پاکستان کو معرض وجود میں آئے باسٹھ سال ہو چکے اور ہر آنے والی حکومت پہلے سے بدتر ہی آئی ہے۔ ابھی تک کسی حکومت نے اپنے پیشروؤں کے ریکارڈ کو بہتر نہیں بنایا۔ کوئی زبردستی اقتدار پر قبضہ کر لے یا پھر انتخابات ہوں، نتیجہ ایک ہی نکلتا ہے یعنی کرپٹ، لالچی، بے ایمان اور غدار حکمران۔
چلیں قدرت کا اصول مان لیتے ہیں کہ جس طرح کے عوام ہوتے ہیں ان پر اسی طرح کے حکمران مسلط کر دیے جاتے ہیں۔ اس کا مطلب ہے پچھلے باسٹھ سالوں میں عوام میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔ پاکستان میں لوگوں کی تعلیمی استبداد بڑھی ہے، شہروں کی آبادی زیادہ ہوئی ہے مگر عوام کے منتخب نمائندے اسی خاندان سے ہوتے ہیں جو ازل سے ملک کی قسمت کے ساتھ کھیل رہے ہیں۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ پاکستان میں ابھی تک ایسا سسٹم نافذ نہیں ہے جو عوام کے شعور میں تبدیلی لا سکے۔
اگر عوام نہیں بدلے تو ان لوگوں کو تو بدلنا چاہیے تھا جو ایچی سن اور مغربی ملکوں کی یونیورسٹیوں کے تعلیم یافتہ ہیں۔ کیا انہوں نے مغربی ممالک کے کامیاب نظاموں کا مشاہدہ نہیں کیا، کیا انہوں نے اپنی زندگی کے قیمتی سال مغربی نظاموں کے سائے میں گزار کر کچھ نہیں سیکھا۔ اگر سیکھا ہے تو پھر وہ پاکستان واپس آ کر اپنی آنکھیں کیوں بند کر لیتے ہیں؟
ہماری فوج کا شمار دنیا کی منظم ترین فوجوں میں ہوتا ہے۔ فوجی افسروں کی تربیت بہترین ماحول میں ہوتی ہے۔ فوجیوں کو اپنے افسروں کی ہر حال میں حکم بجاآوری کا درس دیا جاتا ہے، انہیں سرحدوں کی حفاظت ذمہ داری سے کرنے کی نصیحت کی جاتی ہے مگر انہیں یہ تربیت کیوں نہیں دی جاتی کہ وہ جب بھی اقتدار میں آئیں غیروں کی بجائے اپنے ملک کی خیرخواہی کا سوچیں؟
ان باسٹھ سالوں میں ایک بھی موقع ایسا نہیں آیا کہ ہمیں ایماندار اور صالح حکمران ملا ہو۔ کیا پاکستان کی مٹی اتنی ہی بانجھ ہے کہ یہ ایماندار، مخلص اور نیک لیڈر پیدا نہیں کر سکتی؟
باسٹھ سالوں میں ایک بھی معجزہ ہم نے نہیں دیکھا کہ جس کی وجہ سے ہمیں اتفاق سے ہی نیک حکمران مل جائے۔
ہم کب اتنے باشعور ہو پائیں گے کہ نیک اور صالح سیاستدانوں کو منتخب کر کے ایوانوں میں بھیج سکیں؟ ہم کب خودغرضی سے نکل کر ایک دوسرے کے مفاد کو اپنے مفاد پر ترجیح دیں گے؟ ہم کب بے ایمان اور غدار حکمرانوں کو چلتا کریں گے؟ ہمیں کب عقل آئے گی؟ یہی سوالات ہمارے ذہن میں ہروقت کھلبلی مچائے رکھتے ہیں۔
3 users commented in " کیا کبھی تبدیلی آئے گی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاگر ملک میں جمہوریت کا تسلسل رہتا تو حالات شاید بہتر ہوسکتے تھے کیونکہ جن جمہوری معاشروں کی ہم مثالیں دیتے ہیں انہیں بھی صدیاں لگی ہیں اس مقام کو حاصل کرنے میں لیکن ہمارے یہاںتجربات کی بہتات کی وجہ سے منزل کا تعین نہیں ہو پارہا۔ ملک کی ترقی کے لیے جس مثبت قوم پرستی کی ضرورت ہوتی ہے وہ بھی پروان نہیں چڑھ رہی۔ اگر جمہوریت میں کسی طرح تسلسل آجائے تو یہ نظام حکومت خود بخود بہتری کی طرف جاتا ہے۔
تبدیلی کیوں آئے گی
یہ لوگ امریکہ یورپ میں پڑھ کر یہی تو سیکھتے ہیں
کہ قوم کو جانورون کی طرح ہی رکھنا ہے
شعور نہیں آنے دینا
یہ نا ہو کہ حق مانگنے لگے
پھر گئی ان کی بادشاہی
دراصل ہم خود نہیں چاہتے کہ کوئی نیک بندہ آئے ہم ووٹ دیتے وقت یہ سوچتے ہیں کہ اگر کل کو ہمیں پولیس سے بیر پڑھ گیا تو شریف آدمی ہرگز نا بچاپائے گا اس لیے کسی ننگ وطن کو جیتانا چاہیے۔ جب تک ہمیں جوتے نہیں پڑیں گے ہم نہیں سُدھر سکتے۔
ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ جب بھی بات کرتے ہیں 62 سال کی کرتے ہیں جبکہ اپنی عمر اس کے دو تہائی سے زیادہ نہیں ہوتی ۔ معاملات 1953 سے خراب ہونا شروع ہوئے تھے ۔ سیاست کو غلام محمد نے تباہ کیا اور اداروں کو ذوالفقار علی بھٹو نے ۔ بعد میں آنے والے اس میں اپنا اپنا حصہ ڈالتے رہے ۔
Leave A Reply