پلاسٹک کے شاپر بیگ اسی کی دھائی میں شروع ہوئے اور دیکھتے ہی دیکھتے سارے پاکستان میں مشہور ہو گئے۔ ان کی سب سے بڑی خوبی ان کا سستا پن تھا ورنہ باقی خرابیاں ہی خرابیاں تھیں۔ اب تو دودھ اور دہی تک پولیتھین کے لفافوں میں بیچا جاتا ہے۔
ہمیں یاد ہے ساٹھ کی دہائی میں عام لوگ شاپنگ کیلیے کپڑے کے گھریلو بیگ استعمال کیا کرتے تھے۔ کچھ لوگوں نے اپنے سائیکلوں پر ٹوکریاں لگا رکھی تھیں۔ پھل فروش اور دوسرے پرچون فروش کھجور کی بنی ٹوکریاں زیادہ خریداری پر ساتھ دیا کرتے تھے۔ ہر طرح کی خریداری کیلیے خاکی کاغذ کے لفافے استعمال ہوتے تھے۔ پولیتھین کی آمد سے پہلے اخباری کاغذ کے شاپر بیگ عام ہو چکے تھے۔
کھجور کی ٹوکری گھر میں لوگ پیاز، ادرک، تھوم وغیرہ کیلیے استعمال کرنا شروع کر دیتے تھے۔ یا پھر کسی کے گھر جاتے ہوئے فروٹ یا دوسری اشیاء ان میں ڈال کر لے جایا کرتے تھے۔
کاغذ کے لفافے ردی والے دوبارہ خرید کر لے جاتے۔ جو لوگ کاغذ کے لفافے سڑک پر پھینکتے وہ بارش کے بعد گھل کر زمین کا حصہ بن جاتے۔ اخباری کاغذ تو بہت آسانی سے زمین میں جذب ہو جاتے تھے۔
مشرقی پاکستان کی علیحدگی نے کھجور کی ٹوکریوں کو ختم کر دیا اور پولیتھین کی آمد نے کاغذی لفافوں کی مارکیٹ ختم کر دی۔ جو لوگ گھروں میں کاغذی لفافے بناتے تھے ان کے کاروبار ٹھپ ہو گئے اور پیسے والوں نے پولیتھین کے لفافے بنانے کی مشینیں لگا لیں۔
اب تیس سال ہونے کو ہیں پولیتھین کے شاپر بیگوں نے پاکستان میں ماحول کو آلودہ کیا ہوا ہے، گٹر بند ہو رہے ہیں، نالیاں شاپر بیگ اور چپس کے بیگوں سے اٹی پڑی ہیں۔ کوڑے کیساتھ انہیں جلانے سے بیماریاں پھیل رہی ہیں۔
ہماری مقامی حکومتوں اور وفاقی حکومت کسی نے بھی اس مسئلے کی طرف توجہ نہیں دی۔ جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ادھر شہر میں سیوریج سسٹم بنایا اور ادھر وہ بلاک ہونا بھی شروع ہو گیا۔ سیوریج سسٹم پر مقامی حکومتیں اب تک اربوں روپے ضائع کر چکی ہیں۔
آج کراچی کی حکومت نے پولیتھین کے شاپر بیگ بنانے والوں پر سختی کا عندیہ دیا ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ کراچی سٹی کی حکومت کی اس کاروائی کو وفاقی حکومت سارے شہروں میں کاپی کرے مگر غریب ملک کی غریب حکومت نے جس طرح باقی مسائل کا حل قدرت پر چھوڑ رکھا ہے یہ مسئلہ بھی خدا کے حال پر چھوڑ دے گی۔
یورپ میں سیوریج کا سارا نظام ڈھکا ہوتا ہے اور اس میں پانی کے علاوہ کسی اور چیز کی ملاوٹ کا امکان نہیں ہوتا۔ دوسرے لوگ شاپر بیگ جگہ جگہ نہیں پھنیکتے بلکہ کوڑے کے ڈبے میں پھینکتے ہیں اور یہ ردی کمیٹي والے اٹھا کر لے جاتے ہیں۔
ہماری بگڑی ہوئی سوسائٹی میں اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ پولیتھین کے شاپر بیگ بنانے بند کر دیے جائیں اور لوگوں کو کپڑے کے بنے بیگ استعمال کرنے پر مجبور کیا جائے۔ اس کے علاوہ کوئی ایکشن، کوئی کاروائی تب تک بے سود ہو گی جب تک ہم سول سوسائٹی میں نہیں ڈھل جاتے۔
کراچی کی حکومت یہ بھی کر سکتی ہے کہ پولیتھین کو جلانے کیلے مشین خرید لے۔ اس طرح ماحول آلودہ بھی نہیں ہو گا اور بیماریاں پھیلنے کا خطرہ بھی نہیں رہے گا۔
اسی موضوع پر ایک سال قبل لکھی گئی تحریر “پلاسٹک کے تھیلے اور سیوریج سسٹم” یہاں پڑھیے۔
6 users commented in " شاپربیگوں کا عذاب "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackاگر شاپنگ بیگ پر پابندی سے آپ کو ایسا لگتا ہے کہ مسئلہ حل ہو جائے گا تو آپ کو شائد نہیں معلوم کہ یہ مٹی بڑی ذرخیز ہے۔ مثبت کاموں کے لئے بھی اور منفی بھی۔
وہی جو ایک جگہ اجمل صاحب نے کمنٹ دیا ہے کل کہ صحیح تعلیم اور تربیت کے بغیر ہمارے مسائل کا حل ممکن نہیں۔
بہت سے کام حکومت کے کرنے کے نہیں ہوتے بلکہ ہر فرد کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ شاپنگ بیگ کے سر عام پھینک دینے کے نقصان کا مشاہدہ کرنے کے لیے نہ کسی اسکول کی تعلیم کی ضرورت ہے اور نہ ہی کسی بہت قابل دماغ کی۔ اصل مسئلہ تربیت ہی ہے جہاں سب کچھ دیکھتے اور سمجھتے بھی لوگ وہی کام کرتے ہیں اور بعد میںحکومت کو دہائیاں دیتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ کوڑے کے ڈھیر اکھٹے کون کرتا ہے؟ سڑکوں پر شامیانے گاڑ کر انہیں کون توڑتا پھوڑتا ہے؟ گھر کی دھلائی کرکے پانی گلی میں کون بہاتا ہے؟ اور سیوریج لائن بند کرنے والے اجزاء سیوریج لائن تک پہنچانے کی ذمہ داری کون اٹھاتا ہے۔۔ میرا نہیں خیال کے نواز شریف، زرداری یا مصطفی کمال چوری چوری آکے یہ کام کرتے ہیں؟ نہ معلوم کیوں کروڑوں روپے کے گھر میں رہنے والے لوگ مفت میں صفائی ستھرائی کا نظام چاہتے ہیں۔ اس لیے ڈفر کی بات درست ہے آپ مکمل طور پر شاپنگ بیگ پر پابندی لگا دیں مسئلہ حل نہیں ہوگا۔
جس کا نتیجہ یہ ہے کہ ادھر شہر میں سیوریج سسٹم بنایا اور ادھر وہ بلاگ ہونا بھی شروع ہو گیا۔
بلاگ لکھتے لکھتے آپ نے تو شہر میں کوڑے پھینکنے والوں کو بھی بلاگرز بنادیا۔ ؛(
آئی لو پاکستان، آپ کا غلطی کی نشاندہی کا انداز ہمیںپسند آیا۔
اس کا نعم البدل بھی بتا دیں۔۔۔ جو پائیدار ہو
طارق صاحب
اس کا نعم البدل تو ہم نے اپنی تحریر کے آخر میں بتا دیا ہے یعنی کپڑے کے تھیلے جن کا پہلے رواج ہوتا تھا۔ دودھ اور وہی کیلیے برتن وغیرہ۔
Leave A Reply