جب ہماری عمر تیرہ سے سولہ برس تھی تو ہماری روٹین کچھ اس طرح ہوا کرتی تھی۔ صبح صبح اٹھنا، فجر کی نماز پڑھنا اور پھر کھلی فضاؤں میں دوستوں کیساتھ صبح کی سیر کیلیے نکل پڑنا۔ نہر کے کنارے دوڑ لگانا اور لمبی لمبی سانسیں لے کر تازہ ہوا سے پھپپھڑوں کو ورزش کرانا۔
گھر آکر نہانا، والدہ کے ہاتھوں سے پکا پراٹھا مکھن کیساتھ کھانا اور ایک گلاس دودھ پی کر ڈکار مارنا۔ اس کے بعد کتابیں پکڑنا اور ایک حجام کے پھٹے کے پاس دوستوں کا انتظار کرنا۔ ہم سب نے ملکر سکول کی طرف مارچ کرنا اور پندرہ بیس منٹ کی مسافت میں کھیل اور پڑھائی پر گفتکو کرتے رہنا۔ سکول پہنچ کر کتابیں ڈیسک پر رکھنا اور دوستوں کیساتھ چھپن چھپائی یا ایسا ہی کوئی اور کھیل کھلنا شروع کر دینا۔ کبھی کبھار سکول میں لگے باغ کے کنارے کنارے چل کر چوری چھپے ایک دو آم یا امرود توڑ کر مزے سے کھانا۔
پھر سکول کی گھنٹی بجتے ہی حاضری لگوانے کے بعد استاد کی سرپرستی میں قطار میں گراؤنڈ میں پہنچنا، تلاوت سننے کے بعد، ملکر دعا پڑھنا اور اسلامیات کے استاد کی دعا پر آمین کہنا۔ ہیڈماسٹر کی دو چار ضروری باتیں سننے کے بعد ساری جماعتوں کا بینڈ کی دھن پر مارچ کرتے ہوئے گراؤنڈ کا چکر لگا کر کلاسوں میں چلے جانا۔
پہلے چار پیریڈز میں پڑھائی کرنا، مار کھانا اور استادوں سے مزے مزے کی باتیں سننا۔ کبھی کبھی جب بور ہو جانا یا ہوم ورک نہ کیا ہونا تو پھر پیٹ درد کا بہانہ کر کے سکول کی ڈسپنسری سے دوا لینے چلے جانا۔ ہومیوپیتھک ڈاکٹر سے میٹھی گولیاں لیکر ایک ہی دفعہ ہڑپ کرنے کے بعد واپس آنا۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا تھا کہ پی ٹی ماسٹر نے ادھر آ دھمکنا، کچھ مریضوں نے تو انہیں دیکھ کر ہی دوڑ لگا دینی اور کچھ کو پی ٹی صاحب نے ڈنڈے مار کر بھگا دینا۔ اس وقت مریضوں کی جو دوڑ لگتی تھی اسے دیکھ کر اتنا ہنسنا کہ ہنس ہنس کر پیٹ میں بل پڑ جایا کرتے تھے۔
سکول سے چھٹی کے بعد گھر آتے ہی روٹی پر ٹوٹ پڑنا۔ کھانے کے بعد والدین کے اصرار پر تھوڑا آرام کرنا اور کبھی کبھی والدین سے آنکھ بچا کر باہر بھی نکل جانا۔ سہ پہر کو عصر کی نماز کے بعد ہاکی کی پریکٹس کرنا اور مغرب کی نماز پڑھنے کے بعد کچھ دیر مسجد کے باہر کھڑے رہ کر حالات حاضرہ پر تبصرہ کرنا۔ کبھی کبھی ادھر ہی عشاء کا وقت بھی ہو جایا کرتا تھا اور عشاء پڑھ کر گھر آیا کرنا۔ جس دن روحی بانو یا طاہرہ نقوی کا ڈرامہ لگنے کا دن ہوتا تھا اس دن ہم مسجد جانا بھی بھول جایا کرتے تھے۔
رات نو بجے کی خبریں سن کر سونا اور جس دن پاکستانی فلم کا دن ہونا اس دن ساری فلم دیکھ کر سویا کرنا۔ گرمیوں میں صحن میں سونے کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتا تھا۔ اس دن کچھ زیادہ ہی مزہ آیا کرنا جب رات کو بارش شروع ہو جانی اور ہم نے چارپائی سے نہ اٹھنے کی قسم کھا لیا کرنی کیونکہ والدین جب ہماری چارپائی اٹھا کر برآمدے میں لے جایا کرتے تھے تو اس کا جو مزہ آتا تھا وہ بعد میں لمبی ڈرائیو کا بھی نہیں آیا۔
اب جب ہم پچھلے کئی برسوں سے ایک ہی روٹین کیساتھ کام کر کر کے اکتا جاتے ہیں تو ہمیں وہ دن بہت یاد آتے ہیں اور معلوم ہونے کے باوجود کہ وہ دن لوٹ کر نہیں آئیں گے پھر بھی ان دنوں کے لوٹ آنے کی خواہش کرتے ہیں۔ کیونکہ تب نہ بم دھماکے ہوتے تھے، نہ راہ چلتے کوئی لوٹ لیا کرتا تھا، نہ گاڑیوں کی بھرمار تھی، نہ سکول بنجر تھے اور نہ سیل فون اور کمپیوٹر تھے۔ ہر کسی کے پاس وقت ہی وقت تھا اور اتنا وقت تھا کہ یار دوست بہت سارا وقت اکٹھے گزارا کرتے تھے۔
6 users commented in " کاش وہ وقت پھر لوٹ آئے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعمر کے اس دور میں میر ی دعا ہوتی تھی کہ الے مجھے جلدی سے بڑا کردے۔
اور اب اس دعا پر افسوس ہوتاہے۔
پتہ نہیں کیوں اتنی جلدی قبول ہوگئی تھی
ایک بہت ہی زبردست تحریر جس میں بہت اپنائیت تھی اور پڑھ کراپنا ماضی یاد آگیا۔ صحیح کہتے ہو، وہ دن بہت اچھے دن تھے۔ اللہ پاک اس ملک کو اپنے حفظ و امان میںرکھے۔ آمین۔
بہت عمدہ نقشہ کشی کی ہے ماضی کی۔
بس وہی دن ہوتے ہیں جنکا نام زندگی ہے۔ بعد میں تو ۔۔۔
سلام افضل بھائی
اگر کھبی کسی تحریر کو انعام کیلئے چنا گیا تو آج کی اس تحریر کا بہت زیادہ چانس ہے
آپ نے ثابت کردیا آپ بابائے اردو بلاگنگ ہیں
میں نے اردوبلاگنگ کا میرا پاکستان سے تبصرہ پہلی بار اردو میں یہیں لکھا اور باقی سب سے جان پہچان بھی یہیں ہوئی
دل کو چھو لینے والی تھریر جیسے کسی پطرس بخاری نے لکھی ہو
Leave A Reply