سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد آج کل پاکستان میں یہ بحث ہو رہی ہے کہ قومی اسمبلی میں مشرف پر مقدمہ چلانے کی قرارداد کون پیش کرے۔ وزیراعظم کہتے ہیں اگر قرارداد پاس ہوئی تو حکومت اس پر عمل درآمد کرے گی۔ مسلم لیگ ن کہتی ہے کہ قرارداد پیش کرنا حکومت کا کام ہے۔ اس کے علاوہ اے این پی، ایم کیو ایم، مولانا فضل الرحمان اس بارے میں چپ سادھے ہوئے ہیں۔

دوسری طرف مشرف لندن میں خودساختہ جلاوطنی کے دن گزار رہے ہیں اور ان کی حفاظت پر ہمارے حاضر سروس فوجی مامور ہیں۔ تیسری طرف سابق صدور فاروق لغاری اور رفیق تارڑ کی سیکیورٹی تو دور کی بات آج کل انہیں کوئی پوچھتا تک نہیں۔

ان حالات سے تو یہی لگتا ہے جس طرح میاں برادران معاہدے سے انکار کرتے رہے اسی طرح حکومت بھی مشرف کیساتھ ہونے والے معاہدے سے انکاری ہے اور یہ معاہدہ ہی ہے جو حکومت کو مشرف کیخلاف کاروائی سے روکے ہوئے ہے۔ مشرف کے پیچھے فوج کی طاقت ہے اور حاضر سروس جرنیلوں کو معلوم ہے اگر آج مشرف پر مقدمہ چلا تو کل وہ بھی کٹہرے میں کھڑے ہوں گے اور ان کے حکومت پر شب خون مارنے کے سارے دروازے بند ہو جائیں گے۔

سپریم کورٹ کو چاہیے کہ وہ ایک خاص مدت تک قومی اسمبلی کا انتظار کرے اور اگر اسمبلی ارکان کچھ نہ کر پائیں تو پھر سپریم خود سوموٹو ایکش لے اور مشرف پر مقدمہ چلائے۔ مگر شاید یہ بھی نہ ہو سکے کیونکہ عدلیہ مردہ باد، حکومت مردہ باد، فوجی وردی زندہ باد۔

کاش ہمارے سیاستدانوں میں اتنی جرات ہوتی کہ وہ قانون توڑنے والے کو سزا دلوا سکتے۔ کاش ہم میں اتنی سمجھ ہوتی کہ ہم اپنے ممبران کو مجبور کرتے کہ وہ اسمبلی میں مشرف کیخلاف قرارداد منظور کریں۔ کاش عدلیہ میں اتنی جرات ہوتی کہ وہ تمام شواہد کیساتھ مشرف کو پھانسی کی سزا دے سکتی۔ کاش فوج میں اتنی جرات ہوتی کہ وہ عوامی مفاد میں مشرف کیخلاف مقدمے کی حمایت کرتی تا کہ وہ خود اپنے ہاتھوں سے ملک میں مارشل لاء کا راستہ روک سکتی۔

یہی ہمارے سروے کا نتیجہ ہے یعنی اکثریت کا خیال ہے کہ مشرف پرمقدمہ نہیں چلے گا۔

n

کیا جنرل مشرف کو عدالتیں سزا دے پائیں گی؟
View Results