پچھلے دنوں اصل حکمرانوں کے نمائندے جسے ہم وائسرائے بھی کہ سکتے ہیں کے دورے کی آخری پریس کانفرنس میں ہمارے تین نوابوں کو ہاتھ باندھے دیکھ کر ہم پاکستانیوں کو تپ سی چڑھ گئی اور ہم نے خوب ان کی خبر لی۔ ہماری نظر میں تو یہ کوئی نئی بات نہیں تھی۔ ہم بھی جب چھوٹے تھے تو شہر کے بڑوں کیساتھ فوٹو کھنچوانے کیلیے اسی طرح سریاں باہر نکالا کرتے تھے جس طرح مشرف دور میں ان کے خریدے ہوئے سیاسی بونے کیا کرتے تھے۔
اس تصویر میں تو سریاں نکالنے کی غلاموں کو ضرورت ہی نہیں پڑی کیونکہ ہجوم جو نہیں تھا۔ لگتا ہے ہاتھ باندھنے کی پریکٹس غلاموں کو خوب ہو چکی ہے مجال ہے جو کہیں ذرا سی بھی جھول نظر آتی ہو۔
یہ دستور بہت پرانا ہے کہ غلام اپنے آقا کیساتھ فوٹو کھنچوانا اعزاز سمجھتے ہیں یہی وجہ ہے ہر غلام چاہے حکومت میں ہے یا حزب اختلاف میں اپنی تصویر آقا کیساتھ کھنچوا کر اور اسے اخبار کے صفحہ اول پر دیکھ کر خوش ہوتا ہے۔ اگر وہ حکومت میں ہے تو وہ اس معرکے کے بعد سمجھتا ہے کہ اب اس کی حکومت پکی ہو گئی اور اگر حزب اختلاف میں ہے تو سمجھتا ہے کہ ابھی وہ حکمران بنا کہ بنا۔
اس لائن میں ایک اور آدمی بھی لگ گیا ہے اور وہ آدمی کوئی عام سا آدمی نہیں ہے بلکہ پوری قوم کا مشترکہ چیف جسٹس ہے۔ وائسرائے کی اس سے ملاقات کی کیا وجہ تھی ہم نہیں سمجھ سکے۔
7 users commented in " تین بمقابلہ ایک "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکیسی باریک بینی سے تجزیہ کیا بھائ آپ نے، واقعی کِتنے با ادب بنے ہُوۓ ہيں يہ حضرات جو اپنے گھروں ميں کيسے کيسے شير نہيں بنے ہوتے يہی تو فرق ہے ہر جگہ کے اپنے اہميّت ہوتی ہے ايسے ميں ايسا تو کرنا ہی پڑتا ہے
میرے بھولے بھائی کروڑوں ڈالر تڑی سے نہیں ایسے ملتے ہیں سیکھو کل کو اگر کوئی وزارت یا عظمیٰ مل گئی تو یہ ہی کچھ کرنا پڑے گا ۔
ویسے حال ہی میں جو بیان دیا ہے جناب زرداری صاحب نے اس بارے میں کیا کہتے ہیں
کمینے کی نشانی ہے کہ
کمزور کو دباتا ہے
اور
طاقتور سے ڈر جاتاہے
اسی تناظر میں میں دیکھئے۔۔۔ اس ملک کی اشرافیہ کو۔۔۔
نہ تو جعفر میاں یہ آپکے نواز شریف صاحب کیوں ان کی حاضری بجانے جاتے ہیں،اگر وہ بڑے باغیرت ہیں تو دکھائیں زرا امریکا بہادر کو تڑی،باتیں بنانا بڑا آسان ہوتا ہے اور عمل اتنا ہی مشکل 🙂
کچھ ایسا ہی حال آپ لوگوں کا بھی ہے ؛)
عبداللہ صاحب کے لئے عرض کیا ہے۔۔۔
قائد ہم شرمندہ ہیں
آپ ابھی تک زندہ ہیں
اور
ساری خدائی ایک طرف
الطاف بھائی ایک طرف
جعفر میاں اسے کہتے ہیں کہو کھیت کی اور سنو کھلیان کی،آپ کبھی الطاف بھائی کے سحر سے باہر نکل کر بھی بات کرلیا کریں تو آپ کی بڑی مہربانی ہوگی :مسٹر گرین:
ویسے شرمندہ تو آپ کو ہونا ہی چاہیئے قائد کواوپر پہنچانے کی آپ کی ساری تدبیریں ناکام جو ہوگئیں 🙂
Leave A Reply