سعدیہ سحر کے بلاگ نے ہماری سوچ کو پر لگا دیے اور سوچنے لگے کہ جس طرح مدر ڈے، فادر ڈے، ویلنٹائن ڈے، معذور ڈے، سیکریٹری ڈے ہم لوگ مغرب کی تقلید میں منانے لگے ہیں کیوں ناں ہم اپنے دن بنا کر منانا شروع کر دیں۔
اپنے معاشرے کے موجودہ بگاڑ کو نظر میں رکھتے ہوئے ہم رشوت فری ڈے، جھوٹ فری ڈے، گالی فری ڈے، پانچ وقت نماز ڈے، ہمسایہ ڈے، خدمت ڈے وغیرہ شروع کر دیں۔ اس سے معاشرے میں برائیوں کے خاتمے کیساتھ اچھا انسان بننے میں بھی مدد ملے گی۔
اسی طرح حکومت بھی اپنے دن منا سکتی ہے۔ مثال کے طور پر کرپشن فری ڈے، دوہری شہریت ختم ڈے، عوامی خدمت ڈے، عام انسان ڈے، مفت انصاف ڈے، پولیس خدمت ڈے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح حکومت کم از کم سال میں ایک دن تو عوامی خدمت کرے گی چاہے دکھاوے کی ہی کیوں نہ سہی۔
پبلک بھی اسی طرح اپنے دن منا سکتی ہے۔ حقوق ڈے، کرپٹ ساستدان ڈمپ ڈے، بدمعاشی چھوڑ ڈے، ناراضگی دور ڈے، اجتماعی نکاح ڈے، غریب ڈے، امیر ڈے، ٹی وی فری ڈے، ریڈیو فری ڈے، سپورٹس ڈے، ورزش ڈے وغیرہ وغیرہ۔ اس طرح آدمی کم از کم سال میں ایک دن تو ایسا گزارے گا جس میں اس نے کوئی نیک کام کیا ہو گا۔
9 users commented in " دن ہی دن "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیرا پاکستان جی ہمارے پاس اتنے ڈے ہوں گئے کوئی ڈے نہیں بچے گا ، ابھی ڈے کم ہونے کی وجہ سے ملک میں کوئی کام ڈہنگ سے نہیں ہوتا پھر تو لوگ اسی بہانے جلدی جایا کریں گے ۔ اور پھر ہم کو آخر میں پاکستان بند ڈے منانا پڑے گا وہ بھی دوسرے ممالک میں بیٹھ کر ۔ پہلے ہم کام چور ہیں ۔ تھوڑا سا کام کرتے ہیں تو سر میں ٹانگوں میں پیٹ میں درد شروع ہو جاتا ہے ، اور جس کا کام ہوتا ہے اس کو عجیب و غریب شکلیں بنا بنا کر اس بات پر مجبور کر دیتے ہیں ۔ کہ پھر مت آنا ۔
ایک بات بتاؤں۔؟ ہم صرف دن اور سال مناتے ہیں ۔ بلکہ ساری ساری ئمر پوری زندگی مناتے ہیں ۔ یوں کہہ لیں جب سے پاکستان بنا ہے ہم نے اپنی کئی نسلوں کی زندگیاں منا ڈالی ہیں اور دن دوگنی اور رات چوگنی ترقی اس منانے منانے کے کھیل میں کر رہے ہیں۔ اور پتہ نہیں کیوں مجھے یہ گمان ہوتا ہے کہ اگر کوءی ہمارے منانے کا حساب رکھے تو ہم رؤئے زمین پہ غالباً پہلی قوم ہیں جو بس منائے ہی چلے جاتے ہیں۔ اور اس مناے پہ ہمرا نام گینز بُک میں ہونا چاھئیے تھا۔ اور ہم یہ غالباً مناتے ہی چلے جائیں گے کہ دور دور تک ہمارے نہ منانے کے آثار نظر نہیں آتے۔ ہم مناتے ہیں اور عمر بھر مناتے ہیں۔ غیبت کرنا۔ ٹانگ کھینچنا۔ بے ایمانی۔ ھراپھیری۔ کم تولنا۔ فریب کرنا۔ دھوکا دینا۔ دام زیادہ وصول کرنا۔ بغیر کچھ کئیے تنخواہیں پانا۔ جھوٹ بولنا۔ ناجائز منافع کمانا۔ جائز ناجائز ہر ہتکنڈے سے اپنا کام نکلوانا۔ اپنے سے کمزور کو ڈانٹ کر رکھنا۔ گھر میں اپنے بچے کو پہلا تھپڑ مار کا تشدد کی دنیا کا تعارف کروانا۔ زکٰواۃ بچانا۔ بے جا مصرف کرنا۔ مذھب میں ریاکاری برتنا۔ غریب کو دھتکارنا اور امیر کی چاپلوسی کرنا۔ ہر راہ آتی جاتی لڑکی یا عورت کو اسوقت تک گھور گھور کر دیکھنا جب تک وہ نظروں سے غائب نہ ہوجائے اور اوپر سے اپنے آپ کو شریف کہلوانے پہ ضد کرنا اور اپنی مستورات کو دوسروں کی ماں بہن جتنے احترام کا مطالبہ کرنا۔ آوازے کسنا۔ کوئی دیکھنے یا پکڑنے والا نہ ہو تو ہر قسم کا لچر لٹریچر چاٹنا۔ انٹر نیٹ ۔ یا سینما میں ہر قسم کی گندی فلم تردد کر دیکھنا۔ عام آدمی کے سامنے نیک پارسا کی منافقت کرنا۔ ہر اچھی چیز اپنے لئیے جائز اور دوسروں کے لئیے غیر ضروری سمجھنا۔قومی اور سرکاری املاک کو باواجان کی وراثت سمجھنا۔اپی ہی گلی محلے اور شہر کو حد سے زیادہ گندہ رکھنا۔ کوئی بھی چیز کھا کر یا استعمال کر کے باقی باقی گندگی عین سڑک میں پھینکنا۔ عدم برداشت اور تحمل سے کام نہ لینا۔ بغیر محنت کے شارٹ کٹ ڈھوندنا ۔ اور اسکے باوجود بڑی ڈھٹائی سے اپنے آپ کو مسلمانی تفاخر کا تڑکا دینا۔ ۔الغرض یہ ایک نہ ختم ہونے والی فہرست ہے ۔ جسمیں ہم عام عوام شامل ہیں۔ اور افضل صاحب! یہ مندرجہ بالا عنوانات ہم ساری عمر مناتے ہیں۔ اس میں صرف عام عوام یعنی پاکستانی ھجوم شامل ہے۔
خواص یعنی اشرافیہ پاکستان کی ایلیٹ کلاس میں ان تمام مندرجہ بالاعنوانات عمر بھر منانے منانے میں کچھ اور بھی عنوانات ہیں جو یہ مناتے ہیں ۔ مثلاً دھیگا مشتی (سیاسی) دھاندلی۔ ھارس ٹریدنگ۔ لوٹا کریسی ۔ بیوروکریسی۔ تھالی کے بینگن اور لفافے۔ سینہ زوری ۔ ملک کو باپ کی جاگیر سمجھنا۔ اغواء۔ فراڈ۔ دھمکی: دھونس۔ قتل ستل۔ کشکول لیکر ملکوں لمکوں گھومنا اور عزت مآب ( ایکسلی لینسی) کہلوانے پہ اصرار کرنا۔ ملک کے نام پہ ملی بھیک اور خیرات کو مدد کا نام دے کر شیر مادر سمجھ کر ڈکار مارے بغیر ھضم کر جانا۔ قوم کو دہوکا دینا ۔ ملک کا سودا کرنا۔ جھوٹے اور کزاب ہونا۔ تحریری معائدوں کو ڈھٹائی سے قرآن و سنت نہ ہونے کا کہہ کر رد کر دینا۔ ؤغیرہ وغیرہ ادہر بھی ایک لمبی فہرست ہے جو عام عوامی فہرست کے ساتھ جمع کر کے دیکھی جاسکتی ہے۔ اور یہ ہیں وہ سارکے کارنامے اور کرتوت جن کو ہم صرف ایک دن نہیں۔ عمر بھر مناتے ہیں اور مناتے چلائے جارہے ہیں۔ اور دور دور تک اسے نہ منانے کے کوئی آچاڑ نظر نہیں آتے۔ کوئی ہم سا ہو تو سامنے آئے۔
نوٹ۔: اسمیں کسی کو آئینہ دکھانے کی کوشش نہیں کی گئی ۔ بس اپنے گریبان میں جھانکنے کی ایک ادنٰی سی کوشش تھی۔ اس لئیے دل جلے حضرات از راہِ کرم مجھے کوسنے سے باز رہیں۔ (-۔-)
ہماری قوم کی اکثریت تو بغیر دن کے سب کچھ منائے جا رہی ہے ۔ ہمارے ہاں منانے کا مطلب ہوتا ہے موج میلا اور کام اور تمیز کی چھٹی ۔ جتنے بھی دن اب تک منائے گئے ہیں اُن کا حال دیکھ لیں وہ دن یومِ پاکستان ہو یا عید کا دن ۔ ایک طوفانِ بدتمیزی سے زیادہ کچھ نہیں ہوتا ۔ ان حالات میں تو کوئی دن نہیں ہونا چاہیئے اور سب چھٹیاں ختم کر کے ہر عید پر دو دو چھٹیوں کے علاوہ گرمیوں میں جب تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہوتی ہیں دس دن کی چھٹیاں دے دیا کریں تاکہ لوگ گھوم پھر کر اپنی صحت درست کر لیا کریں ۔ جن سرد علاقوں میں سردیوں میں تعلیمی اداروں میں چھٹیاں ہوتی ہیں وہاں یہ چھٹیاں سردیوں میں ہوا کریں
آپ نے جو دن تجویز کئے ہیں وہ تو نا منانے والی بات ہو گئی نا 😀
جاوید صاحب
منّو بھاویں نا منّو
آپن آپکا اپنا ایک الگ بلاگ ہونا مانگتا
تبصروں میں تحریریں گم ہو جاتی ہیں
“ٕپراپر پراجیکشن“ ملنی چاہئے ان خیالات کو
بہت خوب ، ماشا اللہ ، فکر انگیز تحریر ہے ، اللہ کرے زورِقلم اور زیادہ، ماشا اللہ
ڈفر صاحب
ہم پہلے بھی جاوید صاحب سے یہی گزارش کر چکے ہیںاور دوبارہ آپ کی گزارش کی تائید بھی کرتے ہیں۔ امید ہے اس دفعھ جاوید صاحب ہماری بات مان لیںگے۔
محترم افضل صاحب!
اور
جناب ڈفر صاحب!
مجھے آپ لوگوں کی نیک خواہش کا بہت احترام ہے ۔ آپ اور آپ کے علاوہ دیگر قارئین اکرام کے اصرار کا بھی احساس ہے۔ میں نے بہت سی مصورفیات پال رکھی ہیں اس لئیے سب مصروفیات کو حسب ضرورت وقت نہ دینا نانصافی ہوگی ۔ اس کے علاوہ میری کاروباری مصروفیات بھی وقت مانگتی ہیں۔ اور میں اپنے تجربے کی بنیاد پہ یہ بات کہتا ہوں ۔کہ آپ ایک دفعہ کوئی سلسلہ شروع کر دیں ۔تو پھر قاری اور صاحبِ قلم کا ایک ایسا قابلِ احترام نظر نہ آنے والا رشتہ وجود میں آجاتا ہے جس پہ پھر قاری آپ سے ہمیشہ اگلی بات ، اگلی تحریر کا منتظر ہوتا ہے۔ جس میں قاری بجا طور پہ حق بجانب ہوتا ہے۔ اور آپ کے پاس پھر وقت ہو یا وقت نہ ہو۔آپ اپنے پڑھنے والوں کو مایوس نہیں کر سکتے۔
پھر بھی اس کا ایک حل یہ بھی ہے کہ پہلے سے دی گئی کچھ رائیں کبھی کبھار کسی ایک جگہ پہ لکھ دیا کروں۔ اس کے لئیے مجھے انٹر نیٹ کھنگالنا پڑے گا کیونکہ میں اکثر و بیشتر اپنی رائے کا ریکارڈ نہیں رکھتا۔
بہر حال میں آپ دونوں صاحبان کے خلوص کا منمنون ہوں ۔
آج کے جنگ اخبار میں عطاالحق قاسمی صاحب نے بھی اسی موضوع پر لکھا ہے ۔ ہم یہ کہنے کی کبھی جرات نہیںکریںگے کہ انہوں نے ہمارا بلاگ پڑھنے کے بعد ہمارا خیال چرا لیا بلکہ یہ کہیںگے کہ انہوںنے ہمارے خیال کی تائید کی۔ ان کے کالم کا لنک
http://www.jang.com.pk/jang/may2009-daily/14-05-2009/col3.htm
Leave A Reply