بی بی سی کی ایک خبر کے مطابق اسلام آباد کے گرین ایریا میں سور بہت زیادہ ہو گئے ہیں اور اب ان سوروں کو مارنے کی مہم شروع کر دی گئی ہے۔ اسلام آباد کا گرین ایریا ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم پر مشتمل ہے اس کا مطلب یہ ہوا کہ ان دونوں ایوانوں پر آج کل سوروں کا قبضہ ہے۔
گرین ایریا میں گولی چلانے کی اجازت نہیں ہے اسلیے ان دونوں ایوانوں کے سوروں کو زہر دے کر مارنے کی مہم جاری ہے۔ یہاں کے سور اتنے بہادر ہیں کہ ان پر چھوٹا موٹا زہر اثر ہی نہیں کر رہا۔ اچھا ہوتا اگر سور مارنے والے دونوں ایوانوں میں بھی بجلی کی لوڈشیڈنگ شروع کر دیتے تا کہ سور اندھیرے سے ڈر کر بھاگ جاتے۔
جب سے مغربی سفارتکاروں کو سور مارنے کے لائسنس جاری ہوئے ہیں یہ سور گرین ایریا کو سکیورٹی زون کر سمجھ صدارتی ایوانوں میں چھپتے پھرتے ہیں اور کوشش کرتے ہیں کہ مغربی سفارتکاروں کی نظروں میں نہ آئیں۔ کیونکہ جس دن وہ مغربی سفارتکاروں کے ہتھے چڑھ گئے وہ جان سے گئے۔ کچھ سور مغربی سفارتکاروں نے مارنے کی بجائے زندہ پکڑ لیے ہیں اور ان سے نسل بڑھانے کا کام لے رہے ہیں۔
ایک وقت تھا اسلام آباد اتنا صاف ستھرا ہوتا تھا کہ اس پر کسی یورپی ملک کا گمان ہوتا تھا۔ اسے نفسا نفسی اور قومی دولت کی لوٹ میں ملوث ہمارے حکمرانوں نے اتنا گندہ کر دیا ہے کہ سور اس کی گندگی کو چاٹنے سرشام سڑکوں پر نکل آتے ہیں۔ ان سوروں کا تعلق چونکہ گوری چمڑی سے ہے اور لگتا ہے پچھلی حکومت گوری چمڑی کی غلامی میں جانے کے بعد سوروں کے بھی نخرے اٹھانے پر مجبور تھی، یہی وجہ ہے مارنے کی بجائے ان کی پرورش کی گئی تا کہ غیرملکی سفارت کار ان کا شکار کر سکیں۔
یہ سور اتنے ذلیل ہیں کہ انہوں نے دونوں ایوانوں پر قبضہ کرنے کیلیے کسی گندگی کی پرواہ بھی نہیں کی۔ سی ڈی اے کیمطابق سور مارگلہ کی پہاڑیوں سے نکاسی آب کے گندے نالے کے ذریعے ایوان صدر اور ایوان وزیراعظم میں داخل ہو چکے ہیں اور لگتا ہے انہوں نے بھی اگلے پانچ سال کیلیے یہیں ڈیرے ڈال لیے ہیں۔
سی ڈی اے والے کہتے ہیں کہ انہیں سوروں کی تعداد کے بارے میں کچھ علم نہیں ہے کیونکہ ان کا سروے ہی کبھی نہیں ہوا۔ سی ڈی اے والوں سے بھلا کوئی پوچھے کہ کبھی صدارتی ایوانوں کا بھی سروے ہوا ہے جو اب ہو گا۔ یہاں اندر کیا ہوتا ہے یہ صرف سوروں کو ہی پتہ ہے اور وہی جانتے ہیں کہ وہ دن رات کیا کیا خباثتیں پھیلاتے ہیں اور ان کی گندگی کا کتنے لوگ شکار ہوتے ہیں۔
غدار حکمرانوں اور سوروں میں ویسے تو بہت سی چیزیں مشترک ہیں لیکن ایک دو عادتوں کی وجہ سے تو ان میں فرق کرنا ناممکن ہو جاتا ہے۔ یہ دونوں غلاظت کھانے کے شوقین ہوتے ہیں۔ جس طرح سور نہ صرف اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں سورنی کیساتھ اپنا منہ کالا کرتا ہے بلکہ اپنے ساتھیوں کو بھی دعوت دیتا ہے، اسی طرح غدار حکمران بھی اپنی ہی قوم کا سودا کرکے اپنا منہ کالا کرتا ہے۔
12 users commented in " گرین ایریا اسلام آباد کے سور "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبھای میرا تبصرہ کہاں گیا؟
خیر چھوڑیں، اس نے تو سن لی ھوگی جو قادر ہے 🙂
یہ صحیح پلے ہوئے سؤر ہیں گولی شولی کام نہیں کرے گی ان پر۔ یہ مرتے ہیں خود کش بم دھماکوں میں، جو ہم اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہیں۔ اِنہوں نے کھایا ہوا ہے باہر کا گند اور یہاں بھی امپورٹد گند کھاتے ہیں۔ ہماری قوم کا ایسا نصیبا کہاں کہ انکا گند بھی یہ سؤر صاف کریں۔
آپ نے تحریر میں موازنے بڑے عمدہ کیے ہیں 🙂
ہاہاہاہاہاہا
کیا حقائق سے بھرپور پوسٹ ہے
ایک اور لاجواب تحریر
یہ بڑی مزے کی پوسٹ تھی۔ میں پہلے تبصرہ کرنے آیا تھا پر پوسٹ غائب کر دی گئی تھی۔
ہاہاہا ، اور بی بی سی خبر میں یہ لکھا ہے کہ سؤر مارنے کا آغاز ایوان صدر سے شروع کیا گیا ہے ۔
واقعی ان گورے سوروں کو طالبان ہی ٹھکانے لگاتے ہیں ابھی پچھلے اتوار کو طالبان نے افغانستان میں ستائس امریکی سوروں کو گولی مار کر واصل جہنم کیا جنمیں چھ کو ذبح کیا تھا سبحان اللہ
اللہ ان سوروں سے ہمارے ایشیاکو پاک فرماتا رہ
امریکی سوروں سے میری مراد امریکی فوجی اور ان کا ساتھ دےنے والے ہیں
اگر سور کشی کا ٹھیکہ طالبان کے ذمہ لگایا گیا تو پاکستان کی آبادی میں واضح کمی کا امکان ہے۔ بقرعید کی آمد آمد ہے اور طالبان خود کش قصائی اس موقع کا فائدہ اٹھا کر اجتماعی قربانی و سور کشی بھر پور طریقے سے انجام دے سکتے ہیں۔
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہو جاۓ
یوں نہ تھا میں نے فقط چاہا تھا کہ یوں ہو جاۓ
ھا ھا ھا (:
سور تو سور ہے سور والی حرکات نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟۔ جب کہ انسان کواشرف المخلوقات بنایا گیا ہے ۔ اگر انسان، انسانیت کے درجے سے گر جائے تو وہ جانوروں سے بھی بد تر ہو جاتا ہے ۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے جانوروں کو بہت محدود عقل اور فطرت عطا فرمائی ہے ۔ اور قیامت کے دن جانورں کا حساب نہیں ہوگا۔ جبکہ حضرتِ انسان کو اللہ سبحان و تعالٰی نے سوجھ بوجھ اور عقلِ سلیم عطا کی ۔ اچھائی اور برائی کی تمیز سکھائی۔ دنیا کی ہر چیز پہ حضرتِ انسان کو قادر کردیا۔ ہر قسم کے اسباب عطا کیے۔ نیک و بد راستہ اختیار کرنے میں خود مختار کر دیا۔ اور روزِ قیامت اللہ سبحان و تعالٰی دنیا میں کیے گیے اعمال کا حساب کردیں گے۔ سب کو اس روز سے ڈرنا چاہیے اور اپنے اعمال کا محاسبہ ہر وقت کرتے رہنا چاہیے۔ لیکن اگر کوئی اس کے باوجود انسانیت کے درجے سے بہ رضا و رغبت گرتا ہے تو وہ جانورں سے بھی پست شمار کیا جائے گا۔ اس میں سور کا ذکر ہی کیا کہ انکو تو عقل اور تمیز ہی اتنی ہوتی ہے جس کے مطابق وہ جیتے اور مرتے ہیں۔
کتا انسان کو کاٹے ، یہ تو سمجھ میں آنے والی بات ہے کہ کتے کی فطرت کاٹنا ہے۔ اگر جواباَ انسان کتے کو کاٹ ڈالے تو یہ عقل سے بالا بات ہوگی کہ انسان کی فطرت میں یہ شامل نہیں۔اسی طرع سور جیسی حرکات بھی فہم سے ماوراء ہیں ۔
اوپر کسی صاحب نے طالبان کی ُہلہ شیری، کی ہے کہ وہ کئی سور کو لے مرتے ہیں وغیرہ وغیرہ ۔امریکہ جس نے قائدِاعظم رحمۃ اللہ علیہ کی علالت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے پاکستان کو اپنی طفیلی ریاست بنانے کا آغاز، لیاقت علی خان کو اپنے نیٹ ورک میں لانے سے کر دیا تھا۔ ہماری اخلاقی بد حالی کا ذمہ دار بھی بالواسطہ یا بلا واسطہ امریکہ ہی ہے جس نے ہمارے کرتا دھرتاؤں کو حد سے ذیادہ مراعات، کمیشن ، کرپشن، ہر قسم کی غیر اخلاقی حکومتوں کی پشت پناہی کر نے اور بالآخر کروڑوں ڈالر کی نقد رشوت اور دھونس دہمکی سے پاکستان سے اخلاقی۔ سیاسی۔ دیانتداری۔ المختصر پاکستان سے جائز ناجائز اور ہر قسم کی اخلاقی اقدار کا جنازہ نکال دیا۔ بھلا کبھی ایماندار اور دیانتدار معاشروں سے غدار پیدا کیے جاسکتے ہیں؟۔
ھندوؤں کی سازشوں۔ انگریز حکمرانوں کی بھرپور کوششوں اور طرح طرح کے لالچ دباؤ کے باوجود اس قدر مخالفانہ حالات میں جان دے کر، اسلام کے نام پر اسلام کے لیے ریاست بنانےکا جذبہ اور کہاں صرف ساٹھ سال بعد اسی قوم کا ایک ڈاکیہ، چپڑاسی یا پولیس کا ایک معمولی اہلکار کانسٹیبل یہ جانتے ہوئے بھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشادِ مبارک ہے ُ ُ راشی و المرتشی دونوں کا ٹھکانہ جنہم ہے،، اس کے باوجود بھی داؤ لگنے پہ ہر قسم کی کرپشن جائز سمجھتا ہے خواہ اس سے مخلوقِ خدا۔ ملک و قوم۔ کا کتنا ہی نقصان کیوں نہ ہو جبکہ وہ خود آخرت میں گھاٹے کا سوداکر رہا ہوتا ہے۔ اس سے صاحبِ اختیار عہدیداروں سے ہوتے ہوئے حکمرانوں تک کی داد و دہش ۔ عیش و عشرت، لوٹ کھسوٹ، بندر بانٹ، اقرباء پروری، فرعونیت اور کرپشن کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔ پورا نظام کرپٹ کر دیا گیا ہے۔ کسی کو بھی خریدا جاسکتا ہے۔کچھ بھی بیچا جاسکتا ہے۔ ایسے میں امریکہ کا یہ سمجھنا یا جاننا کہ چند ارب ڈالروں میں اس نے پورا پاکستان بمعہ عوام خرید رکھا ہے، شاید بیجا نا ہو۔ اگر ہمارے ہاں غیرتِ ملی اور قومی حمیت پائی جاتی ہوتی تو ہم کب کا امریکہ اور امریکہ نواز کاسہ لیسوں کا قرض چکا چکے ہوتے۔
پاکستان میں جس دن پہلی بار ملاوٹ ہوئی تھی، مستحق لوگوں کو چھوڑ کر اپنوں کو مراعات دی گئیں تھیں۔ میرٹ اور اہلیت کا گلا گھونٹتے ہوئے اپنوں کو نوازا گیا ۔ سیاسی بنیادوں پہ عہدوں کی تقسیم ہوئی تھی۔ جس دن پاکستان میں پہلی بار نااہل اور بد کردار لوگوں کے ریاستی معاملات سے آنکھیں پھیر لی گئیں۔ پہلی بار ملک و قوم کے مجرموں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی بجائے،انہیں نا صرف معاف کردیا گیا بلکہ انہیں عزت مآب ٹہرایا گیا۔ جس دن پہلی بار قانون و قاعدے سے ہٹ کر اپنی سہولت کے لئیے ضابطے توڑے گئے ۔ مظلوم لوگوں کی حق تلفی کی گئی تھی۔ یقین مانئیے طالبان کی بنیاد اسی دن پاکستان میں رکھ دی گئی تھی۔ بے شک طالبان نے ایک تحریک کی صورت بعد میں اپنائی اور طالبان نام بھی بہت بعد کے دور میں سنا گیا۔ مگر جس طرح پاکستان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ جس دن ہندوستان میں محمد بن قاسم نے پہلا قدم رکھا تھا پاکستان کی بنیاد اسی دن رکھ دی گئی تھی۔ اس طرح پاکستان میں عدم ناانصافی کے ہاتھوں بہت پہلے طالبان کا قیام وجود میں آچکا تھا۔ خواہ اس کا نام طالبان کی بجائے کچھ اور ہی ہوتا مگر وجہ اس کی بہت سادہ ہے۔ خطے میں کئی صدیوں سے پسے ہوئے لوگوں نے سوچا تھا۔ پاکستان بنے گا تو ہمارے دن پھر جائیں گے۔ مگر ہوا اس کے برعکس۔ جو اچھی خاصی مڈل کلاس میں گنے جاتے تھے۔ وہ طبقہ بھی آج غربت اور بھوک کے ہاتھوں خود کشیاں کرتا نظر آتا ہے ۔ بھوک اور کفر کے درمیان بہت پتلی سی لکیر ہے۔حضرت علی کرم اللہ وجہہ کا ایک مشہور قول ہے کہ ُ ُکفر سے تو ریاست قائم رہ سکتی ہے مگر ظلم سے (ریاست قائم) نہیں رہ سکتی،،۔ عدم مساوات ، عدم انصافی کی بناء پر جس کو پاکستان میں امریکہ نے محض اپنے مفادات کی خاطر رواج دیا، لوگوں کو خریدا۔ آج اس ملک میں مایوسی اور احساسِ محرومی کے ہاتھوں ہر دوسرا آدمی مرنے مارنے پہ آمادہ ہے ۔ ان سے زندگی کی ہر تعریف چھین لی گئی ہے ۔ وہ سانس اور جسم کا رشتہ قائم رکھنے میں روز مرتے اور روز جیتے ہیں ۔ ان کے پاس کل تک کی کوئی پلاننگ، کوئی منصوبہ نہیں ہے۔ مستقبل کے لیے امیدوں کے چراغ جلانا اور ہوا کے رخ دیے جلانا ان کے لیے انہونی سی بات ہے۔یہ طبقہ آجکل پاکستان کی کل آبادی کا 80 فیصد بنتا ہے۔ یہ مایوسی۔ ناامیدی۔ اور احساسِ محرومی کے ہاتھوں بارود کا وہ ڈھیر ہے جسے کسی بھی تحریک جس میں برابری ۔ انصاف۔ اور مساوات نظر آئے ، ایسی تحریک کی چنگاری سے اڑایا جاسکتا ہے۔ اور یہ بات ہمارے دشمن۔۔۔ پاکستان کے دشمن، بھی بخوبی جانتے ہیں۔ اور یہ قانونِ فطرت ہے کہ اس طرح کے آسیب اگر بوتل کے جن کی طرح ایک دفعہ بوتل سے باہر آجائیں تو دوبارہ واپس بوتل میں نہیں جاتے۔
ایسے میں بھی اگر ہمارے صاحبِ اقتدارو اختیار نے خوبِ خرگوش سے آنکھیں نا کھولیں تو کوئی وقت جاتا ہے پاکستان میں انقلاب چپکے اور دبے پاؤں بڑی تیزی سے آگے بڑھ رہا ہے ۔ جس میں ہر شئے خس و خاشاک کی طرح بہہ جائے گی۔ جس کے سامنے انقلابِ فرانس کی مثال بھی نہایت ادنٰی لگے گی۔اور بہت نقصان ہوگا۔
اسمیں کوئی شک نہیں پاکستان میں امریکہ نے غداری کا بیج لیاقت علی خان کی صورت میں روزِ اوَل سے بیج دیا تھا اور جو آنے والے وقتوں میں اتنا تن آور ہو چکا ہے کہ آج ہمارے حکمران تو کجاء انکے خلاصی( سیکرٹری) تک امریکہ کی اجازت کے بغیر چھینک نہیں سکتے ۔ ایک آدھ اشتناء چھوڑ کر ہر آنے والا حکمران امریکہ کو پاکستان کی بولی پچھلے حکمران سے بڑھ کر دیتا آیا ہے ۔ امریکہ نے پاکستان کا سب سے بڑھ کر ٹھیکہ اور بولی دینے والے کو پاکستان کا حکمران مقرر کیا۔ اب تو یہ عالم ہے کہ ایسٹ انڈیا اور تاجِ برطانیہ کے دور میں ہندؤستانی ریاستوں اور راجواڑؤں میں مقرر انگریز ریزیڈنٹ جو اس دور کے غدار نوابوں اور راجوں کو اپنی اوقات اور حدود میں رکھنے کے لیے ان پہ مقرر کیے جاتے تھے ، کی مانند موجودہ حکمران پاکستان کی حاکمیتِ اعلٰی کی بجائے پاکستان پہ مقرر امریکن ریزیڈنت معلوم ہوتے ہیں ۔ کچھ صاحبِ دانش یہاں تک پشین گوئی کرتے ہیں کہ زرداری کو جو ٹارگٹ دیا گیا ہے اسے حاصل کرنے کے لئیے امریکہ زرداری کی پشت پناہی اور حمایت جاری رکھے گا۔ حتیٰ کہ زرداری کا منصبِ صدارت کا وقت پورا بھی ہو جائے تو انھیں مشرف کی طرع صدارت کے عہدے سے نہیں ہٹایا جائےگا۔ کیونکہ امریکہ کے پاس زرداری سے بڑھ کر پاکستان کی بولی دینے والا فی الحال کوئی دوسرا موجود نہیں ہے ۔ اورمدت پوری ہونے پہ اگر کسی نے زور زبردستی سے زرداری کو منصبِ صدارت سے ہٹایا تو کوئی عجب نہیں کہ امریکہ اپنی افواج سے پاکستان پہ حملہ کر دے ۔ اس کے ساتھ ساتھ امریکہ کی انتہائی کوشش ہے کہ افغانستان میں طالبان حقیقی سے گفت و شنید کے ذریعے صلح کر لے اور کسی طور طالبان اور ناراض عناصر کو پاکستان کی راہ دکھا دے۔ اور طالبان و پاکستان آپس میں گھتم گھتا ہوجائیں۔ اس جوتم پیزار سے بہر حال بہتوں کا بھلا ہوگا۔ جن میں بھارت امریکہ اور اسرائیل شامل ہیں۔ مگر مشیت ایزدی کے بھی اپنے پروگرام ہوتے ہیں۔ اور یہ بھی ممکن ہے کے قحط الرجال (اوتر نکھتری) کے اس دور میں بھی اللہ کے کچھ نیک بندے مکمل دیانتداری سے پاکستان کو سب بحرانوں سے صاف نکال لے جائیں یا پھر خدا کوئی اور نیک سبب پیدا کر دے ۔ اور غدرانِ پاکستان اور دشمنانِ پاکستان ذلیل و خوار ہوجائیں ۔ اقوامِ عالم کے بارے میں تاریخ ایسے انہونے واقعات سے بھری پڑی ہے۔
جہاں تک پاکستان میں دہشت گردی کی لہر کا تعلق ہے تو عراق اور افغانستان پہ مسلط کی گئی جنگ کی ہم بھی پُر زورمذمت کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ ہر قوم کا یہ حق بنتا ہے کہ وہ اپنی قوم و ملک کا دفاع کے لئیے دستیاب تمام وسائل برو کار لائے خواہ وہ کتنے ھی غیر معمولی کیوں نا ہوں۔ اس ضمن میں دنیا کی تاریخ کے اوراق بھرے پڑے ہیں۔ عراقیوں اور افغانیوں کو یہ حقوق دنیا میں آزادی کے لئیے طے شدہ مسلمہ اصولوں کے تحت حاصل ہیں ۔ مگر پاکستان کے اندر یہ صورتِ حال نہیں ہے۔ یہاں کوئی غیر ملکی فوج حملہ آور ہے نہ ہی پاکستان کی سالمیت کو فوری طور پہ کسی بیرونی جارحیت کا سامنا ہے۔ جس کے خلاف یہ طالبان نما دہشت گرد طالبان کا لبادہ اوڑھ کر بلواسطہ یا بلا واسطہ بھارت ، امریکہ اور کسی حد تک اسرائیل کے گھناؤنے مفادات کی تکمیل کی خاطر ریاستِ پاکستان سے نبرد آزما ہیں۔ یہ سوچنے کی بات ہے کہ ان کو ناممکن وسائل اور معلومات تک رسائی کیسے ہوتی ہے؟۔ اصل جنگ اور جنگ کا محور جسے بنیاد بنا کر یہ گروہ وجود میں آئے ہیں۔ وہ جنگ افغانستان میں ہے ۔یہ جنگ پاکستان میں نہیں ہے ۔یہ جنگ سرحد کے اُس طرف ہے اِس طرف نہیں ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں مشرف حکومت نے امریکہ کو پاکستان سے لاجسٹک سپورٹ فراہم کر کے طالبان حکومت کی پیٹھ میں چھرا گھونپا اور موجودہ حکومت بھی امریکہ سے وفاداری ثابت کرنے کے لیئے مشرف کے سابقہ دور سے بڑھ کے مشرف کی پالیسیز کو آگے بڑہا رہی ہے۔ یہ تمام صورتِ حال پاکستان اور پاکستانی حکومت کی کمزوری کی وجہ سے بنی۔ اگر پاکستان معاشی اور فوجی طور پر طاقتور ہوتا تو امریکہ سمیت دنیا کی کسی طاقت کی دھونس میں نہ آتا۔ آج پاکستان کی معاشی اور عسکری کمزوری کا باعث بھی امریکہ ہے۔ یہ امریکہ بھارت اور اسرائیل کے مفاد میں ہے اور اب اس ایجنڈے کی تکمیل میں نام نہاد طالبان کے نام پر اور بلوچ عوام کے حقوق کے دعویدار بن کر، افغانستان میں امریکہ کی شہہ پر بھارتی اور اسرائیلی ایجنسیز کے تربیت یافتہ انتہائی منظم اور ہر قسم کے سامانِ حرب سے لیس دہشت گرد بھی شامل کر دیے گئے ہیں۔ جو سادہ دل اور احساسِ محرومی کے مارے غریب اور بھوکے عوام میں سے نئے نئے لوگ اسلام کے مقدس نام پہ بھرتی کر رہے ہیں۔ آئے دن کے خودکش دہماکوں اور دہشت گردی سے اسلامی دنیا کی سرکردہ۔ ایک بہت بڑی اور پہلی اسلامی ایٹمی ریاست کو کمزور کرنے کا گھناؤنا کھیل اسلام کے مقدس نام پہ کر رہے ہیں ۔ جس سے ریاست کا پورا نظام ہل کر رہ گیا ہے۔ ہر سُو انارکی کا دور بڑھ رہا ہے۔ اس دہشت گردی کو بنیاد بنا کر سرمایہ دار اپنا سرمایہ سمیٹ کر بھاگ رہے ہیں۔ غیر ملکی ائرلائنز نے پاکستان کا روٹ ختم کر رکھا ہے۔ پاکستان کا کثیر سرمایہ، اس جنگ میں جو اس کی اپنی جنگ نہیں بلکہ اس پہ تھونپ دی گئی ہے، پہ خرچ ہو رہا ہے۔ عوام بھوک سے مر رہے ہیں مگر پاکستان میں صرف ایک ہی ترجیج ُ ُ دہشت گردی کے خلاف جنگ،، کو غیر حقیقی طور پہ ریاست کی سب ترجیجات پہ مسلط کردیا گیا ہے۔موجودہ حکمرانوں سے کیا گلہ یہ تو طاغونی طاقتوں کے ایجنڈے کو آگے بڑہانے کے لیے انہی قوتوں کے ایماء پر لائے گئے ہیں۔اس لیے اسلام کے نام پر پاکستان میں اودہم مچانے والے مسلمانوں سے صرف اتنی سی گزارش ہے کہ خاکم بدہن پاکستان کا اگر نقصان ہوا تو طاغوتی طاقتیں کاشغر سے لیکر نیل کے ساحل تک تمام مسلمان قوموں کو روند کر رکھ دیں گی۔ اگر پاکستان سلامت ہے تو بہت ممکن ہے کہ کسی زرداری کے بعد کوئی محمد علی جناح دوبارہ پاکستان کے منصبِ جلیل پہ فائز ہو سکتا ہے کہ یہی جمہور کا چلن ہے۔ ایسی صورت میں پاکستان تمام طاغونی طاقتوں سے جان چھڑا سکتا ہے اس طرح اسلام کا نظامِ عدل و مساوات بغیر کسی تشدد کے پاکستان میں نافذ کیا جاسکتا ہے۔ جبکہ خاکمِ بدہن اگر پاکستان کی ٹوٹ پھوٹ ہوتی ہے اور پاکستان کمزور ہوتا ہے تو پاکستان میں سب سے پہلی ضرب ہی اسلام لیواؤں پر پڑے گی۔
امریکہ اور بھارت ایک تیر سے کئی شکار کررہے ہیں۔ خطے میں انکل سام ، لالہ لبھو رام اور بغل بچے اسرائیل کے مفادات مشترک ہوگئے ہیں۔ اور اس خطرناک اور گھناؤنے کھیل کے کئی پہلو ہیں۔ مگر ایک پہلو ہمیں بطورِ خاص سامنے رکھنا چاہیے ۔ دوسری جنگِ عظیم کے فوراََ بعد امریکہ کو احساس ہوا تھا کہ اشتراکیت یا اشتراکی نظام، امریکی سامراجی اور اندھے سرمایہ دارنہ نظام کے لئے متبادل نظام کے طور پہ ایک بہت بڑا خطرہ ثابت ہو سکتا ہے۔ اس خطرے کا تدراک کرتے ہوئے امریکہ اور اسکی اتحادی قوتوں نے جس طرح کیمونسٹ سویت یونین کے خلاف ہر محاذ پہ سرگرم کاروائیوں کا آغاز کیا۔ اسی طرح یہ بھی سوچا کہ کس طرح کیمونسٹ سویت یونین کے بڑھتے ہوئے عمل دخل کو روکاجائے۔ اپنے عوام میں اشتراکیت پسندیدگی کو روکنے اور ختم کرنے کے لیے کیا لائحمہ عمل اپنائے۔ اور کس طرح اپنے عوام کو اشتراکیت سے باز رکھنے کے لیے اشتراکیت کو ناکام قرار دینے کے بارے میں پروپنگنڈے کی طرز کیا ہو؟۔ یہ سب بیان کرنے کی یہاں گنجائش نہیں ۔مگر ایک بات کا تذکرہ دلچسپی سے خالی نہیں ہوگا ۔ کہ دوسری جنگِ عظیم کے اختتام پہ امریکہ کے خفیہ ادارے سی آئی اے نے غالباَ برلن میں کیمونسٹ ریڈیو کے نام سے بظاہر ایک خفیہ ریڈیو اسٹیشن قائم کیا۔ جو کیمونزم کے اختتام تک قائم رہا اور جس کا بھید اشتراکی سویت یونین کے خاتمے کے بعد کھلا۔ اس میں بظاہر تو کیمونزم کا پرچار کیا جاتا مگر درحقیقت جس کا اصل مقصد متواتر جھوٹ اور کذاب پہ مبنی پروپگنڈے سے عام لوگوں کو کیمونزم کی پسندیدگی سے باز رکھنا اور کیمونزم سے بیزارگی اور نفرت پیدا کرنا تھا۔ جس کا پروپگنڈا کچھ اس نوعیت کا ہوتا تھا۔ ُ ُکامریڈ تمہیں سویرے سویرے دانت صاف کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ کپڑے استری کر کے پہننے سے کیا فائدہ۔ اپنے ہمسائے کو گڈ مارننگ کہنے کا کیا مطلب؟۔ یہ سب سامراج کے ۔خون چوسنے والے رجعت پسندوں کے چونچلے ہیں۔ تم اپنے دقیانوسی بوڑھی اور بوڑھے ( مراد ماں باپ) کی باتوں پہ مت جاؤ کہ ان میں سامراج کی غلامی کی خُو ہے۔ وہ اگر پھر بھی تمہیں سچا کامریڈ بننے سے منع کرتے ہیں تو انہیں گھر سے نکال باہر کرو،، وغیرہ وغیرہ یہ چند نمونے اس کیمونسٹ ریڈیو کے ہیں جو بظاہر تو خفیہ تھا مگر اصل میں امریکن خفیہ ایجنسی اپنے مخصوص مفادات کی خاطر اسے چلا رہی تھی۔ اس طرع کے پروپنگنڈے کا اثر پہلے پہل ملک کے سنجیدہ طبقے پر اور ازاں بعد نوجوانوں پر بھی ہوا کہ وہ کیمونزم کو انتہائی بیزار کن اور نفرت آمیز سمجھنے لگے۔ آج وہی طاقتیں اسی طرح اسلام کے غیر سودی اقتصادی نظام، زکواۃ اور عشر سے خائف ہو کر، کیمونسٹ ریڈیو کی طرز کا پروپگنڈہ اسلام کے خلاف کر رہی ہیں اور بظاہر اس میں کسی حد تک کامیاب بھی ہیں۔ پاکستان میں طالبان کے نام پہ افغانستان میں بھارتی تربیت یافتہ اپنے دہشت گردوں کے ہاتھوں اغوا شدہ پاکستانی اہلکاروں کی گردنیں کاٹ کر۔ انہیں زندہ ذبح کرکے۔اسکول جلا کر۔ ٹارگٹ کلنگ کر کے اور اس طرح کے دوسرے واقعات کی موویز بنا کر اور عام آدمی تک ان کی رسائی ممکن بنا کر جہاں پاکستانی اداروں کی حوصلہ شکنی کر رہی ہیں وہیں عام آدمی کو اسلام اور شریعت کی بات کرنے والوں سے جن کا ایسی دہشت گردی سے دور کا واسطہ بھی نہیں ان سے نفرین کر رہی ہیں۔ہماری بدقسمتی سے اسمیں کچھ قلم فروش بھی شامل ہیں۔ اور عالمی ابلاغ کے اردو ڈیسک اس چیز کو بنیاد بنا کر نئی نسل پہ اسلام بیزارگی پیدا کرنے کے لیے پیش پیش ہیں۔ جبکہ اسی طرز پر طالبان طرز پہ قائم تنظیموں میں پاکستان کے خلاف پروپنگنڈہ جاری ہے۔ اور خدانخواستہ مستقبل میں پاکستان پہ حملے کو جواز مہیا کرنے کے لیے امریکن و یوروپی عوام کے لیے پاکستان کے خلاف الگ الگ ڈیسک قائم ہیں ۔ جس کا اتنا اثر ہے کہ امریکہ میں پینٹاگون کے عام سے اہلکار سے لیکر پوسٹ آفس کے ایک ادنٰی کلرک کے سامنے پاکستان کا نام لیتے ہی اس کی آنکھوں میں خون اتر آتا ہے۔اس لئیے پاکستان کے اندر پاکستان سے نبرد آزما طالبان نما دہشت گرد جو بھارت اور امریکہ کے مفادات کی تکمیل میں دانستہ یا نادانستہ طور پہ بھارت اور امریکہ کے ایجنڈے کی تکمیل میں مدد گار ہو رہے ہیں۔انکی حوصلہ افزائی نہیں بلکہ حوصلہ شکنی کی جانی چاہیے۔ اور پاکستان کے پڑہے لکھے اور باشعور لوگوں پہ یہ فرض عائد ہوجاتا ہے کہ وہ اس پروپنگنڈے کے توڑ کا ادراک کریں اور اپنے عوام کو اصل صورتِ حال سے باخبر رکھیں۔ اندھوں کی دنیا میں آنکھوں والوں کی ذمہ داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں اور روزِ محشر انکا حساب بھی زیادہ ہوگا۔ اسلئیے اس موضوع کو آج کے دور میں ٹھٹھے مخول میں نہیں اڑا دینا چاہیے۔ بلکہ اسے بہت سنجیدہ لیا جانا چاہیے کہ ہم اس نازک دور میں پاکستان کو بحفاظت خیرو عافیت سے ہر بحران سے بچا کر مستقبل میں پاکستان قیام کے اصل مقاصد کو پورا کر سکیں۔اللہ تعالٰی پاکستان کاحامی و ناصر ہو۔آمین
امید کرتا ہوں کہ کسی نے میری بات کا برا نہیں منایا ہوگا میرا مقصد کسی کی دلآزاری نہیں بلکہ اپنے اپنے فرائض کی نشاندہی ہے۔
موضوع سے ہٹ کر ایک بات افضل صاحب سے گزارش کرنا چاہتا ہوں کہ آپ نے اپنی کسی پوسٹ میں لکھا ہے کہ انسان چاہتا کچھ ہے ، بن کچھ اور جاتا ہے ۔یا اس کے سامنے پاکستان میں مستقبل کی منصوبہ بندی نہیں ہوتی کہ پاکستان میں اس کا رحجان نہیں۔ وغیرہ
افضل صاحب! ماشاءاللہ آپ جو بن گئے ہیں یہ غنیمت ہے ورنہ ہمیں ُ ُ میراپاکستان،، جیسا پاکستان سے محبت کرنے والا مستقل سلسلہ کیسے ملتا؟۔ اسلیے اے دل امیدِ بہار رکھ۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ۔ اسپین
عزت مآب قابل احترام جناب ہم تو بہت پہلے کہیں اپنے تبصرے میں لکھ چکے ہیں کہ میریٹ ہوٹل پہ حملہ اسی نے کروایا ہے جو اوپر سے مسلمانوں پر میزائل داغتا رہتا ہے
دراصل پاکستان میں قادیانیوں کو تحفظ حاصل اور وہی موقع کا فائدہ اٹھاکر امریکا کی مدد کر رہے ہیں
ابھی پچھلے دنوں پاکستان کے چھ ہزار قادیانی اسرائل کی فوج میں بھرتی ہوۓ تاکہ پاکستان کے نیک دل مسلمانوں کو ماریں
لال مسجد پر بھی قادیانی فوجی لگاۓ گۓ تھے کیونکہ مسلمان کتنا بھی برا گنہگار سہی قرآن کے نسخوں کو گولیوں سے چھلنی نہیں کر سکتا اپنی نہتھی معصوم بہنوں اور ماؤں پرگولیاں بم اور راکٹ نہیں برسائگا
ان شہیدوں کی لاشوں کی بے حرمتی نہیں کریگا
اے اللہ طالبان کو فتح عطا فرما اور افغانستان کو امریکیوں اسرائلیوں اور قادیانیوں کا مدفن بنا دے ساری دنیا میں اسلام کا بول بالا فرما. دنیاۓ عرب کے حکمرانوں کے دل میں اسلام کا درد پیدا فرما ان کو امریکہ کی غلامی سے نکال کر اسلام کی بقا و تحفظ کے لیۓ کھڑا ہونے کی توفیق عطا فرما
کفار کو نیست و نابود فرما انکی آپس میں پھوٹ ڈال دے
مسلمانو کو متحد فرما دے
آمین
Leave A Reply