذہب ہے ۔ اور اسکے مکمل ضابطہِ حیات ہونے کا اس سے بڑھ کر اور ثبوت کیا ہوگا کہ ۔ اسلام زندگی میں ہر اس صورتحال اور مسئلے کا احاطہ کرتا ہے۔ اور انکا حل پیش کرتا ہے ۔جس سے حضرتِ انسان کو کبھی بھی واسطہ پڑسکتا ہے ۔ یہ صورتِحال اور مسائل انفرادی بھی ہوسکتے ہیں اور اجتماعی بھی۔ چونکہ اسلام آخری الہامی مذہب ہے۔ اس لئیے رہتی دنیا تک بنی نوع انسان کی رہنمائی کرتا رہے گا۔ اسلام مسلمانوں پہ بے جا پابندی نہیں لگاتا ۔ اسلام نے مختلف تہذیبوں میں بری چیزوں جیسے شراب ۔ جواء ۔ زنا۔ قتل۔ وغیرہ پہ پانبدی لگائی ۔ اور اچھی چیزوں مثلاََ کبڈی ۔ کشتی ۔گھڑ سواری ۔ نیزہ بازی ۔ گتکا وغیرہ کو جوں کا توں رہنے دیا ۔اسلام دوسری تہذیبوں کی اچھی چیزوں پہ اعتراض نہیں کرتا اور ایسی ہی صورتِحال لباس کے معاملے میں ہے ۔اسلام نےلباس کے بارے میں چند شرائط وضع کرنے کے بعد۔ جن میں شرم و حیا کی حرمت اور موسم کی گرمی سردی سے بچاؤ وغیرہ شامل ہیں – کو شامل کرنے کے بعد علاقائی ملبوسات سے کچھ تعرض نہیں کیا۔ حاصل بحث یہ ہے کہ اسلام میں یہ خوبی موجود ہے کہ آپ اسے مسلم یا غیر مسلم ۔ مشرقی یا مغربی ۔ کسی بھی معاشرے میں اپنا سکتے ہیں ۔ اگر کہیں کچھ کوتاہی ہوتی ہے تو اسمیں اسلام کا نہیں ہمارا قصور ہے ۔اب اس چیز کے طے ہونے کے بعد۔ اس بات پہ بحث کی بہت گنجائش ہے کہ بقول آپکے اؤل ُکچےپکے‘ مسلمان یوروپ امریکہ میں کسطرع اپنا اسلامی تشخص برقرار رکھیں؟۔ دوئم میڈیا کی واہیات یلغار سے کس طرع بچاؤ کیا جاسکے۔ میری ذاتی رائے میں اسکے لئیے ضروری ہے کہ شعور کی بیداری اور خود آگاہی کے لئیے ۔صرف مولوی صاحب پہ تکیہ کرنے کی بجائے ۔ ھمیں خود بھی کوشش کرنی چاہیے اور اسلام کے بارے جاننے کی کوشش کرنی چاھیے ۔اور یہ کام میڈیا اور انٹر نیت سے بھی لیا جاسکتا ہے۔ اور اسلام کی اصل روح کو سمجھنے کی ضرورت ہے تاکہ ہم اپنے مسلمان ہونے پہ فخر کرسکیں کیونکہ اسلام ۔امن ہے ۔ رحمت ہے ۔ اور یہ صرف مسلمانوں کے لئیے ھی نہیں بلکہ کل عالم کے لئیے امن اور رحمت کے دروازے وا کرتا ہے ۔ اسلام کے دروازے سب کے لئیے کھلے ہیں ۔اسے کل عالمِ انسانیت کے لئیے اس دنیا پہ بیجھا گیا ہے ۔اکثر دیکھا گیا ہے کہ اسلام کے بارے میں کم علم رکھنے والے مسلمان نوجوان اپنے دین کے بارے میں شکوک وشبہات کا شکار ہوجاتے ہیں۔ جبکہ مہم کے طور پہ اسلام کے خلاف چلائی گئی پروپنگنڈہ جنگ کا اثر پڑہے لکھے اور اسلام کو سمجھنے والے نوجوانوں پہ نہیں ہوتا اور یہ نوجوان اسلام کو سمجھنے کی وجہ سے۔ اسلام کے بارے میں غلط پروپنگنڈے سے متاثر غیر مسلم لوگوں کے اسلام کے بارے میں شکوک و شہبات۔ دور کرنے میں بھی کامیاب رہتے ہیں ۔
ہمارے ملک میں روشن خیالی کے نام پہ بھت سے مکروہ کھیل کھیلے گئے ہیں۔ جن میں میڈیا کا وہ انداز بھی شامل ہے۔ جس کا تذکرہ آپ نے کیا ہے ۔ جبکہ یہ پاکستان کی نوے فیصد عوام کے ناصرف اسلامی بلکہ جمہوری حق کے بھی خلاف ہے ۔ کیونکہ بلا مبالغہ پاکستان کے نوے فیصد عوام اپنے ملک میں اسلامی اخلاقی روایات کا پروان چڑھنا پسند کرتے ہیں ۔اور یہ وہ حوصلہ افزاء نکتہ ہے کہ جس سے امید کی جاتی ہے کہ ایک دن پاکستان اپنے اس مقصد کو پا لے گا ۔ اورہم جن قوموں کی مثال دیتے ہیں انکی تاریخ ھزاروں سال پہ مبنی ہے۔ اس لحاظ سے پاکستان ابھی دودھ پیتے بچے کی مانند ہے ۔کہ پاکستان کے ساٹھ ستر سال قوموں کی زندگی میں ایک لمحے کی مانند ھوتے ہیں ۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
آپ کا تجزیہ بالکل درست ہے برادر۔ بس اتنی سی بات سے سمجھا جا سکتا ہے کہ اگر ایک بہت بڑا ریلا مشرق سے مغرب کی سمت جا رہا ہو تو اس ریلے میں موجود چند لوگ اگر مغرب کی سمت جانے کا قصد کریں گے تو انہیں شدید مشکل کا سامنا ہوگا بلکہ شاید وہ مخالف سمت سے آنے والے افراد کے دباؤ کو برداشت نہ کر پائیں اور کچل کر مر جائیں کے اس کے برخلاف ریلے کی سمت میں چلتے رہنے میں اسے کسی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا بلکہ اگر وہ رکنا چاہیں گے تب بھی وہ انہیں بہا لے جائے گا۔
بالکل یہی مثال نیکی و بدی کی جانب مائل معاشروں کی ہے۔ نیکی کی جانب مائل معاشرے میں بدی کرنا مشکل ہو جاتا ہے، اور برائی کے ارادے رکھنے والے افراد بھی نیکی کے اس ریلے میں بہے چلے جاتے ہیں اور اپنی خواہش کو پورا کرنے میں انہیں شدید مشکل پیش آتی ہے۔ برعکس اس کے برائی کے معاشرے میں نیکی کرنے والوں کا جینا بہت مشکل ہوتا ہے اور انہیں اس کے لیے کافی جدوجہد کرنا پڑتی ہے۔
اسی لیے اسلام نے “امر بالمعروف و نہی عنی المنکر” کا فریضہ انجام دینے کا حکم دیا کہ نہ صرف خود نیکی کرو بلکہ نیکی کی ترغیب بھی دو اور نہ صرف خود برائی سے رکو بلکہ روکو بھی۔ اسی عمل سے ایک صالح معاشرہ تشکیل پاتا ہے۔
Leave A Reply