ہمارے ايک مہرباں نے ايک خوبصورت تحرير بعنوان “پاکستان کا جمہوري سٹال” ہميں ارسال کي ہے۔ انہوں نے اپنا قلمي نام نسوار خان استعمال کيا ہے اور ان کا اي ميل ايڈريس يہ ہے۔
پاکستان کا جمہوري سٹال
اگر آپ آج کے پاکستان کو عالمي جمہوري ميلے کي نمائش ميں سٹال تصور کر سکيں تو مجھے اپني بات کہنے ميں کچھ آساني ہوجاۓ گي
آيۓ کچھ دير کيلۓ ميرے سٹال کي جانب
سامنے کي ديوار پر قائد اعظم کي پورٹريٹ لٹکي ہوئي ہے اور اس کے نيچے تين نعرے ہيں۔ تنظيم، اتحاد، يقينَ محکم۔ اس تصوير کا مصرف يہي ہے کہ اس کے نيچے يہ تنيوں نعرے درج ہوسکيں۔
تصوير کے دائيں، بائيں اوپر نيچے رائفلز ٹنگي ہوئي نظر آرہي ہيں۔ يہ جي تھري رائفلز ہيں اور کام بھي اکثر يہيں آتي ہیں۔
کيا آپ کبھي پرانے شکاريوں کے ڈرائينگ رومز ميں گۓ ہيں؟ اکثر ڈرائينگ رومز کي کسي ايک ديوار پر بطور ٹرافي ہنوط شدہ بارہ سنگھے کا سر ايک لکڑي کي پليٹ پہ نصب ہوتا ہے۔ بالکل اسي طرح آپ کو پاکستان کے اس جمہوري سٹال کي بائيں ديوار پہ تيرہ محفوظ کيۓ گۓ سر قطار سے لگے ہوۓ نظر آرہے ہوں گے۔
يہ پچلے اٹھاون برس ميں جمع کي گئ ٹرافياں ہيں اور يہ سب کے سب سر وزراۓ اعظم کے ہيں جو اقتدار کي زہر خوراني کا شکار ہوگۓ۔ ان سروں کو محفوظ کرنے کا مقصد يہ ہے کہ يہ جمہوري رہنما آج بھي ہميں کتنے ياد اور عزيز ہيں۔ يہ محفوظ سر اس نمائش ميں اسلام آباد کے قومي ميوزيم سے بطورِ خاص لاۓ گۓ ہيں۔
اور يہ سامنے کے کاؤنٹر پہ ايک سفيد رنگ کي عمارت کا ماڈل بھي رکھا ہوا ہے۔ اس عمارت کا نام ہے پارليمنٹ جو پاکستاني جمہوريت کا سمبل ہے۔ اس کا مصرف يہ ہے کہ ہر چند سال بعد اس ميں ڈھائي تين سو افراد جمع ہو کے شوروغل کرتے ہيں اور پھر ان کي جگہ نۓ لوگ لے ليتے ہيں
اور اس کاؤنٹر پہ يہ جو آپ کو ايک چوڑے چکلے سينے والے چابک دست سے صاحب نظر آرہے ہيں يہي اس سٹال کے منتظم اور روح رواں ہيں۔ ان کے دائيں جانب آپ کو دو فون سيٹ دکھائي دے رہے ہوں گے۔ ليکن يہ کوئي عام فون نہيں بلکہ دو ہاٹ لائنيں ہيں۔ سرخ فون پر صرف باہر سے کال آتي ہے اور سبز فون سے صرف راولپندٹي بات ہوسکتي ہے۔
ان کے برابر ميں يہ جو آپ کو ايک اکيلا سا مائيکروفون دکھائي دے رہا ہے ايسے مائيکروفون ہماري پارليمنٹ کي بنچوں پہ درجنوں کي تعداد ميں نصب ہيں اور آج کل کام بھي کررہے ييں۔
تويہ ہے اس جمہوري سٹال کا مختصر تعارف۔
اب اگر آپ کے ذہن ميں کوئي سوال ہو تو سٹال کے منتظم کو اس کا جواب دينے ميں خوشي ہوگي۔ تو کيجۓ سوال
3 users commented in " پاکستان کا جمہوري سٹال "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبہت خوب اچھا سٹال ہے ۔۔۔۔ یہ وہی بات ہے کہ لگا ہے مصر کا بازار دیکھو
اچھا لکھا ہے ۔ قائد اعظم کے ارشاد کی ترتيب حکومتِ پاکستان کے کسی ماہرِفن نے بدل دی تھی ۔ اُنہوں نے مُسلم يونيورسٹی علی گڑھ ميں طُلباء کنوينشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ ايمان ۔ اتحاد اور تظيم مسلمان کا نسب العين ہے ۔ مير احمد طاہر صاحب نے جو مصرع لکھا ہے يہ شعر
لگا ہے مصر کا بازار ديکھو
نئی تہضيب کے آثار ديکھو
پاکستان بننے سے پہلے لکھا گيا تھا ہندوستان کے بڑے شہروں کی حالت پر ۔
لگا ہے مصر کا بازار ديکھو
نئی تہذيب کے آثار ديکھو
اسلام سے پہلے مصر ميں عورتوں کا بازار اس طرح لگتا تھا جيسے آج کل اتوار بازار لگتا ہے ۔ اس شعر ميں اسی کا حوالہ ديا گيا ہے ۔
Leave A Reply