ہمارے زمانے میں پروموٹیے کا لفظ ان لوگوں کیلیے استعمال ہوتا تھا جو ایک ورکر سے ترقی کرتے کرتے ایک دن گزیٹڈ آفیسر بن جاتے تھے۔ ہم چونکہ انجنیئرنگ کے شعبے سے وابسطہ تھے اس لیے ہم اسی شعبے کا حال بیان کر سکتے ہیں۔ یعنی فیکٹری میں ورکر بھرتی ہوئے، دس پندرہ سال نوکری کرنے کے بعد ڈپلومہ کلاس میں داخلہ لے لیا اور کرتے کراتے تین چار سال میں ڈپلومہ حاصل کرنے کے بعد آفیسر کی پہلی سیڑھی پر قدم رکھ دیا۔ یہ لوگ چونکہ ڈائریکٹ انجنیئر سے زیادہ پریکٹیکل ہوتے تھے اور ان کا تجربہ بھی زیادہ ہوتا تھا اسلیے نئے نئے وارد ہونے والے باس کو بہت ٹف ٹائم دیتے تھے۔ ان کو یہ وہم ہوتا تھا کہ ڈائریکٹ انجنیئر باس ان کی ترقی کی راہ میں رکاوٹ بنے گا اس لیے وہ اسے ذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتے تھے۔
ان کی چاپلوسی کی عادت محکمے کے سربراہ کیساتھ تعلقات استوار کرنے میں بہت معاون ثابت ہوتی تھی۔ نئے نئے آفیسری کی سیڑھی پر قدم رکھنے کی وجہ سے وہ کلب وغیرہ میں کافی متحرک ہو جاتے تھے جس کی وجہ سے ان کی دوستی بڑوں کیساتھ ہو جاتی تھی۔ بڑوں کو گانٹھنے کا ایک اور حربہ بھی وہ استعمال کیا کرتے تھے یعنی ان کے گھروں کے کام کاج وغیرہ کروانا۔ کسی کا نلکہ ٹھیک کروا دیا تو کسی کا فون، کسی کا بچہ سکول میں داخل کروا دیا تو کسی کی بیگم کو گاڑی بھیج دی۔ کچھ لوگ تو شراب کباب تک اپنے بڑوں کو مہیا کرتے ہوئے بھی نہیں شرماتے تھے۔
ان لوگوں کی لگائی بجھائی کی بھِی بہت بری عادت ہوتی تھی۔ جہاں بیٹھتے نئے ڈائریکٹ آفیسروں کا مل کر مذاق اڑاتے اور ان کی برائیاں کرتے۔ ان لوگوں کے نخرے صاحب کے نوکر کی طرح آسمان کی بلندیوں کو چھو رہے ہوتے تھے۔ وہ اپنے بڑوں کیساتھ تعلقات کا ذکر شان و شوکت سے کرتے اور بڑے بڑے قصے لہک لہک کر سناتے۔
اس خدمت کا ریوارڈ انہیں کھلی چھٹی اور ٹی اے ڈی اے کی شکل میں ملتا تھا۔ بڑے صاحب نے جو بھی کام کروانا ہوتا وہ ڈایریکٹ آفیسر کی بجائے ڈائریکٹ ان کو بلاتا اور وہ اسی میں پھولے نہ سماتے۔ یہی ایسے لوگوں کی معراج ہوتی تھی اور اسی شان و شوکت کیساتھ وہ ریٹائر ہو کر ماضی کا قصہ بن جاتے۔
کافی عرصہ ہوا ہم ورکر کمیونٹی سے کٹے ہوئے ہیں پتہ نہیں یہ پروموٹی اب بھی ایسے ہی ہیں یا بدل چکے ہیں۔ زیادہ امید یہی ہے کہ زمانے کی ترقی نے ان پر بھی اثر کیا ہو گا اور ان کے دل بھی کشادہ ہو چکے ہوں گے۔
نوٹ: ہم نے جو دیکھا وہ لکھ دیا، اگر کسی صاحب کی اس تحریر سے دل آزاری ہوئی ہو تو ہم پیشگی معافی چاہتے ہیں۔ اگر کوئی صاحب جواب غزل میں کچھ کہنا چاہیں تو خوش آمدید، ہم تنقید برداشت کرنے کیلیے تیار ہیں۔
9 users commented in " پرموٹیے "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackمحترم افضل صاحب!
پاکستان میں جہاں دیگر خباثتوں نے ترقی کی ہے ۔ وہاں سرکاری ، درباری، خوشامدی اور چاپلوسی نے باقاعدہ ایک فن کی حثیت اختیار کر لی ہے اور حالت یہ ہوگئی ہے کہ جب تک مشرف وردی اتار نہیں دیتا۔ صدارت کا عہدہ چھوڑ نہیں دیتا اسے پتہ بھی
نہیں چلتا کہ اس کے ساتھ تو واقعی ہاتھ ہوگیا ہے اور مسلسل نو سال تک ہوتا رہا ہے اور اسے کے فرشتوں کو بھی خبر نہ ہوسکی کہ خوشامدیوں کا سب اچھا۔ مشرف کے لئیے سب برا۔۔ مشرف کے آئندہ ہونے والے انجام کے حوالے سے) سب برا ہوتا رہا اور ہو گیا ہے ۔ اب حالت یہ ہے کہ موصوف کے عہد کے اٹارنی جنرل اور آج کل سابقہ اٹارنی جنرل کہلوانے والے جسٹس ریٹائرڈ سمیت کوئی بھی وکیل مشرف کی پیشی کے لئے تیار نہیں۔
یہاں تو یہ ثابت ہوگیا ۔۔ڈائریکٹ ان۔۔ کا رتبہ پانے والے عظیم المرتبان ہر جگہ ہر سو پائے جاتے ہیں ۔ آپ کی بیان کردہ صورتحال دیگر محکموں میں بھی ویسے ہی جیسے آپ نے بیان کیا ہے۔ نئے نئے اے ایس آئی اور پولیس کے دیگر ڈائریکٹ بھرتی ہونے والوں کو خرانٹ قسم کے پولیس اہلکاروں اور ایس ایچ اوز وغیرہ سے کچھ اسی قسم کے خدشات رہتے ہیں ۔
البتہ ایک بات کی سمجھ نہیں آئی ۔ آخر وہ کونسا اتنا لمبا ڈپلومہ ہوتا تھا جس کا دورانیہ چار سال تک ہوتا تھا ۔ ایک آدھ سال کا اضافہ کر لیں تو اتنی مدت میں تو پوری ڈگری مل جاتی ہے۔(یہ آخری بات صرف اپنی ذاتی معلومات کے لئے لکھی ہے)۔
ڈائریکٹ ان۔۔ سے مراد کہیں آپ عالی مرتبہ اول اول مشیر بعد از بسیار و انتخاب وزیر جناب رحمان ملک اور وزیر خزانہ تو مراد نہیں لے رہے۔؟
جاوید صاحب
ایسوسی ایٹ ڈپلومہ تین سال کا ہوتا ہے مگر کچھ لوگ سپلیاں آنے کی وجہ سے تین سال سے زیادہ عرصہ لگا دیتے ہیں۔
ہم نے جنرل بات کی ہے اور ڈائریکٹ ان سے ہماری مراد اے ایس آئی اور اے سی کی طرح کے آفیسر ہیں۔
شارٹ کٹ کی عادتیںجو ہیںناںیہ برباد کر دیںگی ہمیں۔ بالکل ہر شعبے میںایسے حضرات پائے جاتے ہیں۔ نہ صرف پائے جاتے ہیںبلکہ مشہور بھی ہوتے ہیں۔ ایک بات کرتے ہیںتو ظاہر ہو جاتا ہے کہ پروموٹیے ہیں۔
دلچسپ چیز جو میںنے نوٹکی وہ یہ ہے کہ اگرآپ ایک کمیشن سے پاس شدہ نوجوان افسر ہیںتوآپ کے خلاف چالیںدن دس بجے والی چائے کے ساتھ پلان کی جاتی ہیں۔
ہیں نا ابھی بھی کیوںنہیں ہیں یہ عادتیں
یہ ساری چیزیں ہمارے “نوکری کلچر“ کا حصہ بن چکی ہیں اب
پرائیویٹ ہو یا سرکاری
مکھن بازی میں لوگ بڑے ماہر ہیں
آپ ہی کے بلاگ پر شائد شروع شروع میں میں نےٹی سی سے متعلق کچھ پڑھا تھا
😀
http://www.mypakistan.com/?p=1013
آپ نے جو لکھا ہو اچھا لکھا ہے لیکن آپ آخر ميں دل آزاری کی معذرت کیوں کرتے هیں ؟
اگر کسی کو برا نهیں لگے گا تو وہ اچھا کیسےبنے گا؟
آپ کچھ زیادھ ہی بھلے مانس ہیں جی ، ایسےکام نہیں چلتا . آپ صرف نوکری کرسکتے ہیں ایسی عادتوں کے ساتھ اپنا کاروبار نہیں ـ
یه واہ فیکٹری والوں کا میں نے یه نتیجه نکالا ہے که ان لوگوں کا ایک اپنا کلچر ہے
پڑھے لکھے (تھوڑے یا زیادہ ) لوگوں کے پڑھے لکھے بچے کتاب اصولوں پر چلنے والے ایک گھر بنا کر مطعمن ، ممی ڈیڈی گروپ کے پینڈو ٹائپ ، سر جی آپ کھل کر تنقید کیا کریں
آپ آج جو لکھ رهے هیں یه تاریخ کا حصه ہے
باھر بیٹھ کر ڈرنا کیا هے
بس کچھ ہی سالوں کی بات ہے خونی انقلاب آنے ہی والا ہے
یارو مجھے معاف رکھو، میں نشے میں ہوں
اب دو تو جام خالی ہی دو، میں نشے میں ہوں
اِک ایک فرطِ دور میں یونہی مجھے بھی دو
جامِ شراب پُر نہ کرو، میں نشے میں ہوں
مستی سے درہمی ہے مری گفتگو کے بیچ
جو چاہو تم بھی مجھ کو کہو، میں نشے میں ہوں
یا ہاتھوں ہاتھ لو مجھے مانندِ جامِ مے
یا تھوڑی دور ساتھ چلو، میں نشے میں ہوں
معذور ہوں، جو پاؤں مرا بے طرح پڑے
تم سرِ گراں تو مجھ سے نہ ہو، میں نشے میں ہوں
بھاگی نمازِ جمعہ تو جاتی نہیں ہے کچھ
چلتا ہوں میں بھی ٹک تو رہو، میں نشے میں ہوں
نازک مزاج آپ قیامت ہیں میر جی
جوں شیشہ میرے منہ نہ لگو، میں نشے میں ہوں
از میر تقی میر دیوانِ دوم
مجھے بھی ایک ایسے ہی پرموٹیے کا سامنا ہے جس کی وجہ سے میری گڈول خراب ہوگئی ہے۔ وجہ صرف یہ ہے کہ میں بعد میں آ کر اس سے آگے کیسے نکل گیا۔ وہ کام تو کچھ کرتا نہیں لیکن اپنی چاپلوسی پالیسی کی وجہ سے باس کی نظروں میں بہت محنتی ہے اسی کی ماہانہ چھٹیاں اتنی ہوتیں ہیں جتنی میری سال کی بھی نہیں ہوتیں لیکن پھر بھی اس کی پوزیشن مضبوط ہے، اسی وجہ سے مجھے اسے اپنا دوست بنانا پڑا ہے ورنہ اسکی حرکتیں کسی بھی طرح دوستی لائق نہیں۔ اب تو مجھے اس سے حسد ہونے لگا ہے میں اس کی وجہ سے کافی پریشان رہتا ہوں، اس مسئلے کا کوئی حل سمجھ میں نہیںآتا سوائے چاپلوسی کے اور وہ میں کرنہیں سکتا، چاپلوسی سے مجھے جتنی نفرت ہے اتنی اور کسی چیز سے نہیں۔
میں اگر یہ کہوں کہ میرے ساتھ بھی یہی کچھ ہورہا ہے تو یار لوگ یہ سمجھیں گے کہ سب کو دیکھ کر یہ بھی شروع ہوگیا ہے۔۔۔
پر جی ہوتا کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔
خاور صاحب کی بات ٕسٹنۓ والی نہیں ہے
لیکن جی مجبوریاں ہوتی ہیں ۔۔۔ بہت ساری۔۔۔ جو بندے کو باندھ دیتی ہیں۔۔۔ سب کچھ برداشت کرواتی ہیں۔۔۔
کرنا ہی پڑتا ہے۔۔۔
سہنا ہی پڑتا ہے۔۔۔
Leave A Reply