ایکسپریس اخبار آج کل ہر روز اپنی سائٹ پر فوٹو لگاتا ہے جو اگلے دن اخبار کی زینت بن جاتی ہیں۔ کل کی تصاویر میں ایک تصویر دیکھ کر ہم تو حیران و پریشان رہ گئے۔ اس تصویر کے نیچے لکھا تھا کہ اسلام آباد کی ایک مسجد میں مرد و زن ایک ساتھ نماز پڑھ رہے ہیں۔
ابھی تک تو امریکہ میں ایک عورت نے جمعہ کی نماز کی امامت کر کے شہرت حاصل کر رکھی ہے اور ہم سمجھتے رہے ہیں کہ ایسا صرف امریکہ میں ہو سکتا ہے پاکستان میں نہیں۔ مگر اس تصویر کو دیکھ کر لگتا ہے سکولوں میں مخلوط تعلیم کا اثر مساجد میں بھی نظر آنے لگا ہے۔
اب تک تو ہم یہ سنتے آئے ہیں کہ اسلام مخلوط محفلوں سے روکتا ہے اور مساجد میں بھی عورتوں کے الگ نماز پڑھنے کی ہدایت ہے۔
اس سے پہلے بقول علامہ اقبال غلام اور بادشاہ نے ایک صف میں نماز پڑھ کر مساوات کا درس دیا تھا مگر اب اسلام آباد کی انتظامیہ نے مرد و زن کو ایک صف میں کھڑا کر کے مساوات کا درجہ اور اوپر کر دیا ہے۔
علامہ اقبال فرماتے ہیں
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے محمود و ایاز
نہ کوئی بندہ رہا نہ بندہ نواز
علامہ اقبال سے معذرت کیساتھ موقع کی مناسبت سے ہم اس شعر کی پیروڈی کرنے کی کوشش کرتے ہِیں۔
ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے مرد و زن
روشن خیالی نے کر دیا ناممکن کو ممکن
اب کوئی اسلام آبادی ہی تحقیق کر سکتا ہے کہ یہ کونسی مسجد ہے اور کس مسلک کی ہے۔ ہو سکتا ہے کسی عالم نے مخلوط نماز کے جائز ہونے کا فتویٰ دے دیا ہو۔
22 users commented in " ایک ہی صف میں کھڑے ہو گئے مرد و زن "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackرسول اللہ کے زمانے میں ایک خاتون کو مسجد کا امام مقرر کیا گیا تھا۔ روایات میں ہے کہ حضرت عمر کے زمانے تک انہیں انکے عہدے سے ہٹایا نہیں گیا تھا۔
سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں میں میری اطلاعات کے مطابق عید کی نماز مرد اور عورتیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اسکا کیا طریقہ ہوتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ ہمارے یہاں تو خواتین کی ایک بڑی تعداد پر مساجد میں جا کر نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔ مگر کچھ اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ آخر اتنا فرق کیوں ہے ایک مذہب کے ماننے والوں میں۔ سوچنا چاہئے۔ ہم م م م
اسلام کی اصل روح کے مطابق عورتوں کا مسجد میں جانا اور نماز پڑھنا جائز ہے اور اہلِ بیت کی سنت میں سے ہے۔ بیشتر اسلامی ممالک اور پاکستان میں اہلِ حدیث طبقہ کے ہاں خواتین کے لئے نماز کے علیحدہ انتظامات کئے جاتے ہیں۔ لیکن اُن کے لئے مسجد میں مخصوص حصے پردے کی شرائط کے ساتھ ہوتے ہیں ۔ اس طرح مردوں کے ساتھ مخلوط نماز کا کوئی تصور نہیںہے۔
جو کچھ آج تک میں نے پڑھا ہے اسکے مطابق عورت مرد کا مخلوط نماز پڑھنا تو درکنار محفل میں بیٹھنا بھی معیوب ہے بشرطیکہ ان میں نامحرم موجود ہوں ۔
ایک ہی مسجد میں عورتیں مردوں کے ساتھ نماز پڑھ سکتی ہیں لیکن مردوں کے ساتھ جڑ کر نہیں
جس خاتون کا امام ہونے کا حوالہ دیا گیا ہے میری درخواست ہے کہ اس کے متعلق مستند کتاب پڑھنے کے بعد اظہارِ خیال کیا جائے تو بہتر ہے ۔ یہ ایک خاندان تھا جس میں سوائے اس خاتون کے اور کوئی علم والا نہ تھا تو درخواست کرنے پر اس خاتون کو امامت کی اجازت دی گئی ۔ جماعت میں شامل سارے اس کے اپنے خاندان کے لوگ ہوتے تھے ۔
خیال رہے کہ دین اسلام کے مطابق جہاں اللہ کا حُکم موجود ہو وہاں ایسی کوئی حدیث معتبر نہیں سمجھی جائے گی جو اس حکم کے مطابق نہ ہو ۔ اسی طرح حدیث کے بھی درجے ہیں ۔
دین کے کسی پہلو پر تبصرہ کرنے سے قبل انہماک کے ساتھ مطالعہ کر لینا چاہیئے
اگر یہ واقعی کسی مسجد کی حقیقی تصویر ہے تو اس میں دوباتوں کا گمان کیا جاسکتاہے، اولآ دین سے ناواقفیت دوئم کسی نئے فقہ کی ایجاد۔
اسلام کے اصول کے مطابق اگر کسی موقع پر عورتوں کو مردوں کے پیچھے نماز ادا کرنی ہو تو اس صورت میں عورت مرد سے اتنی پیچھے کھڑی ہوگی کہ سجدہ کی حالت میں وہ مرد کو قطع یعنی کراس نہ کر رہی ہو۔ نامحرم ہونے کی صورت میں عورت کا اتنے حجاب میں ہونا ضروری ہے کہ اس کی اوڑھنی سے اسکا پورا جسم اور جہاں تک ممکن ہو چہرہ اور ہاتھ ڈھکے ہوں
محترمہ عنیقہ صاحبہ ۔
دین اسلام دین فطرت ہے، عورتوں کے نمار پڑھنے اور باجماعت نماز پڑھنے پر یہاں کوئی پابندی نہیں ہاں اس کا طریقہ وضع کردیا گیا ہے اور ترغیب یہ دی گئی ہے کہ ان کا گھروں میں اور گھر کے اندرونی کمروں میں نماز ادا کرنا مسجدوں میں جاکر نماز ادا کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔
ہمیں سینٹرل ایشیا جانے کی کیا ضرورت ہے اگر آپ حرمین شریفین کا مشاہدہ کریں تو عورتوں کے لیے باقائدہ نماز کی جگہیں مقرر ہیں۔ اور وہ نمازیں ادا کرتی ہیں۔
حضور صلعم کے اور اسکے بعد کے زمانے میں مسلمانوں کی ایمان کی نوعیت میں فرق آتا گیا، اب آپ خود ہی بتائیں کہ آپ کو آج کی دنیا میں کتنے ایسے لوگ ملیں گے کہ جو اگر غلطی سے کسی عورت پر نظر پڑ جائے تو دوسری نظر نہیں ڈالیں گے بلکہ اب تو بقول شخصے وہ پہلی نظر ہی نہیں ہٹاتے تاکہ دوسری کی نوبت ہی نہ آئے تو ایسے ماحول میں اپنے آپ کو نامحرموں کی چیر کرکھا جانے والی نظروں سے بچانا زیادہ بڑا جہاد ہے۔
پتہ نہیں کیا کیا ہو رہا ہے ہمارے ملک میں، بیک وقت جاہلیت، کرپشن، اسلام کی تبلیغ ترویج، وغیرہ وغیرہ
یورپ میں مسلمانوں کی آبادی بڑھ رہی ہے، کچھ لوگ اس سے بہت خوش ہیں۔ لیکن وہ کیسے مسلمان ہیں ، ان کے نظریات کیا ہیں،اس بات پر کوئی دھیان نہیں
اجمل انکل نے جو بات کہی ہے وہ درست ہے۔ عمومی طور پر ہم ادھوری باتوں سے مکمل نتیجہ اخذ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ہرگز نہیںکہ مسلمان چودہ سو برس سے اسلام کے علم سے ناواقف رہے اور اب ایکدم انہیںسب کچھ یاد آرہا ہے۔ یہ جو کچھ نیا ہورہا ہے دین میںگزشتہ ایک صدی سے یہی اصل بگاڑ ہے اور اکثر حالات میں وجہ بگاڑہے۔
ایجاد یہ نہیں کہ عورتیں مسجد میں نماز ادا کررہی ہیں ایجاد یہ ہے کہ مردوں کے ساتھ ایک صف میں ادا کررہی ہیں۔ جمعہ کی نماز کے لیے تو آج بھی ہماری مسجد میں اوپر والا حصہ خواتین کے لیے مخصوص کردیا جاتا ہے لیکن یہ جو کچھ اس تصویر میں دکھایا گیا ہے یہ فتنہ ہے۔
عنیقہ بی بی!
کی خدمت میں گذارش ہے۔ وہ پڑھی لکھی خاتون ہونے کے ناطے جہاں عام موضوعات پہ معلومات کھنگالتی رہتی ہیں۔ وہیں جب اسلام کے کسی ایسے مسئلے پہ جو کسی وجہ سے متنازعہ ہو۔ اس پہ بڑی احتیاط سے بات کرنی چاہئیے۔ اگر کسی وجہ سے درست معلومات مہیا نہ ہوں تو لازمی نہیں کہ اس پہ ہر صورت رائے دی جائے۔
عورت کی امامت کے بارے میں آپ نے جو غلط نکتہ آفرینی کی ہے۔ جس کا جواب محترم افتخار اجمل صاحب نے دے دیا ہے ۔ جب کہ آپ کے پاس دستیاب وسائل سے آپ درست بات کا اگر پتہ کرنا چاہتیں تو کوئی عجب نہیں تھا کہ آپ درست بات کا پتہ لگا لیتیں۔
آپ رقم طراز ہیں۔۔۔۔۔ہمارے یہاں تو خواتین کی ایک بڑی تعداد پر مساجد میں جا کر نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔ ۔۔
بی بی! پاکستان میں خواتین کو مسجد جانے کی کوئی پابندی نہیں ہے۔ دین نے انکے جانے یا نہ جانے کے بارے میں کچھ ) ایڈوائس( مشورے دے رکھے ہیں ۔
آپ کا ارشاد گرامی ۔۔۔ سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں میں میری اطلاعات کے مطابق عید کی نماز مرد اور عورتیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔۔۔۔بی بی! وہاں ایسی کوئی بات نہیں آپ کی اطلاعات غلط ہیں ۔ واقعہ یہ ہے کہ کہ سنٹرل ایشیا کی مساجد کی تعمیری ساخت کچھ اس طرح ہے کہ اسکے بڑے ہال میں گراونڈ فلور ہے جہاں مرد حضرات نماز پڑھتے ہیں اور اس ہال کے اطراف میں جھروکے کی طرز پہ بنی دوسری منزل پہ خواتین نماز ادا کرتی ہیں۔ اگر پورے قد سے کھڑا ہو کر دوسری منزل سے دیکھا جائے تو کسی حد تک گراونڈ فلور کے ہال کا حصہ نظر آتا ہے۔اسلئیے گزارش ہے کہ آپ اپنی اطلاعات درست کر لیں۔
آپ رقم طراز ہیں۔۔۔سینٹرل ایشیا کی مسلم ریاستوں میں میری اطلاعات کے مطابق عید کی نماز مرد اور عورتیں ایک ساتھ پڑھتے ہیں۔ اسکا کیا طریقہ ہوتا ہے یہ مجھے نہیں معلوم۔ ہمارے یہاں تو خواتین کی ایک بڑی تعداد پر مساجد میں جا کر نماز پڑھنے پر پابندی ہے۔ مگر کچھ اسلامی ممالک میں ایسا نہیں ہوتا۔ آخر اتنا فرق کیوں ہے ایک مذہب کے ماننے والوں میں۔ سوچنا چاہئے۔ ہم م م م۔۔۔۔
ایک بات واضح کرتا چلوں دنیا کے کسی بھی مسلمان ملک میں اسلام کی رُو سے مردوزن کی مخلوط نماز کا تصور نہیں ۔ مرد امام کے اقتداء میں خواتین باجماعت نماز پڑھ سکتی ہیں مگر مردوں کی جماعت سے پیچھے یا خواتین کے لئیے مخصوص کیئے گئے حصے میں خواتین نماز ادا کرسکتی ہیں مگر اس کے لئیے بھی چند ایک شرائط ہیں۔
اس مسئلے اور اس جیسے دیگر کئی معاملات کو موجودہ دور کے مردو خواتین کے مساوی اختلاط کے معروف مغربی چلن (فیشن) کے تناظرمیں نہیں دیکھنا جانا چاہئیے۔ کیونکہ مرد و زن کے کی جسمانی ساخت و اہلیت اور قابل احترام خواتین کی مضبوط ذہنی اہلیت ، قوت ارادی اور مسلسل قوت کار کی وجہ سے خواتین کو اسلام نے انکے خاندان کی نشو نما تعلیم وتربیت وغیرہ کی بھاری زمہ داریاں عائد کر رکھیں ہے جسطرح مردوں کو کنبے کی کفالت کی ذمہ داری عائد کر رکھیں ہیں۔ اسلئیے ان کی ذمہ داریاں الگ الگ مگر مقاصد مشترکہ ہیں۔
ہمیں یہ تسلیم ہے۔ پاکستان میں باقی دیگر مذاہب کی طرح کچھ لوگ مسلمان ہوتے ہوئے اور مسلمان کہلاتے ہوئے اپنے آپ کو لبرل پیش کرنے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ یہ کسی کا ذاتی فعل ہے جو کرے گا وہ بھگتے گا۔ مگر پاکستان میں مسلم اکثریت بستی ہے اسطرح کی سوچ رکھنے والوں کو اکثریت کے مذہبی جزبات کا خیال رکھنا چاہئیے ۔ جبکہ مغربی جمہوریت بھی یہی درس دیتی ہے۔
تمام محترم ھضرات سے درخواست ہے کہ وہ کسی بھی عبارت پر تبصرہ کرنے سے پہلےاچھی طرح پڑھ لیا کریں۔ اب آپ بتائیں کیا میں نے کہا کہ مردوں کے ساتھ مخلوط نماز پڑھنا جائز ہے۔ میں تو خود کہہ رہی ہوں کہ سب لوگ مختلف سوچ کیوں رکھتےہیں حالانکہ سب مسلمان ہیں۔ نہیں مجھے بالکل اس بات کا علم نہیں کہ کون خاتون امام تھیں۔ دراصل اجئمل صاھب کو بھی اس چیز کا ریفرنس دینا چاہئے۔ تاکہ جو لوگ یہ تاویلات لاتے ہیں انکو یہ بات صحیح طریقے سے بتائ جا سکے۔ کیونکہ فی الحال انکی بات بھی بغیر کسی مستند حوالے کے ہے۔ جبکہ میں نے یہ بات خواجہ شمس الدین عظیمی کے حوالے سے کسی جگہ پڑھی تھی۔ تو فی الحال ان دونوں باتوں کا کوئ حوالہ نہیں۔
پاکستان میں سوائے اہل حدیث کے میں نے کسی اور فقے کی خواتین کو مسجد جاتے نہیں دیکھا۔ کراچی میں ایسی مساجد کی تعداد اس قدر کم ہے کہ متعلقہ فقہ سے تعلق رکھنے والے لوگوں کے علاوہ شاید ہی کسی کو خبر ہو کہ یہ مساجد کون سی ہیں۔ جبکہ یہ چیز میں نے ترکی میں دیکھی کہ چاہے وہ استنبول جیسا بڑا شہر ہو یا کسی دور افتادہ گاءوں کی مسجد وہاں خواتین کا الگ حصہ موجود ہوتا تھا۔ چاہے وہ بالکل چھوٹی سی مسجد کیوں نہ ہو۔ دراصل ترکی میں ساری سیر و تفریح کے دوران مجھے کہیں بھی نماز کے لئے جگہ نہیں ڈھونڈنی پڑی، نہ وضوخانہ۔
قازقستان شاید سئینٹرل ایشیا سے تعلق رکحتا ہے اور میری ساتھی ایک خاتون نے بتایا کہ عید کے موقع پر وہاں واقع ایک گراءونڈ میں نماز ادا کی جاتی ہے جہاں ہم سب ساتھ ہوتے ہیں۔ اب بتائیے آپکی بات پر یقین کروں یا اس قازق لڑکی کی بات پر۔جس وقت اس نے یہ بات بتائ میں نے یہی سوچا کہ ایک لمبے عرصے تک کمونسٹوں کے زیر اثر رہنے کی وجہ سے انکا یہ ھال ہے۔ میں آپ کی طرح اس پہ غیر مسلمان ہونے کی لٹھ لیکر نہیں دوڑی۔
اسی نے ہم سب لوگوں کو بتایا کہ وہاں اسکے ملک میں روزہ صرف بوڑھے لوگ رکھتے ہیں اور یہ کہ اسے پاکستان میں رمضان بہت پسند آئے اور وہ چاہے گی کہ وہ بھی یہاں ایک روزہ تو رکھے۔ اب اپ نیٹ پرریسرچ کریں قازقستان میں رمضان۔ لیکن یہ بات جان لیں کہ اصل زندگی بالکل ویسی نہیں ہوتی جو کسی ٹورسٹ بک میں آپ کو ملے گی۔
جہاں تک خواتین کی عائد کردہ ذمہ داریاں ہیں وہ فی الحال اس پوسٹ کا موضوع نہیں۔ اور مجھے اس نکتہء نظر سے جسے آپ اسلامی کہہ رہے ہیں اختلاف ہے۔
یہ بات دھیان میں رکھیں کہ محض لبرل مسلمان سوال کرنے کا حق نہیں رکھتے بلکہ اسلام اپنے ماننے والے ہر پیروکار کو اس چیز کا حق دیتا ہے۔ اس لیئے براہ مہربانی ہر بات پر لبرل ہونے کی مہر مت لگایا کریں۔ کنزرویٹو ہونا بھی کوئ بہت اچھی بات نہیں۔ اسلام اور چنزرویٹو ہونے کا آپس میں کوئ تعلق نہیں۔ اور ایک مخصوص طرز فکر رکھنے والوں کو میں ہر دفعہ دقیانوسی لکھنا شروع کر دوں تو آپ کو کیسا لگے گا۔ انسان کو اتنے کھلے دل اور دماغ کا ضرور ہونا چاہئیے کہ وہ ان باتوں سے جو اس نے ہمیشہ سنی یا کہی ہیں ان سے ہٹ کر بھی کچھ سن لے، میں تو آپ سے کہنے کی ڈیمانڈ بھی نہیں کرتی۔ جس طرح روشن خیالی کو ایک برا لفظ بنا لیا گیا ہے۔اسی طرح اپنے خیالات سے چپکا رہنا بھی تو ایک برائ بن سکتا ہے یا نہیں۔
مجھے نہیں معلوم کہ اکثریت کے مذہبی جذبات کیا ہیں۔ میں تو سمجھتی ہوں کہ اکثریت کے مذہبی جذبات بالکل وہی ہیں جو میرے ہیں۔ دراصل میں ہوں اکثریت کا نماءندہ۔ کیونکہ اکثریت کو میرے ساتھ رہتے ہوئے نہ کوئ مسئلہ ہوتا ہے اور نہ میں انہیں غیر مسلمان لگتی ہوں اور نہ ہی میں انہیں ہر وقت مذہب کی لاٹھی لیکر پیچھے بھاگنے والوں میں سے نظر آتی ہوں۔ بلکہ کچھ لوگوں کو میں بعض اوقات زیادہ دقیانوسی اور زیادہ مسلمان لگتی ہوں۔
تو براہ مہربانی آپ اس بات سے آگاہ کریں گے کہ اکثریت کے مذہبی جذبات کیا ہیں۔
میرے خیال میں یہ معاملہ کچھ اور ہے۔
گو میں یہ قیاس کی بناء پر کہہ رہا ہوں لیکن ممکنات میں سے ہے۔
یہ غالبآ فیصل مسجد کی تصویر ہے۔ فیصل مسجد میں مین ہال کے باہر خواتین کی کھلی جگہ پر(کوئی پردہ یا دیوار بیچ میں نہیں) نماز پڑھتی ہیں۔ 14 اگست پر میں نے عشاء وہاں پڑھی تھی۔ اس دن اتنا رش تو تھا نہیں کہ مرد حضرات ہال کے باہر تک صفوں میں کھڑے ہوتے لیکن جمعہ(وہ بھی رمضان کا) میں عین ممکن ہے کہ رش کیوجہ سے صفیں خواتین کے برابر آگئی ہوں۔ واضح رہے کہ فیصل مسجد خواتین کی نمازکی جگہ بائیں طرف ہے اور مردوں کی دائیں طرف(جیسا کہ تصویر میں ہے)۔ مردوزن کے جائے نماز میں یہاں کوئی بڑا فاصلہ نہیں اور رش میں ایسے فاصلے (بلکہ سڑکیں تک) صفیں بن جاتی ہیں۔
ساجد اقبال صاحب کی بات میں وزن ہے کیونکہ پاکستان کی عام مساجد میں ایسا ہونا ناممکن سا لگتا ہے۔ اچھا ہوتا اخبار والے تصویر کیساتھ مسجد کا نام بھی لکھ دیتے۔
میں عنیقہ ناز صاحبہ کی خدمت میں عرض کرنا چاہتا ہوں کہ ان کا یہ دعوٰی غلط ہے “پاکستان میں سوائے اہل حدیث کے کسی اور فقے کی خواتین کو مسجد نہیں جاتیں”۔
میں اہلِ حدیث یا ديو بندی یا بریلوی نہیں ہوں ۔ میں اسلام آباد میں جن مساجد میں نماز پڑھتا رہا ہوں وہ اہلِ حدیث کی نہیں ہیں مگر ان مساجد میں خواتین کیلئے نماز کا بندو بست ہے ۔ خواتین نماز اور خواتین رمضان میں نماز تراویح پڑھنے بھی آتی ہیں ۔یہ لوگ بریلوی فرقہ سے بھی نہیں ہیں ۔میں سکول اور کالج کے زمانہ میں راولپنڈی کی جامع مسجد میں نماز پڑھا کرتا تھا جو بریلوی فرقہ کی تھی ۔ وہاں بھی سینکڑوں کی تعداد میں خواتین نماز جمعہ پڑھنے آتی تھیں ۔ ان تمام مساجد میں نہ صرف خواتین کے نماز پڑھنے کی جگہ الگ ہے بلکہ راستہ بھی الگ ہے ۔ کراچی میں بھی اہلِ حدیث کے علاوہ دوسری خواتین بھی مساجد میں نماز پڑھتی ہیں ۔ ترکی کی مثال جاندار نہیں وہاں کے حالات کوئی مسافر نہیں جان سکتا ۔ مساجد سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی ہیں اسلئے ان میں خواتین کے نماز پڑھنے کا بندوبست ہے ۔ ترکی کا موجودہ نظام سیکولر ہے اور بہت سی خرابیاں موجود ہیں جو میں لکھنا پسند نہیں کرتا ۔
دوسری بات جو حوالا کی ہے عورت کی امامت کے متعلق ۔ تو عرض ہے کہ میري لائبریری اسلام آباد میں ہے اور میں لاہور میں اسلئے نہیں حوالا دے سکتا ۔ حدیث پڑھ ليجئے ۔ اس میں مل جائے گا ۔ یہ یاد رکھیئے کہ حدیث کے مقابلہ میں کسی اور کی تحریر کوئی وزن نہیں رکھتی
پہلی بات تو یہ کہ فتنہ پیدا ہوتا رہتا ہے اور فتنہ کی حفاظت کرنے کو بھی لوگ برآمد ہو جاتے ہیں
جو لوگ قرآن کے پورے ہونے اور صحیح ہونے پر یقین نہیں رکھتے ، جو لوگ احادیث کو نہٰں مانتے بلکہ انکے اماموں کی بات بلکل وحی ہے یعنی صاف معنوں نبوت کا سلسہ 12 اماموں تک چلتا رہا
صحابہ کی توہین کرنا اور گالیاں جن کی خاص عبادت ہو
مٹعہ ، جھوٹ (تقیہ) ، اپنی بیوی سے وطی اور نا جانے کیا کیا جن کی اعلیٰ عبادات ہوں انکو کہاں کا حق پہنچتا ہے کہ اسلام پر اپنی رائے زنی کرتے پھریں؟ ان کا مزہب جو بھی ہو اسکو دھوکہ دہی سے اسلام کی بات میں مکس کرنے کی جسارت کرتے شرم آنا چاہیئے مگر شرم کہاں سے آئے؟ –
مزید۔۔۔۔
اور جاوید صاحب کی سادگی اور معلومات کی کمی پر اب صدمہ ہونے لگا ہے کیوں کہ ان سے امید تھی کی آنکھیں کھلی رکھتے ہیں
وہ دن دور نہیں جب ہندو اور سکھ بھی نام بدل کر یا اپنے ہی نام سے اسلام پر تبصرے کیا کریں گے اور نادان بھائی لوگ انکی باتوں کو اسلام سمجھیں گے
عنیقہ بی بی!
آپ میرے سارے جملہ تبصرے کو اپنے لئیے سمجھ بیٹھیں۔ اسمیں کچھ باتیں تصویر نگار اخبار کے لئیے بھی تھیں۔ بی بی! ایسے کسی مباحثے کو ایک مکالمہ کے طور پہ سمجھنا چاہئیے۔اور کسی چیز کو ذاتی نہیں لینا چاہئیے کہ کم از کم میری حد تک میں سب کو یہ یقین دلاتا ہوں میرز مقصد ہر گز ھرگز یہ نہیں ہوتا کہ کسی کو نیچا دکھایا جائے یا کسی کی دل آزاری کی جائے۔ بہر حال آپ کی اسقدر ناراضگی سمجھ سے بالا ہے۔
آپ نے لکھا ہے کہ ۔۔۔ ایک خاتون نے بتایا کہ عید کے موقع پر وہاں واقع ایک گراءونڈ میں نماز ادا کی جاتی ہے جہاں ہم سب ساتھ ہوتے ہیں۔ اب بتائیے آپکی بات پر یقین کروں یا اس قازق لڑکی کی بات پر۔۔۔۔
بی بی! دنیا بھر میں جہاں نمازِ عیدین کے اجتماعات کا بندوبست کیا جاتا ہے وہاں ایک ہی میدان وغیرہ میں مسلمان مردوزن اکھٹے نامز پڑھتے ہیں مگر اس میں بھی مسلمان مرد آگے اور خواتین پیچھے ایک طرف ہوتی ہیں۔ اور بہت دفعہ وقت کی اور اسباب کی قلت کی وجہ سے درمیان میں پردہ کا بندوبست نہیں ہوتا۔ مگر اسے کسی بھی صورت میں خواتین اور مردوں کی مخلوط نماز نہیں کہا جاسکتا۔
یہی صورت وسطی ایشائی مسلمان ریاستوں کی ہے۔
احمد صاحب سے گزارش ہے ۔ کہ جہاں تک مجھ سے ممکن ہو سکا میں اپنی ذاتی معلومات کی حد تک درست بات کہنے کی کوشش کرتا رہوں گا، سوال کرنے والا خواہ کوئی بھی ہو۔ یہ الگ بات ہے کہ مجھے بھی انسان ہونے کے ناطے کسی بارے معلومات میں غلطی لگ سکتی ہے۔
اوہو یہ تو بہت بڑا مسئلہ ہے۔ تمام مسلمانوں کو چاہیئے کہ وہ اپنی تمام توجہ اس مسئلے یا فتنے کو ختم کرنے میں لگائیں۔ شاید اس کے نتیجے میں مسلمان وہ سائنسی ترقی کر سکیں جس کا رونا میرا پاکستان صاحب نے اپنی تازہترین پوسٹ میں رویا ہے۔
میرے خیال سے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ایک ہی وقت میںایک ہی جگہ مرد و زن اگر نماز پڑھنا چاہیں تو عورت کو مرد سے پیچھے ہونا چاہیے اس کے علاوہ معلوم نہیں ان اسلامی ممالک میں کیسا اسلام ہے جو عورت کو غیر مرد کے ساتھ چپک کر کھڑا ہونے کی اجازت دیتا ہے۔
اگر استثنا کا معاملہ ہو تو عورت امامت کر سکتی ہے اور خاص صورتحال درپیش ہو یعنی کوئی با علم مرد موجود نہ ہو تو مردوں کی امامت بھی کر سکتی ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جن خاتون کو ایک محلے کا امام مقرر فرمایا تھا ان کا نام حضرت ام ورقہ رضی اللہ عنہا تھا۔ آپ مردوں کی بھی امامت کیا کرتی تھیں بلکہ آپ کا مؤذن بھی مرد تھا۔ اب ان کی امامت کی کیا صورت تھی اس بارے میں ہمارے پاس بہت زیادہ تفصیلات تو نہیں ہیں لیکن اتنا ضرور معلوم ہے کہ آپ حضرت عمر رضی اللہ عنہا کے دور تک زندہ تھیں اور اپنے یہی فرائض انجام دیتی رہیں۔ شاید بعد کے خلفاء نے نبی کے حکم کو واپس پلٹانا اچھا نہ سمجھا ہو اس لیے انہیں بدستور امام مقرر رکھا۔
وسط ایشیا میں خواتین کی نماز کا جو ذکر کیا گیا ہے میں نے تو اتنا بھی پڑھا ہے کہ مشرقی ترکستان، جسے آجکل سنکیانگ کہا جاتا ہے، میں خواتین کا باقاعدہ ایک سلسلہ ہے جو امامت کرتا ہے۔ اس کا احوال سال گزشتہ سعودی آرامکو کمپنی کے میگزین “سعودی آرامکو ورلڈ” میں شایع ہو چکا ہے۔ بہت معلوماتی مضمون تھا۔
ویسے یہ کوئی اتنا بڑا معاملہ نہیں کہ اس کے اوپر ایک دوسرے کے لیے دلوں میں کدورتیں پیدا کی جائیں۔ نہ ہی مندرجہ بالا تصویر سے اسلام کو کوئی خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ ایک چھوٹا سا معاملہ ہے اس پر ہم تاریخی تناظر میں بہت اچھی گفتگو کر سکتے ہیں لیکن افسوس کہ چند لوگوں کے سخت رویے کے باعث اچھی بھلی علمی گفتگو خراب ہو جاتی ہے۔ عنیقہ صاحبہ کا ناراض ہونا مجھے بجا لگتا ہے، فورا لٹھ لے کر کسی کے پیچھے نہیں پڑنا چاہیے، اگر کسی بات پر وضاحت درکار ہو تو پہلے پوچھنا زیادہ بہتر ہے۔ اگر وضاحت کے بعد کوئی قابل اعتراض بات ہو تو بس اپنا مؤقف بیان کر دیں، اسلام کی تعلیمات یہی کہتی ہیں۔ والسلام
اور ہاں میں نے حضرت ام ورقہ کے حوالے سے مندرجہ بالا بات ڈاکٹر حمید اللہ کے “خطبات بہاولپور” میں سنن ابی داؤد اور مسند احمد بن حنبل کے حوالے سے پڑھی ہے۔
ابو شامل صاحب نے بہت صحیح بات کی ہے اور یہی طریقہ بھی ہونا چاہیئے کسی بات کے ثابت کرنے کا یہ نہیں کہ بس جو منہ میں آیا لکھ مارا،اس حوالے سے میرے بھی ذہن میں تھا لیکن واضح نہیں تھا اس لیئے بیچ میں ٹانگ اڑانا مناسب نہ سمجھااور کتابیں دیکھ رہا تھا کہ کہیں حوالہ ملے تو لکھوں، جزاک اللہ ابو شامل صاحب
شکریہ ابو شامل ، بہت عمدہ انداز میں اور علمی گفتگو سے اس موضوع کو آگے بڑھایا ہے۔
یہاں تو “میں نا مانوں“ فلم چل ری 😀
میرے سے تو سارے تبصرے پڑھنا بھی محال ہے
بس اگر مسجد کا پتہ بھی مل جاتا تو جمعۃالوداع وہیں پڑھتے 😉 ۔
نئے دور کے نئے تقاضے
واعتصمو بحبل اللہ جمیعا ولا تفرقوا
اور اللہ کی رسی (دین) کو مضبوطی سے تامے رکھو اور فرقو میں مت پڑو۔۔۔۔۔۔۔
Leave A Reply