جس دور میں ہم تیس سال قبل جوان ہوئے وہ امن کا دور تھا۔ آپ کو راہ چلتے کوئی نہیں لوٹتا تھا ہاں دھوکے، فریب اور چالاکی سے آپ سے رقم ہتھیا لینی دوسری بات تھی مگر کبھی کسی نے اسلحے کے زور پر نہیں لوٹا تھا۔ اس وقت ہتھیار صرف سیاسی لیڈروں یا مقامی بدمعاشوں کے محافظوں کے ہاتھوں میں نظر آتے تھے۔ آج تو دولہا بھی تب تک سہاگ رات نہیں مناتا جب تک چھت پر چڑھ کر درجن بھر فائر نہ کر لے۔
ہم نے راتوں کو گلیوں میں آزادانہ کھیل کھیلے، فلم دیکھ کر رات بارہ بچے گھر آئے، دوسرے شہروں کے سفر کے بعد صبح نہار گھر لوٹے، اکیلے تپتی دوبہر میں نہروں پر نہانے چلے گئے مگر کسی نے ہماری کلائی کی گھڑی تک نہیں چھینی۔ اس وقت چوریاں ہوتی تھیں اور چور بھی مالک کے جاگنے کے بعد بھاگ جاتے تھے۔ آج کی طرح نہیں کہ ڈاکے دن کے وقت پڑتے ہیں اور وہ بھی گھر والوں کی آنکھوں کے سامنے۔ آج آپ کا موبائل راہ چلتے چھین لیا جاتا ہے۔ آپ کا موٹر سائیکل اور گاڑی چوری ہونا بہت آسان ہو چکا ہے۔ ابھی پچھلے ہفتے ہمارے ایک عزیز جن کا بھائی پولیس میں انسپکٹر ہے کا موٹرسائیکل انسپکٹر کے گھر کے سامنے سے اٹھا لیا گیا۔ امن کے دور میں لوگ کہا کرتے تھے اگر خیریت چاہتے ہو تو تھانیدار کے سامنے سے اور گھوڑی کے پیچھے سے کبھی مت گزرو۔ مگر اب نہ تھانیدار کی کوئی وقعت رہی ہے اور نہ فوجی کرنل کی۔
خدا کا شکر ہے ہم اب بھی اسی امن کے دور میں رہ رہے ہیں مگر پاکستان میں نہیں۔ جن ملکوں نے ساری دنیا کو دہشت گردی کے نام پر غیرمحفوظ بنا کر رکھا ہے ان کے اپنے ممالک ہر لحاظ سے محفوظ ہیں۔ نہ یہاں کوئی سیل فون چھینتا ہے، نہ راہ چلتے عورتوں سے زیور اترواتا ہے، نہ گاڑی گم ہوتی ہے اور نہ چوری ہوتی ہے۔ ڈاکے کا تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ جرائم کی شرح وہی ہے جو کبھی ہماری جوانی کے دور میں پاکستان میں ہوا کرتی تھی۔ مزے کی بات یہ ہے کہ کرنسی اور اشیائے خوردونوش کی بھی وہی قیمت ہے جو ستر کی دہائی میں پاکستان میں تھی۔
یہ سب ہوا کیسے؟ دراصل جس تیزی سے پاکستان کی آبادی بڑھی، اسی تیزی کیساتھ ہماری حکومتوں کی نیتیں بدلیں۔ پہلے حکمران آج کے یورپی ممالک کی طرح بڑے بڑے ڈاکے ڈالا کرتے تھے مگر عام پبلک کو کچھ نہیں کہتے تھے۔ آج کے حکمران ذکوۃ تک ہڑپ کر چاتے ہیں۔ اس افراتفری میں حکمرانوں نے اگلی ٹرم کے انتخابات جیتنے کی فکر چھوڑ رکھی ہے۔ اب وہ موجودہ ٹرم کو ہی غنیمت سمجھ کر لوٹ مار میں ملوث ہو جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ نہ انہیں عوام کی پرواہ رہی ہے اور نہ آخرت کا خوف۔
اس بے خوفی نے حکمرانوں کو دلیر کر دیا ہے وہ اپنے راستے میں آنے والی انصاف، امن، قانون اور وعدوں کی ہر دیوار کو توڑتے جا رہے ہیں۔ لیکن وہ بھول چکے ہیں کہ یہ خودغرضی قوموں کیلیے انتہائی خطرناک ہوتی ہے۔ اگر قوم ہی نہ رہی تو وہ بھی نہیں رہیں گے۔ اب بھی وقت ہے کہ حکمران اپنی نیتیں ٹھیک کر لیں۔ عوام کو تعلیم کے زیور سے آراستہ کریں، آئی ایم ایف کی بھیک کو اپنے سینے پر سجانے کی بجائے عوام کی طاقت کو گلے کا ہار بنائیں۔ پھر دیکھئے گا غیرملکی فضائی حملے بھی رک جائیں گے اور ڈاکے چوریاں بھی بند ہو جائیں گی۔
2 users commented in " امن نایاب ہو گیا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackپرویز مشرف نے اپنے ہم خیالوں کے ساتھ ملکر جو امن کا بیج بویا ہے وہ کراچی میں اپنے رنگ دکھا رھا ہے۔
اپنے دور کے رشتہ داروں میں تین قتل سن چکا ہون ان تین ھفتوں کی چھٹیوں میں۔ دو قتل تو ڈکیتے کے نتیجہ میں ہوے اور ایک محلہ کے بدمعاش کے شوق پر۔، اور تینوں قتل کی وارداتوں کا اخبارات میں کو زکر نہیں، اللہ جانے اور کتنے قتل ، اغوا، عصمتدری کے واقعات ہوتے ھونگے جنکا لوگون کو پتہ ہی نیہں چلتا۔
یہ خبر پڑہیں،
http://www.jang.net/jm/11-29-2008/pic.asp?picname=1338.gif
اس خبر میں ایک نوجوان لڑکی کے دن دھاڑے اغوا ہونے کی خبر ہے۔ اور کتنی خبرین لوگوہ سے سنی ہین۔ لاقانونیت عروج پر ہے ۔
ہمارے حرام زادے حکمرانوں کو اسکی فکر ہی نہیں ہے، اوپر سے ام کیو ایم نے پشتو بولنے والے مسلمانوں کو ازیتین دینا شروع کیا ھو ہے۔ ہم خود اردو بولنے والے ‘مہاجر‘ ہین، مگر اس مکروہ گناہ میں ہم شرکتدار نہین ہئن۔
اللہ پاکستان اور دنیا بھر کے مسلمانوں کی گردنیں ان حرام زادے حکمرانوں سے بچاے، آمینِ۔
صدر ضیاالحق مرحوم نے جو بیج بویا اور کلاشنکوف کلچر کو جو عام کیا آج اس بیج نے تناور درخت کی شکل اختیار کر لی ہے جس کا آج کی نسل حساب چکائے گی
Leave A Reply