گوانتا ناموبے جیل کے قیدی نمبر تین سو چھ کی یاداشتیں پڑھ کر ہر سچے پاکستانی کا سرشرم سے جھک جاتا ہے کیونکہ ملا عبدالسلام ضعیف کی تذلیل بگرام سے نہیں بلکہ اسلام آباد اور پشاور سے شروع ہوئی تھی۔
ملا عبدالسلام ضعیف نے اپنی کتاب کا آغاز ایک خواب سے کیا ہے۔ پاکستان میں گرفتاری سے چھ دن قبل انہوں نے خواب دیکھا کہ ان کا بڑا بھائی ہاتھ میں چھری تھامے آیا اور انہیں کہا کہ وہ ذبح ہونے کیلئے تیار ہوجائیں۔ ضعیف نے بھائی کو بہت سمجھایا لیکن بھائی انہیں ذبح کرنے پر بضد تھا۔ آخر کار ضعیف اس خیال سے زمین پر لیٹ گئے کہ بھائی کے دل میں رحم آجائے گا لیکن بھائی نے ان کے گلے پر چھری پھیر دی، اس خواب نے ضعیف کو پریشان کردیا۔ چھ دن کے بعد 2جنوری 2002 کو ملا عبدالسلام ضعیف کو اسلام آباد میں گرفتار کیا گیا۔ سیاہ رنگت والے ایک بھاری بھرکم فوجی افسر نے ضعیف سے کہا کہ امریکہ ایک بہت بڑی طاقت ہے، کوئی اس کا حکم ماننے سے انکار نہیں کرسکتا۔ امریکہ کو پوچھ گچھ کیلئے آپ کی ضرورت ہے لہٰذا آپ کو ہمارے ساتھ چلنا ہوگا۔ ضعیف نے اس سیاہ رنگ شخص سے بحث شروع کردی لیکن اس ”فہیم“ شخص سے بحث کا کوئی فائدہ نہ ہوا۔ ضعیف کو گرفتار کرکے پشاور لے جایا گیا۔ تین دن کے بعد انہیں آنکھوں پر پٹی باندھ کر ایئرپورٹ لے جایا گیا جہاں ایک ہیلی کاپٹر تیار کھڑا تھا۔ پاکستانی حکام نے اپنے قیدی کو جیسے ہی امریکیوں کے حوالے کیا تو انہوں نے ملا عبدالسلام ضعیف پر لاتوں اور گھونسوں کی بارش کردی۔ پھر چاقوؤں سے اس باریش قیدی کے تمام کپڑے پھاڑ دیئے گئے اور زمین پر الٹا لٹا کر مارا گیا۔ تشدد کے دوران ضعیف کی آنکھوں پر بندھی پٹی اتر گئی تو انہیں نظر آیا کہ ایک طرف قطار میں پاکستانی فوجی اور ان کی گاڑیاں کھڑی تھیں اور دوسری طرف امریکی انہیں بے لباس کرکے مار رہے تھے۔ ضعیف لکھتے ہیں کہ ”ان لمحات کو میں قبر تک نہیں بھول سکوں گا۔“
پشاور سے بگرام لے جاکر ملا عبدالسلام ضعیف کو بغیر کپڑوں کے برف پر پھینک دیا گیا اور امریکہ کی فوجی خواتین ایک بے لباس مسلمان کے سامنے کھڑے ہو کر تین گھنٹے تک گانے گاتی رہیں۔ بگرام میں کئی دن کی مار پیٹ کے بعد ضعیف کو قندھار بھجوایا گیا۔ قندھار میں ایک دفعہ پھرضعیف اور دیگر قیدیوں کو ننگا کرکے سب کی تصاویر لی گئیں۔ایک دن قندھار جیل میں ضعیف نماز فجر کی امامت کروا رہے تھے جیسے ہی وہ سجدے میں گئے تو ایک امریکی فوجی ان کے سر پر بیٹھ گیا۔ یہ نماز ضعیف کو دوبارہ پڑھنی پڑی۔ اپنی کتاب میں ملا عبدالسلام ضعیف لکھتے ہیں کہ امریکیوں کو جلد ہی معلوم ہوگیا کہ ہم ہر قسم کا تشدد برداشت کرلیتے ہیں لیکن قرآن مجید کی توہین برداشت نہیں کرتے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ قندھار جیل میں امریکی فوجی (نعوذباللہ) قرآن مجید پر پیشاب کرکے اسے ردی کی ٹوکری میں پھینک دیتے تھے اور قیدی یہ منظر دیکھ کر روتے تھے۔ آخر کار قیدیوں نے اپنے تمام قرآن اکٹھے کرکے ہلال احمر کو دے دیئے تاکہ ان کی توہین نہ ہو۔ عبدالسلام ضعیف نے اپنی یادداشتوں میں لکھا ہے کہ قندھار جیل سے انہیں گوانتا ناموبے جیل منتقل کیا گیا اور بد قسمتی سے یہاں بھی قرآن مجید کی توہین کا سلسلہ جاری رہا۔ اس امریکی جیل میں ساڑھے تین سالہ قید کے دوران کم از کم دس مرتبہ قرآن مجید کی توہین ہوئی۔ ضعیف کے بقول ”امریکی قرآن کی بے حرمتی کرکے مسلمانوں کو یہ پیغام دیتے تھے کہ تم ہمارے غلام اور تمہارا دین و قرآن ہمارے لئے قابل احترام نہیں۔“
گوانتا ناموبے جیل میں امریکی فوجیوں کے ظلم و زیادتی کے خلاف ملا عبدالسلام ضعیف نے کئی مرتبہ بھوک ہڑتالیں کیں۔ ایک سے زائد مرتبہ کرزئی حکومت کے نمائندے انہیں ملنے جیل آئے اور مشروط رہائی کی پیشکش کی، ضعیف انکار کرتے رہے۔ آخر کار انہوں نے خود ایک تحریر لکھی… ”میں مجرم نہیں ہوں، میں نے کبھی کوئی جرم نہیں کیا، ایک مظلوم مسلمان ہوں جس کے ساتھ پاکستان اور امریکہ نے ظلم کیا اور چار سال قید میں رکھا میں یقین دلاتا ہوں کہ امریکہ کے خلاف سرگرمیوں میں حصہ نہیں لوں گا۔“ اس تحریر کے بعد انہیں رہا کرکے کابل بھیج دیا گیا اور ایک سرکاری گیسٹ ہاؤس تک محدود کردیا گیا۔ یہاں ملا عبدالسلام ضعیف نے خفیہ طور پر اپنی یاداشتیں سپرد قلم کیں اور ایک دوست کی مدد سے کتابی صورت میں شائع کروا دیں۔
نوٹ: یہ تحریر حامد میر کے کالم سے ماخوذ ہے۔
16 users commented in " ملا عبدالسلام ضعیف کی روداد "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاگر ہمالیہ اٹھ کر اپنے قد سے بڑھ کر ہم پہ ملامت کردے تو بھی کم ہوگا۔مشرف اور مشرفی جرنیل ننگِ وطن ۔ ننگِ دین ۔ ننگِ ملت ہیں۔ مشرف ۔ مشرفائی جرنیلوں اور ہمنواؤں پہ پاکستان سے غداری کا مقدمہ چلایا جانا چاہیئے۔
ملا ضعیف کا خواب سچ معلوم ہوتا ہے لیکن بڑے بھائی کے بجائے والد صاحب کو خواب میں دیکھنا چاہیے تھا کیونکہ سابق وزیر داخلہ کے مطابق “طالبان انکے یعنی فوج کے بچے تھے“ ۔۔ یہ بیان ریکارڈ پر ہے۔۔ لیکن سوال یہ ہے کہ فوج کی سزا جس نے انکو دغا دیا پاکستانی اور افغانی عوام کو کیوں دے رہے ہیں؟ وہ تو خود فوج کے ہاتھوں تنگ ہیں۔
قابل احترام جناب جاوید صاحب صحیح فرماتے ھیں مگر افسوس کہ شاید ایسا نہ ہو سکے
راشد کامران صاحب اس بے چارے پیر فقیر نے اپنا دکھڑا لکھ کرکونسا آپ پر یا آپکے گھروالوںپر ظلم کردیا کیا اب اتنا بھی کسی مسلمان کو حق نہیں کہ وہ اپنے زخموں پر آہ بھر سکے آپکو ھم نے ہمیشہ مسلمانو پر نقطہ چینی کرتے ہی پایا ھے
اگر یہی برتاؤ آپکے والد صاحب کے ساتھ کیا گیا ھوتا اور وہ آپکودکھڑا سناتے تو کیا آپ ان سے بھی یہی کہتے
ایک مظلوم کی آھوں کا اس طرح سے مذاق اڑانا آپکو بہت مہنگا پڑ سکتا ہے .
اللہ ہم سبھی کو تمام گناہوں سے توبہ کی توفیق عطافرما اور صراط مستقیم پر گامزن فرما
مفکر ملت گوندل صاحب آپکے جزبات قابل قدر ھیں
اور راشد صاحب لگتا ہے آپکی ضعیف صاحب سے کوئ قدیمی رنجش ہے آپنے تو خدا کو بھی نہ بخشا خواب بھی آپکے نزدیک قابل تمسخر ہے آپ نے اتنے مظالم سننے بعد بھی امریکا کو حرف غلط کی طرح بھی کچھ کہنے کے بجاۓ الٹا مظلوم مسلمان کوہی مورد الزام اورظالم ٹھرادیا
ویسے مرزاجی کے نزدیک توامریکی حکومت حکومت الہیہ ھے ہی
عاصم صاحب میری ذاتی رنجش ہے۔۔ کیونکہ آپ مجھے ان لوگوں کی آواز سمجھیے جو اپنی کتابیں لکھ سکتے ہیں اور نہ جن کو خواب آتے ہیں۔۔ یہ وہ لوگ ہیں جن پر انہی طالبانی حکومت نے ظلم کے پہاڑ توڑے اور جب عنان مملکت ان کے ہاتھ میں تھی ڈنڈے کے زور پر بربریت کو اسلام کا نام دیا۔۔ اگر مسلمان سے آپ کی مراد طالبان ہے تو آپ نے درست کہا میری طرف سے طالبانی فکر اور ملائیت کے شیدائیوں پر تنقید ہی ہے۔
کامران صاحب آپ کی کسی سے ذاتی دشمنی ھے یا آپ ظالموں کی آواز ہیں تو ہمارا کیا بگاڑ رھے ہیں خود ہی ظلمت کے گڑھے جارہے
آپکے غصہ کی شدت کا پتہ آپکی تحریر دے رہی
اپنے اوپر کنٹرول رکھیں آپ عالیجناب جاوید گوندل صاحب کا قیمتی تبصر پیچھے کی پوسٹس پر پڑھ لیں تو انشاءاللہ تمام شکوک و شبہات دور ھوجائنگے دراصل یہ کارروائیاں شدت پسند ھندو تربیت یافتہ کارکنان کی کارستانی ہے ابھی کچھ دن پہلے ھندوستان میں ایک شدت پسند تنظیم کے کی کارکنان کو بم بلاسٹ کے سلسلے میں پکڑا گیا ھندوستان میں بھی آۓ دن بم بلاسٹ ہوتے رھتے ہیں جسکا مقصد مسلمانوں کوبدنام کرنا ھوتا ہےوہاں پر جتنے مسلمان پکڑےجاتے ھیں انکے خلاف کوئ ثبوت تک نہیں اور ہندو کے خلاف ثبوت بھی نظرانداز کردیۓ جاتے ہیں ھندو شدت پسندو کے دفتر سے نقلی ڈاڑھی ٹوپیاں تک برآمد ھوئ ہیں آپ ھندوؤں یہودیوں عیسائیو سے بغض رکھیں جو پاکستان کوبرباد کرنے پر جی جان سے جٹے ہیں
عبدالسلام ضعیف تو کسی بھی پاکستان مخالف تحریک میں ملوث نہیں تھے اور یہاں تک کہ انہوں نے آپکے امریکا کے خلاف بھی کبھی ھتیار نہیں اٹھایا انہوں نے اپنے خط میں بھی یہ عہد کیا ھے قرآن پر پیشاب کرنے والے ہی پاکستان پر حملہ کر رہے ہیں جو اوپر سے حملہ وہی نیچے سے کرر ہےہیں پاکستان میریٹ ھوٹل پر حملہ ھو یا لال مسجد پر راکٹ اور گولی باری یہ سب قرآن پر پیشاب کرنے والوں کا کارنامہ ھے
اور جیسا کہ آپکو ملا سے نفرت ہے تو یاد رکھیۓ میرے نبی بھی ملا تھے آپ کا یہ جملہ آپکا کردار عیاں کر رھا ھے کہ آپکو نبی سے بھی نفرت ہے صحابہ سے نفرت ھے نبی کے فرمان سے نفرت ھے نبی کے لباس سے نفرت ہے امریکا آپکا خدا ہے اس کا ھر کام آپکو پسند ھے دراصل آپ بھی انہیں یہود کےہی کارکن معلوم ھوتے ھیںجوپاکستان کوبربادکررہےہیںاورآپ کے ذمہ بھی لوگوں کےذہن کوزہرپا کرنےکی خدمت آئ ہے ملاسےمسلمان کو متنفر کرنے کی خدمت آپ کررھےکیونکہ ملا بہت بڑا روڑہ ھے یہودکےراستےکا
ملابہت بڑا روڑہ ہے عیسائت اور قادیانیت کے پھیلاؤمیں ملا باقی اسلام باقی ملا گیا اسلام گیا
علا مہ اقبال نےکیاخوب کہاتھا
افغانیوں کی غیرت دینی کا ہےعلاج
ملاکوانکےکوہ دمن سےنکال دو
بہت خوب ….. آپ تو کامران ہو گۓ یہودیت کے تاج سے انکو توآپکی پوجا کرنی چاہیۓاگرایک بھی آپکے کہنےملاسےمرتدھوجاۓ تو کیونکہ ملا رھیگا تواسلام رھےگا
خیر لگےرھو منابھائ پڑے رہو ملا کے پیچھے
محترم قارئین
ایک بات یاد رکھیے بحث مباحثے کے دوران جذبات کی رو میں بہنے سے گریز کیجیے۔ اگر آپ جذبات میںآگئے تو پھر آپ معاشرے میںتبدیلی نہیںلا سکیں گے۔ کوشش کیجئے صرف دلائل سے دوسرے کو قائل کریں۔ اگر تو تو میںمیں کی تکرار شروع ہو گئی تو پھر کچھ حاصل نہیں ہو گا۔
ہم مسلمانوںکا المیہ یہی ہے کہ ہم دل کی بجائے جذبات سے زیادہ کام لیتے ہیں۔ اسی جذباتی پن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے سنا ہے امریکیوںنے چن چن کر اپنے مخالفین عراقیوںکو مارا ہے۔ عربیوں سمیت عراقیوںکو اگرکوئی ہیجڑہ کہ دے تو وہ مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں۔ امریکی جب بھی دیکھتے کہ عراقی اس علاقے میںچھپے ہوئے ہیںتو انہیںہیجڑہ کہ کر للکارتے اور جب وہ جذباتی ہو کر مورچوں سے باہر نکلتے تو امریکی انہیں بھون کر رکھ دیتے۔
موجودہ حالات میںتو ایک سمجھدار اور عقل مند مسلمان کیلیے بہت ضروری ہو چکا ہے کہ وہ دماغ کی بجائے عقل کا استعمال زیادہ شروع کردے۔ آگے آپ کی مرضی۔
میں افضل صاحب کی بات سے متفق ہو یقینا ہم کو دور اندیشی کے ساتھ چلنا چاھیۓ یہاں پر کوئ کتنا ھی جزباتی ھو جاۓ کیا ہوتاھے حالانکہ ایسی باتوں پر تومسلمان کےجزبات ابلنا فطری بات ہے لیکن پھر بھی میں بھائیوں سے عرض کرنا چاہونگا کہ جزبات میں آکرکچھ کہنا اتنا موزوں نہیں جتنا صبر کرکے اللہ سے کہنا لوگوں نے تو نبی کو بھی گالیاں دی پتھر مارے گالیاں دیں ظلم ڈھاۓ اھل حق کو برا کہنے والے تو ہمیشہ رہے اور رہینگے لیکن کیا فرق پڑتا ھے آسمان پر تھوکنے والا اپنے اوپر تھوکتا ھے آپ کیوں الجھ کر اپنا وقت ضائع کرو اس وقت میں کوئ اور دین کا کام لوگوں کو کلمہ نماز وغیرہ سیکھنے سکھانے میں لگو جس سے دین کا بقا ہو
اب اس بحث کو آگے نہ بڑھائں تو بہتر ھوگا جسے اللہ گمراہ کردے اسے کوئ ھدایت نہیں کرسکتا
اے اللہ مجھے اور تمام مسلمانوں کوصراط مستقیم پرگامزن فرما اور گمراھی سے بچا آمین
راشد کامران،
ڈرو اللہ سے، ایسا نہ ہو کہ جن کی نمک حلالی کررہے ہو، اللہ تمہیں قیامت کے دن انہی کے ساتھ کھڑا کردے۔
افضل صاحب معذرت چاہتا ہوں کہ تھوڑا تندو تلخ ماحول پیدا ہوا لیکن بہر حال دونوں نکتہ نظر پیش کیے جانے چاہیے۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ “مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے“ کسی صاحب نے معلم کی جگہ “ملا“ کا لفظ استعمال کیا ہے میں نے لغت چیک کی ہے ملا اور معلم ایک دوسرے کے متبادل نہیں ہیں ۔۔ آزادی اظہار رائے اپنی جگہ لیکن اس میں توہین کو پہلو نکلتا ہے۔
آج کی خبر ہے کہ موصوف پاکستانی حکومت کے خلاف ہتک عزت کا دعوی کرنے جارہے ہیں
میرا خیال ہے ہماری حکومت کو ان سے معافی مانگ لینی چاہیے
اللہ کا شکر ہے میری یہ بات بڑی تیزی سے پوری ہورہی ہے کہ ہر شخص بے نقاب ہوگا ہر ایک کا کینہ اور بغض سامنے آرہا ہے
افسوس کہ ہم نے موت کو بھلا دیا وہ دنیا جس کو خالق خود دھوکہ کا گھر کہ رہا ہے اسکو سب کچھ سمجھ لیا
آج اگر تقیہ نہ ہوتا اسلام کے پردے میں رہ کر یہ تبراء بازی بھی نہ ہوتی میں بہت حیران ہوتا ہوں کہ اللہ نے عبداللہ بن سباء کو کیا زہن خبیث دیا تھا
دوستو اسلام لانا بھی مشکل اور عمل بھی مشکل، آپ پر پتھر بھی آئیں گے گالیاں سب کچھ ہوگا مگر یاد رکھو دنیا کی زندگی بہت تھوڑی ہے جیسے بھی گزرے مگر آخر بھی جن کے ساتھ جگہ ملے وہ داہنے ہاتھ والے ہوں
راشد کیوں خدا سے جنگ کرنے پر تلے ہو اللہ کی پھٹکار سے ڈرو ایک دن اسی پاس جاؤگےپھر وہاں کوئ تمہارا مددگار نہ ھوگا ملا سے اگر نفرت ہے تو کیا عیسائ پوپ سے محبت ہے یا کسی مورتی کے سامنے جھکے ہوۓ مشرک پنڈت جی سے دل لگ گیا ہے ؟؟؟
یہ دین جو آج باقی ہے ملا کے ذریعہ ہی باقی ہے کیا امام بخاری ملا نہیں تھے کیاملا علی قاری ابوداؤد امام مسلم امام تمذی حطیب بغدادی ابوللیث سمرقندی حسن بصری ملا نہیں تھے جن کے ذریعہ یہ قرآن و حدیث مسلمانوں تک پہنچا ملا سےنفرت کی وجہ سے ہی آپکو قرآن سے نفرت ہے ملا سے نفرت کی وجہ سے ہی آپکو نبی کے فرمان سے نفرت ہے
امام احمد بن حمبل شہید ھو گۓ مگر ظالموں کے سامنے نہیں جھکے قرآن کے احکامات پہنچانا نہیں چھوڑے ھاں یہ ملا اپنی جان کی پرواہ نہیں کرتا جان چلی جاۓ لیکن اللہ کا کلام پر آنچ نہ آۓ
راشد اپنی بلاگ پر بھی یہودیت اور عیسائیت کی تعریف کرتے نہیں تھکتا اور ملا سے اسے بغض ہے جو ملا سے بغض رکھے ملا کے پیچھے نماز پڑھنے والوں سے بغض رکھے ملا کے حدیث قرآن پڑہانے پر بغض رکھے وہ کم از کم مسلمان تو نہیں ہو سکتا خواہ نام کوئ بھی رکھ لے
پی سی چپکو تعلیم سے شغف رکھے نبی کے فرمان سے بغض رکھےچند ٹیگز اور معمولی سی کمپیوٹرکی لا یعنی درجہ کی تعلیم حاصل کرکے اپنے آپکوعلماء سے بھی برتر خیال کر اٹھے انکو گالی دینا حلال کر اٹھے کیا ایسا شخص مسلمان ہو سکتا ہے ہاں مرزائ ضرورایسے ہی ہوتے ہیں کیونکہ ملا انکی دال نہیں گلنے دیتا یہ صرف وہیں حاوی ہو پاتے ہیں جہاں کوئ ملا ۓ حق نہ ہو ورنہ ادھر ملا آیا ادھر قادیانی کے پیٹ میں پانی ہوا کئ جگہو پر دیکھا عیسائیوں نے سروے کراکر کے مرزائیوں وہا ہی بھیجا جہاں ملا ناپید تھا اور جب ملا آیا تو پھر انکی دال نہ گل سکی راشد تمہاری اسلام دشمنی ہم سمجھ رھے ہیں آپ کیا آپ کے مذھب کا ھر رکن اسلام سے بغض رکھتا ہے
واہ واہ، کیا ملائیت کے مظاہرے ہو رہے ہیں۔ اور یہ انکشاف بھی سننے کو ملا ہے کہ رسول اللہ ملا تھے۔ بات بات پر توہین رسالت کے نعرے لگا کر دہرے ہونے والوں کو کیا یہاں توہین رسالت نظر نہیں آتی؟
راشد کامران نے طالبان کے متعلق بالکل درست لکھا ہے۔ طالبانیت اور جاہلیت ایک دوسرے کے مترادف ہیں۔
اب دیکھتے ہیں کہ فتوے بازوں کے ہمارے بارے میں کیا فتوے آتے ہیں۔ 🙂
Leave A Reply