آج پاکستان کے محفوظ ترین علاقے واہ کینٹ میں دو خودکش حملے ہوئے جن میں درجنوں ورکرز شہید ہو گئے۔ اجمل صاحب سمیت واہ کینٹ میں اپنی زندگی کا کچھ عرصہ گزارنے والے جانتے ہیں کہ واہ کینٹ میں سیدھے راستے سے داخل ہونا کتنا مشکل ہوتا تھا اور اب بھی مسکل ہے۔ ابھی پچھلے دسمبر میں ہمیں واہ کینٹ جانے کا اتفاق ہوا اور ہر دفعہ ہمیں اپنی گاڑی گیٹ پر رجسٹر کرانی پڑی۔
لیکن دوسری طرف پاکستان کی دوسری چھاونیوں کی طرح واہ کینٹ میں داخل ہونے کے بھی کئی چور راستے ہیں۔ اگر آپ بس پر سفر کر رہے ہیں تو پھر بیریئر والے مسافروں کی ایک ایک کر کے شناخت نہیں کریں گے۔ اسی طرح بستی ،گدوال اور دوسری کئی جگہوں سے آپ گاڑی تک واہ کینٹ میں بغیر چیک ان کے لا سکتے ہیں۔
ہمارے یہ سب تمہید باندھنے کا مقصد یہ بتانا ہے کہ پاکستان کا کوئی بھی علاقہ اس وقت محفوظ نہیں ہے اور اس بات کا اعتراف حمکران بھی کر چکے ہیں کہ خودکش حملے کو روکنا ناممکن ہے۔ اگر خود کش حملے دنیا کے انتہائی محفوظ علاقوں یعنی عراق کے گرین زون اور افغانستان کے بگرام ایئربیس میں ہو سکتے ہیں تو ہماری چھاونیاں ان کے مقابلے میں کیسے محفوظ رہ سکتی ہیں۔
ظاہر ہے واہ فیکٹری پر دہشت گردوں نے یہ جان کر حملہ کیا ہو گا کہ واہ فیکٹري کے مزدور جو گولہ بارود اور اسلحہ بنارہے ہیں وہ انہی کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔ ان خودکش حملوں کو کیسے روکا جائے اس بارے میں پاکستانیوں کی اکثریت دو رائے رکھتی ہیں۔ کچھ کا خیال ہے کہ خودکش حملہ کرنے والوں کیخلاف جنگ جاری رکھی جائے اور کچھ ان کیساتھ مذاکرات کو ترجیح دیتے ہیں۔ اپنے موجودہ سروے میں اکثریت مذاکرات کے حق میں ہے کیونکہ ہماری طرح شاید انہیں معلوم ہو گا کہ دہشت گردی کیخلاف جنگ بہت طویل ہو گی اور اس دوران ملک میں خودکش حملے ہوتے رہیں گے۔ مذاکرات کا راستہ آسان اور چھوٹا ہے جس پر چل کر ہم قبائلیوں کی نقل مکانی بھی روک سکتے ہیں اور پاکستان کو محفوظ بھی بنا سکتےہیں۔ ابھی دور جانے کی ضرورت نہیں، جونہی اس سال صدر مشرف کو انتخابات میں شکست ہوئی اور ان کے مخالفین نے حکومت میں آتے ہی مذاکرات سے مسائل حل کرنے کی بات کی تو خودکش حملے رک گئے۔ اب جب سے موجودہ حکومت نے بھی مشرفانہ پالیسیوں کو جاری رکھتے ہوئے دوبارہ قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں جنگ چھیڑی ہے تو مخالقین نے پھر سے خودکش حملے شروع کردیے ہیں۔
اس جنگ میں دونوں طرف نقصان پاکستانیوں کا ہو رہا ہے اور اس نقصان کو روکنے کیلیے شارٹ کٹ راستہ مذاکرات ہی ہیں۔ اگر آج حکومت جنگ بندی کا اعلان کر دے اور عسکریت کی بجائے جمہوریت پر چلتے ہوئے اپنے مخالفین سے مذاکرات شروع کر دے تو خودکش حملے رک سکتے ہیں۔
مگر ہمیں یقین ہے کہ حکومت یہ راستہ نہیں اپنائے گی کیونکہ بیرونی جمہوری طاقتیں نہیں چاہتیں کہ پاکستان میں امن قائم ہو۔ ہماری حکومت چونکہ ابھی آزاد نہیں ہوئی اسلیے وہ اپنی مرضی سے مذاکرات شروع کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہے۔ تب تک قبائلی مسلمان بھی مرتے رہیں گے اور عام پاکستانی مسلمان شہری بھی۔ حکومت ان کی موت کا معاوضہ بیرونی جمہوری طاقتوں سے وصول کرتی رہے گی یعنی پاکستانی کل بھی بیچے گئے تھے اور آج بھی بیچے جا رہے ہیں۔ کل وہ زندہ بیچے جاتے تھے اور آج ان کی لاشوں کی قیمت وصول کی جارہی ہے۔
7 users commented in " غیرمحفوظ پاکستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوقت آ گیا ہے کہ فیصلہ کیا جائے کہ کون طالبان کا حامی ہے اور کون پاکستان کا۔
مذاکرات میں کامیابی کیسی تھی؟ یہی نا کہ جن علاقوں میں طالبان ہیں انہیں مکمل طور پر طالبان کے قبضے میں چھوڑ دیا جائے۔ پاکستان میں ہی دو حکومتیں ہوں ایک طالبان کی اور ایک اسلامآباد میں۔ یہ کیسا امن ہو گا؟ خیر اگر ایسی ہی بات ہے تو ٹھیک ہے طالبان قبائلی علاقے رکھیں اپنے پاس۔ آج سے ان کے اور ہمارے راستے الگ الگ ہیں۔ وہ سنبھالیں اپنا اسلام اور پتھر کا دور۔ ہم اکیسویں صدی کا پاکستان چاہتے ہیں۔
یہ کس قسم کے لوگ ہیں ۔۔ اسلام کے نام پر بے گناہوں کا خون بہاتے ہیں اور اسے رد عمل کہتے ہیں ۔۔ طالبان اور پاکستان دو متضاد ہیں ۔۔ زیک کی بات سو فیصد درست ہے کہ اب وقت آگیا ہے کہ لوگ فیصلہ کرلیں کہ وہ طالبان کے ساتھ ہیں یا پاکستان کے ساتھ۔۔ یہ تو طے ہے کہ اسلام اور طالبان کا کچھ لینا دینا نہیں ۔۔ اگر یہ خود کش حملہ اسلام ہے تو دنیا درست خوفزدہ ہے ایسے اسلام سے بھی اور طالبان سے بھی۔۔
بھائی افضل ان خودکش دھماکوں اور اسکول جلانے والوں کی جتنی بھی مزمت کی جائے کم ہے۔ کیایہ ڈیرہ اسماعیل خان کے ہسپتال اور واہ کینٹ والے مسلمان نہین تھے ؟ کس نے یہ خون ان پر حلال کیا؟
دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ صرف اور صرف پاکستان کی بقا کے خلاف ہے۔ چاہے حکومت قبائلیوں پر گولے برسائے یا قبائلی جنگجو جوابی خودکش حملے کریں، دونوں صورتوں میں نقصان صرف پاکستان کا ہوگا بلکہ ہو رہا ہے۔ جب سرکار قبائلی علاقوں اور بلوچستان میں آپریشن کرتی ہے تو عوامی سطح پر بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے اور جب اس کے خلاف جوابی حملے ہوتے ہیں اور معصوم پاکستانی شہری مرتے ہیں تو عالمی سطح پر پاکستان میں سیکورٹی کی صورتحال پر انگلیاں اٹھائی جاتی ہیں اور یہ انگلیاں براہ راست پاکستان کے جوہری پروگرام پر اٹھتی ہیں۔ اس وقت تمام عالمی و داخلی قوتوں کا واحد مقصد پاکستان کو ایک کمزور اور ناکام ریاست کے طور پر دکھانا ہے چاہے وہ طالبان ہوں یا الطاف حسین، سابق صدر پرویز مشرف ہوں یا عالمی قوتیں سب اپنے بیانات کے ذریعے پاکستان کو ایک ایسے ملک کے طور پر پیش کر رہے ہیں جو ایک ٹائم بم پر بیٹھا ہے جو کسی بھی وقت پھٹ سکتا ہے۔ اگر الطاف یہ کہتا ہے کہ طالبان کراچی میں آ گئے ہیں اور طالبان جواباً یہ کہتے ہیں کہ ہاں ہم کسی بھی وقت کراچی میں ٹیک اوور کر سکتے ہیں تو بتائیے ان بیانات کا نقصان کس کو پہنچ رہا ہے؟ پرویز مشرف یہ کہتا ہے کہ میرے بغیر پاکستان کا خدا حافظ ہے تو اس کا مطلب کیا ظاہر ہے اور یہ سب کس کے کہنے پر اپنی زبانیں چلا رہے ہیں اور ان کی ڈوریاں کہاں جا کر مل رہی ہیں، اس کا اندازہ ان بیانات سے ہی لگا لیجیے۔
اب تو کسی بھی ایسے گیٹ کے سامنے سے گزرتے ہوئے ڈر لگتا ہے جہاں ذرا سی بھی سیکیورٹی کا خدشہ ہو
بہت افسوس ھوا پرہ کر۔۔۔آہہہہ
ہم جن کے لیے ھوے برباد ،
وہ رہتے ھین سات سمندر پار،
ڈالر میلنگے تو امیروں کو،
غریب تو ھہے برباد
اسلام ھے ہی پرانااور ھمارا تو خدااور بھی بہت پرانا ھے۔ جس کو یہ پرانا خدا اور پرانا دین نہین پسند وہ کیون نہین کھل کر بولتے کہ انہوں نے نیا خدا بھی چن لیا ھے۔
Leave A Reply