ایک طرف اتحادی پاکستان کے شمالی علاقوں پر مسلسل بم گرا رہے ہیں اور دوسری طرف ہماری حکومت ملک پر حملہ کرنے والوں کسیاتھ سختی سے پیش آنے کے بیانات دے رہی ہے۔ ابھی چیف آف سٹاف جنرل کیانی کی سخت زبان کی گونج ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ پاکستان کی سرزمین پر ایک اور میزائل داغا گیا جس کی وجہ سے کئی پاکستانی شہید ہو گئے۔ ہماری حکومت کی زبان بھی ایک نہیں ہے۔ جنرل کیانی اگر دھمکی آمیز بیان دیتے ہیں تو وزیراعظم کہتے ہیں ہم جنگ نہیں کر سکتے صرف سفارتی سطح پر احتجاج کر سکتے ہیں، وزیردفاع کہتے ہیں کہ میزائل کسی وجہ سے ہی گرتے ہیں۔
اے این پی جیسی قوم پرست صوبائی حکومت بھی اپنوں کا خون ہوتے دیکھ رہی ہے اور احتجاج کرتی ہے تو صرف اس بات پر کہ اسے اپنی پسند کی وزارتیں نہیں مل رہیں۔ ہو سکتا ہے سیکولر خیالات رکھنے والی پارٹی اے این پی شہید ہونے والوں کو پختون سمجھنے کی بجائے انتہاپسند مذہبی دہشت گرد سمجھ کر اپنے دشمنوں کے خاتمے پر خوش ہو رہی ہو۔
رمضان کے مہینے میں بھی وعدہ خلافی کی انتہا کر دی گئی ہے۔ رمضان میں جنگ بندی کا وعدہ کیا گیا مگر روز کتنے ہی پاکستانیوں کو شدت پسند سمجھ کر شہید کیا جا رہا ہے۔ برطانوی دور سے لیکر اب تک کتنے پٹھان خدا کی راہ میں مارے گئے مگر ان کی نسل ختم نہیں ہوئی اور نہ ہی اب ختم ہو گی۔
ملک جل رہا ہے اور صدر زرداری صاحب دبئی چلے گئے ہیں، اپوزیشن لیڈر لندن کی سیر کر رہے ہیں۔ کسی کو کوئی پرواہ نہیں ہے کہ غریب بیچارے مہنگائی سے تنگ ہیں اور شمالی علاقوں کے پاکستانی شہید ہو رہے ہیں۔
خدا کیلیے حکمرانو عقل کے ناخن لو۔ جنرل مشرف آٹھ سال ميں مجوزہ دہشت گردی کو طاقت کے ذریعے جب ختم نہیں کر سکے تو آپ بھی نہیں کر سکو گے۔ اپنے پاکستانیوں سے مذاکرات کرو اور غیروں کی مسلط کردہ جنگ کو ختم کرو جو تم اپنی سرزمین پر اپنوں کیخلاف لڑ رہے ہو۔
دہشت گردی ختم کرنے کا جو طریقہ عراق میں اتحادی فوجوں نے اپنایا وہ طریقہ افغانستان اور پاکستان کے شمالی علاقوں میں کیوں نہیں اپنایا جا رہا۔ عراق میں بھی تھک ہار کر شدت پسندوں کو بہلا پھسلا کر جمہوریت کا حصے دار بنایا گیا ہے۔ یہی کام پاکستان اور افغانستان میں بھی ہو سکتا ہے۔ آئرلینڈ کی جنگ کئی دہائیاں لڑ کر جب انگلینڈ نہ جیت سکا تو اس نے بھی مذاکرات کی راہ اپنائی۔ لیکن ہمیں سمجھ نہیں آئے گی کیونکہ ہم ہپناٹائز ہو چکے ہیں اور ہمارا ریموٹ کنڑول کسی اور کے ہاتھ میں ہے۔
7 users commented in " سفید جھوٹ کے سوداگر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackحکومت کا کام ہی سفید جھوٹ بولنا ہے اور فوج کا بھی۔ کیانی صاحب کا بیان پڑھ کر خوشی ہوئی تھی کہ فوج میں بھی کوئی “مرد“ ہے۔ لیکن یہ بیان بھی “دیوانے کی بڑھ“ کے سوا کچھ نہیں نکلا۔ ہماری فوج اپنے بندے اور بڑھکیں ضرورت سے زیادہ مارتی ہے بالکل ویسے ہی جیسے حکومت کام کم کرتی ہے بکواس زیادہ
ایک تو آپ لوگ بہت سادہ ہوکہ کیسے کیسوں سے امیدیں وابستہ کرلیتے ہو۔ صاف سی بات ہے جو خالق کا باغی ہے وہ خلق سے وفا بھی نہیں کرے گا
دوسری بات جو آپ ایسوں کو نظر نہیں آتی وہ عقیدے کا ٹکراؤ ھے ورنہ کبھی بھی بغداد سے لیکر آج تک سقوط ہوتا اور خلفاء راشدین کی شہادت ہوتی
خیر غفلت اور بھولے پن کا علاج دعاءہوگی
جب میں سوچتا ہوں کہ محشر میں مظلوم جب اپناحساب مانگیں وہ کیا عالم ہوگا
اے اللہ تجھے تیری عزت کا واسطہ مجھے ظالموں اور منافقوں شامل نہ کرنا آمین
بارے کچھ جنرل کیانی کے بیان کے!
امريکہ سے دشمن تو محفوظ رہ سکتا ليکن دوست نہيں۔ اور رہی بات جنرل کیانی کے بیان کی تو نا جانے کیوں ۔ ہمیں تب کے مر دِ آہن اور وزیرِاعظم نواز شریف کے چیف آف اسٹاف آرمی جنرل مشرف یاد آگئے جنہیں تب امریکہ کے اشارے اور وسائل سے مردِ کارگل اور کارگل کے ہیرو کے طور پہ کاسٹ و پروجیکٹ کیا گیا اور قوم اپنے ھی منتخب وزیرِ اعظم کو ہٹائے جانےاور قید میں ڈالے جانے پہ خوشی سے مٹھائیاں بانٹتی اور بھگڑے ڈالتی گلی کوچوں میں نکل آئی تھی ۔ کچھ وہ بھی تھے جنھوں نے مہتابیباں شہتابیاں چھوڑیں اور زبردست آتش بازی کی ۔ اور قوم کے مجموعی طور پہ اپنے اس عہد سے پھر جانے سے جو قوم نے ۔انتخابات کے ذریعے تب کی نواز حکومت کو مشرف کے ھاتھوں بزورِ بازو تختہ الٹے جانے کے بعد ۔ خوشیاں منا کر بد ترین مجموعی بد عہدی کا مظاہرہ کر کے کیا ۔ اس بد عہدی کی جو سزا ہم نے اگلے نو سال پاکستان کی تاریخ کے بدترین آمر مشرف کی صورت میں بھگتی ۔ جس کے دور میں پاکستان تو کُجا بلکہ مسلمان ہونے کا اقرار کرنے والوں کے نا گھر محفوظ رہے نا عزتیں ۔ نا پاکستانی قوم کے بیٹے ، نا بیٹیاں ۔ جس نے اپنی ھی قوم کے بیٹے اور بیٹیوں کو بازار کی ادنٰی جنس سمجھتے ہوئے انکے دام کھرے کیے ۔ پاکستان کی کوئی گلی محلہ شاید ایسا ہوگا جسمیں مشرف دور کی خباثتوں کا ظلم اور اندہیر نا مچا ہو ۔
ہمیں یہ کسی صورت نہیں بھولنا چاہیے کہ پاکستان کی بدنصیبی اور مشرف کی منہ دکھائی بھی مشرف کے ایک ایسے ھی بیان سے شروع ہوئی تھی جس میں اسے کارگل کا ہیرو بنا کر اسے پروجیکٹ کیا گیا تھا۔ جس کا عذاب آج بھی پوری قوم بھگت رہی ہے ۔ ناجانے کیوں جنرل کیانی کے بیان سے ہمیں یوں محسوس ہوتا ہے کہ جنرل موصوف کا بیان بھی اسی پس منظر میں دیا گیا ہے ۔
اسلئیے ہمیں جنرلوں کے اسطرع کے بیانات پہ خوشی سے بغلیں بجانے کی بجائے اس بات پہ غور کرنا چاھیے کہ کیا امریکہ نے پاکستان میں ایک نئے بارہ اکتوبر لانے کا آغاز کردیا ہے ؟ کیا پاکستان کی سول اور جمہوری کوششوں کا سدِ باب کرنے کے لئیے جنرل کیانی کو گرین سگنل تو نہیں دے دیا گیا؟۔ جسکی پہلی قسط جنرل کیانی کا یہ بیان ہے اور آخری قسط۔ اللہ نا کرے خود جنرلوں کا حکومت سنبھالنا بھی ہو سکتا ہے۔ کیا اسطرع ملک میں شروع جمہور کے اس نئے آغاز کو مشکلات سے دوچار کر کے ناکام کرنے کی نئی پالیسی کا آغاز تو نہیں کردیا گیا؟ کیا جنرلز کے ذریئے پاکستان کی جمہوری حکومت کو دیوار کے ساتھ تو نہیں لگایا جارہا؟۔تا کہ پاکستان کے جائز طور پہ بے اعتبارے عوام ۔ پھر سے جنرلوں کو خوش آمدید کہنے کا سوچنے لگیں؟۔ ان تمام سوال کی بنیاداور شک کا پہلو اس بات پہ بھی ہے کہ جنرل کیانی نے اپنے پیش رو جنرل مشرف جب وہ وردی اتار کر سول صدر بن چکے تھے ۔ تو تب بھی امریکہ نے پاکستانی حدود کی بار بار خلاف ورزی کی اور درجنوں بلکہ سینکڑوں بے گناہ پاکستانی شہید کیئے ۔تب تو جنرل کیانی کا کوئی بیان یا اس طرع کی پریس اسٹیٹمنٹس نہیں آئی تھی۔ حالانکہ یہ تب بھی چیٍف آف آرمی اسٹاف تھے۔ تو سول حکومت کے آتے ہی کسی جنرل کا اسطرع کا عوامی تائید سے بھرپور امریکہ کے خلاف سخت بیان آنا جو کے انکے منصب کا تقاضہ بھی نہیں ۔ کہ ایک چیف آف آرمی کا کام حکومت کے تحت اپنے پیشہ ورانہ کاموں سے کام رکھنا ھے نا کہ صدرِ مملکت اور وزیرِ اعظم کی طرع براہ راست عوام کو بیان دینا اور اپنی دفاعی پالیسیز بیان کرنی اور وہ بھی امریکہ کے خلاف جس کی منشاء اور مرضی کے بغیر ہمارے جنرلوں کی ترقی تک نہیں ہوتی اور پاکستان کی افواج کا چیف تو امریکہ کی مرضی کے بغیر بن ھی نہیں سکتا۔ تو پھر یہ بیان ؟ چہ معنی دارد ؟ ۔
ہمیں یہ بھی علم ہے کہ زرداری بھی وہیں سے پاکستان کی صدر بنائے گیے ہیں جہاں سے ہمارے آرمی کے چیف بنائے جاتے ہیں ۔ اور ہمیں پیپلز پارٹی یا مسلم لیگ سے غیر ضروری طور پہ ہمدردی بھی نہیں ۔ اس بات کا بھی علم ہے کہ این آر او نامی قومی مفاہمت جسے مشرف نے امریکہ کہ کہنے اور اپنے اقتدار کو طول دینے کے لئیے قانون کا حصہ بنا دیا ۔ جسے اردو میں قومی مفاہمت کا منافقانہ نام دیا گیا ۔اس این آر او میں صرف بے نظیر اور زرداری ہی شامل نہیں بلکہ اسمیں بہت سے لوگوں نے گنگا اشنان کیا ہے اور پوتر ہوئے ہیں۔ کھربوں روپے ڈکار لئیے بغیر ہضم کر گئے ہیں ۔ اور بے نظیر بھٹو اور زرداری کے ہاتھوں پاکستان کے لوٹے گئے ڈیڑھ سو ارب روپے بخشنے کے لئے ایک مخصوص دورانیے کے درمیان جتنے لوگوں نے پاکستان کے اثاثوں کو لُوٹا کھسوُٹا اور کھربوں کی بندر بانٹ ۔ ان سب کو یک بہ جنبش قلم معاف کر دیا گیا۔ بلکہ پاک صاف ، مقدس اور عزت مآب قرار دے دیا گیا ہے ۔ اور ستم ظریفی کہ انھیں پھر سے ہمارا حکمران بھی مقرر کر دیا گیا ۔ چور سادھ اور سادھ چور قرار پائے۔
مگر پاکستان میں جمہوری حکومتیں خواہ وہ کتنی ھی لنگڑی لولی جمہوریت کیوں نا ہو ں ۔ فوجی ڈکٹیروں اور سول آمروں کی طرع امریکہ کے ایک اشارے پہ ریشہ خطمی نہیں ہوتیں ، کیونکہ عوامی حکومتوں کی جڑیں عوم میں ہوتی ہے اور عوام کے دباؤ کے پیشِ نظر انہیں ملکی مفاد کا سودا کرتے ہوئے ہزار بار سوچنا پڑتا ہے ۔ جبکہ پاکستان میں ڈکٹیرز کی طاقت کا مبنع عوام کی بجائے امریکہ و برطانیہ رہے ہیں ۔ کیونکہ ڈکٹیرز اور خاصکر پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹرز عوامی خواہشات کے برعکس عوام کے نمائیندوں کو جیلوں میں ڈال کر یا پھانسی سولی چڑھا کر اقتدار میں آتے ہیں ۔ اسلئیے انہیں عوام کے دباؤ اور عوامی و قومی مفاد سے کوئی غرض نہیں ہوتی ۔اسمیں کوئی شک نہیں کہ جمہوریت آسمان سے اترا کوئی صحیفہ نہیں لیکن اگر یہ جمہوری سلسلہ چلتا رہتا ہے تو ایک دن اہل قیادت ابھر کر سامنے آجائے گی ۔ عوام ترقی کرینگے اور پاکستان بھی باعزت اقوام میں اپنا جگہ بنا لے گا اور جو پاکستان کی نصیب میں لکھا جا چکا ہے ۔ ورنہ دوسری صورت میں پاکستان کی ساٹھ سالہ تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ سوائے جوتم پیزار ہونے کے ہمارے ہاتھ کچہ نہیں آیا اور عزتِ سادات بھی ھاتھ سے جاتی نظر آتی ہے ۔ جبکہ انتہائی غریب ممالک نے جمہوریت کو اپنا کر نیچے سے اوپر کوترقی کی ہے اور شہریوں کو مساویانہ مواقع کو ہی جمہوریت کہا جاتا ہے۔
اسلئیے ہم سمجھتے ہیں ہمیں ہمیں کارگل کے ہیرو قرار دئیے جانے والے اور بعد میں قومی عذاب کی صورت مشرف کا تجربہ یاد رکھتے ہوئے کسی نئے ہیرو جنرل کے ہیرو بیان سے چوکنا رہنا چاھیے کہ امریکہ نے کبھی نہیں چاہا کہ مسلم ممالک میں جمہوریت نپے اور ترقی ہو اور خوشحالی آئے – ہم نے جب بھی دہوکا کھایا تبھی جنریلوں کی حکومت تھی ۔ وہ 1965ء انیس سو پیسنٹھ کی جنگ اور معائدہ تاشقند ہو ۔ مشرقی پاکستان کا المیہ ۔ یا مشرف کی کشمیر پالیسی ۔ یہ سب جنرلوں کا شاخسانہ ہے اور تمام جنرل امریکہ کے سامنے دم مارنے کے جرآءت نا کرسکے ۔ یہ امریکہ کے کہنے پہ آتے جاتے رہے اور عوام کو جواب دہ نہیں تھے ۔ جبکہ ذوالفقار علی بھٹو پہ بھی سول آمر ہونے الزام تھا مگر اسکی جڑیں عوام تھیں اور وہ سولی پہ جھول لینا منظور کر لیا۔ مگر پاکستان کو ایٹمی بنانے سے پیچھے نا ہٹا ۔ نواز شریف کی حکومت بھی مثالی نہیں تھی مگر اس نے اپنی حکومت لٹا دی مگر ایٹمی دہماکے کر کے پاکستان کو دنیا کی پہلی اسلامی ایٹمی طاقت بنا دیا ورنہ امریکہ کے غولِ بیابانی کب کے پاکستان چر گئے ہوتے ۔ یہ عوامی دباؤ ہی ہوتا ہے جو صرف جمہوری حکومتوں میں ہی اپنے منصب سے پیچھے نہیں ہٹنے دیتا ۔اور یہ تو ہم بھی جانتے ہیں کہ اب ہماری باری ہے کہ امريکہ سے دشمن تو محفوظ رہ سکتا ليکن دوست نہيں ۔ اب شاید امریکہ کو کسی نئے مشرف کی ضرورت ہے ۔ اور ایسے میں جنرل کیانی کا بیان کچھ اور اشارے دیتا ہے پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے ۔ لوگو ہوشیار رہنا۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
امریکی میڈیا میں اعلی عہدیداروں کے بیانات اور ٹاک شوز سے ایسا محسوس ہورہا ہے کہ اب کی بار انہوں نے تمام معاہدے اور زبانی جمع خرچ بالائے طاق رکھتے ہوئے پاکستان کی سرحدوں کے اندر کاروائی کا پورا ارادہ کرلیا ہے۔۔ میرا تو ذاتی خیال یہی ہے کہ پاک فوج اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ امریکی اور اتحادی افواج کو روک سکے اور جیسا کہ آپ نے کہا کہ وزیر اعظم، صدر اور آرمی چیف متضاد بیانات دے رہے ہیں اس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ یہ تمام باتیں اندرون ملک غصہ کو کم کرنے کے لیے ہیں اور اندرونی طور پر ایک غلام ملک نے وہی کیا ہے جو ایک غلام ملک کو کرنا ہوتا ہے۔ یعنی اپنے لوگوں سے بد عہدی اور آقا کے حکم کی پاسداری۔
جب ظلم کی حد بڑھ جاتی ہے اور حق کی صدا دب جاتی ھے
تب قھر خدا غصہ ہو کر کر
کہتا ھے کہ بدلہ ھم لینگے
جاوید بھائی بہت خوب کیا حقائق سے بھرپور تبصرہ کیا ہے۔پہلی بار لگے لپٹے ایک طریقہءواردات سامنے لائے ہیں
کسی کو مسلط کرنے سے پہلے اسکو ہیرو بناکر پیش کیا جاتا ہے تاکہ جب تک لوگ اسکو پہچانیں وہ اپنا کام کر جائے حتۃ کہ بعد میں بھی بہت سے لوگ اسکو ہیرو ہی جانتے ہیں
اگر آپ کمال پاشا ترک کی کنہانی پڑہیں تو بے انتہاءمماثلت پائیں گے ظالم مشرف کی ساری واردات کے ساتھ ۔ اسکو بھی پیلے جعلی طریقے سے ہیرو بنایا گیا۔ یہ نفسیاتی حربہ قوم کے اعتماد کیلیئے لازمی ہو تا یے ۔الطاف حسین ، ضیاءالحق یا اسی ٹائپ کے کسی آدمی کو لے لیں
آپ نے غور کیا کہ کس طرح بڑے نیک نام صھافی کیانی کو ہیرو بنا رہے ہیں؟
اللہ پاک فرماتے ہیں ہم کچھ لوگوں کے اعمال انکے لیئے خوش نما بنا دیتے ہیں
بس یہ قوم فروش سب اپنے آپ میں مگن اپنا کام کیئے جارہے ہیں
اللہ پر ایمان بنائیں ، بھلا ان بتوں سے کیا امید لگانی
احمد بھائ یقینا آپ درست فرماتے ہیں ہم کو اپنے اعمال کی نگہبانی کرنی چا ہیے اس ظالم دنیا کے حکام نے نبیوں تک کی بے حرمتی کی لیکن ان کا انجام بالآخر دنیا نے دیکھ لیا ایک حاکم پرویز نے آپکا مکتوب گرامی چاک کیا تھا تو آج ایک پرویز نے لال مسجد مسجد میں قرآن حدیث کے کتنے نسخوں کو شھید کر دیا اور اب ایک اور پرویز ……..پرویز قادیانی (کیانی)
اللہ غارت کر ظالموں کو
Leave A Reply