امریکن سی آئی اے کے پاکستان میں پہلے حکمران ایجنٹ وزیر اعظم نوابزادہ لیاقت علی خان مرحوم تھے اور اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہ رہی۔ چند ایک استثناء چھوڑ کر ایک سے بڑھ کر ایک نہلے پہ دہلا پاکستان اور پاکستانی عوام کی قسمت کا مالک بنا۔ مگر جس شخص نے پاکستان میں اپنے گھٹیا ترین مفادات کو ریاستِ پاکستان کے مفادات پہ ترجیج دیتے ہوئے قوم کو امریکن چنگل میں پھنسایا، جس سے آج تک قوم کی خلاصی نہیں ہوئی اور ہر آنے والا دن ہماری بربادیوں اور جگ ھنسائی کا سامان لے کر آیا، اس شخص کا نام بلا جواز نوابزادہ لیاقت علی خان تھا۔ جس نے قائدِ اعظم محمد علی جناح رحمۃ اللہ علیہ سے دھوکا کیا۔ قادیانی تحریک کو مضبوط کیا۔ پاکستان کی تمام کلیدی عہدوں پہ قادیانوں کو مقرر کیا۔ ادروں کو اپنے مفادات کے لیے استعمال کرنے کا ستم ایجاد کیا۔ نوابزادہ کی وجہ سے ملک صرف ایک قراردادِ مقاصد پہ ہی چلتا رہا متواتر اٹھ سال تک پاکستان کے آئین بننے دیئے جانے میں پس و پیش کی کیونکہ یہ طے تھا کہ آئین بننے کے فوراً بعد انتخابات ہونگے ۔ اور نوابزادہ اور اس کے ساتھی امراء کو علم تھا کہ ان کا تو اپنا حلقہ ِ انتخاب تک پاکستان میں نہیں تو انھیں ممبر تک کون چنے گا۔ جبکہ دوبارہ سے وزیر اعظم مملکت خداد پاکستان بننے کے لیے ایک لمبا سفر تھا جس میں نوابزادہ کے دوبارہ وزیراعطم بننے کے امکانات صفر تھے۔ حالانکہ انکی اعلٰی ظرفی ہوتی کہ وہ آئین بنوا کر فوری طور پہ عام انتخابات کروا دیتے اگر ان میں اہلیت ہوتی تو قوم انھیں منتخب بھی کر لیتی ورنہ ایک طرف ہو کر ساری عمر کے لیے تحریکِ پاکستان کے لیے ایک رہنماء کی حیثیت کا کریڈٹ کیش کرواتے رہتے مگر یہ تب ہوتا جب آدرش اور اصول اعلٰی اور ارفع ہوں جبکہ ایک دنیا جانتی ہے کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی بیماری کے دوران کہا تھا کہ، ُ ُلیاقت میرے مرنے کامنتظر ہے،، ۔ کہ کب قائدِ اعظم فوت ہوں۔انا للہ و انا الیہ راجعون۔ اور لیاقت علی خان مسندِ اقتدار پہ قبضہ جمائے۔
تنہا ذوالفقار علی بھٹو مشرقی پاکستان کی علیحدگی کا ذمہ دار نہیں تھا ۔ اس کا بیج لیاقت علی نے بیجا تھا جس نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو آنے بہانے سے صرف اردو کو ملک کے دونوں بازؤں کے لیے واحد قومی زبان قرار دیے جانے کا رستہ دکھایا اور مِس گائیڈ کیا۔ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی حیات میں ہی اردو کی بجائے مشرقی پاکستان میں بنگلہ کو قومی زبان قرار دنے کا مطالبہ سامنے آچکا تھا۔ چونکہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے نزدیک اپنی مادری زبان اردو ہی افضل تھی لہٰذاہ نوابزادہ نے اردو کے لیے ناجائز ضد کی وجہ سے کچھ سالوں بعد ہی مشرقی پاکستان کے سانحے کا نتیجہ ہم سب کے سامنے ہے۔
سخت محنت کی وجہ سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ فراش ہوئے تو انھیں دارلحکومت کراچی سے زیارت جیسے صحت افزء مقام پہ لے جایا گیا کہ شاید یوں وہ صحت یاب ہو جائیں۔ جہاں جانے سے پہلے ہی نوابزادہ موصوف عملی طور پہ کاروبارِ ریاست پہ قبضہ جما چکے تھے اور زیارت جانے کے بعد تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ مکمل طور پہ ہر چیز سے عملاً کٹ گئے اور مسندِ اقتدار پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کا مکمل قبضہ ہو چکا تھا۔اور مشرقی پاکستان میں اردو کو قومی زبان دینے کے قضیے پہ احتجاج سامنے آچکا تھا اور اگر نوابزادہ لیاقت علی خان زیارت میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ عیادت کے لیے نہیں بلکہ صرف یہ دیکھنے گئے تو بقول فاطمہ جناح کہ ابھی قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کتنا دم باقی ہے اور کیا آیا قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ اس بار جانبر ہو سکیں گے یا نہیں۔
نوابزادہ لیاقت علی خان حد درجہ خود پسند شخص تھا ۔ جب نواب آف جونا گڑھ نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی صورت میں پاکستان کے تب کے وزیرِ اعظم سے پچاس ہزار بندوقوں کا مطالبہ کیا جو اس وقت پورا کرنا چندا مشکل نہیں تھا کہ ایک پوری ریاست پاکستان سے الحاق کر رہی تھی مگی نوابزادہ لیقت علی خان کو یہ بات اس لئیے نہیں گوارہ تھی کہ ہم مطلوبہ بندوقوں کا بندوبست نہیں کر سکتے تھے بلکہ محض اس لیے کہ اس طرح پاکستان میں نوابزادہ لیاقت علی خان کے لیے اقتدار و اختیار کو ایک بہت بڑے نواب ( آف جوناگڑھ) کی صورت میں خطرہ لاحق ہو جاتا اور ایک خود پسند نوابزادے نے وہی کیا جو اس کی خود پسندی نے اسے کہا ۔ لیاقت علی خان نے نواب آف جونا گڑھ کو صاف انکار کردیا۔
قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو جب زیارت سے واپس کراچی لایا گیا تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی کو ہوئی جہاز سے لانے کے لیے جس ایمبولنس کو بیجھا گیا اس ایمبولنس میں پٹرول نہیں تھا وہ گھنٹوں زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ایمبولنس کے اندر اسٹریچر پر سخت گرمی میں پٹرول کے انتظار میں پڑے رہے اور فاطمہ جناح اپنے قریب الموت شدید علیل بھائی کے سر سے مکھیاں ہٹاتی رہیں اور اس دوران نوابزادہ لیاقت علی خان سرخ قالینوں پہ سلامی لے رہے تھے۔ کچھ محقیقین تو یہاں تک کہتے ہیں کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو زہر دلوایا گیا۔ واللہ علم الصواب۔
آپ خود ہی فیصلہ کیجیے کہ ایسے حالات میں ریاست کے امور پہ عملاً کس کا قبضہ تھا۔؟
یہ پاکستان کی تاریخ کے وہ المناک پہلو ہیں جنہیں میں نے بہت اختصار کے ساتھ بیان کیا ہے ۔ اور جن پہ ہر دردمند پاکستانی کا دل خون کے آنسو روتا ہے۔ اور نوابزادہ لیاقت علی خان کے محض اقتدار پہ قابض ہونے کے لیے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی امریکن سی آئی اے کے ساتھ اپنے ذاتی تعلقات استوار کر لینا۔ پاکستان کی تاریخ میں ایک ایسا واقعہ ہے ۔ ایسی غداری ہے جس کی سزا آج پوری قوم بھگت رہی ہے اور ہم ساری دنیا میں تماشہ بنے ہوئے ہیں ۔
ہماری طرف سے ضروری وضاحت۔
ہم اردو کو تہہ دل سے اپنی قومی زبان تسلیم کرتے ہیں۔
ہم مہاجر یا غیر مہاجر کی تقسیم یا تفریق پہ قطعی یقین نہیں رکھتے۔
ہمارے نزدیک پاکستان کے تمام شہری قابلِ صد احترام ہیں۔
اوپر دی گئی جملہ تفضیلات محض تاریخی طور پہ ریکارڈ کی درستگی کے لیے پڑہی سمجھی جائیں۔ اور ان سے کسی کی دل آَزاری مقصود نہیں۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
اس تحریر کا جواب محترم اجمل صاحب نے تفصیل سے اپنے بلاگ پر دیا ہے۔ یہ تحریر آپ یہاں پر پڑھ سکتے ہیں۔
30 users commented in " قائد ملت لیاقت علی خاں جاوید گوندل کی نظر میں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہم بھی اپنے تبصرے یہاں پیسٹ دیتے ہیں
صرف صدور کی تو بات نہیں کرتا لیکن میرے خیال میں تو جناح کے بعد کوئی ایسی شخصیت پاکستان سے خلوص یا محبت رکھنے کی دعویدار نہیں ہو سکتی جو تھوڑا بہت نام یا شہرت رکھتی ہے یا کوئی بھی۔ جاوید صاحب سے صرف اتنا کہنا ہے کہ اگر کتابیں تک لکھنے سے قاری کی پوری طرح تشفی نہیں ہو سکتی تو وہ ایسا کونسا علم ہے جسکو بنیاد بنا کر ہم کسی کی حب الوطنی اور مسلمانیت پر شک بلکہ بے دریغ الزام تراشی یا بہتان تراشی کر سکتے ہیں؟ میرے خیال میں میں عمر کے اس حصے میں ہوں کہ اس بات سے کافی سارے فائدے اٹھا سکتا ہوں اس لئے مجھے تو ضرور بتائئے گا۔
غلطی معاف لیکن آپکے تبصروں سے تو یہی قیاس کیا جا سکتا ہے کہ آپکی شائد لیاقت علی خان سے کوئی ذاتی دشمنی ہی اُن سے اس قدر شدید نفرت کا سبب ہے۔
مزید یہ کہ اگر قائد کے لیاقت علی خان سے متعلق مذکورہ اقوال کا ریفرنس بھی دے دیا جاتا تو آپکی بات دیوانے کی آہ کی بجائے مدلل اور پُر اثر ہو سکتی تھی۔
ہی دئے ہیں تو ہم بھی علم کے دریا میں نہائیاں نہائیاں کر لیتے ہیں آپ سے علم حاصل کر کے۔ یہ بھی ضرور بتائیے گا کہ لیاقت علی نے 8 سال تک پاکستان کا آئین کیسے نہیں بننے دیا؟ اور اس نے قادیانیوں کے لئے اپنے آپ کو کمپنی باغ میں بلی کیوںچڑھایا؟ اور یہ اردو والی بات سے تو صرف تعصب ہی ٹپک رہا ہے، ویسے آپکے خیال میں آج پاکستان میں اردو ہی واحد سب سے زیادہ سمجھی جانے والی زبان ہے تو کیا یہ سب صرف نوابزادے کی وجہ سے ہے؟ اور آپکے خیال میں اردو کے علاوہ ہماری کونسی زبان ہماری قومی زبان ہو سکتی تھی اور کیوں؟ تفصیل سے بیان کریں اور جہاں ضروری ہو اشکال بنا کر واضح کریں۔
آپکے پہلے تبصرے کے آخری القابات والے پیراگراف سے تو ہم بھی پوری طرح متفق ہیں، پر اسکا یہ مطلب نہیں کہ آپ ہم سے ہی سوال شروع کر دیں۔
صرف بات کہہ دینا یا لکھ دینا ریکارڈ کی درستگی نہیں ہوتی!!!
آپ کے پاس اگر! جی اگر حوالے ہیں تو وہ بھی بتائے!
یہ تحریر حقیقت گوئی کم اور نفرت بیان ذیادہ معلوم ہوتی ہے!!
ابھی کچھ دن پہلے آپ نے ایوب خان کو سیآئاے کا ایجنٹ قرار دیا تھا اور آج یہی بات لیاقت علی خان کے بارے میں کہی ہے۔ کیا آپ ان دونوں باتوں کا ریفرنس پیش کر سکتے ہیں؟ شکریہ۔
ایک بات جو پسند نہیں ہے وہ ہے ان کا “امیر یکہ کی جھولی “ میں بیٹھنا
جاوید گوندل صاحب کی تحریر پڑھکر مجھے شُبہ ہو رہا ہے کہ موصوف کا دماغی توازن درست نہیں ۔ اگر ریکارڈ کی درستگی ہی مطلوب ہے تو سُنیئے اور یاد رکیئے کہ جب پاکستان بنا تو میری عمر دس سال تھی ۔
جس مرزائی نے مرزائیوں کو حکومتی عہدوں پر بٹھایا وہ یعنی ظفراللہ قائد اعظم کی چوائس تھی
نوابزادہ لیاقت علی کے کہنے پر نہیں بلکہ بنگال سے مسلم لیگی رہنماؤں کے وفد کی تجویز پر کہ یہی ایک زبان ہے جو پانچوں صوبوں کی اکثریت سمجھتی ہے اُردو زبان کو قومی زبان قائد اعظم نے قرار دیا تھا
اگر نوابزادہ لیاقت علی امریکہ کے ایجننٹ تھے تو امریکہ نے اُنہیں کیوں قتل کروا دیا ۔ حقیقت یہ ہے کہ نوابزادہ لیاقت علی جب امریکہ گئے تو اُنہوں نے واضح طور پر کہا کہ پاکستان ایک خود مُختار ملک بن چکا ہے اور وہ امریکہ کو دوست بنانا چاہتا ہے لیکن ڈکٹیشن کسی سے نہیں لے گا تو واپس آنے پر ان کے قتل کی سازش تیار ہوئی
فی الحال اتنا ہی ۔ مجھے کسی ضروری کام کیلئے جانا ہے
اگر نوابزادہ لیاقت علی
نوابزادہ کا سب سے بڑا مسئلہ یہ تھا کہ اگر وہ امریکہ کے بجائے روس کا انتخاب کرتے تو آج ہم ان کے سرخے ہونے پر بحث میں الجھے ہوئے ہوتے۔ نوزائیدہ مملکت کے لیے اس وقت کسی نہ کسی بڑے ملک سے دوستی کی اشد ضرورت تھی اور اس وقت کے تعلقات اور آج کی نوکری میں بڑا فرق ہے۔
نوابزادہ صاحب کے ساتھ بطور سیکرٹری خارجہ کام کرنے والے غالبا ڈاکٹر سمیع اللہ قریشی نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ کسی ملک کا دورہ اس ملک کی دعوت پر کیا جاتا ہے نوابزادہ صاھب یہی چاہتے تھے کہ وہ پہلے روس جائیں مگر اس وقت کے روس کے خارجہ امور کے عہدہ دار نے باوجود افغانستان میں موجود ہونے کے اور سمیع اللہ قریشی کے وہاں موجودگی کے اس حوالے سے کوئی جواب نہیں دیا جبکہ امریکیوں نے اس معاملے میں زیادہ دلچسپی لی اس وجہ سے پہلا دورہ امریکہ کا ہوا۔
WHO SHOT LAK?..CIA CONNECTION
Under headline reading “Is Liaquat Ali Khan’s assassination result of a deep-laid American conspiracy?”, leftist Urdu daily Bhopal named Nadeem published article October 24 charging US with responsibility. Summary article follows:
It was learned within Pakistani Foreign Office that while UK pressing Pakistan for support re Iran, US demanded Pakistan exploit influence with Iran and support Iran transfer oil fields to US. Liaquat declined request. US threatened annul secret pact re Kashmir. Liaquat replied Pakistan had annexed half Kashmir without American support and would be able to take other half. Liaquat also asked US evacuate air bases under pact. Liaquat demand was bombshell in Washington. American rulers who had been dreaming conquering Soviet Russia from Pakistan air bases were flabbergasted. American minds set thinking re plot assassinate Liaquat. US wanted Muslim assassin to obviate international complications. US could not find traitor in Pakistan as had been managed Iran, Iraq, Jordan. Washington rulers sounded US Embassy Kabul. American Embassy contacted Pashtoonistan leaders, observing Liaquat their only hurdle; assured them if some of them could kill Liaquat, US would undertake establish Pashtoonistan by 1952. Pashtoon leaders induced Akbar undertake job and also made arrangements kill him to conceal conspiracy. USG-Liaquat differences recently revealed by Graham report to SC; Graham had suddenly opposed Pakistan although he had never given such indication. […] Cartridges recovered from Liaquat body were American-made, especially for use high-ranking American officers, usually not available in market. All these factors prove real culprit behind assassin is US Government, which committed similar acts in mid-East. “Snakes” of Washington’s dollar imperialism adopted these mean tactics long time ago.
جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب!
میرے بارے میں آپ کے یہ الفاظ ُ ُ۔۔۔ کہ موصوف کا دماغی توازن درست نہیں۔۔۔،، بلاشبہ میری ذات کے بارے میں میری زندگی میں کہے گئے یا لکھے گئے سخت ترین الفاظ ہیں اور چونکہ یہ الفاظ صرف میری ذات پہ کہے گئے ہیں اس لئیے میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔
موضوع چونکہ پاکستان سے متعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اچھے مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
آپ نے اوپر جو حوالہ انگریزی زبان میں دیا ہے وہ لیاقت علی خان کی کے قتل پہ بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کی کوڑی ہے جو تب بھارت، نئی دہلی میں امریکن سفارت خانے نے ایک معمول کی کاروائی کے تحت تیس اکتوبر 1951 بعنوان Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951 کو ٹیلیگرام واشنگٹن بجھوائی تھی۔ جبکہ انھی دنوں میں ۔ لیاقت علی خان کے قتل کے موضوع پہ امریکیوں نے اپنے مختلف سفارتی مشنوں سے ایک عام روٹین کے تحت درجنوں ٹیلی گرامز اور رپورٹس واشنگٹن بجھوائیں تھیں جو درج ذیل ہیں
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embassy, Oct. 16, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951
Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 17, 1951
The Situation in Pakistan, Oct. 17, 1951
Comment on the Assassination of the Pakistani Prime Minister, Oct. 17, 1951
The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951
Special Note: The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951 Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 18, 1951
. Secret Telegram from Karachi Embassy, Oct. 18, 1951
Official Afghan Reaction to Press Implications of Afghan Complicity in Assassination of Pakistan Prime Minister, Oct. 18, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951
Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951
. Restricted Telegram from Consulate General, Calcutta, Oct. 19, 1951
. Secret Telegram from Secretary of State, Oct. 20, 1951
. Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 21, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 22, 1951
The Current Outlook in Pakistan, Oct. 22, 1951
. Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 23, 1951
Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 23, 1951
. Secret Telegram from Moscow Embassy, Oct. 26, 1951
Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 31, 1951
. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951
Confidential Telegram from Lahore Consulate, Nov. 14, 1951
Secret Telegram from Karachi Embassy, Nov. 15, 1951
Public Role of Ms. Fatima Jinnah Since Assassination of Liaquat, Nov. 17, 1951
. Political and Economic Developments for the Week Ending Jan. 8, 1952, Jan. 8, 1952
Political Developments in Pakistan, Sept.-Dec. 1951, Jan. 30, 1952
. Confidential Telegram A-251 from Karachi Embassy, Feb. 11, 1952
Political Developments in Pakistan, January 1952, Feb. 25, 1952
. Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 18, 1952
Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 19, 1952
جن ٹیلی گرامز کا حوالہ یا متن میں سے آپ نے صرف بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کا انتخاب کیا ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کالم لیاقت علی خان کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کو (جس کی بہر حال ہم مذمت کرتے ہیں ) آپ کے نقطعہ نظر بلکہ بہت سے لوگوں کے نقطعہ نظر کے عین مطابق یک طرفہ طور پہ محب الوطن، قائد ملت اور شہید ٹھرائے جانے پہ اصرار اور لیاقت علی خان کو پارسا ثابت کرنے پہ بضد ہونے کو توانائی مہیا کرتا ہے۔ جبکہ درحقیقت یوں نہیں اور آپ بھی جانتے ہون گے کہ کیوں ۔؟ کیونکہ آپ کا مجھ پہ اسقدر سیخ پا ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اور وہ وجوہات ہم آگے بیان کریں گے۔
آئیں پہلے ان وجوہات پہ بات کیے لیتے ہیں ۔۔
پروفیسر ضیاء الدین احمد اپنی کتاب،لیاقت علی خان بلڈر آف پاکستان۔ کے صحفہ نمر ستائیس پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے یو پی اتر پردیش کے ساتھ گہرا تعلق ہونے کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔
“The family, Before settling down in Karnal in the Punjab in the 19th century, lived on the other side of the Jamna in Muzaffarnagar (U.P., India) for some generations, where they owned bigestates. Even after he settled down in Delhi, he took keen interestin the amelioratin and betterment of the Muslims of Muzaffarnagar.”
p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan
تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خان اپنی کتاب۔ دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کے پیج نمبر 178 پہ لیاقت علی خان کے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیج دینے۔ اور اتر پردیش کے لوگوں کو کراچی میں ہر قانون قاعدہ توڑتے ہوئے، محض اپنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے یو پی والوں کو کراچی میں بسانے کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تحریک پاکستان کے ہروال دستے کے ایک رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معتمد خاص ساتھی کے الفاظ ہیں۔
“He (Liaqat Ali Khan) delayed the completion of the Constitution to avoid elections which he could not win because he had no seat in Pakistan and had to be elected by East Pakistan. He, on the advice of officers belonging to the United Provinces, broke the Liaqat-Nehru Pact about the agreed areas for migration from India to Pakistan, requiring the record of property to be exchanged officially. He, quite against the agreement permitted inhabitants of UP and Rajasthan to enter via Khokhrapar – thus opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan. I objected to this in the assembly. This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice. This act of his created a lot of confusion with people getting allotments in Sindh, without records on each other’s dubious evidence. This led to the problems of MQM and their hatred by Sindhis. These refugees got a monopoly of jobs in the cities and deprived local Pakistanis of their rightful share. The political instability still persists.”
(source: Page 178 from the “Nation that lost its soul”, enclosed as Vol 2.5 in
the document)
جلد نمبر 4 پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان۔ ادرارہ مطالعہ تاریخ پیج نمبر 185-187 پہ حسن جعفر زیدی، نوابزادہ لیاقت علی خان کی اصولوں سے ہٹ کر ذاتی پسند اور نا پسند کی داتی مفادات کی سیاست پہ لکھتے ہیں ۔
“Punjabi chauvinism and Liaqat Ali Khan’s favoritism was at each others throat. The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”
Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187
وہ مزید لکھتے ہیں ۔
Liaqat Ali Khan with nepotism, and commenting on the appointments Liaqat Ali Khan had made……….
Hashim Raza, administrator Karachi; his brother Kazim Raza, IG police; Aal-e-Raza, also brother of Hashim, Public Prosecutor; Superintendent CID; Home Secretary Punjab, all of them from UP. Liaqat Ali Khan did all this to secure his political success from Karachi at least…………
………………… The commander of army in Bengal was (you guessed it right) Maj. General Ayub Khan was from Hazar…. They never gave the respect to political leadership of Bengal either.
the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
لیاقت علی خان کی رقص و شراب کی محفلیں اور دلچسپیوں کے بارے میں وجاہت مسعود، لاہور سے بعنوان لیاقت علی خان کا قتل میں لیاقت علی خاں کون تھے؟ میں یوں رقم طراز ہیں۔
“شخصی زندگی میں لیاقت علی روشن خیال اور مجلسی مزاج رکھتے تھے۔ وہ رقص، شراب اور عمدہ سگرٹوں سے محظوظ ہوتے تھے مگر عوامی سطح پر ان کی سیاست مذہبی حوالوں سے بھرپور ہوتی تھی۔ ۔۔۔۔۔۔”
اجمل صاحب آپ طوالت کی وجہ سے اختصار سے کام لوں گا، مجھے اپنی مصروفیات سے وقت نکالنا مشکل ہوتا ہے ۔ اگر آہ اصرار کریں گے تو مزید دستاویزات حاضر کر دوں گا ۔
مقصد کسی کی دل آزاری نہیں اور نہ ہی آپ کے علم کو چیلنج کرنا ہے یہ ایک عام سا مکالمہ تھا، جسے آپ نے بحث کا رنگ دیا۔ بہر حال جو قارئین اکرام اپنے طور پہ خود بھی تحقیق و جستجو کریں تو حقیقتیں واضح ہوتی چلی جائیں گی۔ ہمارے نزدیک پاکستان کے رہنماء کہلائے جانے والوں کے لیے پاکستان کی خاطر قربانی دینے کے جذبے کی بہت سخت کسوٹی ہے جس پہ ہم پاکستاں کے مفادات کو پرکھتے ہیں۔ جب معاملہ پاکستان یا امت اسلامیہ کا ہو تو کسی کو معافی نہیں، اور حقائق کھل کر سامنے آنے چاھیں۔ خواہ اس کی زد میں کوئی بھی ہی کیوں نہ ہو اور وہ کس قدر ہی مقدس قرار دیا جا چکا ہو۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
سب سے پہلے سب مسلمانوں کو عید مبارک دعا کہ اللہ پاک ہم سب کوعملی مسلمان بننے کی شوق اورتوفیق شوق دے
مصرفیات کی وجہ سے آجکل کم ھہ آنا جانا ہوا مگر جس طرح ایک سیدھہ اور سادی سی بات پر لوگ جناب جاوید صاحب پر بے قابو ٹرک کی طرح چڑھ دوڑھے ہیں اس پر اپنا خیال سب کے شامل خیال کرنا مناسب سمجھتا ہوں
جاوید صاحب نے صرف ایک آدمی کی بات کی اس میں کم از کم 50 فیصد تو درست بھی ہے اور سب کے سامنے بھی ابھی تو مسلم لیگ کے کنتے کردار اور ہوں گے اور نام تو ملم لیگ تھا ان میں عملی مسلمان کتنے تھے؟ سب جانتے ہیں لیاقت علی خان کی بیوی بڑی بے باک عورت تھی اب یہ بات تب ھی ہوگی جب گھر میں دین جس طرح کا ہوگا
ظفر قادیانی کو اتنے بڑے عہدے پر رکھنا نہ صرف لیاقت علی خان صاحب کو مشکوک بناتا ہے بلکہ انکے اسلام کی سمجھ پر بھی سوالیہ نشان لگتا ہے
اور خود محمد علی جناح سمیت سب مسلم لیگ کا اسلامی شعور اور علم ریگل چوک پر برہنہ ہوجاتا ہے
قائد کا یہ فرمانا کہ میری جیب میں کھوٹے سکے تھے تو وہ کون سے تھے؟ ظاھر ہے بڑے لوگوں کی بات کی ہے عام کارکن یا معمولی رہنما سے کیا فرق پڑتا
اگر لیاقت علی خان انتے قابل یا مخلص ہوتے تو دستور اور اسلامی قوانین کو انتے سالوں پر کیوں لٹکاتے؟ کون سی مشکل تھے؟ اس وقت تو اسلام کا نام لینا آسان تھا
ایک آدمی کو استعمال کرکے راستے سے ہٹانا تو عام سی بات ہے اگر انکو ان ہی نے مارا تو انچبے کی کیا بات ہے؟—
لیاقت علی خان پنجابی تھے معزرت کے ساتھ عرض ہے کہ بک جانا پنجابی قوم میں بہت رہا ہے اور سب سے زیادہ بھی اب اعتراض دور کرنا ہے تو خصلت بدلی جائے تاکہ ساری قوم امن میں رہے اور کسی کو بھی اتنا آسانی سے بک جانے والا نہ ملے
ایم کیو ایم کی سیاست لیاقت علی خان پر کیوں ہے یہ ان کا کارکن بہتر بتا سکتا ہے اگر عقل سلیم کا کوئی خلیہ اب بھی اس پارٹی میں رہ گیا ہے
اب آتے ہیں ان صاحب کی طرف جنہوں نے جاوید صاحب کو زہنی سرٹیفکیٹ دینے سے انکار کیا ہے
ایک تو یہ ہر بات میں اپنی عمر لے آتے ہیں اور علم جبکہ کسی وقت انکے بیٹے کی سائڈ پر پڑھا تھا کس طرح اس نے اپنی بچی کیا پیدائش کی تفصیل دی تھی اور بیوی کی شرمگاھ تک کے معائنے کی باتیں کی تھیں اب اپنی اولاد کی تربیت کا یہ عالم ہے تو حضور یہ عمر کہاں گزری؟ بتاؤ تو جانیں
صحابہ اور شیعہ کی کسی بات پر ان صاحب نے بڑاگمراہ کن جواب دیا تھا وہ اب بھی ریکارڈ پر ہوگا
میرا مقصد تنقید نہیں ہے بلکہ آئینہ دکھانا ہے میں اب بھی اجمل صاحب کی عزت کرتا ہوں اور انکی اکثر پوسٹ اسلام اور پاکستان کا دفاع کرتی ہیں اور خاص کر انکا جو سب سے زیادہ مسلمان بھی ہیں اور مظلوم بھی ان کے دفاع بلاگ میں سے مضبوط اجمل صاحب ھی کرتے ہیں اور ہیہ ان کی سب غلطیوں کو مٹا دیتی ہے عزت دلاتی ہے
مخلص اور امن امان کا طالب
وہ امن نہیں جن کا بلاگ ہے 🙂
احمد عثمانی صاحب آپ بھی مفروضوںکی بنیاد پر قائم کی گئی رائے پیش کررہے ہیں خاص کر پنچابی قوم کے لیے آپ کے الفاظ کسی صورت اسلامی تعلیمات سے مطابقت نہیں رکھتے کیونکہ اسلامی تعلیمات کے مطابق ہر انسان اپنے عمل کا ذمہ دار ہے اور چند لوگوں کے کردار کی وجہ سے پوری قوم کو مورد الزام ٹہرانا غلط ہے۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس وقت تک قادیانیوں کو باقاعدہ غیر مسلم قرار نہیں دیا گیا تھا چناچہ کسی صورت غیر قانونی تقرری نہیں تھی۔ اگر آپ کے نزدیک قائد اعظم اور لیاقت علی خان اسلامی سوچ نہیں رکھتے تھے تو اسکا مطلب تو یہ ہوا کے ان دونوں کی نظر میں پاکستان ایک اسلامی مملکت تھی ہی نہیں بلکہ پاکستان بنانے کے مخالف ملاؤں کی پاکستان بن جانے کے بعد موقع سے فائدہ اٹھانے کا ایک شوشہ تھا؟
اجمل صاحب اور ان کے صاحبزادے کی ذاتی زندگی کے بارے میں کیا گیا آپ کا تبصرہ انتہائی ہتک آمیز ہے اس پر آپ کو ان سے معذرت کرنی چاہیے۔
امید ہے قارئین نوابزادہ لیاقت علی خان کی شخصیت پر دونوں فریقین کی رائے پڑھنے کے بعد آسانی سے یہ رائے قائم کر سکیں گے کہ سچ کیا تھا اور جھوٹ کیا۔ دوسرے فریق محترم اجمل صاحب کا نقطہ نظر اس لنک سے پڑھا جا سکتا ہے۔
http://www.theajmals.com/blog/?p=1370#comment-16002
قارئین سے ہم بار بار گزارش کرتے رہتے ہیں کہ ذاتی گالی گلوچ سے پرہیز ہی ایک اچھے اور سلجھے ہوئے آدمی کی نشانی ہوتی ہے مگر اس کے باوجود نہ جانے کیوںہم لوگ خود کو عقل مند سمجھتے ہوئے دوسروں کی ایسی تیسی کر دیتے ہیں۔ جو بات بدتمیزی سے بیان کی جاتی ہے وہ اچھے انداز سے بھی بیان کی جا سکتی ہے بلکہ زیادہ اثر رکھتی ہے۔
ہم احمد عثمانی اور اجید سے معذرت چاہتے ہیں کہ ان کے موضوع سے ہٹ کر کئے گئے تبصرے مٹا رہے ہیں۔ احمد عثمانی صاحب کا آخری تبصرہ بھی ہم نے ایڈٹ کر دیا ہے۔ امید ہے آپ دونوں صاحبان آئندہ تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیںچھوڑیںگے وگرنہ ہمارے پاس آپ کو بلاک کرنے کے علاوہ کوئی اور چارہ نہیںرہے گا۔
نوٹ یہ تبصرہ آپ اجمل بھوپال صاحب کے بلاگ میں ببھی پڑھ سکتے ہیں
میں نے اوپر تبصرہ لکھا تھا۔ آپ سے گزارش کی تھی کہ مندرجہ بالا حوالے دیکھ لیں۔ اصرار کریں گے تو مزید لکھ بیجھوں گا۔ میں انتہائی مصروف انسان ہوں کہ آپ کی بعض انٹ سٹنٹ باتوں اور طنز و طعنوں کا جواب لکھوں۔ اس لئیے کام کی بات لکھیئے گا اور کام کی بات کا جواب دونگا ۔آپ ہمارے بزرگ ہیں آپ کو اس قدر چراغ پا نہیں ہونا چاہیے۔ صرف ذیل میں ہی جن کتب اور شخصیات کے حوالے ہیں آپ انہیں جھٹلا دیں۔ میں نئے سرے سے مذید حوالے پوسٹ کردوں گا۔
اجمل صاحب! میرا ارادہ قطعی طور پہ کسی بھی پاکستانی کا ذہن پراگندہ یا زہر آلود کرنےکا نہیں۔ اور نہ ہی گڑے مردے اکھارنے کا ہے ۔جو باتیں میں نے لکھی ہیں وہ کوئی ایساراز نہیں بلکہ تھوڑی سی جستجو کرنے سے ہر کسی کو علم ہو سکتا ہے ۔ یہ الگ بات ہے کہ کہ چونکہ ہمارے ہاں ہر دور میں ابن الوقت لوگ ہوئے ہیں جو نصاب کی شروع کی جماعتوں سے ہی قائِد ملت۔ مردِ مومن اور قائدِ عوام کا رٹا لگوا دیتے ہیں اور ساتھ شہادت کا تڑکہ بھی لگا دیا جائے تو پختہ عمر میں جا کر بنے بنائے خول توڑنا مشکل ہو جاتا ہے۔
نوابزادہ لیاقت علی خان بے شک پاکستان بننے کے چار سال بعد قتل کر دئیے گیے تھے مگر انہوں نے پاکستان کے آئین بنے دئیے جانے میں پس و پیش اور ان کے قتل کے بعد کا پاکستان کا آئین بننے کا عرصہ بھی نوابزادہ کے کھاتے میں ڈالا جائے گا کیونکہ پاکستان بنتے ہی اؤلیت دستورِ پاکستان کو دی جانی چاہیے تھی جس میں محض لیاقت علی خان نے پاکستان کے تب کے سیٹ اپ میں اپنا حلقہ انتخاب یعنی سیٹ نہ ہونے کی وجہ سے تاخیر کی اور پھر وہ قتل ہوگئے ورنہ یہ تاخیر اس وقت تک چلتی جب تک انھیں یہ یقین نہ ہوجاتا کہ اب وہ الیکشن جیت جائیں گے ۔ اسی لئیے اپنا ووٹ بینک بنانے کے لیے انھوں نے اپنے پرانے علاقے اتر پردیش انڈیا کے تمام لوگوں کو کراچی میں ایک ہی جگہ آباد کیا۔ یہی وہ نکتہ ہے جس سے بھوپال یا اترپردیش سے تعلق رکھنے والے میرے بھائیوں کو میری پوسٹ پہ شدید اعتراض ہوا ہے کیونکہ شنیدن ہے کہ الطاف بھائی کا مطالبہ ہے کہ لیاقت علی خان کا قتل کے دن کو سرکاری چھٹی قرار دیا جائے۔ آخر اس کی کوئی تو وجوہات ہونگی؟ اور وجوہات وہی ہیں جو سرادر شوکت مرحوم اور دیگران نے بیان کی ہیں۔
سردار شوکت حیات خان مرحوم کے الفاظ ہیں opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan۔ لیاقت علی خان نے اپنے ہی کئیے ہوئے معائدے جسکا نام نہرو لیاقت نامی پیکٹ تھا جو تبادلہ مہاجرین کے متعلق تھا کو توڑتے ہوئے محض اپنی سیٹ پاکستان کے اندر پیدا کرنے کے لیے لیاقت علی خان نے پاکستان کے استحکام کی بھی پراوہ نہ کی کھوکھرا پار سرحد غیر قانونی طور پہ محض اس لیے کھولی گئی کہ لیاقت علی خان کے پرانے علاقے یو پی اتر پردیش کے کے سب لوگ پاکستان میں ایک ہی جگہ آباد ہوں
حوالے کے لئیے دیکھیے ۔تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خانکی کتاب دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کا پیج نمبر 178۔
،، اس جو مسائل آگے چل کر پاکستان کو بنے اس سے سب لوگ آگاہ ہیں۔ آج اگر قابل صد احترام مہاجرین کی تین چار نسلیں گزر جانے کے باوجود بھی کراچی میں مہاجر اور غیر مہاجر کی تفریق پہ ھزارؤں لوگ قتل ہونے کے باوجود بھی کراچی میں امن قائم نہیں ہو سکا۔ تو اس کے پس منظر میں بھی لیاقت علی خان کی ذاتی مفادات کی پالیسیاں تھیں جس سے استحکام پاکستان کو سخت نقصان پہنچا اور پہنچ رہا ہے۔ جیسے کہ سب جانتے ہیں کہ جو مہاجرین پاکستان کے باقی حصوں میں آباد ہوئے وہ آج سب کچھ بھول بھال کر اپنے آپ کو پاکستانی کہلوانے میں فخر محسوس کرتے ہین جبکہ مہاجر غیر مہاجر کا مسئلہ صرف کراچی اور کسی حد تک حیدرآباد میں ہی ہے ۔ اس کی ایک وجہ لیاقت علی بھی تھے نے بنگالی اور سندھی قیادت کو کمال نخوت سے کبھی اپنے برابر نہیں سمجھا تھا ۔
حوالے کے لیے دیکھیئے
the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
مجھے اپنے بارے میں عالم ہونے کا دعواہ کبھی نہیں رہا مگر ایک بات آپ کے گوش گزار کرنا ضروری ہے کہ علمِ رایخ کا ایک سادہ سا اصول ہے کہ تاریخ کسی شخص کی میت پہ بہائے گئے آنسوں یا اسکی جنازے میں شامل لوگوں کی تعداد سے غرض غایت نہیں رکھتی بلکہ اسے بہحثیت مجموعی تاریخ میں مزکورہ شخصیت کے ادا کئے گئے کردار سے ہوتی ہے۔ آپ نے آنسؤن کی بات کی ہے تو لوگ تو ذوالفقار علی بھٹو کے لیے بھی بہت روئے بلکہ اپنے آپ پہ تیل چھڑک خود سوزی بھی کچھ لوگوں نے کی۔ بے نظیر بھٹو کے قتل پہ بھی بہت لوگ روئے۔ ضیاء الحق کا جنازہ بھی بہت بڑا تھا، مگر ان شخصیات کا فیصلہ کرتے ہوئے بھی تاریخ ان کی میتوں پہ آنسو بہانے والوں کی تعداد نہیں دیکھے گی ۔۔ یہ کوئی ثبوت نہیں جو آپ نے لوگوں کے آنسوؤں کو بنیایا ہے ۔
آج کی خبر ہے کہ سندھ کی وزارتِ تعلیم نے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو اپنے نصاب میں شامل کرنے کا فیصلہ کیا ہے ۔ اگے چالیس پچاس سالوں میں تاریخ فیصلہ دے گی کہ یہ قدم درست تھا یا نہیں ۔ اسی طرح تب لیاقت علی خان کے ارد گرد تقدس کا ھالہ کینچھنے والے بھی وہی لوگ تھے جنھیں ہر قسم کی اخلاقیات کو روندتے ہوئے لیاقت علی خان نے مراعات بخشیں اور اپنے من پسند افراد کو اپنی پسندیدہ جگہوں پہ تعینات کروایا اور جن کا حق بنتا تھا جو اپنی ہر چیز لٹا کر آئے تھے انھیں ان کے حق کے لئیے سالوں لٹکایا گیا وہ دربدر خوار ہوتے رہے۔ آپ اصرار کرین گے تو اس کے مزید حوالہ جات بھی پیش کر دونگا ۔ فی الحال یہ دیکھیں
This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice.
یہ الفاظ میرے نہیں تحریک پاکستان کے ایک معتبر رہنماء کے ہیں ۔ اور یہاں from his old Province سے مراد انکا آبائی صوبہ اتر پردیش مراد ہے
اجمل صاحب!
اسمیں کوئی شک نہیں کہ وہ پنجاب کی ریاست ہریانہ میں پیدا ہوئے اور انکے پنجابی ہونے کا ڈھڈورا بھی اس قدر پیٹا گیا کہ اصل معامالات انکھوں سے اوجھل ہو جائیں ۔ جبکہ آپ کے علم میں ہوگا میرٹھ ۔یو پی میں لیاقت علی خان کی بہت بڑی زمیں داری بلکہ جاگیر تھی۔
۔۔۔۔and being son of the Nawab of Karnal, Liaquat Ali Khan inherited a huge property in Meerut. After taking BA from Oxford and Bar-at-law, he returned to India at the end of 1922 and joined the Muslim League in 1923. As an Independent, he served as Deputy Speaker in the UP Council in 1931. As a member of the United Provinces National Agricultural Party, he represented the landed interests and opposed the separate electorate before the Joint Statutory Commission which came out of the Round Table Conference in the early 1930s
اجمل صاحب!
یہ وہ حقیقتیں ہیں جنہیں لیاقت علی خان کا محض پنجابی کہہ کے باقی معاملات سے ہاتھ صاف کر لینے کی امید ہمیں کم از کم آپ سے نہیں تھی ۔ دیانتداری کا تقاضہ یہ تھا کہ آپ اپنے مقاصد ( جو میرے علم مہیں نہیں غالباً آپ کا بھی بھوپالی ہونا ہی مجھ سے بحث میں اتنی محنت ہی وہ واحد وجہ ہےکہ آپ لیاقت علی خان پہ ریشہ خطمی ہوئے جارہے ہیں ) کے لیے حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش نہ کرتے اور خاص کر عمر کی اس حد میں جس کا آپ بار بار حوالہ دیتے ہیں ۔
جبکہ حقیقت یہ ہے کہ انکے آباء دریائے جمنا کے اس پار مظفر نگر سے تھے جہاں انکی بڑی زمینداریاں تھیں اور وہاں انکا جاگیریں اور زمینداریاں ہونے کی وجہ سے اپنا اثرو رسوخ تھا حتٰی کے دہلی میں رہتے ہوئے بھی وہ دریائے جمنا کے اس پار اپنا اثرو رسوخ رکھتے تھے۔
حوالے کے لیے دیکھیے ،
p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan
اس وجہ سے سے انہوں نے اپنے پرانے علاقے کے لوگوں کو محض اپنی انتخابی سیٹ کے لیے دوسرے مہاجروں کا حق مارتے ہوئے بے کراچی میں آباد کیا اور ان میں اہم عہدے بانٹے۔
حوالے کے لیے دیکھیے ،
The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”
Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187
لیاقت علی خان نے اپنے ذاتی مفادات کے لیے عہدوں کی بندر بانٹ کی اور پاکستان میں اداروں کو اپنے حق میں استعمال کرنے کی رسم ستم ایجاد کی
۔
حوالے کے لیے دیکھیے ،
the Political History of Pakistan: Hasan Jafar Zaidi
مضمون کی طوالت کے پیش نظر بات مختصر کرتا ہوں
آپ نے بیگم رعنا لیاقت کا ذکر کیا یے جنکا پورا کرسچئن نام
Ranana Sheila Irene Pant تھا اور باقی جملہ تفضیلات میں میں جانا نہیں چاہتا ۔ حوالہ دیکھ لیں
Professor Roger D. Long with a foreword by Stanely Wolpert. Oxford University Press, Karachi. Pages 328. V.N. Datta
اور بیگم صاحبہ کی 1948ء میں ویمن والذی سروس اور 1949 مین قائم کی گئی اپوا نامی تنظیم کے کارنامے کسی تعارف کے محتاج نہیں ہیں اس بارے میں کسی بھی نیک اور صالح مسلمان سے رائے لے لیں ورنہ مجھے بتایئے گا میں لکھ بیجھوں گا اور حوالہ بھی کسی ایسی ویسی شخصیت کا نہیں بلکہ مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا ہوگا۔ جبکہ مہاجریں کے لیے جنہوں نے اصل کام کیا وہ تھیں مادر ملت فاطمہ جناح یہاں
http://www.urdupoint.com/books/bookImages/25/943_3.gif
اس لنک پہ آپ کو فاطمہ جناح کی خدمات کی تٍضیلات مل جائیں گی۔
اور یہ بھی حقیقت کہ لیاقت علی خان کے روابط سی آئی اے کے اعلٰی عہدیداروں سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی ہو گئے تھے اور جسے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے سخت نا پسند کیا تھا
اور آپ کو اظہر الحق نے جو کتابیں تجویز کی ہیں وہ بھی دیکھ لیں تو آپ کو کافی رہنمائی مل جائے گی۔
میں نے شہاب نامہ کا ذکر اس لئیے نہیں کیا کہ آپ بدک جائیں گے اسکے عالوہ شریف الدین پیرزادہ نے بھی قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ اور لیاقت علی خان کے اختلافات کے بارے میں کچھ لکھ رکھا ہے وہ بھی دیکھ لیں ۔
ہیکٹر بولائتھو نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ پہ محمد علی جناح میں ایک واقعہ لکھا ہے کہ 1942 کے بعد لیاقت علی خان کی دہلی میں بھولا بھائی ڈیسائی کے ساتھ پاور اور اقتدار شئیر کرنے کے ایک منصوبے کی تفضیل دی ہے جسے بقول ہیکٹر بھولائتھو جب یہ بات قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علم میں آئی تو انہوں نے سختی سے اس بات کا نوٹس لیا اور کہا کہ ہم آزادی سے کم کسی چیز پہ راضی نہیں ہونگے ۔
اور یہاں میں آپ کی اور قارئین کی دلچسپی کے لیے ۔
شاہد رشید کے کتاب مادر ملت سے چند ایک اقتباس پیش کرؤنگا۔
“بنیادی زیادتی مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ ان لوگوں نے کی جو قائد اعظم کی زندگی میں نافرمان ہو گئے تھے۔ اس ٹولے نے نہ صرف قائد اعظم کو موت کے منہ میں دھکیلا بلکہ مادر ملت کے سلسلے میں بھی غفلت برتی۔ اس عوام دشمن ٹولے نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا جو مقام بنتا تھا وہ جان بوجھ کر انھیں نہ دیا۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ قائد اعظم کے آخری الفاظ جو انھوں نے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح سے کہے تھے وہ یہ تھے ” فاطی۔۔۔مجھے دلچسپی نہیں رہی کہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں زندہ رہوں ۔ ۔ ۔ ۔ جتنی جلدی ممکن ہو سکے میں رخصت ہو جاؤں ۔۔۔؟”
شاہد رشید مزید لکھتے ہیں۔
“یہ الفاظ صاف طور پر ان کے رنجیدہ، دل برداشتہ اور دکھی ہونے کی گواہی دیتے ہیں۔
مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح جب ان کی ہمت بندہانے کے لیے کہا:
” آپ بہت جلد صحت یاب ہو جائیں گے۔ ڈاکٹر پُر امید ہیں۔”
تو قائد نے جواب دیا۔
” نہیں اب میں زندہ نہیں رہنا چاہتا”
شاہد رشید مزید لکھتے ہیں
ان الفاظ سے صاف طور پر قائد کے جذبات کا پتہ چلتا ہے۔ یہ مایوسی سے لبریز الفاظ سن کر مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔لیکن مادر ملت کے صبرو ضبط کی داد دینی چایہے کہ انھوں نے سب کچھ جانتے ہوئے بھی تا دم واپسیں حرف شکایت لب پر نہیں آنے دیا۔ محض اس لئیے کہ اس طرح ملت میں خلفشار پیدا ہوگا۔ اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔ جبکہ کوئی سیاسی لیڈر طبعی موت بھی مر جائے تو اس کے ورثاء چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے ہیں کہ اسے قتل کیا گیا ہے۔ مادر ملت نے سب کچھ اپنی آنکھوں سے دیکھا پر اف تک نہ کی۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔”
کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت
مصنف: شاہد رشید
اجمل صاحب آپ بتا سکتے ہیں کہ یہاں فاضل مصنف کا یہ جملہ “محض اس لئیے کہ اس طرح ملت میں خلفشار پیدا ہوگا۔ اور ملکی سلامتی خطرے میں پڑ جائے گی۔” سے مراد کیا ہے آخر وہ کونسا راز ہے اور اہپنوں کا وہ کونسا ٹولہ تھا جو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی زندگی میں ہی نافرمان ہو گیا تھا اور انہوں نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کو موت کے منھ میں دھکیلا۔؟
اجمل صاحب!
چونکہ آپ نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر الہی بخش کے نام کا حوالہ دیا ہے تو اس بارے میں بھی سن لیں۔
جولائی کے آخر میں وزیر اعظم لیاقت علی خان اور چوہدری محمد علی پیشگی اطلاع دینے کا تکلف کیے بغیر زیارت پہنچ گئے تو قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معالج ڈاکٹر الٰہی بخش سے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ صھت کی بابت دریافت کیا تو ڈاکٹر کے ذہن میں تھا کہ انھیں مادر ملت نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے علاج لیے مقرر کیا ہے اور تفضیلات بتانے سے گریز کیا جس پہ لیاقت علی خان نے ” وزیر اعظم کی حیثیت سے میں ان کی صحت کے بارے میں جاننے کے لیے بے چین ہوں ” اس پر ڈاکٹرا الہٰی بخش نے نے نرمی سے جواب دیا ٹھیک ہے ۔ مگر میں مریض کی اجازت کے بغیر آپ کو نہیں بتا سکتا۔”
بعد میں قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ نے داکٹر الہٰی بخش سے تفضیل جانی اور لیاقت علیخان کو کو اپنی صحت کے بارے میں نہ بتانے پہ اطمینان اور خوشی کا اظہار کیا۔ یہ واقعہ مادر ملت نے بیان کیا ہے ۔
اجمل صاحب آپ بتانا پسند کرین گے کہ قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ لیاقت علی خان کو اپنے مرض کی بابت کیوں نہیں بتانا چاہ رہے؟؟ تھے اور انہوں نے اپنے معالجوں کو بھی اس کا پابند کیوں کیا تھا ۔۔؟؟؟؟
اجمل صاحب آپ نے قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کی ایمبولینس کے بارے میں بھی حقائق کو توڑ مرور کر پیش کیا ہے ۔۔
شاہد رشید کی لکھی کتاب مادر ملت، محسنہ ملت میں محترمہ فاطمہ جناح فرماتی ہیں۔”لیکن اس دن جیسا کہ پہلے سے ہدایت کر دی گئی تھی ہوائی ادے پہ کوئی نہ تھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ایمبولنس انہیں کورنر جنرل ہاوس لے جانے کے لیے پہلے سے وہاں موجود تھی۔ میں اور سسٹر ڈنہم ان(قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ ) کے ساتھ ایمبولنس میں بیٹھے تھے۔ ایمبولنس بھہت سست روی سے چل ری تھی ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ابھی ہم نے چار میل کا سفر ہی طے کیا تھا کہ ایمبولنس نے اس طرح ہچکیاں لیں جیسے اسے سانس لینے میں مشکل پیش آرہی ہو ۔ اور پھر وہ اچانک رک گئی۔ کوئی پانچ منٹ بعد میں ایمبلونس سے باہر آئی تو مجھے بتایا گیا کہ ایمبولنس کا پٹرول ختم ہوگیا ہے۔ اگر چہ ڈرائیور نے ایمبولنس کے انجن سے الجھنا شروع کر دیا تھا لیکن ایمبولنس کو اسٹارٹ ہونا تھا نہ ہوئی۔ میں پھر ایمبولنس مٰن داخل ہوئی تو قائد نے اہستہ سے ہاتھ کو حرکت دی اور سوالیہ نظروں مجھے دیکھا۔ ۔ ۔ ۔ ۔انہوں نے آنکھیں بند کر لیں۔ عماماً کراچی میں تیز سمدری ہوائیں چلتی رہتی ہیں جس سے درجہ حرات قابل برداشت رہتا ہے اور گرم دن کی حدت سے نجات مل جاتی ہے لیکن اس دن ہوا بالکل بند تھی اور گرمی ناقابل برداشت۔
قائد کی بے آرامی کا سبب یہ تھا کہ بے شمار مکھیاں ان کے چہرے پہ بھنبھنا رہی تھیں اور ان کے ہاتھ میں اتنی طاقت بھی نہ رہی تھی کہ مکھیوں کے حملے سے بچنے کے لیے اسے اٹھا سکتے ۔سسٹر ڈنہم اور میں باری باری ان کے چہرے پر ہاتھ سے پنکھا جھل رہے تھے ہم منتظر تھے کہ شاید کوئی ایمبولنس آجائے ہر لمحہ کرب اذیت کا لامتناہی لمحہ تھا۔۔۔۔ امیدو بہم کی کیفیت میں ہم انتظار کرتے رہے۔
قریب ھی مہاجرین ۔۔۔۔ اپنے روز مرہ کے کاموں میں مصروف تھے مگر انہیں معلوم نہ تھا کہ ان کا وہ قاعد جس نے انھیں ایک وطن لے کر دیا ہے ان کے درمیان موجود ہے اور ایک ایی پرانی ایمبولنس میں بے یارو مددگار پڑا ہے جس کا پٹرول بھی ختم ہو گیا ہے۔
کاریں ہارن باجتی قریب سے گزر رہیں تھیں۔ بسیں اور ٹرک اپنی منزلوں کے طرف رواں تھے اور ہم وہاں ایسی ایمبولنس میں بے حس و حرکت پڑے تھے جو ایک انچ بھی آگے بڑھنے کو تیار نہ تھی اور اس ایمبولنس مین ایک انتہائی قیمتی زندگی آتی جاتی سانس کے ساتھ قطرہ قطرہ ختم ہو رہی تھی۔۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔کتنی عجیب بات تھی کہ دو گھنٹے میں ہم کوئٹہ سے کراچی پہنچے اور دو گھنٹے ہمیں ماڑی پور سے گورنر جنرل ہاؤس پہنچنے میں لگے۔”
کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت
مصنف: شاہد رشید
اجمل صاحب یہ الفاظ میرے نہیں بلکہ مادر ملت فاطمہ جناح کے ہیں اور وزیر اعظم لیاقت علی خان کی وزارت عظمٰی میں مریض کوئی اور نہیں بلکہ بانی پاکستان اور پاکستان کے گورنر جنرل قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ تھے۔
شاہد رشید مادر ملت کے بارے میں رقم طراز ہیں ” بجائے اس کے کہ عوام دشمنوں سے محاز آراء ہو کر ساری توانئی بھائی کے دسمنوں اور قاتلوں کے چہرے سے نقاب اترانے میں صرف کرتیں اور عمر اس مطالبے میں گزار دیتیں کہ میرے بھائی کو موت سے ہمکنار کرنے والے ٹولے کو قرار واقعی سزا دی جائے انہوں نے اس صدمے کو پی لیا۔۔۔۔
کتاب کا نام: مادر ملت، محسنہ ملت
مصنف: شاہد رشید
اجمل صاحب آپ ہی بتائیں وہ قاتل ٹولہ کون تھا اور ان کا سر غنہ کون تھا؟
مندرجیہ بالا اعتراضات سے متعلق آپ کا جواب آنے تک اور طوالت سے بچنے کے لیے ییہں ختم کرتا ہوں
اجمل صاحب آپ سے گزارش کرؤنگا کہ بات دالائل سے کی جیے گا نہ کہ میری ذات کو تختہ مشق بنا کے قارئین کو اور فضول قسم کی تنقید کر کے اپنے قارئین کو مایوس کریں۔ آپ کی بھوپال سے عقیدت کا بہر حال ہمیں احساس ہے۔
آپ نے میرا پاکستان کے افضل صاحب سا ناحق گلہ کیا ہے کہ میری رائے انہھوں نے کیوں چھاپی ہے؟۔ حالانکہ انہوں نے آپ کا نقطعہ نظر بھی خوب چھاپا ہے۔ اور یہ ہی آزادی اظہار رائے کا حسن ہے۔ اور ایک بات کی وضاحت کرتا چلوں کہ مجھے نام نمود یا خواہ مخواہ کے چرچے کی قطعی عادت نہیں کہ آپ نے بار بار میرے بارے میں اس بات پہ زور دیا اور نہ ہی میں کسی پہ اپنی رائے ٹھونس رہا ہوں یہ ایک عام سا مکالمہ تھا جسے آپ نے بحث کا رنگ دیا ۔ اللہ سبحان و تعالٰی نے مجھے اسقدر نواز رکھا ہے کہ اگر مجھے یہ فضول قسم کے شوق ہوتے تو مین ایک نہیں پانچ سو ڈومین یا سائٹس انٹر نیت پہ قائم کر سکتا ہوں مگر الحمد اللہ مجھے ایسا کوئی شوق یا کمپلکس کبھی نہیں رہا۔
ضروری وضاحت۔
مندرجہ بالا تحریر میں یو پی سے ہجرت کر کے آئے ہوئے مہاجر بھائیوں یا کسی اور مہاجر یا غیر مہاجر طبقے کا میں تہہ دل سے احترام کرتا ہوں اور میرے نزدیک تمام پاکستانی قابل صد احترام ہیں ۔ چونکہ لیاقت علی خان نے تب کے وزیر اعظم ہونے کے ناطے یو پی کے مہاجروں کو بھی اپنے مقاصد کے لیے استعمال کرنا چاہا اس لئیے وہ حوالے ضروری تھے۔
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
____________________________________________________________
میرا پاکستان میں لکھا تبصرہ جسے غالباً آپ نے بوجوہ نظر انداز کیا ہے
جناب افتخار اجمل بھوپال صاحب!
میرے بارے میں آپ کے یہ الفاظ ُ ُ۔۔۔ کہ موصوف کا دماغی توازن درست نہیں۔۔۔،، بلاشبہ میری ذات کے بارے میں میری زندگی میں کہے گئے یا لکھے گئے سخت ترین الفاظ ہیں اور چونکہ یہ الفاظ صرف میری ذات پہ کہے گئے ہیں اس لئیے میں آپ کو معاف کرتا ہوں۔
موضوع چونکہ پاکستان سے متعلق ہے تو میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اچھے مسلمان اور پاکستانی ہونے کے ناطے اخلاقیات کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہیے۔
آپ نے اوپر جو حوالہ انگریزی زبان میں دیا ہے وہ لیاقت علی خان کی کے قتل پہ بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کی کوڑی ہے جو تب بھارت، نئی دہلی میں امریکن سفارت خانے نے ایک معمول کی کاروائی کے تحت تیس اکتوبر 1951 بعنوان Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951 کو ٹیلیگرام واشنگٹن بجھوائی تھی۔ جبکہ انھی دنوں میں ۔ لیاقت علی خان کے قتل کے موضوع پہ امریکیوں نے اپنے مختلف سفارتی مشنوں سے ایک عام روٹین کے تحت درجنوں ٹیلی گرامز اور رپورٹس واشنگٹن بجھوائیں تھیں جو درج ذیل ہیں
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embassy, Oct. 16, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 16, 1951
Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 17, 1951
The Situation in Pakistan, Oct. 17, 1951
Comment on the Assassination of the Pakistani Prime Minister, Oct. 17, 1951
The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951
Special Note: The Assassination of the Prime Minister of Pakistan, Oct. 18, 1951 Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 18, 1951
. Secret Telegram from Karachi Embassy, Oct. 18, 1951
Official Afghan Reaction to Press Implications of Afghan Complicity in Assassination of Pakistan Prime Minister, Oct. 18, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951
Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 19, 1951
. Restricted Telegram from Consulate General, Calcutta, Oct. 19, 1951
. Secret Telegram from Secretary of State, Oct. 20, 1951
. Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 21, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 22, 1951
The Current Outlook in Pakistan, Oct. 22, 1951
. Secret Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 23, 1951
Secret Telegram from Kabul Embassy, Oct. 23, 1951
. Secret Telegram from Moscow Embassy, Oct. 26, 1951
Confidential Telegram No. 1532 from New Delhi Embassy, Oct. 30, 1951
. Confidential Telegram from Karachi Embasssy, Oct. 31, 1951
. Confidential Telegram from State Dept., Nov. 1, 1951
Secret Telegram from Moscow Embassy, Nov. 3, 1951 Popular Feeling in Pakistan on Kashmir and Afghan Issues, Nov. 10, 1951
Confidential Telegram from Lahore Consulate, Nov. 14, 1951
Secret Telegram from Karachi Embassy, Nov. 15, 1951
Public Role of Ms. Fatima Jinnah Since Assassination of Liaquat, Nov. 17, 1951
. Political and Economic Developments for the Week Ending Jan. 8, 1952, Jan. 8, 1952
Political Developments in Pakistan, Sept.-Dec. 1951, Jan. 30, 1952
. Confidential Telegram A-251 from Karachi Embassy, Feb. 11, 1952
Political Developments in Pakistan, January 1952, Feb. 25, 1952
. Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 18, 1952
Confidential Telegram from Karachi Embassy, Aug. 19, 1952
جن ٹیلی گرامز کا حوالہ یا متن میں سے آپ نے صرف بھوپال کے ایک بائیں بازو کے کالم نگار کا انتخاب کیا ہے ۔ اسکی وجہ یہ ہے کالم لیاقت علی خان کے امریکیوں کے ہاتھوں قتل کو (جس کی بہر حال ہم مذمت کرتے ہیں ) آپ کے نقطعہ نظر بلکہ بہت سے لوگوں کے نقطعہ نظر کے عین مطابق یک طرفہ طور پہ محب الوطن، قائد ملت اور شہید ٹھرائے جانے پہ اصرار اور لیاقت علی خان کو پارسا ثابت کرنے پہ بضد ہونے کو توانائی مہیا کرتا ہے۔ جبکہ درحقیقت یوں نہیں اور آپ بھی جانتے ہون گے کہ کیوں ۔؟ کیونکہ آپ کا مجھ پہ اسقدر سیخ پا ہونا سمجھ میں آتا ہے۔ اور وہ وجوہات ہم آگے بیان کریں گے۔
آئیں پہلے ان وجوہات پہ بات کیے لیتے ہیں ۔۔
پروفیسر ضیاء الدین احمد اپنی کتاب،لیاقت علی خان بلڈر آف پاکستان۔ کے صحفہ نمر ستائیس پہ نوابزادہ لیاقت علی خان کے یو پی اتر پردیش کے ساتھ گہرا تعلق ہونے کے بارے میں یوں رقم طراز ہیں۔
“The family, Before settling down in Karnal in the Punjab in the 19th century, lived on the other side of the Jamna in Muzaffarnagar (U.P., India) for some generations, where they owned bigestates. Even after he settled down in Delhi, he took keen interestin the amelioratin and betterment of the Muslims of Muzaffarnagar.”
p.27 of book by Prof. Ziauddin Ahmad , Liaquat Ali Khan: builder of Pakistan
تحریکِ پاکستان کے نمایاں رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے معتبر ساتھی سرادر شوکت حیات خان اپنی کتاب۔ دی نیشن دیٹ لاسٹ اٹس سول۔ کے پیج نمبر 178 پہ لیاقت علی خان کے ذاتی مفادات کو قومی مفادات پہ ترجیج دینے۔ اور اتر پردیش کے لوگوں کو کراچی میں ہر قانون قاعدہ توڑتے ہوئے، محض اپنا حلقہ انتخاب بنانے کے لیے یو پی والوں کو کراچی میں بسانے کو اپنے الفاظ میں یوں بیان کرتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ تحریک پاکستان کے ہروال دستے کے ایک رہنماء اور قائدِ اعظم رحمۃ اللہ علیہ کے ایک معتمد خاص ساتھی کے الفاظ ہیں۔
“He (Liaqat Ali Khan) delayed the completion of the Constitution to avoid elections which he could not win because he had no seat in Pakistan and had to be elected by East Pakistan. He, on the advice of officers belonging to the United Provinces, broke the Liaqat-Nehru Pact about the agreed areas for migration from India to Pakistan, requiring the record of property to be exchanged officially. He, quite against the agreement permitted inhabitants of UP and Rajasthan to enter via Khokhrapar – thus opening floodgates endangering the stability of the already overloaded boat of Pakistan. I objected to this in the assembly. This action of Liaqat was quite partial allowing only people from his old Province and the adjoining areas to migrate unfairly into Pakistan in rder to create a seat for himself in Karachi. The people of the rest of the India were left to stew in their own juice. This act of his created a lot of confusion with people getting allotments in Sindh, without records on each other’s dubious evidence. This led to the problems of MQM and their hatred by Sindhis. These refugees got a monopoly of jobs in the cities and deprived local Pakistanis of their rightful share. The political instability still persists.”
(source: Page 178 from the “Nation that lost its soul”, enclosed as Vol 2.5 in
the document)
جلد نمبر 4 پولیٹیکل ہسٹری آف پاکستان۔ ادرارہ مطالعہ تاریخ پیج نمبر 185-187 پہ حسن جعفر زیدی، نوابزادہ لیاقت علی خان کی اصولوں سے ہٹ کر ذاتی پسند اور نا پسند کی داتی مفادات کی سیاست پہ لکھتے ہیں ۔
“Punjabi chauvinism and Liaqat Ali Khan’s favoritism was at each others throat. The fight was furious and Mr. Khan was not a gentleman either. Mr. Khan was desperate to build his political base in the newly formed state. He could go to any length to achieve his personal goals”
Political History of Pakistan, Vol. 4, edited by Hasan Jafar Zaidi, Idara-Mutala-i-Tarikh. pp 185-187
وہ مزید لکھتے ہیں ۔
Liaqat Ali Khan with nepotism, and commenting on the appointments Liaqat Ali Khan had made……….
Hashim Raza, administrator Karachi; his brother Kazim Raza, IG police; Aal-e-Raza, also brother of Hashim, Public Prosecutor; Superintendent CID; Home Secretary Punjab, all of them from UP. Liaqat Ali Khan did all this to secure his political success from Karachi
ہم نے کاشفی صاحب کا تبصرہ اور اس کے جواب میں جاوید گوندل صاحب کا تبصرہ دونوں یہ سمجھ کر ہٹا دیے ہیں کہ ان سے بدزبانی کی بو آنے لگی تھی۔
کاشفی صاحب اگر آپ لیاقت علی خان صاحب کے حق میں لکھنا چاہتے ہیں تو بصد شوق لکھ کر جاوید گوندل صاحب کے اعتراضات کے جوابات دیجیے مگر براہ مہربانی لعن طعن سے پرہیز کیجیے۔
گوندل صاحب کی تحریر انتہائی تعصب سے بھرپور ہے اور میں اس تحریر پر اتنا ہی کہوں گا کہ چاند پر تھوکا اپنے ہی منہ پر آکر گرتا ہے،
تاریخ اسلام میں عبد الرحمان بن قاسم بن محمد بن ابی بکر رضی اللہ عنہ نے حضرت عمر بن عبد العزیز اور ہشام بن عبدالملک کا تقابل اس طرح کیا ہے کہ دونوں نے گیارہ گیارہ بیٹے چھوڑے عمر بن عبد الہعزیز کے ایک ایک بیٹے کو باپ کے ترکے سے ایک ایک دینار ملا اور ہشام بن عبد الملک کے ہر بیٹے کو باپ کے ترکے سے دس دس لاکھ درہم ملے ۔ لیکن مینے عمر بن عبد الہعزیز کے بیٹوں میں سے ایک کو دیکھا کہ اس نے جہاد کے لیئے سو گھوڑے دیئے اور ہشام کے ایک بیٹے کو دیکھا کہ وہ لوگوں سے صدقہ مانگ رہا تھایعنی بھیک مانگ رہا تھا،
تو اس حقیقت کی روشنی میں لیاقت علی خان اور سردار شوکت حیات خان اور دیگر کی اولادوں کا تقابل کر لیجیئے پتہ چل جائے گا کہ کون صحیح تھا اور کون غلط
ملک آذاد کروانا مسلم لیگ کا نصب العین تھا
جب ملک آذاد کروالیا تو کیا انڈیا سے دفاعی میدان میں پیچھے رہ کر اپنی موت آپ مرنے چھوڑ دیئے جاتے؟؟
ملک کو ترقی کی راہ پر بھی تو چلانا تھا
امریکہ کے پاس جانا اصل میں ملک کے لئے مغربی ممالک سے حمایت حاصل کرنا تھی
ورنہ کیا ایک ملک بنا کر ہمیشہ اپنے ہی ملک تک محدود رہا جائے
عوام کی سہولیات کے لئے ایسا کرنا ہی پڑتا ہے
آپ اپنا گھر تعمیر کرتے ہیں
مکمل ہونے کے بعد آس پاس کے رہنے والوں سے میل چول بھی بڑھاتے ہیں کہ نہیں
اب کوئی اچھا انسان نا بھی ہو تو مگر آپ کی ضرورت اس سے ہی نکل سکتی ہے تو جتنا کام آپ اس سے نکلوا سکتے ہیں نکلوالیں گے
اب اس کا مطلب یہ تو نہیں کے آپ اپنا گھر اس کو بیچ رہے ہیں۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟ 😳
قرار داد پاکستان کا متن درکارہی کوی مدد کرسکتا ہی
The Objectives Resolution was a resolution adopted on 12 March 1949 by the Constituent Assembly of Pakistan. The resolution, proposed by the Prime Minister, Liaquat Ali Khan, proclaimed that the future constitution of Pakistan would not be modelled entirely on a European pattern, but on the ideology and democratic faith of Islam.
The Objectives Resolution proclaimed the following principles:
Sovereignty belongs to Allah alone but He has delegated it to the State of Pakistan through its people for being exercised within the limits prescribed by Him as a sacred trust.
The State shall exercise its powers and authority through the chosen representatives of the people.
The principles of democracy, freedom, equality, tolerance and social justice, as enunciated by Islam, shall be fully observed.
Muslims shall be enabled to order their lives in the individual and collective spheres in accordance with the teachings of Islam as set out in the Qur’an and Sunnah.
Adequate provision shall be made for the minorities to freely profess and practice their religions and develop their cultures.
Pakistan shall be a federation.
Fundamental rights shall be guaranteed.
The judiciary shall be independent.
The Objectives Resolution is one of the most important and illuminating documents in the constitutional history of Pakistan. At the time it was passed, Mr. Liaquat Ali Khan called it “the most important occasion in the life of this country, next in importance only to the achievement of independence”.
The importance of this document lies in the fact that it combines the good features of Western and Islamic democracy. It is a happy blend of modernism and Islam. The Objectives Resolution became a part of the constitution of Pakistan in 1985 under the Eighth Amendment.
جاوید صاحب کے نقطہ نظر سے لیاقت علی خان صاحب قائد اعظم کے قاتل بھی تھے، مفاد پرست بھی تھے، تعصبی بھی تھے، شرابی کبابی بھی تھے، رقص و سرور کی محفلوں کے دل دادہ بھی تھے۔ حوالے کے لئیے جن صآحب کی کتاب کا ذکر کیا ہے یعنی جس کتاب پر جاوید صاحب قرآن کی طرح ایمان لے آئے ہیں زرا اسکے مصنف کی ہسٹری بھی بتا دیں یہ بھی بتا دیں کے اس کتاب کے مصنف نے پاکستان کی تکمیل کے لئیے کیا کیا قربانیاں دیں؟ شہید لیاقت علی خان صاحب کی طرح اپنی کتنی جائداد ہدہوستان میں چھوڑ کر آئے یہ صاحب؟۔ اور جہاں تک رہی ایسے بدبو دار مصنفوں کی بات تو میں آپکو ایسی ایسی کتابوں کے ریفرنس پیش کرسکتا ہوں جنہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے صحابہ اکرام رضی اللہ تعالی عنہہ کے خلاف کیا کچھہ غلاضتیں نہیں لکھیں، ایسے بھی مصنف ہیں جنہوں نے اہل بیت کے اوپر کیثڑ اچھالی ہے، تو اگر اسطرح ہر کتاب اور اسکے مصنف پر یقین کرنا ہے تو پھر ان سب کتابوں پر بھی یقین کرنا ہوگا۔ جو جو شوق جاوید صاحب نے شہید لیاقت علی خان صاحب کے گنوائے ہیں اگر یہ ہی سب شوق پورے کرنے تھے تو پھر وہ کھبی بھی پاکستان بنانے والوں میں شامل نہ ہوتے اس کام کے لئیے تو ہندوستان سے بہتر کوئی مقام مل ہی نہیں سکتا تھا انہیں۔ ہحرحال صاف ظاہر ہے کہ یہ سب تعصب کی وجہ سے لکھا گیا ہے اور اگر تعصب کی یہ ہی حالت رہی تو وہ دن دور نہیں جب پاکستان کے اتنے ٹکڑے ہونگے کے لوگ گننے سے بھی قاصر ہونگے۔
فکر پاکستان یہ آدمی جن کے پے رول پر ہے ان کا ایجینڈہ ہی یہ ہے کہ نفرتیں پھیلاؤ اور حکومت کرو اور پاکستان رہے تو ہمارے قبضے میں رہے ورنہ تباہ ہوجائے،
یہ سارے سوالات میں بھی اس شخص سے بہت پہلے کر چکا ہوں اور ان کے جواب میں اسے سانپ سونگھ جاتا ہے!!!
باقی محبان وطن کی حب الوطنی اور اسلام پسندوں کا اسلام بھی صاف صاف دکھائی دے رہاہے،
پتہ نہیں کب تک یہ اپنے زہریلے تعصب کو ان پردوں میں چھپانےکی کوشش کرتے رہیں گے،حالانکہ وہ رہ رہ کر ان ہی کے ہاتھوں اظہر من الشمس ہوتا رہتا ہے!!!
عبداللہ پیارے۔
کوئی دلیل شلیل لاؤ۔ کوئی حوالہ دو۔ کہ ہم نا سمجھوں کے علم میں بھی اضافہ ہو۔ یہ کیا جب دیکھو الزام تراشیان ۔ سوقیانہ زبان۔ اسلام پسندوں کو رگڑا۔ اور یارا آپکے سوالات اتنے “توپ” نہیں ہوتے کہ جواب دینے والوں کو “سانپ سونگھ” جائے۔ سوال جواب کبھی واسطہ پڑا ہےکیا؟
تمھاری گھٹیا دلیلوں کے مقابلے میں سچے حقائق ہی کافی ہیں اگر تعصب سے بھرا ذہن نہ ہوتو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔!
جن جاگیر داروں اورجعلسازوں کی کتابوں کے تم نے حوالے دیئے ہیں ان کی کیا حیثیت ہے یہ بھی سب اچھی طرح جانتے ہیں!
مگر تم جیسا تعصبی ذہن رکھنے والوں کو ایسی ہر زہریلی بات قرآن و حدیث لگتی ہے جو مہاجروں یا ان کے ہمدردوں کے بارے میں کہی جائے،خواہ حقائق سے اس کا دور کا بھی واسطہ نہ ہو
کبھی اپنے چہیتوں کی کرپشن پر بھی ایسا ہی واویلا مچایا کرونا،
حالیہ انکشاف ہے،2010 اور 2011 کی رپورٹ کے مطابق بحریہ فضائیہ اور بری فوج میں 56 ارب روپے کی کرپشن ہوئی ہے،مگر اتنی بڑی خبر پر تم سب کو سانپ سونگھا ہوا ہے،کیوں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
حماقت کی حد ہے۔ تمھارے خیال میں اگر تمھارے باین کے مطابق فوج نے چھپن ارب خرد برد کئیے ہی ہیں تو کیا اسمیں سے ستاون ارب میں لے اڑا ہوں؟ اور محض اسلئیے حقائق تاریخ کے تلخ حقائق بیان کئیے ہیں؟۔
تمھاری تسلی کے لئیے کہ اگر واقعی ایسا ہوا جیسا تم نے بیان کیا ہے تو ہم ان دونوں افواج کی بھی مذمت کرتے ہیں اور مطالبہ کرتے ہیں کہ پاکستان میں جتنے بھی آمر اور انکے جرنیل ہو گزرے ہیں سب کی جائدادوں اور اثاثوں کی تحقیق کی جائے اور خرد برد اور قومی خزانے کو تیل دیکر بنائے گئے اثاثۓ بحق رسات پاکستان ضبط کئیے جائیں۔ ۔۔
چلو اب خوش ہو جاو اور ہر وقت تعصب تعصب کی گردان مت کیا کرو یار
ویسے سعودی عرب میں۔ ریاض سے اتنی دور لق دق بیابانوں میں آپ کرتے کیا ہو ؟
ابھی ایف بی آر والوں کا کرپشن بھی کھلا ہے، بیس ارب کا کرپشن کیاہے،اور پانچ سال میں ان خبیثوں سے صرف ستر لاکھ روپیہ ریکور ہوا ہے،
زرا معلوم تو کرو کہ انکا تعلق کہاں سے ہے،کراچی سے متحدہ سے،یا کہیں لیاقت علی خان کے خاندان کے نہ ہوں؟؟؟؟؟
تو پھر کب لکھ رہے ہو،ان مردودوں کے خلاف اپنے بلاگ پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟
Leave A Reply