کہتے ہیں ہمارے آقاؤں نے جو حکومتی ماڈل پاکستان میں متعارف کرا رکھا ہے وہ آمرانہ طرز کا ہے۔ اس ماڈل کو جمہوری آمریت بنانے کیلیے ضروری تھا کہ حزب اختلاف کا اختلاف کا حق چھین لیا جاتا، چاہے اس کیلیے دھمکیاں دینی پڑتیں یا لالچ۔ آقاؤں کا یہ طریقہ واردات ابھی تک کامیاب جا رہا ہے کیونکہ مشرف کی آمریت کی طرح موجودہ حزب اختلاف بھی فرینڈلی حزب اختلاف کا لقب حاصل کر چکی ہے۔ جن لوگوں نے اصل حزب اختلاف کا کردار ادا کرنا تھا وہ انتخابات کا بائیکاٹ کر کے اسمبلیوں سے باہر بیٹھے میڈیا پر بے سود واویلہ مچا رہے ہیں۔ مسلم لیگ ن اور مسلم لیگ ق دونوں ایسے خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہیں جیسے ان کی قیادت کے منہ پر کسی نے ٹیپ لگا رکھی ہو۔
اگر حزب اختلاف فرینڈلی نہ ہوتی تو
موجودہ بجلی کے بحران پر عوامی احتجاج سے بھرپور فائد اٹھاتے ہوئے حکومت کو عوام کی خدمت پر مجبور کرتی۔
سپریم کورٹ کے پٹرول کی قیمتوں میں کمی کے آرڈر کیخلاف صدارتی آرڈینینس سے پٹرول کو مہنگا کرنے پر عوام کے غیظ و غضب کو ضرور استعمال کرتی۔
اکاؤنٹس کمیٹی کے سربراہ مسلم لیگ ن کے لیڈر چوہدری نثار یوں خاموشی اختیار نہ کر لیتے۔
کراچی میں ٹارگٹ کلنگ کو اسمبلی میں زیربحث لا کر حکومت کو حفاظتی اقدامات پر مجبور کرتی۔
آنے والے موسم سرما میں گیس کی متوقع لوڈشیڈنگ کے اثرات کم کرنے کیلیے حکومت کو کچھ کرنے پر مجبور کرتی۔
حکومتی عیاشیوں کا نوٹس لیتی اور اسے عوام کے برابر لوڈشیڈنگ میں زندگی گزارنے پر اصرار کرتی۔
صوبوں میں پانی کی تقسیم کے ایشو کو زیربحث لا کر عوام کی ہمدردیاں سمیٹتی۔
5 users commented in " اگر حزب اختلاف فرینڈلی نہ ہوتی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمیں تو حکومت اور سیاسی جماعتوں کے قائدین کے خلاف اب نہیں لکھ سکتا
میرا دل پسند سائیبر ایکٹ ممجھے اس کی اجازت نہیں دیتا
حزب اختلاف اس لیے بھی خاموش ہے کہ جیسے ہی پانسہ پلٹے اور حکومت و حزب اختلاف میں باہم تبدیلی کا عمل مکمل ہو تو پھر موجودہ حکومت اور مستقبل کی حزب اختلاف بھی خاموشی اختیار کرے۔ لگتا ہے سیاستدانوں نے کچھ سیکھا ہو یا نہ سیکھا ہو یہ سیکھ گئے ہیں کہ بجائے ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچنے کے باری باری عوام کو نچوڑو۔
حزب اختلاف کا فرینڈلی رویہ، دراصل اس خوف کا پیش خیمہ ہے کہ جو فوج کی سیاست میں بے جا دخل اندازی کی صورت میں سامنے آسکتا ہے۔ جس کا تجربہ پیپلز پارٹی اور نوازلیگ دونوں کو بخوبی ہے۔
لیکن عوامی نمائندوں کا عوامی مسائل سے نظر چرانا بھی کسی طور قابل قبول نہیں۔ نئے صوبوں کی بات ہو یا کسی مخصوص حصہ میں طالبان کے یکجہ ہونے کا معاملہ ہو، سیاسی قیادت کی تمام تر نظریں اپنا مستقبل بہتر بنانے پر مرکوز نظر آتی ہیں نا کہ عوام کا۔
@ڈفر
ڈر گئے کیا؟ 😀
جج بحال ھوگئے ان کے مقدمات ختم ھوگئے اب عوام کا کیاکرنا کیا سوچنا عوام کے مسائل عوام جانے
حکمرانوں کے اپنے مسائل بہت ھیں
حکمران ھوں یا اپوزیشن امریکہ کا ھاتھ سر پہ ھو تو بیبے بچے بنے رھتے ھیں
غریب بندہ سوری حکومت کا وفادار ہوں جی ڈرنے، مطلب نمک حلالی کے سوا کوئی چارہ نہیں 😀
Leave A Reply