تین روز سے ہمارے تبصرے بلاگ ڈیزائین سے چھیڑچھاڑ کی وجہ سے کام نہیں کر رہے تھے۔ اس غلطی کی وجہ سے اگر قارئین کو تکلیف پہنچی ہو تو ہم اس پر معذرت چاہتے ہیں۔ تبصرے کا صفحہ ہم نے اب ٹھیک کر دیا ہے۔
ہم نے محسوس کیا کہ قارئین تبصرہ کرتے وقت ای میل کو کوئی اہمیت نہیں دیتے اور اکثر خانہ پری کیلیے فرضی ای میل کا پتہ لکھ دیتے ہیں۔ اس کوفت سے قارئین کو بچانے کیلیے ہم نے ای میل کا خانہ ہی اڑا دیا مگر اس کی وارننگ کو ہم ٹھیک نہیں کر سکے۔ آج جب ہم نے دیکھا کہ تین روز گزرنے کے باوجود کوئی تبصرہ نہیں ہوا تو ہمیں اپنی غلطی کا احساس ہوا۔ ہم نے تجرباتی تبصرہ لکھنے کی کوشش کی اور اس کے جواب میں وارننگ ملی۔ تب ہمیں پتہ چلا کہ ہمارے بلاگ کے تبصرے کام نہیں کر رہے۔
بعد میں جب ہم نے اپنی ذاتی ای میل چیک تو معلوم ہوا ہمارے محترم بلاگر راشد کامران صاحب ہماری اس غلطی کی نشاندہی پہلے ہی کر چکے ہیں۔ اس کیلیے ان کا شکریہ۔
آئندہ ہم کوشش کریں گے کہ اگر اس طرح کی ڈیزائن سے چھیڑچھاڑ کریں تو بعد میں اسے چیک کر لیں کہ یہ کام بھی کر رہا ہے کہ نہیں۔
12 users commented in " قارئین سے معذرت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبڑا خوار کروایا آپ نے
کل تو میں نے کہا کہ تبصرہ کر کے ہی چھوڑنا ہے
ایرر میسج کو ذرا اہمیت نا دی اور بار بار بیک کر کے کمنٹ دیتے رہے
اور جب غور کیا تو ای میل کا خانہ ہی نہیں تھا 😀
پھر اپنے آپ پہ غصہ آنے لگا کہ ایرر میسج کو بھی اہمیت دینی چاہیے 😀
جناب ۔ میں نے تین بار تبصرہ شائع کرنے کی ناکام کوشش کی تھی ۔ ای میل بہجنا چاھ رہا تہا کہ کسی اور کام میں مصروف ہو کر بھول گیا
ڈفر صاحب سے خصوصی معذرت
اجمل صاحب آپ کا خلوص ہم تک پہنچ گیا، خدا آپ کو جزائے خیر دے۔
جی! خاکسار نے بھی کوشش کی تھی مگر تبصرہ بیجھنے میں کامیابی نا ہوئی
ہم بھی کوشش کر رہے تھے کہ جناب گوندل صاحب کے طویل تبصرے پر تبصرہ کرنے کی اور ان کی ایک غلطی کی نشاندہی کرنا مقصود تھی
خیر افضل بھائی آپ اگر اپنا فونٹ اجمل صاحب والا بنا لیں تو لکھنا آسان ہوگا اور ڈبہ ڈبہ ہیں بنے گا
کیا اب ای میل لکھنا ضروری نہیں ہے؟ مگر دوستوں کے پتے ضایع مت کیجیئے گا
جاوید گوندل صاحب اور احمد عثمانی صاحب سے بھی معذرت
عثمانی صاحب سے گزارش ہے کہ آپ ڈبے بننے کا علاج اردو کے فونٹ اردو نصخ ایشیا ٹائپ اور نفیس ویب نسخ انسٹال کرکے کر سکتے ہیں۔
ویسے ہم کوشش کرتے ہیںکہ اجمل صاحب والا فونٹ اپنا لیں۔
آپ ہمارے تبصرے پر جس تیزی سے جواب عنایت کرتے ہیں لگتا ہے آپ کو بھی اسی وقت ھی فرصت ملتی ہے ، مگر اچھا لگتا ہے
ہم کوئی ایک پی سی استعمال نہیں کرسکتے اب کہاں کہاں انٹسال کرتے رہیں؟ آپ اجمل صاحب والا فونٹ لے لیں ہم کو سب سے اچھا اور جازب لگا
محترم احمد عثمانی صاحب!
غلطی کی نشاندہی کا بچشمِ شوق انتظار رہے گا۔ اپنی غلطیوں سے انسان سیکھتا ہے۔مجھ سے بھی کوئی ایک نہیں بلکہ بہت سی غلطیاں سرزد ہوئی ہونگی ۔بلکہ ہوتی رہتی ہیں۔ آپ نشاندہی کر دیں گے تو عنائت ہوگی۔
گوندل صاحب
آپ نے ہمت بڑہائی جس کا شکریہ ورنہ لوگو برا جلدی مناتے ہیں اس لیئے کم ہی اس جانب رغبت رہتی ہے
آپ نے بہت اچھی بات کی اور ٹھیک ھی کی، قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں ۔ ایک طرف آپ کی بات سے لگتا ہے آپ کہنا چاہتے ہیں کہ اسلام سے دوری، اللہ کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہونا یا بھول جانا ، اور منافق لوگوں کا ملک پر قابض رہنا(تقریبا یہی آپ کے ارشادات سے سامنے آتا ہے) اور پھر اچانک آپ فرماتے ہیں کہ حکمرانوں کا امریکہ سے ڈر خوف کی وجہ سے سب کچھ ہے بات مسابقت کھاتی نظر نہیں آتی۔ آپ ھی کا فرمان ہے کہ زرداری سے اچھی آفر کافروں کو فلحال کوئی اور نہیں کرسکتا تو اب یہ زرداری کی اپنی چوائس ہے یہی اسکا عقیدہ ہے ہیہ اسکی آرزو ہے تو اب ڈر کا سوال کہاں سے آگیا؟ جو لوگ قابض ہیں وہ اپنی خوائش سے ہی یہ کردار اپنائے ہوئے ہیں ورنہ کون ظالم ہے جو بےحیائی پھیلائے؟ اسلام کی جڑ کاٹے؟ ایک مسلمان وہ بھی دین دار کو ناحق قتل کرے جسکی سزا ہمیشہ کا جہنم میں رہنا ہے اور اللہ کی اس پر لعنت ہے (سورہ نساء)تو گوندل صاحب جس نے سامنے یا پوشیدہ جس کو اپنے دل میں اپنا رب بنا رکھا ہے وہ اسی کی اطاعت کرتا ہے
دعاگو
احمد عثمانی صاحب!
آپ کا بہت شکریہ۔
پاکستان کے معروضی حالات تک پہنچنے میں جیسا کہ آپ نے اپنے الفاظ ُ ُاسلام سے دوری، اللہ کے سامنے جواب دہی کا یقین نہ ہونا یا بھول جانا ، اور منافق لوگوں کا ملک پر قابض رہنا،، بیان کیا ہے کم و بیش ان وجوہات کی وجہ سے جو پاکستان کے ساتھ روزِ اول سے جاری ہیں۔ اور ان میں روز بروز اضافہ ہوتا آیا ہے۔
آپکے سوال کا دوسرا حصہ جہان تک میں سمجھ سکا ہوں اور سوال سمجھنے میں بہرحال غلطی کا امکان ہو سکتا ہے۔ وہ غالباََ پاکستان کی معاشی اور فوجی قوت کے نا ہونے کی وجہ سے امریکہ کے سامنے گھٹنے ٹیک دینے سے متعلق ہے۔ اس غمن میں عرض ہے کہ اگر پاکستان۔۔۔ اور یہ ذہن میں رکھیے گا کہ یہاں پاکستان کا ذکر بحثیت ایک ریاست اور من الحثیت نظامِ ریاست اور اس نظام کو بحال رکھنے والے اہلکارِ ریاست کی بات ہورہی ہے۔۔۔۔۔ اگر پاکستان معاشی اور فوجی طور پہ مظبوط ہوتا اور پاکستان کی کمزور سیاسی، مالی ، فوجی، ڈھانچے کے بھی وہ دو ہی اسباب ہیں ۔ایک تو باہر سے مسلط شدہ جن میں امریکہ و بھارت وغیرہ کی مسلسل اور متواتر ریشہ دوانیاں، سازشیں وغیرہ ہیں۔ اور دوسری بڑی وجہ اندرونی ہے جس میں ہم نے بحثیت ایک قوم عدم انصاف، بددیانتی، اور ہر قسم کی لوٹ کھسوٹ کے رواج پہ آنکھیں بند کیے رکھیں جس میں خواص اور عام سب شامل ہیں۔ ممکن ہے اس بندر بانٹ کا سارا ثواب اور فائدہ صرف خواص کو ملتا رہا ہو ۔ مگر عوام پہ بھی ایسی لوٹ کھسوٹ پہ احتجاج لازم ہوجاتا ہے کیونکہ اس بندربانٹ کا خمیازہ بھی آخر کار عوام ہی بھگتے ہیں۔آپکے سوال کے دوسرے حصے کی طرف واپس آتے ہیں ۔ تو پاکستان اگرسیاسی فوجی اور معاشی طور پہ ایک مظبوط ملک ہوتا تو آج ملک کے عوام میں بھی دم خم ہوتا کہ وہ کسی مشرف یا دوسرے ایرے غیرے نتھو خیرے کو اپنی من مانیاں نہ کرنے دیتے۔اور نظام میں شامل لوگ( فوج۔عدلیہ۔ بیوروکریٹ۔انتظامیہ اور مقننہ وغیرہ ) بھی پورے قد سے حکمرانوں کا احتساب کرتے یا کم از کم جرائت اور آبرومندانہ اقدام اپنانے پہ اصرار کرتے۔اور نائن الیون کے بعد پاکستان کی یہ بے بسی صرف اس کے اپنے کمزور حالات اور منفافقین کی وجہ سے ہوئی۔پاکستان پہ اتنے بودے لوگ قابض تھے کہ اگر امریکہ انہیں پاکستان میں گھس آنے کی فرمائش کر دیتا تو وہ وہ شاید یہ خواہش بھی اس وقت پوری کر دیتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہمارے عوام اور ماشاءاللہ اب ہماری مقننہ نے بھی امریکہ کے خلاف ایک آبرومندانہ قرداد پاس کی ہے۔جس پہ عمل درآمد ہونا ابھی باقی ہے مگر اس کے باوجود یہ بھی حقیقت ہے کہ ہماری پوری قوم کی مخالفت کے باوجود امریکہ اور مشرف نے پورے آٹھ سال ہماری چھاتی پہ مونگ دلا۔ آج اگر منصبِ صدارت کے انتخابات ہوں تو نتیجہ کیا سامنے آئے گا یہ میں اور آپ بخوبی جانتے ہیں، مگر اس دوران میں ، آپ اور پاکستان کے عوام سائے صبر اور آتے دانے بجلی کے لیے خوار ہونے کے کچھ نہیں کر سکتے۔ اور نہ ہی ہماری افواج میں ھی وہ دم خم ہے کہ وہ امریکہ کے ہاتھ روک سکے۔ تو میرے خیال میں پاکستان کی دوسری کمزوری یہ ہے۔
بہرحال ہمیں پاکستان کے مستقبل سے مایوس ہونے کی قطع ضرورت نہیں۔ پاکستان کے یہ حلات سدا نہیں رہینگے ۔ اور اچھے وقت بھی آئینگے۔ انشاءاللہ
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
احمد عثمانی صاحب!
تب مجھے جلدی تھی اور عجلت میں آپ کے سوال کا اہم نقطہ تشنہ طلب ہی رہ گیا۔اب کچھ فرصت ملی ہے تو پھر سے لکھ رہا ہوں۔آپ کے سوال آخری حصہ بنیادی طور پہ زرداری اور حکمران طبقے سے متعلق تھا۔آپ کے الفاظ ُ ُ اب یہ زرداری کی اپنی چوائس ہے یہی اسکا عقیدہ ہے ہیہ اسکی آرزو ہے تو اب ڈر کا سوال کہاں سے آگیا؟،، بے شک درست ہیں مگر ہمیں یہ بھی ذہن میں رکھنا چاہیے کہ ذرداری اس کھیل(اگر اس انگریزی کی معروف اصطلاح میں کھیل کہہ سکتے ہیں تو) کو انجام تک پہنچانے کا بہت سے دوسرے ذرئیعیوں میں سے ایک ذرئیعہ ہیں۔ نہ کہ مکمل کھیل کے مرکزی کردار ہیں۔ اور انجام سے مراد خاکمِ بدہن پاکستان کے جلد یا بدیر انجام ہے جو اسلام اور پاکستان دشمنوں نے پاکستان کے لیے ترتیب دے رکھا ہے۔ جو لوگ قول و فعل سے اور پاکستانی قوم سے لکھے گئے معائدوں سے یہ کہہ کر پھر جائیں کہ یہ کوئی قرآن حدیث نہیں کہ ہم اس پہ عمل کریں۔ اور وہ بھی کس بناء پہ؟۔صرف اور صرف امریکہ کی وجہ سے ۔ کیونکہ یہ تو بہت پہلے سے طے تھا کہ پاکستان کی قسمت کا مالک آجکل کس کو بنایا جائے گا۔آجکل امریکہ کی طرف سے ملنے والے سگنلز ہی ہماری حکومت اور حکمرانوں کی پالیسی ہے۔
جناب جاوید گوندل صاحب!
بہت شکریہ وضاحت کا۔ آپ کی بات اب جاکر مکمل ہوتی ہے
بلکل بجا کہ زرداری اس کھیل کا ایک کردار ہے بس مگر یہ اسکی اپنی دلی خوائش ہے اور ناجانے اس نے یہ کردار لینے کو کتنے رابطے نکالے ہوں گے کتنی منتیں کی ہونگی اب وہ جو کرے گا یہ نہ ڈڑ ہے امریکہ کا نہ مجبوری بلکہ یہی طے شدا کردار ہے
تو اب جو اسکو زرداری پر دباؤ یا مجبوری ہا اسی ٹائپ کی بات کرکے زرداری اور اس ٹائپ کے سارے منافقوں کو بچانے کی کوشش کرے گا تو کم از کم احمد سوال ضرور کرے گا اور کوئی آپ جیسا اعلیٰ ظرف ہوگا تو غلطی مان کر بات کی وضاحت کرے گا اور اگر کم ظرف ہوگا تو لوگوں کو گمراہ کرنے کا کام جاری رکھے گا
پاکستان کی ملٹری ہو ہا کوئی بھی بکاؤ مال ہیں اور تھیٹر کے طے شدا کردار ہیں
اور ایسا کیوں ہے؟ قوم کے اعمال جیسے حال بھی ویسا
امید ہے آپ سے روابط رہیں گے
Leave A Reply