آخرکار وزیرِ خزانہ اور وزیرِ اعظم شوکت عزیز نے اعتراف کر ہی لیا کہ پٹرولیم کمیٹی ایک فراڈ ہے اور جس مقصد کیلۓ یہ کمیٹی بنائی گئ تھی وہ پورا نہیں کیا جارہا۔ جب یہ کمیٹی بنائی گئ تو کہا گیا تھا کہ یہ عالمی مارکیٹ کی قیمتوں کا ہر پندرہ روز بعد جائزہ لیا کرے گی اور اس کے مطابق پاکستان میں تیل کی قیمتوں کا تعین کیا کرے گی۔ اس فراڈ کو چھپانے کیلۓ اس کمیٹی نے کئی دفعہ ماضی میں قیمتیں کم بھی کیں مگر براۓ نام۔ اب جب دنیا میں تیل کی قیمتیں بڑھنا شروع ہوئیں تو اس کمیٹی کو بھی پاکستان میں تیل کی قیمتیں بڑھانے کا بہانہ مل گيا اور ہر دفعہ قيمتوں ميں اضافے کي يہي وجہ بیان کی گئ کہ عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں بڑھ رہی ہیں۔ یہ بات بار بار صرف پٹرولیم کمیٹی ہی نے نہیں کہی بلکہ ہمارے وزیرِ اعظم بھی یہی کہتے رہے۔ اسی بہانے کا سہارا لے کر تیل کی قیمتیں پاکستان میں تیس فیصد سے بھی زیادہ بڑھا دی گئیں۔
اب جب عالمی مارکیٹ میں تیل کی قیمتیں کم ہوئیں تو ہم سمیت ساری حزبِ اختلاف اور عام پبلک نے بھی صداۓ احتجاج بلند کرنا شروع کردی مگر تیل کی قیمتيں کم نہ کی گئیں۔ اس کے ساتھ ہی پاکستان کو زلزلے کی آفت نے آگھیرا اور اس معاملے کی طرف سے دھیان وقتی طور پر ہٹ گیا۔ اب جب حالات کچھ کچھ معمول پر آنا شروع ہوۓ ہیں تو حزبِ اختلاف نے پھر سے حکومت پر زور ڈالنا شروع کردیا ہےکہ تیل کی قیمتیں کم کی جائیں۔
آخرکار جب وزیرِ اعظم کو یقین ہو گیا کہ اس معاملے سے جان نہیں چھوٹے گی تو انہوں نے ڈھٹائی سے سرِعام یہ اعلان کر دیا کہ تیل کی قیمتیں کم نہیں کی جائیں گی اور اس کی توضیح یہ دی کہ پاکستان کا بجٹ خسارہ ساٹھ ارب روپے ہے اور تیل کی قیمتیں بڑھانے سے اس خصارے میں کمی ہوئی ہے لیکن خسارہ ابھي مکمل طور پر ختم نہیں ہوا۔ اس لیۓ تیل کی قیمتیں کم نہیں کی جاسکتیں۔
مگر حکومت اس کاروبار میں سارے کا سارا منافع تو نہیں کمارہی بلکہ گیس کی بین الاقوامی کمپنیاں بھی اپنی جیبیں بھر رہی ہیں۔ یہ جو منافع ان گیس کمپنیوں کی جیبوں میں جارہا ہے اس میں ضرور حکومتی ارکان کا حصہ بھی شامل ہو گا۔ اور ہو سکتا ہے جتنا حکومت منافع کمارہی ہے اس سے زیادہ گیس کمپنیاں کما رہی ہوں۔ مگر حکومت کو عوام کے فائدے کی بجاۓ اپنے ذاتی فوائد درکار ہیں۔ اس ليۓ اسے پرواہ نہيں کہ کون مہنگائي کا شکار ہو رہا ہے۔
حکومت کو معلوم ہے کہ عوام اپنی اپنی الجھنوں کے شکار ہیں اور انہیں کوئی پرواہ نہیں کہ حکومت کیا کر رہی ہے۔ اسی لیۓ حکومت اپنی من مانی کر رہی ہے۔ مگر حکومت اپنا بجٹ کا خصارہ کم کرنے کیلۓ عوام کا خون ہی کیوں چوس رہی ہے۔ کیا وہ اپنے ذاتی اخراجات کم نہیں کر سکتی؟ اس سوال کا جواب صرف نہ میں ہی ہے کیونکہ عوام سوۓ ہوۓ ہیں اور وہ بھی افیم کھا کر۔
نوٹ – عثمان صاحب نے اس تحرير ميں جن غلطيوں کي نشاندہي کي ہے وہ ٹھيک کر دي گئيں ہيں۔
2 users commented in " پٹرولیم کمیٹی فراڈ – اعترافِ جرم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackخصارہ نہیں ہوتا بلکہ خسارہ ہوتا ہے ۔ ہمارے سمیت نہیں لکھا جاتا بلکہ ہم سمیت لکھا جاتا ہے۔ افہیم نہیں ہوتا بلکہ افیم ہوتا ہے۔ آپ کی پوسٹ اچھی ہے لیکن آپ کی اردو بہت خراب ہے۔ غالبا آپ کا مطالعہ صرف اخبارات تک ہی محدود ہے۔
غلطياں نکالنے کا شکريہ۔ بات دراصل يہ ہے کہ اردو سے رابطہ ٹوٹے ہوۓ پندرہ سال ہوگۓ ہيں۔ بڑي مشکل سے اردو لکھتے ہوۓ انگريزي کے متبادل الفاظ اردو ميں ڈھونڈنے کے چکر ميں کئ غلطياں ہو جاتي ہيں۔
دوسري وجہ يہ بھي ہے کہ وقت کي کمي بھي آڑے آتي ہے
آئيندہ کوشش کريں گے کہ گرائمر ميں گڑبڑ ہو سو ہو مگر الفاظ کے ہجے درست ہوں
اسي وجہ سے ہم نے چند سال قبل اپنے بارے ميں کہا تھا
آتي نہيں شعروشاعري
تک بندي ميں ثاني ہيں
بيتے لمحوں کي کہاني ہيں
ہجر ميں کٹي جواني ہيں
بھوک پياس کي نشاني ہيں
زم زم کے ہم پاني ہيں
Leave A Reply