جب تک ہم پاکستان سے باہر نہیں نکلے تھے ہمیں بچہ گود لینے کی افادیت کا اندازہ نہیں ہوا تھا۔ اس سے پہلے ہم نے صرف اپنے عزیزواقارب کو عام پاکستانیوں کی طرح اپنے بہن بھائیوں کے بچے گود لیتے دیکھا تھا مگر کسی کو یتیم بچہ گود لیتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
معاشرے کے سیٹ اپ کی وجہ سے بہن بھائیوں کے بچے گود لینے کا تجربہ بھی کوئی اچھا نہیں رہا۔ کبھی بچہ بڑا ہوا تو وہ اصلی والدین کی طرف لوٹ گیا یا دونوں خاندانوں میں ناچاقی پیدا ہو گئی اور اصلی والدین بچہ واپس لے گئے یا بچہ گود لینے والی فیملی ساری عمر یہی طعنے سنتی رہی کہ وہ بچے کیساتھ غیروں والا سلوک کر رہے ہیں یا بچے کو جونہی پتہ چلا کہ اس کے اصل والدین کوئی اور ہیں تو وہ واپس ان کے پاس چلا گیا۔
لیکن جب ہم نے پاکستان سے باہر قدم رکھا اور گوروں کو کالے، چینی اور میکسیکن بچے گود لیتے اور انہیں اپنی خوشی سے پالتے دیکھا تو پتہ چلا کہ بچہ گود لینا خود ایک عبادت ہے۔ ویسے تو قرآن اور حدیث میں واضح ارشاد ہے کہ یتیموں کے سر پر شفقت کا ہاتھ رکھو مگر ہم جس طرح کے مسلمان ہیں اس کی بھی حکم عدولی کر جاتے ہیں۔
پاکستان کیا ساری دنیا میں شادی شدہ جوڑوں کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کے ہاں بیٹی کی بجائے بیٹا پیدا ہو اور جب اس کوشش میں پانچ چھ بیٹیاں ہو جاتی ہیں تو ساتویں کوشش سے بھی ہم باز نہیں آتے۔ حالانکہ کتنا اچھا ہو اگر دو کوششوں کے بعد وہ کسی یتیم کو گود لے لیں۔ ہم مانتے ہیں کہ ایسے والدین کیلیے بچہ گود لینا زیادہ مشکل ہے ان کی نسبت جن کی اولاد ہی نہیں ہے۔ ہماری دو بہنوں کی تین تین بیٹیاں ہیں مگر وہ بھی یتم لڑکا گود لینے سے کتراتی ہیں۔
جن لوگوں کے ہاں اولاد نہیں ہوتی انہیں تو کم از کم ایک بچہ گود لے ہی لینا چاہیے۔ لیکن معاشرے کے دباؤ کی وجہ سے یہ فیصلہ کرنا بھی ہمارے لیے مشکل ہوتا ہے کیونکہ لوگ سننا ہی نہیں چاہتے کہ انہوں نے کسی یتیم اور لاوارث بچے کو گود لیا ہے۔ دوسرے لوگ بھی ڈراتے ہیں کہ پرایا پتر ہے پڑا ہو کر چھوڑ جائے گا۔ کچھ لوگ شادی کے پہلے پندرہ بیس سالوں میں اس آس پر بچہ گود نہیں لیتے کہ شاید اب اللہ ان کی گود بھر دے۔
ہم اس بات کے حق میں ہیں کہ اگر آپ کے ہاں بچہ پیدا نہیں ہو رہا تو آپ کو بچہ گود لےلینا چاہیے۔ اس طرح ایک طرف آپ کی والدین بننے والی حسرت پوری ہو جائے گی اور دوسری طرف ایک یتیم معاشرے کا کارآمد شہری بن جائے گا۔ اگر وہ بڑا ہو کر آپ کے کام نہ بھی آیا تب بھی آپ نے ایک جوان کو سیدھی راہ تو دکھا دی۔ اس طرح کی مثال انڈین فلم باغبان میں دیکھی جا سکتی ہے۔
ہمارے ارد گرد کئی مثالیں اس طرح کی ابھی بھی موجود ہیں کہ شادی شدہ جوڑے اولاد سے محروم ہیں مگر بچہ گود لینے سے کتراتے ہیں۔ ہم حیران ہوتے ہیں کہ وہ خدا کی اس نعمت سے فائدہ کیوں نہیں اٹھا رہے۔ اس طرح ان کی دنیا بھی سنور سکتی ہے اور آخرت بھی۔ کیا ہم نے غلط کہا؟
13 users commented in " بچہ گود لینا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackناچاکی نہیں بلکہ ُناچاقی،۔
میں آپ سے کلی طور پر اتفاق کرتا ہوں،
ویسے ہمارے ہاں لوگ نا صرف معاشرے کی وجہ سے بچے گود نہیں لیتے بلکہ خود سے بھی ہچکچاتے ہیں۔ ورنہ آپکو پتا ہے ہم لوگوں نے جو کام کرنا ہو تو پاویں ساری دنیا ایک طرف ہو جائے ہمیں کسی کی فکر نہیں ہوتی۔ 🙂
پوسٹ واقعی سبق آموز ہے
جاوید صاحب،
ہمیشہ کی طرح الفاظ کی درستگی کا شکریہ
سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا ضروری ہے کہ اپنا بچہ نہ ہو تو کوئی بچہ گود لیا جائے؟
اسلامی معاشرے کی اخوت، مساوات و محبت کی پالیسی یہ ہے کہ اگر آپ کے اپنے بچے ہیں تب بھی آپ کو کسی یتیم بچے کی پرورش کرنی چاہیے۔
بچہ گود لینا اور کسی یتیم یا نادار بچے کو پالنا دو مختلف عمل ہیں ۔ آخرالذکر جس کی ایک صورت گود لینا بھی ہو سکتی ہے کا اللہ سبحانۃ و تعالی نے حکم دیا ہے ۔ وطن عزیز میں گود لینے کی دو صورتیں ہیں ۔ ایک ۔ کسی بہن بھائی کا بچہ گود لینا ۔ اس میں دنیاداری کی کچھ قباحتیں شامل ہو جاتی ہیں جو اس صورت کو برا بناتی ہیں ۔
وطن عزیز میں یتیم اور نادار بچوں کو گود لیا جاتا ہے اور ان بچوں کی پرورش اپنی اولاد کی طرح ہی کی جاتی ہے ۔ ایسے بہت سے واقعات سے میں واقف ہوں کہ ایسے بچوں میں احساس کمتری پیدا نہ ہونے دیا گیا ۔ ایک خاتون نے ایک بچی ایدھی فاؤنڈیشن سے گود لی اس کے دس بارہ سال بعد اپنے بطن سے بیٹا پیدا ہوا ۔ وہ خاتون اب بچی کا پہلے سے بھی زیادہ خیال رکھتی ہیں ۔ معاملہ وہاں گڑبڑ ہوتا ہے جہاں بچے یا بچی کو کوئی بتا دے کہ وہ اس کے ماں باپ نہیں ہیں ۔
اس سلسلہ کا بہت ہی افسوسناک واقع ہے ۔ 2005ء کے زلزلہ میں سینکڑوں کم عمر بچے یتیم ہوئے ان میں سے 300 کے قریب کم عمر بچیاں عبدالرشید غازی نے گود لیں اور انہیں جامعہ حفصہ میں تعلیم و تربیت کیلئے رکھا تھا ۔ لال مسجد آپریشن میں یہ تمام بچیاں اور عبدالرشید غازی ہلاک کر دیئے گئے ۔
“معاملہ وہاں گڑبڑ ہوتا ہے جہاں بچے یا بچی کو کوئی بتا دے کہ وہ اس کے ماں باپ نہیں ہیں ۔“
میرے خیال میں شرعا گود لیے گئے بچے کو بتانا ضروری ہوتا ہے کہ وہ اس کے اصل ماں باپ نہیں ہیں۔ ورنہ وراثت اور نسل کے معاملات میں شدید گڑبڑ ہو سکتی ہے۔ باقی آپ تحقیق کر لیں۔
والسلام
سیفی
سیفی صاحب کی بات درست ہے مگر بچے کو تب اصلیت بتانی چاہیے جب وہ جوان ہو جائے یعنی اس کا ذہن پختہ ہو جائے اور اس میںحقیقت کا سامنا کرنے کی جرات پیدا ہو چکی ہو۔
سیفی صاحب
شرعی حکم بلکہ اللہ کا فرمان ہے جس کا آپ نے حوالہ دیا ہے ۔ اس سے انکار کیا ہی نہیں جا سکتا
اول تو بتانے بتانے میں فرق ہوتا ہے ۔ دوسرے کمسن بچے کو اگر معلوم ہو کہ اسے پالنے والے اس کے والدین نہیں تو بچے کا ذہن الجھنے لگتا جو حالات میں خرابی پیدا کرتا ہے ۔ میں نے جس چیز کا ذکر کیا وہ بچے کی درست پرورش کا حصہ ہے
میں افضل صاحب کو اسی موضوع پر ایک افسہوسناک چیز ای میل کرنا جاہوں گا
افضل صاحب کیا ہیاں تو بڑے بڑے جو دین پر بولتے نہیں تھکتے لوگوں کو فلمیں دیکھنے کی دعوت دیتے نظر آتے ہیں شائد برائی کے معانی سے واقف نہ ہوں
دوسری بات آپ فرماتے ہیں —اس کوشش میں پانچ چھ بیٹیاں ہو جاتی ہیں تو ساتویں کوشش سے بھی ہم باز نہیں آتے۔ — یار آپ لوگوں کو کیا ہوگیا ہے؟ یہ کیا بات ہوئی؟ کیا کہنا چاہتے تھے؟ میں پھر کہتا ہوں آپ میں اکثریت کا مسجد سے تعلق کم کم ہی ھے اور حدیث سے تو بہت یہ کم ہے
میں یہ عمومی بات کررہا ہوں اب ہر آدمی کو آسانی سے پہچانا جاسکتا ہے
یتیم ، مسکین کی سرپرستی کرنا ، پرورش کرنا بڑی بہت بڑی نیکی ہے اس میں شک کیا لوگوں اس میں آگے آنا چاہیئے مگر بد کرداروں ، بے دینوں، کافروں کی سر پرستی میں کسی بچے کو دینا آخرت میں اپنی گردن پر شدید وبال لینا ہے
بچہ گود لینا اچھی بات ہے مگر آج کل کے دور میں والدین اپنے بچوں کی تعلیم وتربیت اچھی نہیں کرتے تو غیر بچے کا ذمے دار کون ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میں ایک یتیم بچے کو گود لینے کی خواہاں ہوں ۔کیا کوئی اس سلسلے میں مدد کر سکتا ہے ؟
بی بی اگر آپ پاکستان میںہیں تو تھر کسی ایدھی ٹرسٹ جیسے فلاحی ادارے سے رابطہ کیجیے۔
Leave A Reply