مندرجہ ذیل دو عالمی واقعات پر غور کیجیے اور فیصلہ کیجیے کس کا مستقبل تابناک ہے۔
امریکہ کی آٹو انڈسٹری آجکل معاشی بحران کی لپیٹ میں ہے اور اس کی تپش ہم اپنی فیکٹری میں بھی محسوس کر رہے ہیں۔ آٹو انڈسٹری کا بحران اتنا شدید ہے کہ امریکہ کی فورڈ موٹرز، جنرل موٹرز اور کرائسلر کے چیف کیپیٹل ہل کے دورے پر ہیں جہاں وہ سینٹ کمیٹی کو قائل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں کہ انہیں اس وقت حکومتی سرمائے کی شدید ضرورت ہے۔ جنرل موٹرز کے پاس اس وقت صرف چند ماہ کا کیش بچا ہوا ہے، فورڈ موٹر کمپنی صرف اگلے سال تک اپنے اخراجات برداشت کر سکے گی۔
کل کی میٹنگ میں سینٹ کمیٹي نے ان لوگوں کو انتہائی سخت ٹائم دیا۔ حتی کہ ان کے اس دورے کیلیے ذاتی جہازوں پر سفر کو بھی ہدف تنقید بنایا۔ سینیٹروں نے ان سے مستقبل کے پلانز کا پوچھا اور انہیں واضح کر دیا کہ وہ موجودہ سیٹ اپ کیساتھ انہیں پیسہ نہیں دیں گے کیونکہ یہ سیٹ اپ فیل ہو چکا ہے۔
آج کی خبر یہ ہے کہ سینٹ کمیٹي نے تینوں کمپنیوں کو فوری رقم دینے سے انکار کر دیا ہے اور اس معاملے کو دسمبر تک ملتوی کر دیا ہے۔ حالانکہ حکومت کو معلوم ہے اگر یہ تینوں آٹو کمپنیاں بنک کرپٹ ہو گئیں تو ہر دسواں امریکی اپنی نوکری سے ہاتھ دھو بیٹھے گا۔ اس کے باوجود عوامی نمائندے جلد بازی کی بجائے سوچ بچار کو زیادہ ترجیح دے رہے ہیں۔ اکثریت کا خیال ہے کہ پہلے تینوں آٹو کمپنیاں اپنا موجودہ سیٹ درست کریں، اپنے ناکام سربراہوں کے تبدیل کریں اور ایک کامیاب پلان ان کو پیش کریں جو قابل عمل ہو تب انہیں سرکاری پیسہ ملے گا۔
دوسری طرف پاکستان نے آئی ایم ایف سے نو دس بلین ڈالر قرض لیا مگر عوامی نمائندوں کو ہوا تک نہیں لگنے دی۔ بلکہ عوامی نمائندوں نے بھی اس پر احتجاج نہیں کیا اور نہ ہی اسمبلی اور سینٹ کے اجلاس میں اس پر بحث ہوئی ہے۔ اتنی بڑی رقم قرض لینا اور صرف ایک آدمی کے رحم و کرم پر ملک کو چھوڑ دینا کہاں کی عقل مندی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ عوامی نمائندے حکومت سے پوچھتے کہ جو قرض منظور ہوا ہے وہ کہاں خرچ ہو گا اور اس کی ادائیگی کیلیے رقم کہاں سے آئے گی۔ اگر تو قرضہ صنعت لگانے کی بجائے صرف حکومتی اخراجات چلانے کیلیے لیا گیا ہے جس کا امکان زیادہ ہے تو پھر یہ جلد ہی ختم ہو جائے گا اور اس کی ادائیگی کیلیے عوام پر مزید ٹیکس لگا دیے جائیں گے جو اچھی بات نہیں ہے۔
اب آپ فیصلہ کریں کہ کون اپنے ملک کیلیے مخلص ہے؟
3 users commented in " کس کا مستقبل روشن؟ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackلوگ کہتے ہیں مایوس نہ ہو۔ میں تو یہ سوچ سوچ کر پریشان ہوتا ہوں کہ ہمارا کیا بنے گا۔ جس ملک کی عوام ہی کرپٹ ہو اس ملک کے پاس کیا بچنا ہے۔
دیکھیں ایک بات پر غور کریں۔ ابھی امریکی الیکشن کے بعد ہمارے بہت سارے بقول شخصے دانشوروں کا کہنا ہے کہ اوبامہ کو لایا گیا یعنی جیسے ہمارے یہاں لایا جاتا ہے۔ مقصد یہ کہ ایک بڑی اکثریت کا اب یہ ماننا ہے کہ سسٹم نام کی کسی چیز کا وجود ہی نہیں نہ صرف یہ کہ پاکستان میں بلکہ دنیا میں کہیں بھی۔ جب یہ سوچ عام ہوجائے تو پھر پوچھ گچھ اور احتساب ہماری کھڑکیوں سے صرف ڈرامہ بازی نظر آتی ہے۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہمارے ساتھ یا ہمارے بعد آزاد ہونے والے ممالک دیکھیے اور ہمیں دیکھیے ۔۔ امریکہ تو بہت زیادہ ترقی یافتہ ہے۔
دشمنان اسلام کا مستقبل تاریک ہےسچا مسلمان کا مستقبل تابناک ھے
اف کتنا ہے تاریک گنہگارکاعالم
انوارسے معمور ھےابرارکاعالم
Leave A Reply