ویسے تو ہم کھانے پکانے میں اتنے ماہر نہیں ہیں کیونکہ امریکہ آنے سے قبل ہم صرف سویاں پکانی جانتے تھے وہ بھی ایسے کہ دودھ ابالا، اس میں سویاں اور چینی ڈالی اور ڈش تیار۔ لیکن حالات کے جبر نے ایسے کھانے پکانے سکھا دیے جن کو دیکھ کر نہ کھایا جائے اور نہ چھوڑا جائے۔
آج ہم جس ڈش کی ترکیب بتانے جا رہے ہیں اگر وہ ٹھیک سے بن گئی تو پھر سب کے پیٹ بھر جائیں گے۔ اگر ڈش نہ بن سکی تو پھر ہمیں نہیں کوسنا بلکہ ڈش میں شامل اجزا کو مجرم ٹھہرانا۔
ذخیرہ اندوز میٹھا قیمہ
اجزا
ملک کے چینی ذخیرہ اندوز سو عدد
کیکر کے درختوں کا ایک جنگل
مظلوم ڈنڈہ بردار عوام عوام ایک لاکھ
چینی ترش ذائقے والی سو کلو گرام
خونخوار شکاری کتے پانچ سو
ترکیب
اس ڈش کو بنانے کیلیے جگہ کا اتنخاب بہت اہمیت کا حامل ہے۔ جتنی جگہ اشرافیہ کی رہائشوں کے نزدیک ہو گی ڈش اتنی ہی ہاضمے دار ہو گی۔ کیونکہ ہم چاہتے ہیں کہ ڈش کے اثرات کئی نسلوں تک پہنچیں۔ ملک بھر سے چینی کے سو ذخیرہ اندوز پکڑ لیں۔ ڈش کو ذائقہ دار بنانے کیلیے عام دوکانداروں کی بجائے چینی کے کارخانہ داروں کا انتخاب کریں۔
پہلے کیکر کے درخت سے ایک لاکھ ڈنڈے بنوائیں اور انہیں عوام کے ہاتھوں میں دے دیں۔ ذخیرہ اندوز مل مالکان کو پارلیمنٹ کے سامنے اکٹھا کریں اور ان کے کپڑے اتروا دیں تا کہ ڈش کپڑوں کی کلف سے بے ذائقہ نہ ہو جائے۔ پھر انہیں ترش چینی ایک کلو فی ذخیرہ اندوز کھانے کا حکم دیں تا کہ آپ چینی پانی میں ابالنے کی کوفت سے آزاد ہو جائیں۔
جب ذخیرہ اندوز چینی کھالیں تو پھر عوام سے کہیں کہ وہ ڈنڈوں سے ذخیرہ اندوزوں کا قیمہ بنانا شروع کر دیں۔ قیمہ بناتے وقت خیال رہے کہ کھائی ہوئی چینی قیمے میں پوری طرح مکس ہو جائے۔ جب ذخیرہ اندوزوں کی ہڈیاں اور بوٹیاں چینی میں خوب رس بس جائیں تو پھر کتوں کو دعوت دیں اور قیمہ ان کے آگے ڈال دیں۔
یقین کریں جتنا کتے اس ڈش پر ہاتھ صاف کرتے جائیں گے اتنا ہی آپ کو مزہ آتا جائے گا۔ جب کتے ڈش ختم کر لیں تو پھر انہیں پارلیمنٹ کے آگے بھونکنے پر مجبور کریں تا کہ کھانا اچھی طرح ہضم ہو جائے اور ذخیرہ اندوزوں کے دوبارہ زندہ ہونے کا امکان نہ رہے۔ کتوں کو تب تک بھونکنے دیں جب تک ارکان اسمبلی کی غیرت نہ جاگ جائے۔
لیں صاحب ہماری ڈش کیس لگی۔ ڈش تیار بھی ہوئی، آپ نے کھائی بھی نہیں مگر ذائقہ ایسا کہ دوبارہ ایسی ڈش کا بے تابی سے انتظار کرنے لگے۔ مگر ہمیں امید ہے اگر یہ ڈش ایک دفعہ آپ نے تیار کر لی تو پھر دوبارہ بنانے کی ضرورت ہی پیش نہیں آئے گی کیونکہ ڈش کے اجزا مارکیٹ سے ایسے ہی غائب ہو جائیں گے جیسے پاکستان سے چینی۔
19 users commented in " کچن کارنر – ہفتہ بلاگستان "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackجس طرح آپ کا بتایا نسخہ بمع ترکیب دل کے پھپولے جلا گیا ہے اسی طرح کسی نامعلوم دل جلے کے کچھ شعر پیش کررہا ہوں ۔ مگر نہ اسملی ممران کی غیرت جاگی ہے اور عوام کی حمیت بھی ابھی سوئی لگتی ہے ۔
جس ديس کے کوچے کوچے ميں افلاس آوارہ پھرتا ہو
جو دھرتی بھوک اگلتی ہو اور دکھ فلک سے گرتا ہو
جہاں بھوکے ننگے بچے بھی آہوں پر پالے جاتے ہوں
جہاں سچائی کے مجرم بھی زنداں ميں ڈالے جاتے ہوں
جدھر مظلوموں کے خون سے محل اپنے دھوئے جاتے ہوں
اس ديس کی مٹی برسوں سے يہ دکھ جگر پہ سہتی ہے
اور اپنے ديس کے لوگوں کو جشن آزادی مبارک کہتی ہے ۔۔۔
wah zaberdast.bohot acha dish hai.maza agaya.kash ke kekar ka danda mere hat main diya jata..hahaha
ڈش تو بہت عمدہ ہے مگر اس جملے پر اعتراض ہے “کتوں کو تب تک بھونکے دیں جب تک ارکان اسمبلی کی غیرت نہ جاگ جائے۔ “
میرے خیال سے اس کار خیر سے آدھی سے زیادہ اسمبلی تو پہلے ہی خالی ہوچکی ہوگی۔
چوہدری حشمت کے نکتے سے مجھے پورا اتفاق ہے ۔ آدھی نہیں بلکہ تین چوتھائی غالبا اس نایاب ڈش کی مشق میں کام آچکی ہوگی۔
اگر آپ ظفری نہیں ہیں تو معذرت لیکن یہ جو ڈش آپ نے بتائی ہے اس کا شیف امریکہ میں ان کے سوا نظر نہیں آتا۔ اس ڈش کے اجزائے ترکیبی کے مہیا ہونے سے پہلے باورچی خود زمین کی رزق بن جائے گا۔ آپ کو ہم سب سے ایسی بھی کیا دشمنی ہے بھیا؟
کیا کہنے حضور ذخیرہ اندوز میٹھا قیمہ کیا بات ہے واہ واہ ۔
جعفر کے پڑوس میں تو نہیں ڈھابہ کھول لیا آپ نے بھی
وہ بھی آج غائب ہے
شائد آج کل کے لئے کوئی سپیشل ڈش تیار کر رہا ہے 😀
اسی ڈش کی تیاری کے لیے طالبان نامی لوگ کام کرهےهیں ـ لیکن وھ لوگ کچن تیار کرکے اس ڈش سے ملتی جلتی کچھ ڈشیں اور بھی تیار کرنا چاھتے هیں ـ
اس لیےدیر هو رهی هے ان ، شائید ؟
یہ بات سچ ہے کہ ہم نے جعفر صاحب کے طرز تحریر سے متاثر ہو کر یہ ڈش تیار کی ہے۔ آج جب کنیوز کامی کی ڈش کے بارے میں پڑھا تو ہم نے ایسی ڈش تیار کرنے کا ارادہ پکا کر لیا جس کو سیاسی تڑکا لگا ہوا ہو۔ امید ہے جعفر صاحب کی اس دفعہ کی دش زیادہ مزیدار ہو گی کیونکہ وہ اس کی تیاری میں اس دفعہ بہت زیادہ ٹائم لے رہے ہیں۔
خاور صاحب کی بات بھی درست ہے مگر طالبان مخالفین کو ان کی ڈشیں شائد اچھی نہ لگیں۔
جاوید صاحب کے اشعار واقعی اس ڈش کے بعد سویٹ کی بجائے کڑوی ڈش کے طور پر استعمال کیے جا سکتے ہیں۔
خرم صاحب، چوہدری حشمت صاحب اور عبیر صاحب کا شکریہ کہ انہوں نے ڈش پسند کی۔
واہ۔۔۔ آپ نے تو حیران کردیا
لیکن اس دفعہ پاکستان آتے ہوئے کسی کو بتا کر مت آئیں۔۔۔
افضل صاحب آخر کار آپ کی محنت رنگ لے ہی آئی
یہ دیکھئے ذرا، اردو بلاگنگ کی خبر میں آپ کی دو پوسٹوں کا حوالہ ہے
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2009/08/090822_blogging_anwar_na.shtml
واہ جعفر صاحب آپ نے تو اچھی خبر سنائی۔ شکریہ
لیکن لگتا ہے آپ نے اپنے تبصرے کے حوالے کی وجہ سے ہماری توجہ اس خبر کی طرف دلائی ہے ناں کہ ہمارے بلاگ کے حوالے کی وجہ سے۔ ہا ہا ہا ہا ہا ہا
آپ کی بات غور طلب ہے یعنی اب تو نہ صرف پاکستان سوچ سمجھ کر آنا ہو گا بلکہ امریکہ میں بھی اپنی حکومت کا وفادار بن کر رہنا ہو گا۔ کہیں ایسا نہ ہو مسخرے کی طرح ہم بھی ایک دن دھر لئے جائیں جس کے مذاق نے بادشاہ کو اتنا تپایا کہ اسے سولی پر چڑھنا پڑا۔
ميرا پاکستان آپکو بہت مبارک ہو ، پر مجھے آپ سب پر شک ہو رہا ہے کہ کہيں آپ لوگوں کے بی بی سی ميں تعلقات تو نہيں وگرنہ بی بی سی کا اتنا بڑا دل کہاں کہ کہ اپنے علاوہ کسی دوسرے کی تعريف کريں ، سچ سچ بتائيں آپ کے ہاتھ کتنے لمبے ہيں
زبردست تحریر ہے، اور ہمارے ملک کا علاج بھی، لیکن یہ ڈش بنانا اتنا آسان نہیں
اسماء ديکھ لو بے چارے پيارا پاکِستان کو تو عِلم بھی نہيں تھا اور يہ اِن کے ساتھ پہلی دفعہ نہيں ہوُا ماشاءاللہ اچھا اور تواتر سے لِکھتے ہيں تو تعريف تو ہوگی نا يہی کہنا چاہتی تھی ميں نۓ لِکھنے والوں کو کہ ذرا صبر کريں پھل مِلے ہی مِلے ارے يہ کوئ ميرا بلاگ تو نہيں جو ميں مشورے دينے لگی ،ہاں بھائ اِتنی شاندار ڈِش کے بعد ساتھ ہی ديکھيں بی بی سی والوں نے بھی مُنہ ميٹھا کروا ديا يعنی قيمہ ميٹھا ہو ہی گيا
واقعی ہماری توقع سے بڑھ کر ہماری ڈش پسند کی گئی ہے۔ تمام قارئین اور ساتھی بلاگرز کا شکریہ جنہوں نے ہماری حوصلہ افزائی کی۔
یار یہ ناموں کے معاملہ میں کیوں اکثر دھوکا کھا جاتا ہوں؟ فہد کو ثاقب اور افضل کو ظفری لکھ دیتا ہوں۔ لیکن یہ دوست خود بھی تو قلمی ناموں کی چلمن کے پیچھے چُھپے بیٹھے ہوتے ہیں نا۔ معذرت افضل بھیا۔
لاہور کا حلوہ پوری
http://awazepakistan.wordpress.com/
Leave A Reply