ابھی سور پر پہلی پوسٹ شائع کیے دو دن بھی نہیں ہوئے تھے کہ یاسر عمران نے سور پر حکیم خالد صاحب کا مضمون چھاپ دیا۔ ہم نے سوال کیا جس کا حکیم صاحب نے برا منایا۔ ہم نے بعد میں صفائی پیش کی جس کے جواب میں اجمل صاحب، خاور صاحب اور یاسر صاحب نے لکھا۔ یہ ساری بحث آپ یاسر صاحب کے بلاگ پر پڑھ سکتے ہیں۔
یورپ میں جو خوراک سب سے زیادہ کھائی جاتی ہے وہ ہے سور کا گوشت۔ اس کی وجہ کاروباری بھی ہو سکتی ہے اور ذائقہ بھی۔ کاروباری اس طرح کہ شاید سور کی افزائش آسان ہوتی ہو گی یا پھر اس میں منافع زیادہ ہوتا ہو گا۔ کیونکہ دوسرے بھی بہت سارے جانور ہیں یعنی گائے، بکرا، مرغی وغیرہ مگر سور ہی کیوں۔ ہو سکتا ہے سور کا گوشت ذائقے دار زیادہ ہوتا ہو۔
آپ یورپ کے کسی بھی ریسٹورنٹ چلے جائیں تمام کھانوں میں سور کی آمیزش کے چانسز زیادہ ہوں گے۔ بہت کم لوگ ایسے ہوں گے جو ویجیٹیرین ہوں گے یا چکن آرڈر کریں گے۔ ہاں کے ایف سی پر چکن زیادہ بکتا ہے۔ اسی طرح آپ کو مصنوعی اشیاء میں بھی سور کے گوشت یا چربی کی آمیزش ملے گی۔ یہی وجہ ہے ہم مسلمانوں کو کوئی بھی چیز خریدنے سے پہلے اس کی اجزائے ترکیبی پڑھنا پڑتی ہیں کہ کہیں ان میں سور کے اجزا تو شامل نہیں۔
اس بات سے کسی کو انکار نہیں کہ سور اسلام میں حرام ہے۔ یہ بھی سن رکھا ہے کہ سور نجاست کھاتا ہے اور اجتماعی بدفعلی کرتا ہےمگر یہ کہاں تک سچ ہے کوئی جانوروں کا ڈاکٹر ہی بتا سکتا ہے۔
حکیم خالد صاحب نے اپنے مضمون میں سور کے گوشت کی بہت ساری برائیاں بھی گنوائی ہیں اور ان کا مضمون پڑھ کر ہی ہمارے ذہن میں سوال ابھرا کہ برائیوں سے بھرپور سور کا گوشت کھانے والا معاشرہ یعنی یورپ ابھی تک زندہ کیوں ہے؟ جس معاشرے کا اوڑھنا بچھونا ہی سور کا گوشت ہے اور جس کا ڈنر سور کے گوشت کے بغیر ادھورا ہوتا ہے وہ ابھی تک مر کھپ کیوں نہیں گیا۔ سارا یورپ اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ تندرست ہے۔ اس کے عوام اپنی طاقت کا مظاہرہ ہر میدان میں کر رہے ہیں۔ کھیلوں میں یہ آگے ہیں، معاشی ترقی میں وہ نمبر ون ہیں، ایجادات میں ان کو برتری حاصل ہے، ٹیکنالوجی میں انہوں نے سب کو پیچھے چھوڑ رکھا ہے۔ آخر کیوں؟
دراصل ہم مسلمانوں کی یہ عادت بن چکی ہے کہ جو چیز اسلام میں حرام یا ممنوع ہے اس کو سچ ثابت کرنے کیلیے ہم اندھا دھند دلائل دینا شروع کر دیتے ہیں اور حتی کہ زمینی حقائق سے بھی پردہ پوشی کرنے لگتے ہیں۔ اگر ہم پاکستان میں رہ رہے ہوتے تو سور کے گوشت کی برائیوں پر یقین کر لیتے لیکن جب سے ہم نے یورپ کے لوگوں کو سور کھا کھا کر سپر پاور بنتے دیکھا ہے تو ہم سوچنے پر مجبور ہوئے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ اسلام میں جو چیز حرام ہے یا ممنوع ہے اس پر کسی دلیل کی ضرورت ہی نہیں بس حرام ہے تو حرام ہے۔ بھئی جب ایک چیز سے منع کیا گیا ہے تو بس لیکن اس حرام چیز کو زبردستی ایسے دلائل سے سچ ثابت کرنے کی کوشش کرنا جس کو حقائق جھٹلاتے ہوں وہ عام مسلمان کیلیے پریشانی کا باعث ہی بنے گا۔
13 users commented in " سور مغرب اور مشرق میں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجناب والا
سور کھا کر سپر پاور بننے والی بات بھی خوب کہی آپ نے، کیا سپر پاور بننے کی اور کوئی وجہ نہیں ہے ؟
میرے خیال میں تعلیم کو عام کرنا، معاشرے میں عدل و انصاف قائم کرنا، کرپشن کا خاتمہ کرنا اور قانون کا سب کے لیے برابر ہونا ایسی وجوہات ہیں جن سے کوئی قوم یا معاشرہ ترقی کرتا ہے، زندگی کی تمام شعبوں میں ترقی بھی انہی بنیادی اصولوں کو وجہ س وجود میں آتی ہے
اور ان اصولوں کو قائم کرنے کی لیے سور کھانا ضروری نہیں ہے
آپ دیکھیں کے ایک اسلامی ملک یعنی ملائشیا نے بھی خوب ترقی کی مگر وہاں تو سور نہیں کھایا جاتا
کھانا پینا کسی بھی قوم کی ترقی میں کوئی کردار ادا نہیں کر سکتا
اور اسکے ساتھ ہی کھانا پینا ترقی میں نقصان بھی نہیں دے سکتا میرے خیال سے
یورپی اقوام کی صحت و تندرستی کی وجوہات صفائی ستھرا کھانا کھانا، ملاوٹ سے پاک کھانے والی اشیا کی دستیابی
اصلی ادوایات کی موجودگی، علاج کی بہترین سہولیات ہیں
اور اگر آپ دیکھیں تو پاکستان اور دوسرے غریب ممالک میں انہی بنیادی باتوں کی وجہ سے اموات کی شرح زیادہ ہے
اور اگر آپ کو قرآن کی آیات پر یقین نہیں اور آپ کسی جانوروں کے ڈاکٹر کی تصدیق چاہتے ہیں تو شوق سے کیجیے
ویسے میرے سمجھ میں یہ نہیں آتا کی یورپ اور امریکہ میں رہنے والوں کے بنیادی عقائد بھی اتنے کمزور کیوں ہیں
ہر وقت یہ لوگ اسلام میں ہی برائی اور کمزوری ڈھونڈنے کے پیچھے لگے رہتے ہیں
بہتر ہوتا اگر آپ یہ یہاں ثابت کرتے کہ جو حکیم صاحب نے خنزیر کے گوشت کی برائیاں بیان کی ہیں جو درست نہیں! مگرآپ نے ایسا نہیں کیا۔۔۔۔
اسلام نے جس چیز کی کسی بھی شکل میں ممانعت کی اُس کے پیچھے کوئی نا کوئی وجہ موجود ہے! اہل دانش و علم اُس کودجہ کی جستجو میں اُس تک پہچ گئے اور چند معاملات میں ناکام رہے ہیں! اگر حکم بلاوجہ نافذ کیا جاتا تو ہم میں سے کئی باغی ہو چکے ہوتے جبکہ چند اب بھی ہیں!
ہاں افضل یہ ہے کہ وجہ جاننے کے باوجود اللہ کی رضا کی نیت ہو!
یاسر صاحب
بحث کے بنیادی نقطے کو سامنے رکھ کر بحث کی جائے تو کسی نتیجے پر پہنچا جا سکتا ہے لیکن اگر ایک نقطے سے دوسرا نقطہ نکالتے چائیں تو بحث کبھی ختم نہیںہوتی۔ بحث اس بات پر ہو رہی ہے کہ اگر سور میں وہ تمام برائیاںہیں جو حکیم صاحب نے بیان کی ہیںتو پھر یورپ والے ان کا شکار کیوںنہیںہوئے۔
اگر کسی نقطے کی وضاحت کیلیے کچھ کہا جائے تو اس کا مطلب یہ نہیںکہ ہم اسلام میں کیڑے نکالتے ہیں۔
صفدر صاحب
خنزیر کے گوشت کی برائیوں کے درست نہ ہونے کی وجہ یہی ہے کہ یورپ والوں پر ان کا کوئی برا اثر نہیںہو رہا۔ آپ کے آخری فقرے سے ہم سو فیصد متفق ہیں اور یہی ہمارے ایمان کی بنیاد ہے۔
میرا خیال ہے میں نے حکیم خالد صاحب کے مضمون کا تنقیدی جائزہ لینے کی کوشش کی تھی، اور انھوں نے جواب میں میں میرے دلائل کو تسلیم کرنے سے انکار ہی کر دیا۔
اب میں کیا کر سکتا ہوں۔ ؟
اگر آپ کے بلاگ کی پالیسی سے متصادم نہیں ہے، تو مندرجہ ذیل ربط میرے دلائل کا ہے،
ملاحظہ کیجئے:
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=489601&postcount=7
افضل صاحب ۔۔ بات ساری اتنی ہوتی ہے کہ کسی بھی چیز کے فوائد اور نقصانات کی ایک لسٹ ہوتی ہے عمومی طور پر اسلام میں چن چیزوں کو حرام قرار دیا ہے اس کے دو سبب ہیں۔ اولا اس چیز کے نقصانات اس کے فوائد سے زیادہ ہوں جیسے شراب اور دوئم وہ چیز انسانی طبعیت کو ناگوار گزرتی ہو، سور ان میں سے ایک چیز ہے کو اپنی خوراک اور رہن سہن کے طریقوں کے باعث پسندیدہ نہیں ہے اسی طرح شکاری پرندے بھی۔ یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ مختلف تہذیبوں کی پسند اور نا پسند کے میعارات بھی الگ ہیں مثلا طہارت کے طریقوں کے فرق سے آپ ناگواریت کا فرق بھی سمجھ سکتے ہیں ۔گائے کا گوشت گرچہ حلال ہے لیکن تمام حکیم اور ڈاکٹر اسے کم سے کم استعمال کرنے کا مشورہ دیتے ہیں کیونکہ اس کو کھانے سے بھی دانتوں کی کئی بیماریاں لاحق ہونے کا خطرہ رہتا ہے۔ حکیم محمد سعید تو گائے کے گوشت کو قطعا استعمال نہ کرنے کا مشورہ دیتے تھے۔ یورپ کی تندرستی اور توانائی کا راز ان کے روز مرہ کے روٹین میں پوشیدہ ہے جن میں سے اکثر چیزوں کا ہمیں بھی حکم ہے۔۔ مثلا صبح اٹھنا، زیادہ تر لوگوں کا ورزش کرنا اور روز مرہ کے معمولات میں کم غصہ کرنا۔ اس کے باوجود آپ امریکہ میں دیکھیں گے کے فاسٹ فوڈ کی بہتات کے سبب موٹاپا دنیا میں کسی بھی جگہ سے زیادہ ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ خوراک میں ملاوٹ بھی نہیں کی جاتی ہے۔
سور کا گوشت بہت ہی ادنی سی ایک چیز ہے اور کسی بھی قوم کی برتری اور کم تری میں اس کا اثر نہ ہونے کے برابر ہے۔ کیونکہ یہی بات کل کو شراب کے لیے بھی کہی جاسکتی ہے کہ اس کے سبب جسمانی طور پر زیادہ فٹ ہیں۔ ہمارا تحقیقی کام ابھی جذباتی شدت سے مکمل علحیدہ نہیں ہوا اس لیے ہم کئی چیزوں کا فیصلہ منطق کے بجائے جذبات سے کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور وہ ایک علحیدہ ہی بحث ہے۔
افضل بھائی کو دیا گیا میرا جواب یہ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
‘‘
مغرب میں صحت عامہ کےلیے جی پی سسٹم وضع کیا گیا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اگر یورپ کے صحت مند نظر آنے والے اور سور خور افراد کی ہسٹری ملاحظہ کرنے کا آپ کو اتفاق ہوتا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو افضل بھائی آپ ایسی بات نہ کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بظاہر صحت مند نظر آنے والے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خدائے بزرگ و برتر کے نافرمان۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر سے بہت کھوکھلے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دین اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہےاور دیگر الہامی مذاہب بھی زندگی گذارنے کے قوانین ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لہذا ہر بات کا مذہب سے ٹیلی کرنا فطری امر ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کسی طور بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔غیرمناسب نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افضل بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آپ کون سے پاکستان میں رہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟‘‘
اس میں برا میں نے کہاں منایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟
ابھی تو میں یہی ڈھونڈھ رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہی ہی ہی
جہاں میں نے برا منایا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی نشاندہی کوئی تو کرو۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟
منیر عباسی بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔کے اعتراضات کا جواب میں نے یہ دیا
http://www.urduweb.org/mehfil/showpost.php?p=489757&postcount=9
محترم ! افضل صاحب!!
اؤل۔ مسلمان کے نزدیک اتنا ہی کافی ہے کہ سؤر مسلمانوں پہ حرام ہے اور بس۔ لہٰذاہ مسلمان کو اس سے بحث برائے بحث نہیں ہونی چاھیئے۔ البتہ اگر سوال کرنے والا غیر مسلم ہو تو پھر ضرور دلائل دے کر بات یا مباحثہ کیا جانا چاھئیے۔
یہ بات حقیقت ہے کہ سؤر کو مشرق و مغرب میں غلیظ اور نجس جانور سمجھا جاتا ہے۔ اور سؤر انتہائی گندی حالت میں رہتا ہے ۔ اور سؤر کو کسی بھی معاشرے میں عزت نہیں دی گئی۔ اور دنیا کے انتہائی غلیظ اور گندے کام کرنے والوں کو سؤر سے مشابہت دی جاتی ہے۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ سؤر اور سؤر کے گوشت سے قسم قسم کی بیماریاں لگنے کا احتمال بہ نسبت دوسرے جانوروں کے زیادہ ہے۔ اور یہ جاننے کے سائنسدان ہونا ضروری نہیں۔ مغرب میں سؤر کا گوشت اسقدر کھائے جانے کی بڑی وجہ سؤر کی نشونماء کا سستا ہونا ہے اور سؤر نہائت کم قیمت پہ بڑی جلدی بڑا ہوتا ہے ۔ اور ہر قسم کی غلاظت چاٹنا اس کی خوارک کے زمرے میں آتا ہے۔
یہاں یہ امر دلچسپی سے خالی نہ ہوگا کہ یہود بھی سؤر کو حرام جانتے ہیں۔
دوئم ۔ کسی کی صحت دیکھ کر سؤر کے حرام حلال کو جانچنا۔ یا اسی طرح سؤر کے گوشت کا انسانی صحت کے لئیے مضر ہونا یا فائدہ مند ہونے کو بنیاد بنا کر اسلام میں سؤر کے گوشت کو حرام قرار دیے جانے کو پیمانہ تصور کرنا اور پھر اس پہ ایک لایعنی بحث کو چھیڑنا جس کا کوئی فائدہ نہیں بلکہ ناپختہ ذہن مسلمانوں پہ اس کا الٹا اثر پڑھتا ہے اور بغیر کسی وجہ کے لوگوں کے ذہن میں اپنے مذھب اسلام کے بارے میں شکوک پیدا کرنے کو قطعی طور پر قابل تحسین نہیں کہا جاسکتا۔
افضل صاحب! کم ازکم پڑھے لکھے مسلمانوں کو اس طرح کی بحث سے اجتناب کرنا چاھئیے۔ اور ویسے بھی آپ لوگوں نے یہ بات نوٹ کی ہوگی کہ مغرب میں مسلمانوں پہ کوئی نہ کوئی شوشہ چھوڑ کر انہیں مدافعانہ دلائل میں الجھا دیا جاتا ہے ۔ جس کے نتیجے میں عام مسلمان اسلام سے اپنی عقیدت کی وجہ سے اپنے مذھب کا دفاع کرنے پہ مجبور ہوجاتا ہے۔ اور دباؤ میں رہتا ہے۔ جبکہ مغرب سے یہ کام نہائیت ہوشیاری اور منصوبہ بندی سے کیا جاتا ہے اور مغربی میڈیا اس کام میں انتہائی عیار اور اور شاطرانہ ذہن رکھتا ۔ اور یہ کام وہ انفرادی اور بہ حیثیت مجموعی بھی کر رہے ہیں ۔ جس ایک تو اسلام کو بدنام کرتے ہیں دوسرا وہ مسلمانوں کو دباؤ میں رکھتے ہیں کہ مسلمان بے چارے وضاحتیں کرتے نہیں تھکتے ۔ اور اس مہم کے کئی نام ہیں مثلاً ابھی تک شاتمِ رسوٌ ل صلیٰ اللہ علیہ وآلہ وسلم احمد رشدی کو کو میڈیا پہ بلوا کر آنے بہانے سے مسلمانوں کو صلواتیں سنواتے رہتے ہیں ۔ مثلاً ڈنمارک والا کارٹون تنازعہ وغیرہ وغیرہ۔ کہ مغربی میڈیا اپنے مخصوص مقاصد کے تحت اس طرح کی مہم چلائے ۔ یہ بات تو سمجھ میں آتی ہے۔ مگر افضل صاحب ہم اپنے مذھبی دشمنوں کے مقاصد کی آببیاری خود کریں اور اس طرح کی بے مقصد بحث چھڑیں یہ بات سمجھ سے بالا تر ہے۔
جو حرام ہے ۔ وہ حرام ہے اور اس پہ دو مختلف رائے نہیں ہوسکتیں۔
خیر اندیش۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
جاوید صاحب
لگتا ہے ہم اپنا نقطہ واضح کرنے میں ایک بار پھر ناکام رہے ہیں۔ بحث اس پر نہیںسور حلال ہے یا حرام بلکہ بحثاسبات پر ہے کہ حلال کے حق میں ہم وہ دلائل دیتے ہیں جن کا زمینی حقائق سے تعلق نہیںہوتا۔ ہمیں یہی کہنا تھا مگر لگتا ہے آخر میںایک بار پھر ہمیںہی باغی قرار دیا جا رہا ہے۔ سوال وہی ہے کہ اگر سور کا گوشت بیماریوں کا پلندہ ہے تو پھر یورپ اتنا صحت مند کیوںہے؟
افضل صاحب آپ فرماتے ہیں۔ ۔ ۔
“سوال وہی ہے کہ اگر سور کا گوشت بیماریوں کا پلندہ ہے تو پھر یورپ اتنا صحت مند کیوںہے؟“
اہلِ یوروپ کی صحت کا راز سؤر کا گوشت کھانے میں نہیں بلکہ اہل یوروپ کی صحت کا راز کی کچھ دوسری مختلف وجوہات ہیں جن وجوہات پہ اوپر فاضل قارئین اکرام نے اپنی رائے خوب دی ہے کہ اچھی غذا۔ معقول عادات۔ بہتر علاج معالجہ ۔ پُر امن معاشرے۔ مصرف کی تمام اشیاء کی فروانی ، ہر قسم کی بنیادی سہولتیں اور بعد از ملازمت معقول پنشن اور مفت علاج و معالجہ کی اعلٰی ترین سہولتیں ۔ اور قوتِ خرید کا توانا ہونا۔ وغیرہ وغیرہ۔ شامل ہیں بر سبیلِ تذکرہ اور از راہِ مزاح ، ان کے تو بابے بھی انٹی بائٹک ادویات سے نوجوانون کی طرح تر و تازہ نظر آتے ہیں
محترم! آپ یہ کہہ کر ۔ ۔ ۔ “سوال وہی ہے کہ اگر سور کا گوشت بیماریوں کا پلندہ ہے تو پھر یورپ اتنا صحت مند کیوںہے؟“
آپ کیا کہنا چاہتے ہیں۔ کہ چونکہ سؤر صحت مند چیز ہے اور اسے اسلام میں اس لئیے نہیں منع کیا گیا کہ یہ مضر صحت ہے ۔؟ نیز مسلمانوں کو اس کے حرام ہونے کی دوسری وجوہات تلاش کرنی چاھئیں ۔۔؟
محترم!اگر آپ ہر صورت جاننا چاھیں گے تو میں آپ کو اسلام میں سؤر کے حرام ہومے پہ سینکڑوں دلائل دے سکتا ہوں جبکہ آپ کے پڑھنے والے بھی مسلمان ہیں اور ماشاءاللہ آپ بھی مسلمان ہیں۔ تو پھر معاملہ ہی ختم ہے۔
پھر بھی اگر محض سؤر کا گوشت کھانے سے ہی پورے اہل یوروپ کو صحت تو کیا دنیابھر کی بیماریوں سے بھی انکی جان چھوٹ جائے پھر بھی مسلمانوں کو سؤر کا گوشت منع ہے۔ نہ صرف گوشت بلکہ سور سے بنی ہر چیز حرام ہے اس میں سؤر کی کھال، ھڈی اور بالوں سے بنی سب اشیاء بھی حرام ہیں۔
ہمیں سب کو ایک بات ہمیشہ ذہن میں رکھی چاہئیے کہ مسلمان ہونے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ آپ ۔اور۔ ہم، اسلام کو ہم اپنے اپنے فائدے یا سوچ کے تحت نہیں ڈھال سکتے ۔ بلکہ ہمیں اسلام کے سانچے میں ڈھلنا ہوگا۔ تب ہم مسلمان کہلا سکتے ہیں۔
نیز اسلام صرف آپ یا میرے لئیے اور یا پھر صرف اس دور کے لئیے نہیں آیا بلکہ اسلام ہر بنی نوع اور ہر دور کے لئیے آیا ہے۔ جسطرح آج کے دور میں الحمداللہ ہم مسلمان ہیں یونہی قیامت تک مسلمان ہونگے ۔ جس طرح آج سائنس نے وہ چیزیں دریافت کی ہیں جنہٰن اسلام نی چودہ سو سال پہلے بنی نوع انسان کو آگاہ کیا تھا۔ اس طرح وہ باتیں جن کی منطق آج عقلی دلائل سے سمجھ میں نہیں آتی کوئی عجب نہیں کہ کل آنے والے مسلمان سائینس یا حالات سے ثابت کر سکیں ۔ المختصر اسلام پہ ایک مذھب کی حثئیت سے اسلام کی تمام شرائط اور ضابطوں کو ماننے سے ہی کوئی مسلمان ہوتا ہے ۔ یہ تو ہو نہیں سکتا کہ یہ مانتا ہوں کہ اس میں میرا فائدہ ہے۔ اور یہ نہیں مانتا کہ اس میں میرا فائدہ نہیں ۔ یا اسے ماننے کے لئیے میرے پاس کوئی عقلی دلیل نہیں۔ اسلام میں تو مزحب اسلام کی تمام شرائط مان کر ہی داخل ہوا جاسکتا ہے اور یہ بیچ بیچ والی بات اسلام نہیں مانتا ۔
اللہ سبحان و تعالٰی ہمیں دین کو سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
جاوید صاحب نے بڑے اچھے تبصرے کئے ہیں
میری سمجھ سے باہر یہ بات ہے کہ ہم اللہ کے حکموں میں منطق کیوں تلاش کرتے ہیں؟
زمانہ ہوتا ہے جب ہم نے تبصرہ چھوڑ دیا مگر گاہے بگاہے پڑھتے رہتے ہیں
ایک بات ہم نے نوٹ کی ہے کہ “بلا تھیلے سے باہر آرہا ہے“ جیسا کہ یاسر نے کہا بات یہ ہے کہ اکثر جو باہر نکلا وہ دنیا کمانے نکلا اس کے دل کے سارے گوشوں میں دنیا چھائی ہے اب اگر اللہ پاک کسی پر رحم فرما کر وہاں بھی دین دے دیں تو نعمت ہے
مجھے یقین ہے کہ ایسے لوگ عنقریب اپنا الگ قرآن بھی لانے والے ہیں، ان کے مربی شیعہ لوگ تو قرآن کا ٹھیک ہونا مانتے نہیں تو انکو بنا بنایا پلیٹ فارم بھی دستیاب ہے
ایک جرمن ڈاکٹر کی ایک کتاب ہے سور کا گوشت اور صحت وہ مسلمان بھی نہیں ہے
اس نے کیمیائی تجزیہ اور بحث کے بعد لکھا ہے کہ صحت مند رہنے کا ایک ہی طرقہ ہے کہ مکمل طور سے سور سے اجتناب کرنا ہوگا
اس نے لکھا ھے کہ سور پر تحقیق کرنے کا خیال مسلمانوں اور یہوڈ کو دوسروں سے زیادہ صحت مند دیکھ کر آیا تھا
آپس کی بات ہے ، لوگوں کو اللہ اور اسکے رسول کی بات کا پورا یقین نہیں ہے مگر یہ بات کرتے ڈرتے ہیں اور حیلے بہانوں سے کہ بھی دیتے ہیں، ایسے لوگوں کی نسلیں وہ کہ دیں گی جو انکے اماابا نہ کہ سکے
سپر پاور بننے کے لیے ملک میں قانون کی بالادستی اور سب سے بڑہ کے “انفرادی احساس ذمہ داری“ بیت ضروری ہے۔ جس کا ہمارے ہاں خاصہ فقدان ہے!
احمد، یاسرعمران مرزا،شعیب صفدر،ڈفر،اورخاص طور پر جاوید گوندل بھائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نے علمی تبصرے کئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اسلام نے جس چیز کی کسی بھی شکل میں ممانعت کی اُس کے پیچھے کوئی نہ کوئی وجہ موجود ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جسے معلوم کرنا مسلمانوں کا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غیر مسلموں کا کام ہے۔
جہاں تک یورپین کے صحت مند ہونے کا تعلق ہے تو ورلڈ ہیلتھ آرگنائریشن کی سائٹ پرمختلف امراض اورممالک کے حوالے سے دیے گئے فیگرز سے اس بات کی نفی ہوتی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Leave A Reply