ایک مسلم لیگ ن رہتی تھی اس نے بھی اٹھارہویں ترمیم کا مسودہ بنا کر پیپلز پارٹي کے حوالے کر دیا۔ اس سے قبل ایم کیو ایم اور مسلم لیگ ق اٹھارہویں ترمیم کے مسودے قومی اسمبلی اور سینٹ میں جمع کرا چکی ہیں۔
ابھی تک تو یہی لگتا ہے کہ اٹھارہویں ترمیم کے مسدودے ایک سیاسی چال ہیں اور کوئی بھی اس ترمیم کو منظور کرانے میں مخلص نہیں ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ابھی تک کسی نے اسمبلی یا سینٹ کے فلور پر اس ترمیم کے حق میں واویلہ نہیں مچایا اور نہ ہی ایوان کو مجبور کیا ہے کہ وہ اس ترمیم کو منظور کرے۔
ایسے لگتا ہے اٹھارہویں ترمیم کے مسودے جمع کرا کے ان پارٹيوں نے گونگلوؤں سے مٹی جھاڑ لی ہے یعنی کل کو یہ کہنے کے قابل ہو گئے ہیں کہ ہم نے تو ترمیم جمع کرا دی تھی حکومتی سپیکر نے کاروائی ہی نہیں کی۔
ایم کیو ایم حکومت کی اتحادی، مسلم لیگ ن حکومت کی درپردہ حلیف اور مسلم لیگ ق سترہویں ترمیم پاس کرنے والی جماعت تو پھر کیسے ہو سکتا ہے یہ جماعتیں سترہویں ترمیم ختم کرنے میں مخلص ہوں۔ یہ تو رنگ لگا کر شہیدوں میں نام لکھوانے کا بہانہ ہے۔
پیپلز پارٹي کو تو ویسے ہی سترہویں ترمیم ختم کرنے کی جلدی نہیں ہے۔ بھلا کوئی کیسے اپنے ہاتھ کٹوانے کا سوچ سکتا ہے۔ جب تک ذرداری صدر ہیں سترہویں ترمیم ختم ہونے والی نہیں۔ یہی ہمارے ایک سروے میں اکثریت کی رائے تھی اور ہے بھی سچ۔ اگر سترہویں ترمیم ختم کرنی ہوتی تو پھر ذرداری صدر کبھی نہ بنتے۔ اب تو وہ صدر پرویز سے بھی زیادہ طاقتور شخص ہیں کیونکہ وہ صدر ہونے کیساتھ ساتھ پیپلز پارٹی کے چیئرمین بھی ہیں۔ جب تک وہ صدر ہیں سترہویں ترمیم قائم ہے۔ سیاسی جماعتوں کو سترہویں ترمیم ختم کرنے کیلیے پہلے صدر ذرداری کو ایوان صدارت سے رخصت کرنا پڑے گا۔ ایسا نہ ایم کیو ایم چاہتی ہے اور نہ دوسری جماعتیں۔
4 users commented in " اٹھارہویں ترمیم کے مسودے ایک مذاق "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackراست ان کی داشتہ ہے جس کو جب مرضی جہاں مرضی ناچنے پر مجبور کردیتے ہیں کوئی بھی پارٹی ہو لُٹیروں کی کمی نہیں
اس میں کوئی شک نہیں کہ اٹھارویں ترمیم منظور کرنے کیلئے پیپلز پارٹی کا اس کی حمائت کرنا ضروری ہے ۔ اسی وجہ سے پچھلی حکومت کے کارپردازوں نے نواز شریف کو نامزدگیا داخل کرنے کے آخری دن سے قبل نہ آنے دیا تھا ۔ شاید یہ بھی این آر او کا حصہ تھا
پیپلز پارٹی تو نہیں لگتا کے کسی صورت بھی اٹھارویں ترمیم کی حمایت کرے گی۔ آپ کی بات درست ہے کہ اس کے بعد تو زرداری کی حیثیت نمائشی ہوجائے گی جو لازما انہیں قبول نہ ہوگی۔ ہمارے سیاستدانوں کا ہمیشہ کا وطیرہ رہا ہے کہ اصل مسائل کے بجائے ثانوی یا غیر اہم مسائل میں وقت ضائع کرتے ہیں۔ ملک ہو فی الوقت صدارتی یا پارلیمانی نظام کے انتخاب سے کہیں زیادہ مسائل درپیش ہیں اور اس کی بقاء پر سوالیہ نشان بن رہے ہیں ایسے میں پرسنل وینڈیٹاز کھول بیٹھنے کا نا معلوم کیا موقع ہے۔ کیا 58-2 ب کی غیر موجودگی میں بھی نواز شریف صاحب کو چلتا نہیں کردیا گیا تھا جو انکا خیال ہے اٹھارویں ترمیم کے بعد وزیر اعظم کا عہدہ بڑا طاقتور ہوجائےگا؟
نواز شریف تو سزا یافتہ ہے اسکا حکومت سے کوئی تعلق نہیںہونا چاہیے۔ سنا ہے کہ اتفاق فیکٹری میںپنجابیوں کو زندہ جلوادیتے تو وہ لوگ۔ آصف زرداری صاحب تو حکومت کریں گے کرنا ہے جو کرلو
Leave A Reply