ہمارے ايک دوست ہيں ان کا ايک بھائي اور پانچ بہنيں ہيں۔ ان کي کچھ اراضي گاؤن ميں تھي جو ان کے والد نے اپني زندگي ميں ہي چھوٹے بيٹے کي آمادگي سے بڑے بيٹے کے نام کردي جس کي اس وقت قيمت ايک کروڑ روپيہ ہے۔ ان کا ايک پلاٹ شہر ميں ہے جس کي قيمت اس وقت پچيس لاکھ روپے ہے اور يہ پلاٹ انہوں نے دونوں بيٹوں کيلۓ خريدا تھا۔ بڑے بيٹے نےاس پلاٹ کي اپنے حصے کي زمين کافي عرصہ پہلے بيچ کر دوسرے شہر ميں گھر بنا ليا۔ باقي کا پلاٹ جو چھوٹے بيٹے کے حصے ميں آتا ہے وہ اس کے والد صاحب اپني زندگي ميں اس کے نام نہ لگوا سکے مگر سب کے سامنے انہوں نے کہا تھا کہ يہ چھوٹے بيٹے کا حصہ ہے۔ ابھي دوست کي والدہ زندہ ہے اوراس معاملے میں خاموش ہے مگر وہ يہ بيان دينے کو تيار ہيں کہ دوست کے والد صاحب يہ پلاٹ اس کو دے کر گۓ تھے۔ اب جب وہ يہ پلاٹ بيچنے لگے تو ان کي ايک بہن نے اپنا حصہ مانگنا شروع کر ديا اور دھمکي دي کہ اگر اس کا حصہ نہ ديا گيا تو وہ پلاٹ کے کاغزات پر دستخط نہيں کرے گي۔ دوست اپني اس بہن کو ہي نہيں بلکہ دوسري بہنوں کو بھي حصہ دينے کو تيار ہے۔ مگر اس نے قرآن کي صورت نساء ميں پڑھا ہے کہ اگر کوئي مرنے سے پہلے وصيت کر جاۓ چاہے وہ زباني ہي ہو اسے نہ ماننے والا گنہگار ہے۔ ليکن اس نے يہ بھي پڑھا ہے کہ آدمي وصيت صرف اسلام کے اصولوں کے مطابق ہي کر سکتا ہے اور ان اصولوں کے انحراف ميں جو بھي وصيت ہوگي وہ متروک سمجھي جاۓ گي۔
اب آپ بتائيں کہ اسلام کي رو سے کيا اس کي بہن کا جائيداد ميں حصہ بنتا ہے اور کيا اسے تمام بہنوں اور اپنے بھائي کو اس جائيداد سے حصہ دينا چاہۓ يا نہيں۔ کيا بہنوں کا اًس جائيداد ميں حصہ نہيں بنتا جو ان کے والد اپني زندگي ميں اپنے بڑے بيٹے کے نام کرگۓ تھے۔ دوست کا يہ بھي مؤقف ہے کہ پچھلے پندرہ سال سے وہ اکيلا اپنے والدين کي داے درمے خدمت کر رہا ہے ۔ اب اگر دوسرے بہن بھائيوں نے اپنے والدين کي ايک پائي بھي خدمت نہيں کي کيا تب بھي وہ اپنے والدين کي جائيداد ميں حصے دار ہيں۔
5 users commented in " معمہ حل کريں "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوصيت كامصرف ان چيزوں كى لئے هے جن كے لئے قرآن ميں واضع قانون نهيں ديا گيا ـ يا پهر ورثاء كے علاوه كسى ملازم يا عزيزكو كوئى تحفه وغيره ـ مگر جن چيزوں كي تقسيم كا قانون سورة نساء ميں دے ديا گيا هے ـ وه صرف اس قانون كے مطابق هى تقسيم هوں گى ـ
اللّه جى كو پته هے كه چالاكـ لوگ كئى چاليں چل جاتے هيں ـ اس لئے جن چيزوں كى تقسيم ميں بے اعتدالى كے مسائل نسل در نسل چل سكتے هيں ان كے متعلق واضع طور پر حكم فرماديا هے ـ
اور اللّه كے حكم ميں اگر مگر اور چونكه چناچه كى گنجائش نهيں هوتى ـ
لگتا تو ایسا ہے کہ آپ کے دوست کے والد عام روایت کی طرح بیٹیوں کو وراثت کا غصہ دینے سے منکر تھے۔
ھمیں اپنے شرعی مسایل علماء سے رجوع کرکے حل کرنے چاھیں۔۔ کیونکہ وہ شرعیت کے ماہر ھیں۔ ھم بولیں گے تو نیم حکیم خطرہ جان، نیم ملا خطرہ ایمان والی بات ھوگی۔
ایک سعودی علماء کے ویب سایٹ پر اس سے ملت جلتا سوال و جواب ھے اس کو ارسال کر رھاھوں۔
سوال:
ميں يہ معلوم كرنا چاہتا ہوں كہ آيا كسي شخص كےليے يہ جائز ہے كہ وہ اپنے كسي بيٹے كووراثت دينے سے منع كردے اس ليے كہ اس شخص اور اس كے داماد كےمابين كچھ مشكلات پيدا ہوچكي ہيں ، اور كيا يہ ممكن ہے كہ ان مشكلات كوسبب بناتے ہوئے وہ اپني كسي بيٹي كووراثت دينے سے منع كردے؟
اور اگر كسي شخص كےدس بيٹے ہوں تو كيا وہ كسي ايك كو دوسروں سے زيادہ دے سكتا ہے ، حالانكہ وہ خود ابھي بقيد حياۃ ہے مثلا وہ كوئي مكان يا زمين بيٹے كےنام كروا دے اور يہ كہے كہ ايسا كرنا حرام نہيں اس ليے كہ يہ مال اس كااپنا ہے اور اس ميں كسي كو بھي دخل اندازي كا حق نہيں ؟ !
جواب:
الحمد للہ :
يہ وصيت ناجائز ہے كيونكہ يہ اقتضاء شرعي اور عدل كےخلاف ہے جس كا حكم اللہ تعالي نےديا ہے اور خاص كراولاد كےمابين عدل كرنا ضروري ہے فرمان باري تعالي ہے:
{ماں باپ اور عزيزواقارب كےتركہ ميں مردوں كاحصہ ہے اور عورتوں كا بھي جومال مال ماں باپ اور عزيز واقارب چھوڑ كرمريں خواہ وہ مال كم ہو يا زيادہ اس ميں حصہ مقرر كيا ہوا ہے} النساء ( 7 )
پھر اللہ تعالي كا يہ بھي فرمان ہے :
{اللہ تعالي تمہيں تمہاري اولاد كےمتعلق حكم كرتا ہے كہ ايك لڑكے كا حصہ دولڑكيوں كےبرابر ہے اور اگر صرف لڑكياں ہي ہوں اور دو سے زيادہ ہوں تو انہيں مال متروكہ كا دوتہائي ملےگا ، اور اگر ايك ہي لڑكي ہوتو اس كے ليے آدھا ہے ، اور ميت كےماں باپ ميں سے ہر ايك كےليے اس كےچھوڑے ہوئے ميں سے مال كا چھٹا حصہ ہے اگر اس ميت كي اولاد ہو ، اور اگر اولاد نہ ہو اور ماں باپ وارث بنتےہوں تو اس كي ماں كےليےتيسرا حصہ ہے ، ہاں اگر ميت كےكئي ايك بھائي ہوں تو پھر اس كي ماں كا چھٹا حصہ ہے ، يہ حصے اس وصيت (كي تكميل ) كےبعد ہيں جومرنےوالا كرگيا ہويا قرض كي ادائيگي كے بعد ، تمہارے باپ ہوں يا تمہارے بيٹے تمہيں نہيں معلوم كہ ان ميں سے كون تمہيں نفع پہنچانے ميں زيادہ قريب ہے ، يہ حصے اللہ تعالي كي طرف سےمقرر كردہ ہيں بلاشبہ اللہ تعالي پورے علم والا اور كامل حكمتوں والا ہے} النساء ( 11 )
پھر اللہ تعالي نے ان لوگوں كو جو وراثت كي تقسيم ميں اس كي مخالفت كرتے ہيں اور اس كےحكم سے كھيلتے ہيں انہيں دھمكاتےہوئے فرمايا:
{اور جوكوئي بھي اللہ تعالي اور اس كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم كي نافرماني اور اس كي حدود سےتجاوز كرے اللہ تعالي اسے جہنم ميں پھينكےگا وہ اس ميں ہميشہ رہےگا اور اس كےليے ذلت ورسوائي والا عذاب ہے} النساء ( 14 )
لھذا جس نے بھي اپني اولاد ميں سے كسي ايك كووراثت سےروكا يا انہيں ان كےحق سے كم ادا كيا يا كسي كوان كےشرعي حق سےزيادہ ديا يا كسي ايسےشخص كوورثاء ميں شامل كيا جووراثت ميں وارث نہيں تھا تو وہ شخص گنہگار اور كبيرہ گناہ كا مرتكب ہے .
اور اسي طرح كسي وارث كےليے وصيت كرنا بھي جائز نہيں اس ليے كہ اس كا شرعي حق مقرر كيا جاچكا ہے اس كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے :
ابوامامۃ رضي اللہ تعالي عنہ بيان كرتےہيں كہ رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا : بلاشبہ اللہ تعالي نے ہرحقدار كواس كا حق دےديا ہے لھذا كسي وارث كےليےوصيت نہيں كي جاسكتي . اسے امام احمد ، ابوداود اور امام ترمذي نےروايت كيا ہے ديكھيں سنن ترمذي ( 2046 )
اور اگر شرعي طور پر ايسا ثبوت مل جائے جس كي بنا پر اولاد ميں سے كوئي ايك كافر ہو مثلا باپ كي وفات كےوقت وہ بےنماز تھا اور بالكل نماز ادا نہيں كرتا تھا تو پھر انہيں باپ كي وراثت ميں سےكچھ نہيں ملےگا اگرچہ اس نے اس كي وصيت نہ بھي كي ہوكيونكہ نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے :
مسلمان كافر كا اور كافر مسلمان كا وارث نہيں . متفق عليہ .
اور رہا مسئلہ اولاد ميں سے كسي ايك كو دوسروں كےعلاوہ بغير كسي شرعي سبب كےعطيہ اور ھديہ دينا تويہ بھي حرام اور ظلم ہے ، اور اس سے بھائيوں ميں ايك دوسرے كےخلاف حسد اور بغض پيدا ہوگا ، اس كےحرام ہونے كي دليل مندرجہ ذيل حديث ہے جسےبخاري اور مسلم رحمھمااللہ نےروايت كيا ہے :
نعمان بن بشير رضي اللہ تعالي عنھما بيان كرتےہيں كہ ان كےوالد انہيں نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس لائے اور كہنےلگے: ميں نےاپنےاس بيٹےكو اپنا غلام ہبہ كيا ہے تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے:
كيا تونےاپنےسب بيٹوں كواس طرح ديا ہے ؟ توانہوں نےجواب نفي ميں ديا تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے : اسے واپس لےلو .
اور مسلم كےالفاظ ہيں كہ: اللہ تعالي سےڈرو اور اپني اولاد كےمابين عدل وانصاف سےكام لو ، تو ميرے والد نے وہ صدقہ واپس لےليا .
اور ايك روايت ميں نعمان رضي اللہ تعالي عنہ سے مروي ہےكہ: ميرے والد مجھے نبي كريم صلي اللہ عليہ وسلم كےپاس لے كر گئے اور انہيں كہنےلگے اے اللہ كےرسول صلي اللہ عليہ وسلم آپ گواہ رہيں كہ ميں نے نعمان كو اپنے مال سے اتنا كچھ ديا ہے ، تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانےلگے: كيا تو نے اپنےسب بيٹوں كو نعمان جتنا مال ديا ہے ؟ تو انہوں نےكہا نہيں رسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم نےفرمايا اس پر ميرے علاوہ كسي اور كوگواہ بناؤ، پھر فرمانےلگے: كيا تو يہ پسند كرتا ہے كہ وہ سب تيرے ساتھ حسن سلوك كرنے ميں برابر ہوں ؟ وہ كہنےلگے كيوں نہيں تورسول كريم صلي اللہ عليہ وسلم فرمانے لگے تو پھر اس طرح نہيں . صحيح مسلم ( 3159 )
ليكن اگر اولاد ميں سے كسي ايك كو كسي شرعي سبب كي بنا پر عطيہ اور ہبہ كيا جائے مثلا فقر يا اس پر قرض ہو يا بيماري سےعلاج كا خرچہ وغيرہ تواس ميں كوئي حرج نہيں ہے .
اللہ تعالي كوہي زيادہ علم ہے ، اور اللہ تعالي ہمارے نبي محمد صلي اللہ عليہ وسلم اور ان كي آل اور صحابہ كرام پر اپني رحمتيں نازل فرمائے.
واللہ اعلم .
الشيخ محمد صالح المنجد (www.islam-qa.com
assalmo alaykum w.w.!
First of all, Islam has very clear cut rules on the division of any sort of property or money … his father gave one thing to his elder son other to younger and forgot his five daughters … Islam’s against it … and it should be divided as per Islamic rules… secobndly when he gave the 1 crore property to his elder son did he asked for permission from his daughters …?
….
Leave A Reply