چند دن قبل ایک ڈاکے کی خبر میں ہم یہ پڑھ کر چونک گئے کہ سراغ رساں کتے ڈاکوؤں کی تلاش میں ایک پولیس چوکی جا پہنچے۔ مزید تسلی کیلیے کتوں کو دو تین بار گھمایا پھرایا گیا مگر کتے آخر میں اسی پولیس چوکی میں پہنچ کر رک جاتے۔ کتوں کی اس نشاندہی پر صوبائی وزیر نے پولیس چوکی کے عملے کو بھی شامل تفتیش کرنے کا حکم دیا ہے۔ میڈیا کو چاہیے کہ وہ اس خبر کی آخر تک رپورٹنگ کرے تا کہ پبلک اس کے انجام سے آگاہ ہو سکے۔
کتوں کو سراغ رسانی کیلیے صدیوں سے استعمال کیا جاتا رہا ہے۔ بلکہ اس کیساتھ ساتھ پاؤں کے نشانات پہچاننے والے آدمی بھی ڈاکوؤں کو ڈھونڈنے میں استعمال ہوتے رہے ہیں۔ پاؤں کے نشانات پہچاننے والے شخص کو کھوجی کہا جاتا ہے۔ برطانوی راج میں پولیس ایسے شخص کی صلاحیتوں سے خوب فائدہ اٹھاتی رہی ہے۔
ہمارے والدین بتاتے ہیں ایک دفعہ کھوجی ڈاکو کے پاؤں کے نشانات کا پیچھا کرتے کرتے گاؤں کے چوہدری کے گھر جا گھسا۔ پولیس نے دوبارہ اسے کھوج لگانے کا کہا تو وہ پھر چوہدریوں کے گھر چلا گیا۔ چوہدریوں کیساتھ ساتھ اس کی قسمت بھی بری نکلی، چوہدری تو جیل چلے گئے مگر ان کے لواحقین نے کھوجی کی ٹانگیں ہی توڑ دیں اور اسے کہا اب کھرا نکال کے دکھانا یعنی کھوج لگا کے بتانا۔
اگر پولیس کی نیت ٹھیک ہو اور حکومتی ممبران اسمبلی ملک سے چوری ڈاکے ختم کرنا چاہیں تو سراغ رساں کتوں اور کھوجیوں کو دوبارہ متحرک کیا جا سکتا ہے۔ یورپ میں کتے اب بھی سمگلنگ روکنے کیلیے استعمال ہو رہے ہیں یہی وجہ ہے کبھی کبھار ہمارے وزراء کو بھی کتوں کے سامنے سے گزرنا پڑتا ہے۔ اگر حکومت ہر تھانے میں دو کتے اور ایک کھوجی تعینات کر دے تو ڈاکو لٹیرے پکڑنے میں پولیس کو بہت آسانی ہو جائے گی۔ ڈاکو کو مجرم ثابت کرنے کیلے اس سے مسروقہ سامان کی برآمدگی ہی کافی ہوتی ہے اور جب ڈاکو مال سمیت پکڑا جائے گا تو اسے سزا دلوانا پولیس کیلیے آسان ہو جائے گا۔ لیکن بات وہی ہے کہ پولیس اور حکومت کی اگر نیت ٹھیک ہو تبھی ڈاکے چوریوں پر قابو پایا جاسکے گا۔ اگر ڈاکوؤں کو پکڑے والے ہی ان کیساتھ ملے ہوئے ہوں تو پھر ڈاکے روکنا ناممکن ہو جاتا ہے۔
ٹیکنالوجی اگر اسی طرح ترقی کرتی رہی تو ایک دن سراغ رساں کتوں اور کھوجیوں کا تعمل البدل بھی آجائے گا۔ تب ہو سکتا ہے پاکستان جیسے جرائم زدہ ملک سے بھی جرائم کا خاتمہ ہو جائے اور سیل فون چھیننے والے تک پکڑنے میں زیادہ وقت نہ لگا کرے۔
جرائم زیادہ ہونے کی وجہ سے جس طرح حفاظت کیلیے سیکیورٹی ایجنسیوں کا کاروبار اس وقت زوروں پر ہے اسی طرح کچھ لوگ سراغ رساں کتوں اور کھوجیوں کو ملازم رکھ کر سراغ رسانی کا کاروبار شروع کیا جاسکتے ہیں لیکن اس کام کیلیے ایجنسی کے مالک کا طاقتور ہونا بہت ضروری ہے کہیں یہ نہ ہو کہ ایک دن اس کے کتے کسی ڈاکوؤں کی تلاش میں سیاستدان کے گھر گھس جائیں اور اس کو اپنی جان چھڑانی مشکل ہو جائے۔
لیکن گھما پھرا کے بات وہیں پر آ جاتی ہے یعنی اگر نیت ٹھیک نہیں تو پھر سراغاں رساں کتے، کھوجی اور جدید ٹیکنالوجی سب بیکار ہے۔ جرائم کو ختم کرنے کیلیے پولیس اور حکومت کی نیت کا درست ہونا بہت ضروری ہے۔
3 users commented in " سراغ رساں کتے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackhttp://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/story/2008/07/080724_aafia_bagram.shtml
اب کہان مر گین خواتین حقوق کی تنظئمین؟
’ڈاکٹر عافیہ بگرام بیس میں قید ہیں‘
حقوق انسانی کی ایک تنظیم نے لاپتہ پاکستانی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی افغانستان کے ایک امریکی فوجی مرکز میں ممکنہ موجودگی کی تحقیقات کرنے کے لپے اقوام متحدہ سے اپیل کی ہے۔
ایشیائی ہیومن رائٹس کمیشن نے خدشہ ظاہر کیا ہے کہ پانچ سال قبل اپنے بچوں سمیت کراچی سے لاپتہ ہونے والی ڈاکٹر عافیہ صدیقی، جنہوں نے امریکہ میں تربیت حاصل کی تھی، بگرام میں واقعہ امریکی جیل میں قید ہیں اور وہاں واحد خاتون قیدی ہونے کی وجہ سے اذیت ناک زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
مزید تفصیل BBCUrdu.com
کتوں کو ملکی دولت کی خوشبو کی پہچان کروادے کوئی ۔۔ دیکھیں کیسے شاہراہ دوستور پر بھاگتے پھرتے ہیں۔۔ ویسے بھی قومی اسمبلی میں تو کتوں کا داخلہ منع نہیں ہے ۔۔
Leave A Reply