پاکستان کے تیرہ میں سے بارہ صدور کا زمانہ ہم اپنی مختصر سی زندگی میں دیکھ چکے ہیں۔ سکندر مرزا کو بطور صدر نہیں جانتے مگر بعد میں ان پر کیا بیتی یہ ہمیں معلوم ہے یعنی وہ انگلینڈ میں کسم پرسی کی حالت میں دنیا سے رخصت ہوئے۔
صدر ایوب کے دور میں پاکستان نے صنعتی ترقی کی اور وہ دور پاکستان کے سنہری ادوار میں شمار ہوتا ہے۔ سی آئی اے کے بعد کے جاری کردہ کاغذات کے مطابق ایوب ان کا ایجنٹ تھا۔ صدر ایوب نے پاکستان کو انیس سو پینسٹھ کی جنگ میں رسوا کیا اور ہارے ہوئے جرنیل کی طرح معاہدہ تاشقند میں پاکستان کے دریا ہندوستان کو بیچ دیے۔
جنرل یحی پاکستان کا سب سے بڑا شرابی کبابی صدر تھا جس کی خودغرضی کی وجہ سے پاکستان دو لخت ہو گیا۔ اس کا مختصر دور پاکستان کا ناکام ترین دور ہے جس میں پاکستان نے ہندوستان کے آگے ہتھیار ڈالے۔
ذوالفقار علی بھٹو کی صدارت میں بچے کھچے پاکستان نے نئے دور کا آغاز کیا۔ بھٹو کو بھی پاکستان کو توڑنے والوں میں شمار کرتے ہیں۔ بھٹو نے مجیب الرحمن کو حکومت دینے کی بجائے ادھر تم ادھر ہم کا نعرہ لگا کر خودغرضی کی انتہا کر دی۔ بھٹو نے پہلے سوشلزم اور بعد میں اسلامی سوشلزم کا نعرہ لگایا مگر عوام کو روٹی کپڑا اور مکان نہ دے سکا بلکہ راشن ڈپو بنا کر لوگوں کو روٹی کپڑے مکان کیلیے لائنوں میں کھڑا کر دیا۔ بھٹو نے عوام میں سیاسی شعور پیدا کیا مگر اپنے اقتدار کے اختتام پر وہ بھی جاگیرداروں اور وڈیروں کی جھولی میں جا گرا۔ ساری عمر شراب پیتا رہا مگر آخر عوامی دباؤ کے نتیجے میں اسے شراب پر پابندی لگانی پڑی۔ اس نے سٹوڈنٹ اور مزدور یونینز بنا کر عوام کو اپنے حقوق کیلیے لڑنے کی راہ دکھائی مگر آنے والی حکومتوں کیلیے عوامی حقوق کی یھ جنگ خطرہ بن گئی اور انہوں نے ان پر ایسی پابندی لگا دی جو موجودہ پی پی پی کی حکومت وعدے کے باوجود بھی ختم نہیں کر سکی۔ بھٹو کو اسلیے پھانسی لگا دیا گیا کہ اس وقت قبر ایک تھی اور مردے دو تھے۔ بھٹو کا سب سے بڑا کارنامہ پاکستان کو ایٹمی طاقت بنانے کیلیے خان ریسرچ لیب کا قیام تھا۔
چوہدری فضل الہی پاکستان کے پہلے بے اختیار صدر تھے جنہیں بھٹو نے صرف دکھاوے کیلیے منتخب کیا۔ فضل الہی چوہدری کی چھٹی جنرل ضیا نے کرائی۔ فضل الہی نے بطور صدر پاکستان کیلیے کچھ نہیں کیا بس بھٹو کی جی حضوری میں وقت گزار دیا۔
ضیاالحق پاکستان کا جنرل ایوب کے بعد ایک اور مضبوط ڈکٹیٹر صدر تھا جس نے آٹھویں ترمیم سے پاکستان کے آئین کو پھر پارلیمانی سے صدارتی بنا دیا۔ جنرل ضیا نے اسلامی جماعتوں کو اپنے حق میں خوب استعمال کیا۔ جنرل ضیا پاکستان کا واحد حکمران تھا جس نے اسلام کو اپنے اور امریکہ کیلیے استعمال کیا۔ جنرل ضیا نے افغانستان میں روس کیخلاف امریکہ کی جنگ لڑی اور مرد مومون مرد حق کا خطاب پایا۔ جب افغانستان سے روس بھاگ گیا تو کہتے ہیں امریکہ نے جنرل ضیا سے بھی چھٹکارا حاصل کر لیا۔ جنرل ضیا کا سارا دور ایسے روس کیخلاف جنگ کی نظر ہو گیا جیسے امریکی صدر جونیئر بش کا دور عراق جنگ کی نظر ہو گیا۔ جنرل ضیا گیارہ سال میں بھی پاکستان میں اسلام نافذ نہ کر سکا اور یہی اس کی سب سے بڑی منافقت تھی۔
غلام اسحاق خان بھی سی آئی اے کا آدمی تھا اور اس نے وزیرخزانہ اور پھر صدر کی حیثیت سے آئی ایم ایف کے مفادات کو پاکستان کے مفادات پر ترجيح دی۔ غلام اسحاق خان بینظیر اور نواز شریف کی حکومتوں کیساتھ کھیلتا رہا اور آخر میں بینظیر کی وعدہ خلافی کی وجہ سے قصر صدارت سے رخصت ہوا۔ اسحاق خان کا دور پاکستان کیلیے منحوس دور ثابت ہوا جس میں جمہوریت کے کئی تجربات ناکام ہوئے اور آخرکار ملک پر فوج نے دوبارہ قبضہ کر لیا۔
وسیم سجاد عارضی حکومت کے تین ماہ صدر رہے۔ اس دوران معین قریشی کو امریکہ نے پاکستان پر زبردستی تھوپ دیا۔ معین قریشی نے آئی ایم ایف کے ہاتھوں پاکستان کو مزید مقروض بنایا۔ امپورٹ ڈیوٹیاں کم کیں اور بجٹ آئی ایم ایف کی مرضی کیمطابق بنایا۔ وسیم سجاد تماشائی بن کر یہ سب دیکھتے رہے۔
فاروق لغاری کو بینظیر نےغلام اسحاق سے وعدہ خلافی کر کے صدر بنایا اور بعد میں صدر لغاری نے اپنی ہی پارٹی کی حکومت کو برطرف کر دیا۔ فاروق لغاری ایک ڈمی صدر تھا کیونکہ پاکستان میں پارلیمانی نظام دوبارہ رائج ہو چکا تھا۔ فاروق لغاری فارغ ہونے کے بعد سابق صدر کے طور پر زندگی گزارنے کی بجائے جنرل مشرف کی جھولی میں جا بیٹھا اور ایک عام سیاستدان کی طرح باقی زندگی گزار دی۔
وسیم سجاد دوبارہ عارضی صدر بنا اور اس دفعہ معراج محمد خان نے سادگی سے تین ماہ کا عرصہ پورا کیا مگر پاکستان کو اس دور میں بھی کچھ فائدہ نہ ہوا۔
رفیق تارڑ بھی چوہدری فضل الہی کی طرح ڈمی اور نام کا صدر تھا۔ اس کے دور میں نواز شریف ہی سب کچھ تھے۔
جنرل پرویز مشرف نے اپنے سابقہ جرنیلوں کی طرح زبردستی حکومت پر قبضہ کیا اور صدارت کے آٹھ سال جما کر حکومت کی۔ یہ واحد فوجی سربراہ تھا جو وردی اتارنے کے بعد ذلیل ہو کر صدارت سے الگ ہوا۔ جس طرح جنرل ضیا نے امریکہ کیلیے اسلام کے نام پر حکومت کی اسی طرح جنرل مشرف نے اس کے ایک سو نوے درجے الٹ روشن خیالی کے نام پر امریکہ کو اپنی خدمات سونپ دیں۔ جنرل مشرف کے دور میں پاکستان اپنی انا بھی قربان کر بیٹھا اور بھارت کے آگے برائے نام قوت بن کر رہ گیا۔ جنرل مشرف کا دور ڈالروں کی ریل پیل کی وجہ سے خوش حال دور مانا جاتا ہے۔ نو گیارہ کا حادثہ جنرل مشرف کیلیے مبارک ثابت ہوا اور اس کے بعد لوگ ڈالر سمیت کر پاکستان بھاگ آئے۔ مزید ڈالر افغانستان کی جنگ میں امریکہ کی حمایت کے بدلے میں ملنے لگے جن کی وجہ سے پاکستان کی ریل اسٹیٹ اور سٹاک مارکیٹ نے خوب بزنس کیا۔ جنرل مشرف کے کشکول توڑو کے نعرے کے باوجود پاکستان مزید مقروض ہی ہوا۔ جنرل مشرف نے دو بار ملک کا آئین توڑا اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس کو دوبار غیرقانونی طور پر ہٹایا۔ نواز شریف اور بینظیر سے غداری کرنے والوں کی اکثریت نے جنرل مشرف کے دور میں خوب عیاشي کی۔
16 users commented in " صدر ہماری نظر میں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاس کے ایک سو نوے درجے الٹ۔۔۔۔؟
علمِ ہندسہ میں ایک سو اسی کا زاویہ وہ سیدھی لکیر ہوتی ہے۔ جسے خطِ مستقیم بھی کہا جاتا ہے۔ جس کا ایک سرا دوسرے سرے کی ضد ہوتا ہے اور سو فیصد مخالف سمت میں ہوتا ہے۔ اور اسی منسابت سے یوٹرن کو بھی ایک سو اسی فیصد کا موڑ کہا جاتا ہے۔
اس لئے بلحاظِ علمِ ہندسہ ایسی کسی پالیسی، رویے، یا حکمتِ عملی وغیرہ کو ۔ جو پہلے سے سو فیصد مخالف سمت میں ہو، اسے ایک سو اسی دررجے یا زاویہ سے نسبت دی جاتی ہے، نہ کہ ایک سو نوے درجے سے، درستگی فرمالیجئیے ۔
آپ پاکستان کے صدور کا ذکر کرتے ہوئے پاکستان کے سب سے پہلے بکاؤ مال حکمران کو بھول ہی گئے ہیں اور وہ تھے۔ امریکن سی آئی اے کے پاکستان میں پہلے حکمران ایجنٹ، وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم، اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ چند ایک اشتناء چھوڑ کر ایک سے بڑھ کر ۔ایک نہلے پہ دہلا ۔ پاکستان اور پاکستانی عوام کی قسمت کا مالک بنا۔ مگر جس شخص نے پاکستان میں اپنے گھٹیا ترین مفادات کو ریاستِ پاکستان کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہوئے قوم کو امریکن چنگل میں پھنسایا جس سے آج تک قوم کی خلاصی نہیں ہوئی اور ہر آنے والا دن ہماری بربادیوں اور جگ ھنسائی کا سامان لے کر آیا، اس شخص کا نام بلا جواز نوابزادہ لیاقت علی خان تھا۔ جس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ سے دہوکا کیا۔ قادیانی تحریک کو مضبوط کیا۔ پاکستان کی تمام کلیدی عہدوں پہ قادیانوں کو مقرر کیا۔ ادروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ستم ایجاد کیا۔ نوابزادہ کی وجہ سے ملک صرف ایک قراردادِ مقاصد پہ ہی چلتا رہا متواتر اٹھ سال تک پاکستان کے آئین بننے دیئے جانے میں پس و پیش کی کیونکہ یہ طے تھا کہ آئین بننے کے فوراً بعد انتخابات ہونگے ۔ اور نوابزادہ اور اس کے ساتھی امراء کو علم تھا کہ ان کا تو اپنا حلقہ ِ انتخاب تک پاکستان میں نہیں تو انھیں ممبر تک کون چنے گا۔ جبکہ دوبارہ سے وزیر اعظم مملکت خداد پاکستان بننے کے لیے ایک لمبا سفر تھا جس میں نوابزادہ کے دوبارہ وزیراعطم بننے کے امکانات صفر تھے۔ حالانکہ انکی اعلٰی ظرفی ہوتی کہ وہ آئین بنوا کر فوری طور پہ عام انتخابات کروا دیتے اگر ان میں اہلیت ہوتی تو قوم انھیں منتخب بھی کر لیتی ورنہ ایک طرف ہو کر ساری عمر کے لیے تحریکِ پاکستان کے لیے ایک رہنماء کی حیثیت کا کریڈٹ کیش کرواتے رہتے مگر یہ تب ہوتا جب آدرش اور اصول اعلٰی اور ارفع ہوں جبکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیماری کے دوران کہا تھا کہ، ُ ُلیاقت میرے مرنے کامنتظر ہے،، ۔ کہ کب قائدِ اعظم فوت ہوں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اور لیاقت علی خان مسندِ اقتدار پہ قبضہ جمائے۔
آپ نے تنہا ذوالفقار علی بھٹو کو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار ٹہرایا ہے ۔ مگر اس کا بیج لیاقت علی نے بیجا تھا جس نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو آنے بہانے سے صرف اردو کو ملک کے دونوں بازؤں کے لیے واحد قومی زبان قرار دیے جانے کا رستہ دکھایا اور مِس گائیڈ کیا۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں ہی اردو کی بجائے مشرقی پاکستان میں بنگلہ کو قومی زبان قرار دنے کا مطالبہ سامنے آچکا تھا۔ چونکہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے نزدیک اپنی مادری زبان اردو ہی افضل تھی لہٰذاہ نوابزادہ نے اردو کے لیے ناجائز ضد کی وجہ سے کچھ سالوں بعد ہی مشرقی پاکستان کے سانحے کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
جس طرح سندھ کے کچھ علاقوں میں شادی کی صورت میں زمینوں میں سے، بچیوں کا حصہ نکالا پڑتا ہے جس کا فائدہ لامحالہ طور پر بیٹی کے سسرالی خاندان کو ہوتا ہے تو وہاں کے وڈیروں نے اس کا ایک حل یہ بھی نکال رکھا ہے کہ جس بیٹی کو اپنی زمینوں میں سے اس کا حصہ دینا مقصود نہ ہو۔ اس بدقسمت بیٹی کی شادی نعوذ باللہ قرآن سے کر دیتے ہیں۔ اب جس لڑکی کی شادی ہی ایسی متبرک اور مقدس کتاب سے ہو جائے بھلا اس شادی کے پس منظر میں جانے کی جرآءت کون کرے۔ کہ کہاں کس کے حقوق پہ کس طرح زد پڑی۔؟ جس طرح ایسی شادی کے گرد تقدس کا ایک ایسا ھالہ کینھچ دیا جاتا ہے کہ بقی حقیقتیں اس ھالے کے پس منظر میں گُم ہو جاتی ہیں بس اسی طرح کا کچھ واقعہ ہمارے ہاں زبر دستی کی شہادتوں کا ہے۔ یہ جو آجکل ہر کسے نا کسے پہ شہید کا اسٹِکر چپکا دیا جاتا ہے ۔ بس اسی فارمولے کے تحت تب بھی یار لوگوں نے نوابزادہ موصوف پہ شہید کا اسٹکر چپکا دیا کیونکہ جس پہ شہید کا سٹکر چپک جائے بھلا اس پہ انگلی کون اٹھائے گا۔؟ تو جب اس کے کردار ، کردار سے مراد قومی کردار پہ انگلی ہی نہیں اٹھ سکے گی ۔ تو اس کے بارے میں تحقیق و جستجو کون کرے گا تانکہ اصل حقیقت سامنے آسکے۔؟ تو پھر پاکستان کی مختصر سی تاریخ میں تھوک کے حساب سے شہید قرار دیے جانے والی بودی شخصیات کا اصل چہرہ قوم کو کیسے نظر آئے گا۔؟ طرفِ تماشا یہ ہے کہ ھل من مزید کے طور پہ ایسے بودے لوگوں کے نام پہ باغ، ائیرپورٹ بلکہ پورے پورے شہروں کا نام رکھ دیا جاتا ہے۔ بھئی شہید جو ٹہرا دیے گئے اور قائدِ ملت۔فیلڈ مارشل۔ مردِ مومن۔ قائدِ عوام۔ وغیرہ وغیرہ جیسے مضحکہ خیز خطابات سے نواز دیا جاتا ہے۔ اور ہر قسم کے مفاد پرست، خوشامدی اور چاپلوس۔ بودے اور بونے۔ جھوٹ کے خاکوں میں رنگ بھرنے کے لیے، بدقسمتی سے پاکستان میں انھیں مل جاتے ہیں اور تاریخ کا ہم پہ نفرین و لعنت کا یہ پہیہ ہر دفعہ وہیں پہ آ رکتا ہے جہاں سے یہ سلسہ چلتا ہے۔
خیر اندیش۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
جاوید صاحب آپ کی بات پر مزید تبصرہ نہیں لیکن یہ بات نہ سمجھ میں آنے والی ہے کہ جس جناح کو انگریز اور ہندو لیڈر غچہ نہ دے سکے اسے لیاقت علی خان نے جل دے کر اردو کو قومی زبان بنا دیا؟
اردو کے قومی زبان بننے کے کئی اور عوامل بھی تھے اس کار خیر کے لیے نواب صاحب کا ہی نام لینا درست نہیں ہمیں یہ بات نہیں بھولنی چاہیے کہ اردو پاکستان بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی اور ہندوستان کی تقسیم جب مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو اس میں اردو کا راستہ صاف تھا اور ظاہر ہے یہ جمہوری اصولوں کے خلاف تھا لیکن لیاقت علی خان کا تن تنہا کارنامہ نہیں
ایک سو نوے کی اصطلاح اردو میں کچھ لوگوں نے استعمال کی ہے جب کوئی مخالفت میں بہت شدید ہو تو اسے “ایک سو اسی سے بھی دس درجہ زیادہ“ یا ایک سو نوے ڈگری کہا جاتا ہے۔ علم ریاضی کے بجائے ادبی نکتہ نظر سے یہ فقرہ درست ہے اور غالبا افضل صاحب نے اسی معنی میں استعمال کیا ہے۔
السلام علیکم ورحمت اللہ و برکاتہ۔عید کی مبارکباد(لیٹ ھی صحیح)
“ بھٹو کو اسلیے پھانسی لگا دیا گیا کہ اس وقت قبر ایک تھی اور مردے دو تھے۔“
اسکی ذرا تشریح فرمادیں۔شکریہ
آئی لو پاکستان صاحب
یہ جنرل ضیا کے ذہن میںڈال دیا گیا تھا کہ یا بھٹو بچے گا یا جنرل ضیا۔ اس لیے جنرل ضیا نے اپنے آپ کو بچانے کیلیے بھٹو کو پھانسی چڑھا دیا۔ اگر بھٹو کو پھانسی نہ دی جاتی تو جنرل ضیا کی حکومت جلد ختم ہو جاتی یا غیرمستحکم ہی رہتی۔ دوسرے جنرل ضیا کو جنرل مشرف کی طرح اپنے راستے کا سب سے بڑا کانٹا ہٹانے کا جو مشورہ دیا گیا تھا اس کا حل یہی تھا یعنی بھٹو کی پھانسی۔
جنرل مشرف نے غلطی کی جو نواز شریف کو چھوڑ دیا۔ شاید یہی وجہ تھی کہ جنرل مشرف کو ذلیل ہو کر ایوان اقتدار چھوڑنا پڑا۔
جاوید صاحب
تصیح کا شکریہ لیکن ہمارے ذہن میں وہی تھا جو راشد صاحب نے بیان کیا۔ دراصل اس تحریر میں ہم نے پاکستان کے صدور کا ذکر کیا ہے اسی لیے لیاقت علی خان کے بارے میں نہیںلکھا۔ جب وزیراعظموں کے بارے میںلکھنے کا موقع ملا تو ان کے بارے میںضرور لکھیں گے۔ ہمارا دل کر رہا ہے کہ آپ کے تبصرے کو لیاقت علی خان کی پوسٹ میںتبدیل کر دیا جائے۔ کیا خیال ہے آپ کا۔
افضل صاحب!
آپ جو مناسب سمجھیں، وہ کریں ۔ مجھے کوئی اعتراض نہیں اور شاید اس سے جن اذھان میں قائدِ ملت اور شیہدِ ملت جیسے خطابات سے نوابزادہ موصوف کے بارے میں، جو ابہام پیدا ہوتے، ان صاحبان کو کسی درست نتیجہ یا نکتے پہ پہنچنے پہ مدد مل سکے۔ جو میرے لیے باعثِ اطمینان ہوگا۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
راشد کامران صاحب!
آپکا سوال نہائیت مدلل ہے۔ مگر ایسے اور اس سے ملتے جلتے سوالات کے جوابات بعض اوقات اپنے اندر ایک پوری کتاب جیسی ضخامت سموئے ہوتے ہیں اور پھر بھی قاری کی مکمل تشفی نہیں ہوپاتی۔ اور اس فورم پہ بہرحال اس طرح کا مکالمہ نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی میں اپنے آپ کو عالم، فاضل یا صاحبِ علم جیسی کوئی شئے سمجھتا ہوں کہ آپ کی مکمل تشفی کر سکوں اور کچھ میں کاروباری مصروفیات کی وجہ سے بھی اس قدر وقت نکالنے کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ میری آپ سے اور باقی قارئین اکرام سے ببھی یہ درخواست ہے کہ وہ بھی تحقیق و جستجو کریں اور دوسروں کو بھی اپنے خیالات سے نوازیں۔ بہڑ حال میں کوشش کروں گا کہ مطمئین ہو سکیں۔
اس میں کوئی شک نہیں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ جمہوری روایات کے پابند اور جمہور پہ یقین رکھنے والی عظیم شخصیت تھے۔ مگر ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ اپنی زندگی کے آخری سالوں میں پاکستان کے قیام کی خاطر اپنے موذی مرض اور اپنی صحت سے بھی قدرے لاپرواہ ہو چکے تھے جیسے انہیں علم تھا کہ ان کی زاندگی کم رہ گئی ہو اور انہوں نے ہر صورت سب سے اول پاکستان کے قیام کو ترجیج دی۔اور پھر ان کے سامنے پاکستان کے حوالے سے بڑے بڑے بنیادی مسائل تھے۔ رائل انڈین کور کے اور تمام محکموں کے صدر دفاتر دہلی میں ہونے کی وجہ سے اور تمام دفاتر پہ گوروں ہندوؤ ں کا عہدیدار ہونے کی وجہ سے ہمیں فوج۔ خزانہ۔ انتظامیہ۔ انفراسٹرکچر وغیرہ ہر شئے سے محروم خطہ پاکستان کی صورت میں حاصل ہوا۔ ہر طرف انبار کے مسائل تھے۔ لاکھوں کی تعداد میں ہجرت کرنے والے مہاجرین کا مسئلہ الگ سے تھا۔ پاکستان کے وجود کو آزاد ریاست کی حثیت سے دنیا کی باقی برادری سے تسلیم کروانا۔چھوٹی چھوٹی ریستوں کے ادغام کے مسائل۔ کشمیر کا مسئلہ۔ قوم کو ایک نظام دینا۔ آئین کی تیاری۔ المختصر انگنت مسائل تھے ۔ جو پاکستان اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو درپیش تھے ۔ اور سخت محنت کی وجہ سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی روز بروز گرتی صحت کا یہ عالم تھا کہ وہ فراش ہوئے تو انھیں دارلحکومت کراچی سے زیارت جیسے صحت افزء مقام پہ لے جایا گیا کہ شاید یوں وہ صحت یاب ہو جائیں۔ جہاں جانے سے پہلے ہی نوابزادہ موصوف عملی طور پہ کاروبارِ ریاست پہ قبضہ جما چکے تھے اور زیارت جانے کے بعد تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ مکمل طور پہ ہر چیز سے عملاً کٹ گئے اور مسندِ اقتدار پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔اور مشرقی پاکستان میں اردو کو قومی زبان دینے کے قضیے پہ احتجاج سامنے آچکا تھا اور اگر نوابزادہ لیاقت علی خان زیارت میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ عیادت کے لیے نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے گئے تو بقول فاطمہ جناح کہ ابھی قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کتنا دم باقی ہے اور کیا آیا قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ اس بار جانبر ہو سکیں گے یا نہیں۔ اور آپ کے یہ الفاظ
ُ ُ ُ۔۔۔۔اردو پاکستان بننے سے پہلے ہی مسلمانوں کی زبان کا درجہ حاصل کر چکی تھی اور ہندوستان کی تقسیم جب مذہب کی بنیاد پر ہوئی تو اس میں اردو کا راستہ صاف تھا۔۔۔،،
یہ کوئی ایسا جواز نہیں کہ مشرقی پاکستان میں اردو کے خلاف اتنی جلدی اور اسقدر شدید اختلاف سامنے آنے کے بعد بھی مشرقی بازو پہ اردو زبان کو ہی مسلط کیا جاتا۔ یہ سب کے علم میں ہے کہ اردو زبان تو اہلِ پاکستانکی یا پاکستان کے کیسی بھی خطے کی مادری زبان یا پہلے سے رائج کبھی بھی نہیں رہی۔ اور اگر آپ کے بقول اردو محض اس لیے کہ یہ مسلمانوں کی زبان قرار دی جاچکی تھی تو یہ اتنی بڑی دلیل نہیں کیوںکہ عربی تو ویسے ہی اہلِ اسلام سے ہمیشہ نزدیک رہی ہے اور ویسے بھی جس جگہ ہمارا تب کا دارالحکومت واقع کراچی واقع ہے وہاں سے عربی نزدیک ہے بہ نسبت اتر پردیش و لکھنؤ وغیرہ سے جہاں کی مقامی آبادی ہندو مسلم کی تمیز کے بغیر اردو بولتے ہیں۔ اور عربی کے بعد فارسی بھی ہماری زبان ہو سکتی تھی کہ روایتی طور پہ صدیوں یہ زبان ہندؤستان کے امراء کی اور درباری زبان رہی ہے۔ جبکہ اردو پاکستان کے کسی حصے کی مادری زبان تب نہیں تھی۔
آپ نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ یہ اکیلے لیاقت علی خان کا کارنامہ نہیں ہوسکتا کہ اردو مشرقی پاکستان پہ باوجود احتجاج کے تھونپ دی گئی ہو۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ تب موجودہ پاکستان کے لوگ بد قسمتی سے اہلِ لکھنو اور مہاجر ہو کر آنے والے مسلمانوں کی نسبت تعلیم میں ببہت پیچھے تھے اور امورِ ریاست چلانے والے اہم ستون پاکستان کے مقامی باشندے نہیں تھے۔ اور پھر ایل اردو کو سوچے سمجھے ایک پروگرام کے تحت ڈویولپ کیا گیا کہ ایک تو انکی تعلیم زیادہ تھی دوسرے تب یہ خیال عام تھا کہ مہاجر ہونے کے ناطے ان کا حق سب پہ فوقیت رکھتا ہے اور یوں کئی عشرے پاکستان کی خارجہ اور بیوروکریسی پر ایسے لوگ قابض رہے جو اس کے اہل نہیں تھے۔ کہ اتر پردیش ریاست میں جو اگتا تھا سب جانتے ہیں اور جو لوگ وہاں سے ھجرت کر کے آئے ان میں اکثریت ایسے لوگوں کی تھی جنھوں نے بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے اور ھندوں کی چھوڑی ہوئی جائیدادوں پہ ناجائز طور پہ قبضہ کیا۔ قومی اداروں میں بڑے بڑے عہدوں پہ میٹرک پاس نااہل لوگوں کو تعینات کیا گیا اور جب بھی انکی تعلیمی استعداد پہ استفسار ہوا تو کہہ دیا گیا کہ تمام اسناد اور ڈگریاں بلوائیوں نے گھروں سمیت جلاڈالیں۔ جبکہ حقدار اور شریف لوگ تب بھی محروم رہے اور انکی اولادیں آج بھی اپنے حق سے محروم ہیں۔ اور اچکے اور بدمعاش لوگ ان کا حق لے اُڑے۔ جن کی اولادیں آج بھی کراچی میں مسئلہ ہیں۔ مٰن آپ کو ایک مچال سناتا ہوں میرے ایک جاننے والے ہیں وہ بھارت اپنے آباء کا جائے پیدائیش اور علاقہ دیکھنے گئے واپس آئے تو اپنے چچا (کہ انکے والد فوت ھوچکے تھے) سے جو تقسیم کے وقت پاکستان کے موجودہ علاقوں میں ایک سرکاری محکمے میں ملازم تھے، شکوہ کیا کہ وہاں تو ہماری اچھی خاصی جائیدادیں تھیں اور پوری پوری حویلیاں تھیں اور پاکستان جہاں لوگوں نے ناجائز طور پہ قیمتی جائیدادیں ھتیائیں۔ یہاں پاکستان آکر آپ نے اپنی جائیداد کا کوئی کلیم نہیں کیا جبکہ ہم حقدار بھی تھے ۔ تو ان کے چچا کا سادہ سا جواب تھا ُ ُ بیٹا کبھی ملک بھی تقسیم ہوا کرتے تھے۔؟ ہم تو یہ سمجھے یہ چار چھ ماہ کی بات ہے پھر سب کچھ پہلے جیسا ہوجائے گا۔ اور چھ ماہ بعد جب ہم نے کلیم کی کوشش کی تو ہمارے لیے کچھ نہیں بچا تھا۔،، اس مثال سے وہ پس منظر بیان کرنا مقصود ہے کہ جس کی وجہ سے شریف رزیل اور رزیل شرفاء قرار پائے اور اس کا خمیازہ پاکستان آج تک بھگت رہا ہے۔ ایک مثال کراچی ہے۔اصل موضوع کی طرف واپس آتے ہیں نوابزادہ لیاقت علی خان حد درجہ خود پسند شخص تھا ۔ جب نوب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کی وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبی کیا جو اس وقت پورا کرنا چندا مشکل نہیں تھا کہ ایک پوری ریاست پاکستان سے الحاق کر رہی تھی مگی نوابزادہ لیقت علی خان کو یہ بات اس لئیے نہیں گوارہ تھی کہ ہم مطلوبہ بندوقوں کا بندوبست نہیں کر سکتے تھے بلکہ محض اس لیے کہ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لکے قتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا اور ایک خود پسند نوابزادے نے وہی کیا جہو اس کی خود پسندی نے اسے کہا ۔ لیاقت علی خان نے نواب آف جونا گڑھ کو صاف انکار کردیا۔ ایسے شخص سے یہ امید رکھنا کہ اردو کو اہل مشرقی پاکستان پہ مسلط نہ کرتا ناممکن تھا۔ کیونکہ تب پاکستان کے سیاسی پس منظر پہ زبان ایک کلیدی حیثیت اختیار کر چکی تھی اور اردو والے اردو کے زریعے اپنا وجود اپنے کلچر بودوباش اور ثقافت زندہ رکھنا چاہ رہے تھے اور اپنے وجود کو زندہ رکھنے کی اس کوشش میں ملک کا وجود پارہ پارہ ہو گیا۔
قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو جب زیارت سے واپس کراچی لایا گیا تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کو ہوئی جہاز سے لانے کے لیے جس ایمبولنس کو بیجھا گیا اس ایمبولنس میں پٹرول نہیں تھا وہ گھنٹوں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایمبولنس کے اندر اسٹریچر پر سخت گرمی میں پٹرول کے انتظار میں پڑے رہے اور فاطمہ جناح اپنے قریب الموت شدید علیل بھائی کے سر سے مکھیاں ہٹاتی رہیں اور اس دوران نوابزادہ لیاقت علی خان سرخ قالینوں پہ سلامی لے رہے تھے۔ کچھ محقیقین تق یہاں تک کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو زہر دلوایا گیا۔ واللہ علم الصواب۔
آپ خود ہی فیصلہ کی جیے کہ ایسے حالات میں ریاست کے امور پہ عملاً کس کا قبضہ تھا۔؟
یہ پاکستان کی تاریخ کے وہ المناک پہلو ہیں جنہیں میں نے بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور جن پہ ہر دردمند پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے محض اقتدار پہ قابض ہونے کے لیے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی امریکن سی آئی اے کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات استوار کر لینا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے ۔ ایسی غداری ہے جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور ہم ساری دنیا میں تماشہ بنے ہوئے ہیں ۔
ہماری طرف سے ضروری وضاحت۔
ہم اردو کو تہہ دل سے اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔
ہم مہاجر یا غیر مہاجر کی تقسیم یا تفریق پہ قطعی یقین نہیں رکھتے۔
ہمارے نزدیک پاکستان کی تمام شہری قابلِ صد احترام ہیں۔
اوپر دی گئی جملہ تفضیلات محض تاریخی طور پہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے پڑہی سمجھی جائیں۔ اور ان سے کسی کی دل آَزاری مقصود نہیں۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
شکریہ افضل صاحب!
صرف صدور کی تو بات نہیں کرتا لیکن میرے خیال میں تو جناح کے بعد کوئی ایسی شخصیت پاکستان سے خلوص یا محبت رکھنے کی دعویدار نہیں ہو سکتی جو تھوڑا بہت نام یا شہرت رکھتی ہے یا کوئی بھی۔ جاوید صاحب سے صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر کتابیں تک لکھنے سے قاری کی پوری طرح تشفی نہیں ہو سکتی تو وہ ایسا کونسا علم ہے جسکو بنیاد بنا کر ہم کسی کی حب الوطنی اور مسلمانیت پر شک بلکہ بے دریغ الزام تراشی یا بہتان تراشی کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ اس بات سے کافی سارے فائدے اٹھا سکتا ہوں اس لئے مجھے تو ضرور بتائئے گا۔
غلطی معاف لیکن آپکے تبصروں سے تو یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آپکی شائد لیاقت علی خان سے کوئی ذاتی دشمنی ہی اُن سے اس قدر شدید نفرت کا سبب ہے۔
مزید یہ کہ اگر قائد کے لیاقت علی خان سے متعلق مذکورہ اقوال کا ریفرنس بھی دے دیا جاتا تو آپکی بات دیوانے کی آہ کی بجائے مدلل اور پُر اثر ہو سکتی تھی۔
گوندل صاحب شکر ہے قائداعظم کو معاف کرديا ہے ورنہ آپ کے بڑے تو ان کو کافراعظم اور پاکستان کو ناپاکستان اور پليدستان کہتے چلے آئے ہيں-
پاکستان بننے کے بعد بھی جتنا نقصان مولويوں نے پہنچايا ہے، اور کس نے پہنچايا ہے؟ ہر ڈکٹيٹر کے ہاتھ انہوں نے مضبوط کيئے اور شروع دن سے مذہبی انتہاپسندی پھیلا رہے ہيں جس کا انتہائی نتيجہ طالبان کی صورت ميں نمودار ہوا- اب ايک طرف يہ طالبان ہميں مار رہے ہيں دوسری طرف امريکہ ان طالبان کے بہانے ہم پہ دباؤ ڈالتا ہے- کس مصيبت ميں پھنسا ديا ہے ان پاکستان کے مخالف ملاؤوں نے ہميں-
لياقت علی پنجابی تھے اور مشرقی پنجاب ميں کرنال ميں پيدا ہوئے-
“Liaquat Ali Khan, the second son of Nawab Rustam Ali Khan, was born on 2 October 1896, in Karnal, India, into an aristocratic Punjabi family. “
http://en.wikipedia.org/wiki/Liaquat_Ali_Khan
ایک تو ان تبصروں کی ہر بات پر ایک الگ سے کمنٹ لکھنے کو دل کر رہا ہے، پر آپ نے قصے چھیڑ ہی دئے ہیں تو ہم بھی علم کے دریا میں نہائیاں نہائیاں کر لیتے ہیں آپ سے علم حاصل کر کے۔ یہ بھی ضرور بتائیے گا کہ لیاقت علی نے 8 سال تک پاکستان کا آئین کیسے نہیں بننے دیا؟ اور اس نے قادیانیوں کے لئے اپنے آپ کو کمپنی باغ میں بلی کیوںچڑھایا؟ اور یہ اردو والی بات سے تو صرف تعصب ہی ٹپک رہا ہے، ویسے آپکے خیال میں آج پاکستان میں اردو ہی واحد سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان ہے تو کیا یہ سب صرف نوابزادے کی وجہ سے ہے؟ اور آپکے خیال میں اردو کے علاوہ ہماری کونسی زبان ہماری قومی زبان ہو سکتی تھی اور کیوں؟ تفصیل سے بیان کریں اور جہاں ضروری ہو اشکال بنا کر واضح کریں۔
آپکے پہلے تبصرے کے آخری القابات والے پیراگراف سے تو ہم بھی پوری طرح متفق ہیں، پر اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہم سے ہی سوال شروع کر دیں 😀
“ہمارے نزدیک پاکستان کی تمام شہری قابلِ صد احترام ہیں۔“
تو قاديانيوں کا ذکر کيوں کيا؟ کيا انکو پاکستان کا شہری نہيں سمجھتے؟ آپ جانتے ہيں ظفرالہ خان نے ہی کشمير پہ قرارداديں منظور کروائيں تھيں؟
“نوابزادہ لیاقت علی خان کے محض اقتدار پہ قابض ہونے کے لیے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی امریکن سی آئی اے کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات استوار کر لینا۔“
اسکا کوئی ثبوت ہے يا بغير ثبوت ہي چلے گا آج؟
اکثر ایسا ہوتا ہے کہ پوسٹ کسی اور موضوع پر لکھی جاتی ہے اور تبصروںمیں بحث کسی اور طرف نکل جاتی ہے۔ ہم نے لکھا پاکستانی صدور کے بارے میں تھا اور بحث ہونے لگی نواب زادہ لیاقت علی کی شخصیت پر۔ کبھی کبھی ایسی صورتحال میں ہم بے بس ہو جاتے ہیں۔ آئندہ کوشش کریںگے کہ اس کا کوئی حل نکال سکیں۔ ایک حل تو یہ ہے کہ ایسی بحث کو آگے بڑھانے کیلیے اس پر ایک پوسٹ لکھ دی جائے اور ایسا ہی ہم اب کرنے جا رہے ہیں۔ گوندل صاحب کے تبصرے کو پوسٹ کی شکل میںشائع کر رہے ہیں اور امید ہے سب لوگ اس بحث کو اس پوسٹ پر منقل کر دیں گے۔
Leave A Reply