جنگ کے کالم نگار ارشاد حقانی نے گیارہ سال قبل ایٹمی دھماکے کرنے چاہیے تھے یا نہیں، کی جو بحث چھیڑی تو ہر کسی نے اس میں اپنا حصہ ڈالا۔ ارشاد حقانی صاحب نے ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کی تھی اور اب جبکہ انہی ایٹمی ہتھیاروں کی حفاظت پاکستان کیلیے لمحہ فکریہ بنا دی گئی ہے تو حقانی صاحب اسے اپنے حق میں ایک نقطے کے طور پر پیش کر رہے ہیں۔
ہم نے خود اس وقت ایٹمی دھماکوں کی مخالفت کرتے ہوئے کہا تھا کہ ہمیں اسرائیل کی طرح ایٹمی طاقت ہونے کے باوجود اس کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ بھارتی دھماکوں کی آڑ میں اسے دنیا میں رسوا کرکے خود کو معصوم ثابت کرنا چاہیے۔ لیکن اب ثابت ہوتا ہے کہ اگر نوازشریف دھماکہ نہ کرتے تو قوم واقعی ان کا دھماکہ کر دیتی۔ دھماکہ تو بعد میں ویسے ہی ان کا ہو گیا تھا مگر قوم مطمن ضرور ہو گئی۔ بعد میں کہتے ہیں انہی ایٹمی دھماکوں نے بھارت کو کئی مواقع پر پاکستان پر حملہ آور ہونے سے باز رکھا۔
مجیب الرحمن شامی، عرفان صدیقی اور نذیر ناجی نے اپنے کالموں میں اپنے اپنے نقطہ نظر کی وضاحت کی ہے۔ مجیب الرحمن شامی کے کالم کے جواب میں ارشاد حقانی صاحب نے ایک اور کالم لکھ کر بحث کو سمیٹنے کی کوشش کی ہے۔ ارشاد حقانی صاحب نے ایک کالم میں نوائے وقت کے مجید نظامی صاحب کا استدلال بھی شائع کر کے دوسرے فریق کو اپنا نقطہء نظر پیش کرنے کا موقع بھی فراہم کیا ہے۔ محسوس تو یہی ہوتا ہے کہ تمام کالم نگاروں نے اپنی صفائی میں لکھا ہے مگر انہوں نے قاری کے سامنے تاریخ کھول کر رکھ دی ہے۔
ڈاکٹر قدیر صاحب نے اپنے کالم میں ایٹمی دھماکوں کی یاد دلائی ہے اور پرویز مشرف کے دوغلے پن کو اجاگر کیا ہے اور یہ ہے بھی سچ یعنی جس شخص نے پاکستان کو ایٹمی طاقت بنایا اس کو جنرل نے طالبان کی طرح پہلے گلے لگایا اور پعد میں اتحادیوں کے کہنے پر نظربند کر دیا۔
بی بی سی کے صحافی محمد حنیف نے اپنے کالم ایٹم بم اور جہیز میں اس بحث کو آگے بڑھایا ہے۔
کالم نگار ہارون الرشید نے بھی اپنا نقطہ نظر اپنے کالم ارے صاحب، ارے صاحب میں بیان کیا ہے اور ارشاد احمد حقانی نے اپنے اگلے کالم ارے صاحب، ارے صاحب میں اس کا جواب دینے میں ذرا دیر نہیں لگائی۔
10 users commented in " یوم تکبیر "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackبعض اوقات کچھ چیزوں کا اظہار بہت ضروری ہوتا ہے اور اب جبکہ روایتی فوجی طاقت میں پاکستان اور بھارت میں توازن بری طرح بگڑ چکا ہے یہ ایٹمی دھماکہ بلاوجہ کے جنگ و جدل سے بچانے کا باعث بنا ہے خاص کر بھارتی پارلیمنٹ پر دہشت گردی کے واقعے کے بعد۔ اب اگر قیادت کے فقدان کے باعث اس کی حفاظت ہمارے لیے درد سر بن گئی ہے بلکہ بنادی گئی ہے تو اس میں اس وقت کے فیصلے کا کیا قصور۔ میرا ذاتی خیال تو یہی ہے کہ فوج اور حکومت بھی بلاوجہ اس خطرے کو بڑھا چڑھا کر بیان کرتی ہے تاکہ کمانڈ اینڈ کنٹرول کے نام پر دنیا بھر سے مزید بھتہ وصول کیا جائے بالکل اسی طرح جیسے طالبان کے نام پر دنیا بھر سے بھتہ وصولی کا سلسہ جاری ہے۔
کالمز کے سلسلے میں ایک بات عرض کرنی تھی کہ ان تمام کے مطالعے سے اس نتیجہ پر پہنچا ہوں اور شاید کچھ لوگ اس سے اتفاق کے اس میں تاریخ کے بیان سے زیادہ اس بات پر زور ہے کہ کون سا کالم نویس ایسا تھا جو ہمہ وقت نواز شریف کے پہلو میں بیٹھا تھا یعنی بعض کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا فیصلہ دراصل ان کا ہی مشورہ تھا اور باقی لوگ بلاوجہ کی ہانک رہے ہیں اور یہ بات آپ کے علم میں بھی ہے۔
تاریخ کو مسخ کرنے کا سلسلہ انگریزوں نے شروع کیا تھا لیکن وہ ان کیلئے قومی خدمت تھا ۔ ہمارے کالم نگار اور سیاستدان صرف چند کوڑیوں کے عوض اپنی ہی تاریخ کو مسخ کرتے ہیں ۔ درست کہ عبدالقدیر خان نے قومی خدمت کا اظہار کیا اور ذوالفقار علی بھٹو نے اُسے ملک میں بلا کر کام پر لگایا لیکن وہ کام جس کی کامیابی پر پاکستان ایٹمی طاقت بنا 1979ء میں شروع ہوا تھا ۔ 1988ء کے اواخر میں اسے رکوا دیا گیا اور 1990ء میں پھر شروع کیا گیا 1993ء میں پھر کام رکوا دیا گیا اور 1997ء میں پھر شروع ہوا اور جلد ہی کامیابی حاصل کر لی گئی ۔ باقاعدہ تجربہ ضروری تھا مگر بھارت نے جلد کرنے پر مجبور کر دیا ۔
ارشاد حقانی صاحب کے خیالات کئی بار مفروضوں پر مبنی ہوتے ہیں اور کئی بار کسی کے مرہونِ منت اسلئے زیادہ تر وہ حقائق سے دور رہتے ہیں
مجیب الرحمٰن شامی میں اتنا ضرور ہے کہ جان بوجھ کر غلط بات نہیں کہتا ۔ یہ واحد صحافی ہے جو اپنی جان خطرے میں ڈال کر ذاتی طور پر مشرقی پاکستان گیا اور حقائق کی ترجمانی کرتا رہا لیکن اس کی کسی حکمران نے نہ مانی ۔ نذیر ناجی صاحب نان و نفقہ سے غرض رکھتے ہیں جو دے دے ۔ عرفان صدیقی عام طور سے قومی صحافت کرتے ہیں
نواز شریف نے کسی صحافی کے کہنے پر نہیں متعلقہ لوگوں سے مشورہ کر کے دھماکہ کیا تھا ۔ ان میں ملٹری ہائی کمان اور سیاستدان شامل تھے
باقی میں راشد کامران صاہب کے ساتھ متفق ہوں ۔ نواز شریف نے درست وقت قدم اٹھایا تھا اور موجودہ حکمران صرف مال اکٹھا کرنے کیلئے سب کچھ کر رہے ہیں انہیں قوم کی کوئی پرواہ نہیں ہے
ہاں جی کریڈٹ لینے میں تو ہم سب شیر ہیں۔۔۔
اسی نواز شریف پر کارگل جنگ کے بعد غداری کا الزام بھی انہی صحافتی بزرجمہروں نے لگایا تھا۔۔۔
جو لوگ پاکستان کو یہ مشورہ دیتے رہے ہیں۔ یا دے رہیں۔ اور خاص کر وہ لوگ۔ جو پاکستان میں بستے ہیں اور کسی طرح سے پاکستانی رائے عامہ پہ کسی قدر اثر انداز ہوسکتے ہیں۔ جس طرح یہ نام نہاد دانشور ارشاد احمد حقانی۔ وغیرہ جو پاکستان سے وفاداری کا دم بھرنے کا تاثر دیتے ہوئے۔ پاکستان اور پاکستان کی بااختیار ارباب و اختیار کو یہ مشورہ دیتے ہیں۔ وہ جوہری قوت بننے اور اس میں اضافے کی بجائے۔ جوہری ہتیاروں بشمول ہر قسم کے جوہری پرگرام سے جان چھڑا لے۔ اور اس بارے میں لابنگ کرتے ہیں۔ ایسے لوگ یا تو بے وقوف ہونے کی وجہ سے احمقوں کی جنت میں بستے ہیں یا ارادتاً پاکستان مخالف دشمنوں کے ہاتھ میں کھیل رہے ہیں۔
قائد اعظم رحمۃ اللہ علیہ، گاندھی کے خبث باطن کو شروع سے جانتے تھے اور قائد نے کبھی اپنی زندگی میں گاندھی کو مہاتما کہہ کر یا لکھ کر مخاطب نہیں کیا تھا۔ اور تاریخ کے ادنٰی طالبعلم کو بھی اس کا علم ہے خود انگریز اپنی اندرونی سرکاری خط وکتابت میں گاندھی کو مکار شخصیت کہتے تھے۔ اور باسٹھ سال بعد بھی۔ اپنے آپ کو زبردستی دانشور کہلوانے والا ایک کالم نگار اس بات سے اگر ناواقف ہے تو پھر وہ دانشور تو کُجا ایک عام آدمی سے بڑھ کر لاعلم ہے اور اگر یہ جانتے بوجھتے کہ قائد اعظم گاندھی کے باطن کو سمجھتے ہوئے اسے کبھی بھی (عظیم نفس )مہاتما کہہ کر مخاطب نہیں کیا تھا تو ایسے میں ارشاد حقانی نہ صرف پاکستان کی تاریخ کے حقائق کی روگردانی کر رہے ہیں بلکہ عام پاکستانیوں کی ذہانت کی توہین بھی کر رہے ہیں۔
جو موصوف (ارشاد حقانی) اپنے آپ کو دانشور ہونے کا دعواٰہ کرتے نہیں تھکتے ایک طرف اپنے آپ کو پاکستان کا ہمدرد کہتے ہوئے اگلے سانس میں موہن داس گاندھی کو بلاوجہ مہاتما کہہ کر پکاریں ، مہاتما کہہ کر لکھیں اور موہن داس گاندھی کے طریق علاج؟ کو کسی انجانے عزیز کے حوالے سے المشتہر کرے۔ سب اہل علم لوگوں کو علم ہے کہ گاندھی کا طریق علاج؟ جو مختلف شاستر پڑھنے، بکری کے دودھ پینے اور نوجوان ناریوں سے اٹھکلیوں پہ مبنی ہے۔ایسے طریقہ علاج کے بارے میں ایسے صاحب علاج کو ۔۔مہاتما۔۔ کر طریقہ علاج دریافت کرنا کیا معنی رکھتا ہے۔؟
ارشاد حقانی سے بہت سے محب وطن اور مخلص لوگ عرصے سے عاجز اور نالاں ہیں۔ اور موصوف کے سابقہ کالم بھی ماسوائے اپنی ۔۔میں۔۔ کے علاوہ کچھ نہیں ہوتے ایسا آدمی کچھ بھی ہوسکتا ہے مگر مخلص دانشور ہرگز ہر گز نہیں ہو سکتا۔
یہ نکتہ غور طلب ہے۔آج جہاں جہاں بھی امریکہ اپنی قوت کے نخرے دکھا رہا ہے۔ وہ سب کمزور اور نہتی قومیں ہیں۔ اور اس وقت دنیا میں کوئی دوسری طاقت ( ملک یا ممالک) ایسی موجود نہیں جو امریکہ کے مقابلے میں کمزور اور نہتی اقوام کی کسی طرح کی مدد کر سکیں۔ جب تک امریکہ کے مقابلے میں سوویت یونین وغیرہ موجود تھے۔ امریکہ نے درپردہ دوسری قوموں کو حیلے بہانے سے کبھی مذھبی پشت تھپتھاتے ہوئے۔ کبھی ثقافتی یلغار کا حوالہ دے کر۔ دوسری قوموں کو اپنی کمینگی سے آگے بڑہایا اور خود امریکہ نے کبھی بھی براہ راست سابقہ سویت یونین۔ یا کچھ کسی طور پہ فوجی طاقتور کسی ریاست سے کبھی عملی طور پہ شرارت نہیں کی تھی۔ حتیٰ کہ کیوبا جیسا جزیرہ ملک امریکہ کے دروازے میں بیٹھا اسے ہمیشہ للکارتا رہا ہے۔
امریکہ نے دوسری جنگ عظیم میں نازی جرمنی کے خلاف بھی اس وقت اپنی فوجیں بیجھیں جب اسے برطانیہ۔ فرانس۔ اور سویت یونین جیسے اتحادی ملے۔ اور ان اتحادیوں نے امریکہ کی ہر بات بے چون و چراہ مان لی۔ تو امریکہ دوسری جنگ عظیم میں کودا۔ اور یہ بھی حقیقت ہے کہ نازی جرمن فوجوں کے قلب کو امریکہ نے نہیں۔ بلکہ سابقہ سویت یونین نے عبرتناک شکست سے دوچار کیا۔ ماسکو اور لینن گراڈ (سن پیٹرس برگ) کے برف زاروں کو جھیلتے، نازی فوجوں کو شکشت پہ شکست دیتے۔ پیچھے دھکیلتے۔ سویت یونین کی افواج نے برلن تک نازی جرمنی افواج کا پیچھا نہ چھوڑا اور ہٹلر کے ھیڈ کواٹر اور خود ہٹلر(مردہ) پہ قبضہ کیا۔ امریکن آرمی کا اس میں کوئی خاص کمال نہیں تھا۔ مگر امریکہ آج تک دوسری جنگ عظیم کا سارا کریڈٹ اپنے نام کیش کروا رہا ہے۔ یوروپ میں اتحادیوں کی فتح کے بعد۔ جاپان کی طرف سے ھتیار پھینکنے کی آمادگی ظاہر کرنے کے باوجود بھی۔ امریکہ لاکھوں زندہ سول انسانی نفوس آباد شہروں پہ جوہری بم پھینکنے سے باز نہ رہا۔ موجودہ انسانی تاریخ میں اگر کسی نے۔ زندہ انسانوں پہ جوہری بم پھینک کر لاکھوں سول شہریوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کا تجربہ کیا۔ تو وہ صرف امریکہ ہے۔اور امریکہ کو اس چنگیزی کی اسلئیے جرائت ہوئی کیونکہ جاپان کے پاس ایسا ہی جوہری بم اور امریکہ پہ جوہری بم پھینکنے کا طریقہ کار نہیں تھا۔ اگرجاپان کے پاس ایسا ہی جوہری بم۔ اور امریکہ پہ جوہری بم پھینکنے کا طریقہ کار ہوتا۔ تو امریکہ انسانی جانوں کو اس طرح تلف کرنے سے باز رہتا۔
جو لوگ عالمی چپلقشوں اور انکے تناظر میں کیے گئے اقدامات پہ نظر رکھتے ہیں۔ وہ لوگ اس بات کی گواہی دیتے ہیں۔ کہ سویت یونین (بعد ازاں روس) اور امریکہ کے درمیان۔ پچھلے ساٹھ سالوں۔ میں براہ راست چھیڑ خانی کا کوئی واقعہ نہیں ہوا۔ دونوں فریق اپنے اپنے لاؤ لشکروں اور اتحادیوں کے باوجود جنگ سے باز رہے۔کیونکہ دونوں ھی ایک دوسرے پلک جھپکنے میں تباہ کرنے کی جوہری طاقت رکھتے تھے۔
کچھ ایسا معاملہ آجکل امریکہ اور شمالی کوریا کے درمیان چل رہا ہے۔ شمالی کوریا لاکھ غریب سہی۔ لاکھ بھوکا سہی۔ مگر وہ اپنے جوہری پروگرام کی بدولت جوہری بم۔ اور جوہری بموں کو اپنی میزائیل ٹیکنالوجی سے ڈلیور کرنے۔ یعنی جوہری بم اپنے اھداف پہ پھینکنے کا بندوبست رکھتا ہے۔ امریکہ کی شدید تمنا کے باوجود بھی۔ امریکہ کبھی بھی اپنی فوجوں۔ کو اس وقت شمالی کوریا سے جنگ میں نہیں جھونکے گا۔ جب تک اس کے پاس شمالی کوریا کے جوہری پروگرام کے بارے میں۔ صحیح معلومات اورنتیجے میں۔ اس پروگرام کو سبوتاژ اور ساقط کرنے کا یقین نہیں ہو جاتا۔
کارگل کا واقعہ ہو۔ یا بھارتی پارلیمنٹ پہ حملہ۔ یا حال ہی میں ممبئی کا افسوسناک دھشت گرد واقعہ۔ یہ پاکستان کی جوہری طاقت ہی تھی۔ جس کی وجہ سے ماضی کی طرح بھارت، پاکستان پہ چڑھ دوڑنے سے باز رہا۔ اور سوائے تلملانے اور بیان بازی کرنے کے سواکچھ کر نہیں سکا۔ سوات وغیرہ میں پاکستان حکومتوں کی نالائقیوں سے فائدہ اٹھا۔ کر پاکستان پہ دہشت گردی کی جنگ مسلط کر رکھی ہے۔ ورنہ اگر پاکستان ڈیکلئیر جوہری طاقت نہ ہوتا تو، پاکستان کو شروع دن ہی سے تسلیم نہ کرنے والے۔ کب کے ہمیں ڈکارنے کے چکر میں ہوتے۔ اور ایسی صورت میں جب کہ ساری عالمی اوباش بھارت کی گودی کھیل رہے ہیں۔ایسی صورت میں صرف پاکستان کی افواج کی اعلٰی پیشہ ورانہ مہارت اور جزبہ۔ پاکستان کے عوام کا متحد ہو کر ڈٹ جانے کا جزبہ۔ خدا پہ یقین اور پاکستان کے جوہری ھتیار۔ یہ تین اہم اجزاء۔ ملک کر جو قوت بنتے ہیں۔ بس یہ قوت ہی، سب اوباش طاقتوں کو پاکستان پہ کسی ایڈونچر سے باز رکھے ہوئے ہے۔
پاکستان کے جدید ترین جوہری اور میزائیل پروگرام سے امریکہ۔ بھارت اور اسرائیل سمیت نہ جانے کس کس کے پیٹ میں شدید مروڑ اٹھتا رہا ہے۔ مروڑ اٹھتا ہے۔اور مروڑ اٹھتا رہے گا۔ بھارت کے دہماکوں کے بعد اور پاکستان کے جوہری دہماکے کرنے کے درمیان کے پندرہ دن۔ عقل کے اندہوں کی آنکھیں کھولنے کے لئیے اورثبوت کے لئیے کافی ہیں کہ ان پندرہ دنوں میں کس طرح پاکستان کے دشمنوں نے ہر قسم کی دھونس، دھاندلی، رشوت کے ذرئعیے پاکستان پہ دباؤ بڑھا دیا اور ہر قسم کی کمینہ زبان بولی اور پوری کمنیگی کا مظاہرہ کیا۔پاکستان کا نام و نشان مٹانے کی باتیں ہونے لگیں۔ پاکستان کے ساتھ تو ان سب کو شمالی کوریا سے بھی بڑھ کر عناد ہے کہ جو قوم اپنی ضروریات کے لئیے کپڑے کی سوئی تک درآمد کرے وہ قوم، وہ ملک پاکستان۔ دنیا کی جدید ترین اور تازہ ترین ٹیکنالوجی پہ عبور حاصل کر لے گا۔ اور نہ صرف عبور حاصل کر لے گا بلکہ اسے تیار بھی کر لے گا۔ یہ تو ان کے وہم و گمان میں بھی نہیں تھا ۔کوئی لمحہ جاتا تھا کہ پاکستان پہ سٹرائیجک حملہ کر دیا جاتا اور صورتحال یہ تھی کہ ۔۔ابھی یا پھر کبھی نہیں۔۔ اور پاکستان دنیا کی ساتویں اور پہلی اسلامی جوہری طاقت بن گیا۔ اور سای دنیا کی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں اور چاغی کے دہماکے اس بات کا اعلان تھے کہ مغربی طاقتوں کی پروردہ اور نازونعم سے پروان چڑھائی گئی مغرب کی آنکھ کا تارہ عفت مآب جوہری قوت اب پاکستان کی باندی بن چکی۔ اور پاکستان کو ٹیڑھی آنکھ سے دیکھنے والوں کو انہی کی پروان جوہری دوشیزہ کو بجھوایا جائے گا۔ اس اعلان کے بعد دنیا کے چودہریوں کو پاکستان کی جوہری شادی کو حلق سے نیچے اتارتے بنی۔ ورنہ اس بات کی کیا ضمانت تھی کہ آنے والے وقتوں میں۔ مشرف جیسے ننگ وطن لوگ جس نے پاکستان کے قومی جوہری ہیرو ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو قید کر دیاتھا۔مشرف جیسا کوئی ننگ وطن محض اپنی جان بچانے کے لئیے قزافی کے لیبیا کی طرح پاکستان کا جوہری پروگرام طشتری میں رکھ کر امریکہ کو پیش کردیتا تو ہم کیا کر لیتے۔
پاکستان کے جوہری ھتیاروں کی حفاظت کوئی مسئلہ نہیں۔اس کے باوجود کہ امریکہ کی سربراہی میں دنیا کے جوہری چوہدری پاکستان کو اپنے ایٹمی کلب کا رکن ماننے سے انکاری ہیں۔ یہ حقیقت کہ پاکستان ایک ذمہ دار جوہری طاقت ہے۔ اور پاکستان اپنے پروگرام کو جاری رکھے ہوئے ہے۔اور پاکستان کے جوہری اثاثے کسی بھی ترقی یافتہ ملک سے کم نہیں اور پاکستان کے ازلی دشمن بھارت سے کئی گنا زیادہ بہتر اور جدید ترین ہیں۔اور پاکستان کے یہ اثاثے امریکہ سمیت کسی بھی دشمن کی پہنچ سے باہر ہیں۔ محفوظ ہیں۔ اور ضرورت پرنے پہ کسی بھی وقت کسی بھی دشمن کے خلاف آپریٹو کیے جاسکتے ہیں ہیں۔ یہ بھی ایک وجہ ہے کہ سب آنے بہانے سے جاننا چاہتے ہیں کہ اس شہبے میں پاکستان نے کیا کیا کارنامے اور تحقیق و ترقی کر رکھی ہے۔ پاکستان کے خلاف پروپنگنڈے کے توڑ میں موجودہ حکومت سخت ناکام رہی ہے۔ ارشاد حقانی کو یہ بھی علم ہونا چاہئیے جب ضیاءالحق کے دور میں پاکستان پہ جوہری تحقیقات کے حوالے سے دباؤ نہیں تھا تب امریکہ نے پاکستان پہ منشیات کی اسمگلنگ کے نام پہ اسقدر دباؤ بڑھا رکھا تھا کہ ضیاءالحق جیسے آمر کی حکومت کو بھی سانس لینا دشوار ہو رہا تھا۔ یہ امریکہ کی چالبازیاں ہیں کہ وہ آنے بہانے سے کبھی انسانی حقوق ، کبھی چائلڈ لیبر کبھی حقوق نسواں کبھی ختم نبوت کے قنون کی وجہ سے اور کبھی اس طرح اور کبھی اس طرح کر کے پاکستان پہ ہمیشہ دباؤ رکھتا آیا ہے ۔ ستم ظریفی دیکھئیے۔ پاکستان کے آمروں کو جمہوریت کے نام پہ بلیک میلنگ اور جمہوری حکومتوں( اگر کبھی پاکستان میں جمہوریت ہوئی ہے تو) کو فوجی حکومتوں کا ڈراوا دے کر بلیک میل کرتا آیا ہے اور امریکہ کو یہ موقع ہم نے اپنی گداگری کی عادت سے دیا ہے ورنہ امریکہ اور مغرب کی پاکستان کے ھتیار غیر محفوظ ہونے کو ہم ایک کان سے سن کر دوسرے سے اڑا دیتے تو امریکہ کوئی اور دباؤ ڈالنے کے بارے میں سوچتا ۔ہم سارا جوہری پروگرام اور سارے ھتیار بمع ایٹمی وال لے جانے والے میزائیلوں کے امریکہ کو گفٹ کر دیں تو کیا امریکہ پاکستان کے وجود سے راضی ہو جائے گا۔؟ ارشاد حقانی سمیت پاکستان کے جو کم عقل یا پاکستان سے غدار لوگ یہ کہتے ہیں کہ ہاں تو سمجھ لیں وہ پاکستان سے دشمنی کر رہے ہیں۔ اگر امریکہ پاکستان میں اپنی فوجوں کو داخل کرنے سے گریزاں ہے تو اسکی ایک بڑی وجہ پاکستان کا ایٹمی ھتیاروں سے لیس ہونا بھی ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں جوہری ھتیار سوائے بربادی کے کوئی کسی کام نہیں آتے مگر ان سے پاکستان کو ہی کیوں باز رکھنے پہ مجبور کیا جاتا ہے۔ ؟ بھارت کو کیوں نہیں مجبور کیا جاتا اور خود امریکہ اس نیک کام میں پہل کرے۔ پاکستان کے جوہری اثاثے پاکستان کی حفاظت اور بقا کی ضمانت ہیں۔ اور اٹھائیس اور تیس مئی انیس سو اٹھانوے کو جوہری دہماکے کرنے انتہائی ناگزیر تھے
محترم راشد صاحب کہ ان الفاظ سے اتفاق کرتا ہوں۔ ۔۔کے بیان سے زیادہ اس بات پر زور ہے کہ کون سا کالم نویس ایسا تھا جو ہمہ وقت نواز شریف کے پہلو میں بیٹھا تھا یعنی بعض کا کہنا ہے کہ نواز شریف کا فیصلہ دراصل ان کا ہی مشورہ تھا اور باقی لوگ بلاوجہ کی ہانک رہے ہیں اور یہ بات آپ کے علم میں بھی ہے۔۔۔۔
میں عرفان صدیقی صاحب کی۔ انکی حب الوطنی کی وجہ سے بہت عزت کرتا ہوں مگر مجھے ان کے کالم میں ان الفاظ سے اختلاف ہے۔ جو انہوں نے ارشاد حقانی کی شان میں قصیدہ گوئی کی صورت میں کہے ہیں۔ ۔۔۔۔ان کے(ارشاد حقانی) فکرو قلم کی جولانی کو برقرار رکھے کہ دور دور تک ان کا ہم پلہ کوئی اور دکھائی نہیں دیتا۔۔۔۔۔ مروت اچھی ہوتی ہے مگر کسی سے اپنی ذاتی مروت یا عقیدت کو قومی حقائق کی بات کرتے ہوئے بالائے طاق رکھ دینا چاھئیے ورنہ کنفیوزن ختم نہیں ہوتا۔
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین
محترم اجمل صاحب۔
آپ نے صحیح حقائق بیان کئے ہیں ۔ حقیقت یہی ہے کہ ایٹم بن کا بانی بھٹو ہی ہے اگرچہ کہ اس کے لیے تجرباتی لیب کا کام ایوب خان کے دور سے جب ہمارے امریکہ اچھے تعلقات تھے شروع ہوچکا۔
اس کام پر تقریبا ہر دور میں پیشرفت ہوتی رہی ہے کیونکہ یہ کام ہائی کمان کے زیر کنٹرول رہا ہے اور اس کا قائدہ تجربہ بھی ہائی کمان کی اپرول سے کیا گیا۔ جو کہ بہت ضروری بھا۔
جو لوگ اس تجربہ نہ کرنے کے حق میں دلائل دیتے ہیں وہ احمق یا کم عقل ہیں۔
جاوید گوندل صاحب
مختصر سی چند باتیں
1۔ فوج کی شان بان ضرور بیان کریں گے اگر وہ ظام چھوڑ دیں اور اپنا کافرانہ آفیسر سسٹم جس سے مشرف،ضیاء جیسے ایجنٹ ہی پیدا ہوتے ہیں بدل دیں
جس پروپیگنڈا کے زور گٹر چشمہ نہیں بنتا
2۔ روس امریکہ یا ہٹلر کا کردار یہود کے طے شدہ پروگرام کا حصہ تھا ۔ بیکار کے تھیٹر سے اپنا لیئے کیا راہ مرتب کرنی؟۔
3۔ ارشاد حقانی تو بنا ٹھنا ناجی ہے
البتہ عرفان صاحب اسلام ، پاکستان ، قوم سے ہمدردی کی آڑ میں بنے ٹھنے ایجنٹوں جیسے نواز شریف وغیرہ اور میلے کچیلے زرداریوں کی روہ ہموار کرتا ہے
4۔ جس طرح بقول راشد بلاگی ، ہم کع کوئی ڈھنگ کا ہیرو نہیں ملتا تو جوتے کو ہیرو بنا لیتے ہیں ، بس اسی طرح چند بازی گروں کی چکنی چپڑی باتوں پر اس کے مداح بن جاتے ہیں، اللہ کے سوا باقی چیزوں پر ہم سے بڑھ کر ایمان لانے والا توئی نہ ہوگا
عرفان صاھب کے آنسو کے انکو پیسے ملتے ہیں اور آج کل صحافت ، میڈیا سے پر جس طرح یہود، ہندو اور شیعوں کا کنٹرول ہے خیر کی امید پاگل پن ہے
پاکستان چند روز کا مہمان ہے جس نے ملنا ہے اس سے مل لے اور معافی مانگ لے
خیر اندیش
جاوید گوندل ۔ بآرسیلونا ، اسپین کا تبصرہ:
“ہم سارا جوہری پروگرام اور سارے ھتیار بمع ایٹمی وال لے جانے والے میزائیلوں کے امریکہ کو گفٹ کر دیں تو کیا امریکہ پاکستان کے وجود سے راضی ہو جائے گا۔؟“
جی بلکل سؤال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
(ولن ترضی عنک الیھود ولن نصاری حتی تتبع ملتھم۔) سورۃ البقرۃ
صاف ظاہر ہے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب بھی اس آیت کو جانتے ہونگے۔ اور یقینا انکے قارئین سے زیادہ اس آیت کے مفھوم و معانی پر انکی دسترس ہوگی۔
اللہ ہم سب کو صحیح سمجھ عطاکرے۔ آمین
کسی نے کہا تھا کہ ایٹمی دھماکہ نواز کے دور میں ہونا یعنی پکی ہانڈی اس کے نام کردینا ایسا ہی ہے جیسے اندھے کے ہاتھ بٹیر لگ جانا !
اسی کو تو کہتے ہیں دکھ جھیلیں بی فاختہ اور کوے انڈے کھائیں،
اور اجمل صاحب کو اپنے، نواز اور نواز لیگ کے علاوہ سارے اس ملک میں غدار نظر آتے ہیں یہاں تک کہ ایٹم بم کا خالق تو بے نظیر کو کریڈٹ دے رہا ہے مگر آپ جناب اس کے دونوں ادوار میں ایٹم بم پر کام رکوانے کی داستانیں سناتے ہیں دوسروں کے خیالات کو مفروضوں پر مبنی قرار دیتے ہیں اور خود جو داستانیں سناتے ہیں ان کا ثبوت صرف ان کی اپنی زبان ہی ہوتی ہے!
ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو ایٹم بم بنانے پر ہم دلی مبارک باد پیش کرتے ہیں
اللہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان صاحب کو صحت تندرست اور پاکستان کے لئے مزید کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثما مین
Leave A Reply