ہم پاکستان میں دو ہفتے کی سیر کے دوران جس جس شہر میں بھی گئے اس کی مساجد کے نمازیوں میں کوئی فرق نہیں پایا۔ پہلے بھی نوے فیصد نمازی بوڑھے ہوتے تھے اور اب بھی۔ پہلے بھی ہر نماز میں ایک یا دو صفیں بنتی تھیں اور اب بھی۔ پہلے بھی بچے صبح صبح صرف قرآن کا سبق پڑھنے آتے تھے اور اب بھی۔ پہلے بھی بچوں کو قرآن کا ترجمہ نہیں پڑھایا جاتا تھا اور اب بھی۔ ہاں جمعہ کی نماز میں پہلے بھی مساجد بھر جایا کرتی تھیں اور اب بھی۔ اگر یہی حال رہا تو وہ دن دور نہیں جب مسلمان بھی عیسائیوں کی طرح صرف جمعہ کو ہی مساجد میں جایا کریں گے۔
نوجوان طبقے میں مذہبی شعور جاگنے کی اوسط وہی ہے جو پہلے ہوا کرتی تھی۔ پہلے کراچی لاہور بڑے شہر فیشن میں مغربیت کا انداز لیے ہوتے تھے اب آبادی بڑھنے کی وجہ سے بڑے شہروں کی تعداد جہاں بڑھی ہے وہیں طلبا میں مغربیت پسندی بھی بڑھ گئی ہے۔ مغربی معاشرے کی نقل میں جو تیزی آ رہی ہے اس میں الیکٹرونک میڈیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ایک وقت تھا ٹی وی کی اینکر اور نیوز ریڈر کا سر ننگا نہیں ہوتا تھا اب خال خال ہی عورتیں ٹی وی پر سر ڈھانپ کر آتی ہیں۔
معاشرے میں کرپشن نے بھی مذہبی انحطاط پسندی میں بہت بڑا رول ادا کیا ہے۔ جب آدمی ایک برا کام کرتا ہے تو پھر وہ اچھے کاموں سے دور ہوتا چلا جاتا ہے۔ اگر ہر کام رشوت کے بغیر ناممکن ہونا شروع ہو جائے جس کے بارے میں کلیئر کٹ کہا گیا ہے کہ رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں تو پھر آدمی خود بخود ہی مذہب سے بیگانہ ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
مذہبی جمود اب مذہیبی انحطاط کی طرف گامزن ہے اور وہ وقت دور نہیں جب عام مسلمان بھی یورپین کی طرح ایک دن کہا کریں گے کہ ہمارے آباؤ اجداد مسلمان ہوا کرتے تھے۔ نہ لوگ خود سے بہتری کی کوشش کر رہے ہیں اور نہ ہی حکومتیں معاشرے کو سدھارنے کا رول ادا کر رہی ہیں۔ ایک عام شہری سے لیکر صدر مملکت تک دولت کی دوڑ میں دیوانوں کی طرح شریک ہیں اور کسی کو معاشرتی رویوں کے بدلنے کی فکر نہیں ہے۔
6 users commented in " مذہبی جمود "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمجھے اختلاف ہے! پاکستان میں مذہبی جمود نہیں ہے!
نوجوانوں می دین کوجانے کی خواہش بھی ہے اور وہ اس کے لئے کوشش بھی کرتے ہیں!
دلچسپ معاملہ یہ ہے کہ نوجوانوں کی بڑی تعداد مسلکی جھگڑے سے باہر نکل کر معاملات دین کا مطالعہ کرتی ہے! عام معاشرے میں ایک طرف جہاں مغربیت کا رجحان بھی نظرآتا ہے وہاں ہی ایک بڑی تعداد مذہب کی طرف گامزن ہے! میں یہ سمجھتا ہوں کہ فیصدی تعداد کے اعتبار سے مذہب و دین اب پاکستانی معاشرے میں کافی ذیادہ ہے گزشتہ کسی بھی وقت کے اعتبار سے!
السلام علیکم،
آپ اس بات کو غنیمت سمجھیں کہ جمعہ کے دن مساجد نمازیوں سے بھر جاتی ہیں۔ لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ باقی وقت لوگ نماز نہیں پڑھتے ہیں۔ جہاں ملک میں مغرب پرستی کا کا رجحان بڑھا ہے، اس سے کہیں زیادہ لوگوں کی مذہب میں دلچسپی میں بھی اضافہ ہوا ہے، اگرچہ یہ دلچسپی مسلکی اختلافات اور مناظروں تک ہی محدود ہے۔ اور رشوت ستانی کا تعلق بھی دین سے دوری نہیں ہے۔ پانچ وقت کے نمازی بھی آپ کو رشوت لیتے ہوئے نظر آئیں گے۔ دوسری جانب سیکولر مغربی دنیا میں آپ کا کام بغیر رشوت کے بھی ہو جاتا ہے۔
ایک اور فرق،
ھمارے وقت مین چھانڑے بازی کتنی مشکل ھوتی تھی، جہان فون پر ہنس کر بات کی اور امی کو شک ھوگیا کی کسی لڑکی سے بات ھورہی ہے، اب سیلفون نے کتنی آسانی کردی ہے!! پوری قوم ایس ایم ایس پر لگی ھوی ےے 🙁
جناب مذہبی جمود کہاں ہے؟ ہم نے بہت تیزی سے مذہبی انتہا پسندی کی طرف ترقی کی ہے اور دوسری طرف مذہب سے کنارہ کشی اختیار کرتے ہوئے روشن خیالی کی حدوں کو بھی چھو رکھا ہے۔
میرے ذاتی خیال میں بھی ‘جمود‘ نہیں ہے بلکہ ‘ترقیِ معکوس‘ کا عمل ہے، نوجوانوں میں مذہبی انتہا پسندی، مسلکی اختلافات، اور غیر ضروری تہواروں میں غیر ضروری اور بڑھی ہوی دلچسپہ، یہ سب ترقیَ معکوس کی نشانیاں ہیں، جب کہ دوسری طرف مذہب کی اصل روح کو سمجھنے کی اجتماعی سطح پر کوی قابلَ قدر و ذکر کاوش نہیں ہو رہی اور بچوں اور نوجوانوں کو میڈیا اور پروپیگنڈہ سیلز، اور جدید ٹیکنالوجی کے کمرشل اور بے رحم ہاتھوں پر چھوڑ دیا گیا ہے۔
دوستو
نوجوانوںمیں جس دینی آگہی کی آپ لوگوں نے بات کی ہے اس کا تناسب آبادی کے لحاظ وہی ہے جو چالیس سال قبل تھا۔ پہلے نوجوانوں کا رجحان جمیعت طلبا، انجمن طلبا اسلام وغیرہ کی طرف تھا اوراب آبادی کے اضافے کیساتھ ساتھ دعوت اسلامی، منہاج القرآن جیسی تنظیموں کا اضافہ ہو چکا ہے۔ انتہا پسندوں کے تناسب میںبھی کوئی فرق نہیںپڑا ہاںالبتہ میڈیا کے واویلے کی وجہ سے ان کا اثرورسوخ زیادہ لگتا ہے مگر حقیقت میںایسا ہے نہیں۔ ان کے تناسب میںبھی کوئی فرق نہیںآیا۔
Leave A Reply