نام اعجاز احمد، پيشہ ٹيکسي ڈرئيور، کولمبين خوبصورت بيوي کا شوہر، گڑيا جيسي چار سالہ لڑکي اور سولہ سالہ گھبرو جوان لڑکے کا باپ، بہن بھائيوں کا سردار اور انتہائي شريف شخص۔

يہ پاکستاني بھي اس بدقسمت طيارے ميں سوار تھا اور کينيڈا واپس آنے کيلۓ لاہور جا رہا تھا۔ اپني روانگي سے ايک دن قبل اس نے فون پر بتايا کہ اس کي کوششوں سے اس کے بہن بھائيوں نے ساري رنجشيں بھلا کر صلح کر لي ہے۔ اس نے يہ بھي بتايا کہ وہ ملتان کا سوہن حلوہ بھي لے کر آرہا ہے۔

اس کے بہن بھائي اس کو ائيرپورٹ پر چھوڑنے آۓ اور جب اس کا طيارہ فضا ميں بلند ہوا تو وہ موبائل پر اس کي بيگم کو اس کي روانگي کي اطلاع دے رہے تھے کہ اسي دوران طيارے ميں آگ لگ گئي۔ خوف کے عالم ميں انہوں نے سرائيکي ميں زور زور سے بولنا اور چيخنا شروع کر ديا کہ بھابي طيارے ميں آگ لگ گئي ہے اور طيارہ نيچے گر رہا ہے۔ اب طيارہ بجلي کے کھمبے سے ٹکرايا ہے اور پھر ايک آم کے درخت کے ساتھ ٹکرانے کے بعد ايک ديوار کے پار ہوگيا ہے ۔ بيچاري بيوي کو اس وقت کچھ سمجھ نہ آيا کہ وہ کيا کہ رہے ہيں۔ بعد ميں انہوں نے فون کرکے بتايا کہ اعجاز کا جہاز تباہ ہوگيا ہے۔ اس کے بعد سے اب تک اس کي بيوی کي دھاڑيں ہي ختم نہيں ہو رہيں۔

اس کي بيوي نے اس دفعہ کافي منت سماجت کي کہ نہ جاؤ تمہارے گھر والے خود ہي آپس ميں صلح کر ليں گے مگر وہ نہ مانا۔ بلکہ وہ تو اپنے جوان بيٹے کا پاسپورٹ بھي بنوا چکا تھا اور اس دفعہ اس کو بھي ساتھ لے جانا چاہتا تھا تاکہ وہ اپنے رشتہ داروں کو ديکھ لے مگر اس کي بيوي نہ ماني۔

اس نے دنيا جہان کي سير کي ہوئي تھي اور سب سے کہا کرتا تھا کہ ميری خواہش ہے کہ ميري موت اگر آۓ تو پاکستان ميں آۓ۔ آج اس کي دعا تو پوري ہوگئ مگر وہ اپنے لواحقين کي دعاؤں کو ادھورا چھوڑ گيا۔

اس کے گھر ميں ابھي تک سالگرہ کے وہ تحفے بکھرے پڑے تھے جو لوگ اس کے جانے سے قبل اس کي بيٹي کي سالگرہ پر لاۓ تھے۔

واقعي آدمي کے دم کا کوئي بھروسہ نہيں کہ کب آۓ اور کب نہ آۓ۔ اس کے عزيز و اقارب اور دوستوں کے وہم و گمان ميں نہيں تھا کہ وہ اس دفعہ اسے ائيرپورٹ پرلينے نہيں جاسکيں گے۔۔

اب اس کا خون ہم کس کے ذمے لگائيں

 اور

 اس کي برباد دنيا کا کسے قصور وار ٹھرائيں؟

 ہمارے کرپٹ سسٹم کو

راشي افسروں کي خود غرضيوں کو

 يا

 بے حس حکومت کي ناہلي کو؟