یورپ میں بلی آنکھیں ہونا ایک عام سی بات ہے مگر پاکستان میں بلی آنکھیں کسی کسی کی ہوتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ لوگوں میں عام تاثر یہی پایا جاتا ہے کہ بلی آنکھوں والے بہت خطرنات ہوتے ہیں۔ ایک بلا ہوتا ہے اور ایک باگڑ بلا۔ باگڑ بلا ہم اس بچے کو کہتے تھے جو بہت زیادہ منہ کھول کر رویا کرتا تھا۔
یہ سب ہمیں تب یاد آیا جب بریگیڈیئر امتیاز عرف بلا کا تذکرہ اخباروں میں پڑھا۔ انہوں نے سیاسی افق پر جو غبار پھینکا ہے اس نے وقتی طور پر موجودہ مسائل کو دھندلا دیا ہے۔ آج کل ہر ٹی وی اینکر اور سیاستدان اسی بحث میں الجھا ہوا ہے کہ کس نے آئی ایس آئی سے رقم لی اور کس نے ایم کیو ایم کیخلاف آپریشن کیا۔ اس بارے میں جاوید چوہدری کا کالم بڑا معلوماتی ہے۔ جناح پور کے مسئلے کی طے تک پہنچنے کیلیے فرحان دانش نے انصار عباسی کی رپورٹ کی طرف توجہ دلائی ہے جس میں انہوں نے اخباری تراشوں کی مدد سے اس دور کی یاد تازہ کی ہے۔
اس سارے معاملے کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس کے پیچھے دو وجوہات نظر آتی ہیں۔ ایک بریگیڈیئر بلا کی نواز شریف کیساتھ ناراضگی اور دوسرے طبلہ نواز پرویز مشرف پر مقدمے چلانے کی کوششوں کی سبوتاژگی۔ دونوں صورتوں میں شک پی پی پی پر پڑتا ہے کیونکہ انہی کا مفاد اس میں پوشیدہ ہے۔ پی پی پی ہی نہیں چاہتی نواز شریف اس کی حکومت کیلیے خطرہ بنیں اور معاہدے کی پاسداری کرتے ہوئے مشرف پر مقدمہ بنے۔
اس ساری بحث میں ایک جھول ہے یعنی ایم کیو ایم کیخلاف نواز شریف دور کے آپریشن کی بات زور و شور سے کی جا رہی ہے مگر جو آپریشن پی پی پی کے دور میں ہوا اس کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ دونوں آپریشنوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے یعنی چونکہ ایم کیو ایم اس وقت پی پی پی کی اتحادی ہے اس لیے پی پی پی کا ظلم اسے ظلم نہیں لگتا۔
ہمارا یہ سوال جاوید چوہدری کے پروگرام میں احسن اقبال نے بھی دہرایا۔ اس کے جواب میں ایم کیو ایم کے حیدر عباس رضوی صاحب نے کہا کہ زرداری صاحب نے نائن زیرو پر آ کر معافی مانگ لی ہے اسلیے وہ معاملہ ختم ہو گیا ہے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ نو سو چوہے کھا کے بلی اگر حج کر آئے تو اس کے سارے گناہ معاف۔ اس جواب میں ایک پیغام یہ بھی ہے کہ اگر مسلم لیگ ن بھی نائن زیرو آ کر معافی مانگ لے تو وہ بھی بری۔ رضوی صاحب نے یہ بھی کہا کہ سندھی میں اگر کوئی گھر آ جائے تو اسے معاف کر دیا جاتا ہے مگر انہوں نے سندھی میں ظالم کے بارے میں کیا کہا جاتا ہے یہ نہیں بتایا یعنی اگر کوئی آپ کے سو دو سو نہیں بلکہ ہزاروں کارکن مار کے آپ کے گھر آ جائے تو کیا سندھی اتنے بڑے ظلم کو بھول جائیں گے اور اسے معاف کر دیں گے؟
ایک اور نقطہ جو بہت اہم ہے اس کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا۔ مانا کہ آئی ایس آئی سے رقوم لینے والے سب گناہگار تھے اور انہیں اس کی سزا ملنی چاہیے لیکن رقم دینے والے کیا مجرم نہیں تھے۔ اور اگر مجرم تھے تو پھر ان پر بھی مقدمہ چلنا چاہیے۔ ویسے مقدمہ چلائے بغیر بریگیڈیئر بلا کی جتنی مٹی پلید ہو چکی ہے وہی اس کیلیے کافی ہے۔ بڑھاپے میں اپنی عمر سے چھوٹوں سے اس طرح ذلیل ہونا اور اپنے کالے کرتوتوں کو پھر سے منظرِعام پر لے آنا ہی بہت بڑی سزا ہے۔
ابھی کل کے اخبار ایکسپریس میں بریگیڈیئر بلا نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے پاس کالا دھن ہے۔ ان پر مقدمہ چلانے کیلیے یہی اقبالی بیان کافی ہے مگر کوئی بھی حکمران بریگیڈیئر بلا کو حوالات نہیں بھیجے گا۔ یہ ایک ہی ثبوت کافی ہے سمجھنے کیلیے کہ باگڑ بلے کو تھیلے سے باہر کس نے نکالا۔
9 users commented in " بِلا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackباگڑ بلا۔ جنگلی بلے کو کہا جاتا ہے۔ اب آوارہ بلے کو بھی کہنے کا رواج ہے۔ جس کا کوئی مالک نہ ہو۔
جاوید چوہدری اور معلوماتی کالم؟ جناب جاوید چوہدری کے کالمز کو افسانہ سمجھ کر پڑھنا زیادہ مناسب ہے۔۔ یوں تو کئی نمونے اکھٹے ہیں لیکن ملاحظہ کیجیے اگست 11 ، 2009 کو ایکسپریس میں شائع شدہ کالم سے ایک اقتباس۔ یوں تو انہوں نے تمام مسلمان مردوں پر وحشی ہونے کا الزام عائد کردیا ہے لیکن ایک بیان بڑا ہی دلچسپ ہے۔
“25 اپریل 2009 کو کراچی میں ایک سات سالہ بچی کو ہوس کا نشانہ بنا کر قتل کردیا گیا تھا جبکہ اس مقابلے میں پورے یورپ، امریکا، کینیڈا، آسٹریلیا اور غیر مسلم مشرق بعید میں دس دس سال تک اس نوعیت کا کوئی واقعہ پیش نہیں آتا وہاں خواتین رات رات بھر نیم برہنہ حالت میں گلیوں میں پھرتی رہتی ہیں، ویک اینڈ پر لڑکیاں شراب پی کر کلبوں میں ناچتی رہتی ہیں لیکن نشے کی انتہا تک پہنچ کر بھی کسی لڑکے کو کسی لڑکی کو چھونے کی جرات نہیں ہوتی“
یعنی ریپ کے سارے واقعات صرف مسلمان ممالک میں ہوتے ہیں اور لاس اینجلس، نیویارک، شکاگو، مینلا، سنگاپور اور لندن میں نشے کی حالت میں بھی کوئی لڑکا کسی لڑکی کو ہاتھ نہیں لگاتا۔۔
موضوع سے تھوڑا ہٹ کر ہے لیکن جو کالم آپ کی پوسٹ کا ایک محرک بنا ہے اس میں بھی خود نمائی اور افسانے سے زیادہ اور کچھ نہیں
راشد صاحب، ہم مانتے ہیں کہ جاوید چوہدری کی تحاریر میں خود نمائی کا عنصر ہوتا ہے مگر وہ جس انداز سے افسانہ گھڑ کر اچھائی کا درس دیتے ہیں وہ ہمیں اچھا لگتا ہے۔ آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اپنے نقطہ نظر کو عام آدمی کے لیے دلچسپ بنانے کیلیے مرچ مصالہ لگانا ضروری ہوتا ہے وگرنہ پندونصائح کی خشک تحاریر کون پڑھے گا۔ یہ تو آپ مانیں گے کہ جاوید چوہدری کی تحاریر بامقصد ہوتی ہیں اور ہر تحریر کوئی نہ کوئی سبق لیے ہوتی ہے۔
افضل صاحب اس بات سے تو انکار ہی نہیں کہ انکا انداز تحریر مسحور کن ہے لیکن ان کی تحریروں سے تاریخی حوالے حاصل کرنا ایسا ہی ہے جیسے داستان امیر حمزہ کے کرداروں کو حقیقت سمجھنا۔
اس ساری بحث میں ایک جھول ہے یعنی ایم کیو ایم کیخلاف نواز شریف دور کے آپریشن کی بات زور و شور سے کی جا رہی ہے مگر جو آپریشن پی پی پی کے دور میں ہوا اس کا کسی نے ذکر نہیں کیا۔ یہ تو سب مانتے ہیں کہ دونوں آپریشنوں میں کوئی فرق نہیں تھا۔ وجہ ایک ہی ہو سکتی ہے یعنی چونکہ ایم کیو ایم اس وقت پی پی پی کی اتحادی ہے اس لیے پی پی پی کا ظلم اسے ظلم نہیں لگتا۔
درست فرمایا آپ نے جناب مگر یہ چھوٹی سی بات آپکے دماغ میں نہیں گھس پارہی کہ پیپلز پارٹی نے اس اسٹیبلشمنٹ کو ہری جھنڈی دکھا دی ہے جبکہ آپ کے میاں جی اب بھی اس کے اشاروں پر ناچ رہے ہیں کیونکہ وہ اپنی بقا اسی میں سمجھتے ہیں،اور شائد آپ بھول گئے ہیں کہ ان کے تمام مظالم کے باوجود الطاف اور متحدہ نے بارہا ان کی طرف مفاہمت کا ہاتھ بڑھایا جسے انہوں نے بڑی رعونت سے جھٹک دیا،
مگر آپ کی بھی مجبوری ہے کہ تعصب زہنوں میں بھرا ہو تو صرف برائیاں ہی برائیاں نظر آتی ہیں،
عبداللہ یار تم تو ہوا کے گھوڑے پہ سوار ہو۔ذرا دم لو۔
بھائی! اختلافات تو ایک گھر کے افراد کے آپس میں ہوسکتے ہیں تو کیا اسکا مطلب یہ ہوا کہ انھیں برا بھلا کہا جائے۔؟
کسی بھی شئے کو ذاتی انا کا مسئلہ نہیں بنانا چاہئیے۔ اور خود قانونِ سیاست کا ایک اصول ہے کہ سیاست میں کچھ بھی، کوئی بھی صورتحال یا وژن حرفِ آخر نہیں ہوتا۔
ایسے معامعلات پہ ذاتیات بری بات ہے۔ اس سے دوسروں کو کوئی خاص فرق نہیں پڑے گا مگر آپ کے بارے میں سبھی اچھی سوچ نہیں رکھیں گے۔
عبداللہ بھائی!
غصہ اچھی چیز نہیں ہوتی احسان دانش اور اجمل صاحب کے بلاگ پہ جنگ اخبار کا تراشہ لگا ہوا ہے۔ یا لکھا گیا ہے۔ اسے بغور پڑھنے سے تو یہی ثابت ہوتا ہے کہ تب اس دور میں تو بقول ایم کیو ایم اور الطاف بھائی سمیت ساری ایم کیو ایم کی ساری قیادت اور اخبار کے مطابق نواز شریف یا مسلم لیگ کی حکومت پہ ایم کیو ایم کو اعتماد تھا اور وہ مسلم لیگ اور اسکے سربراہ کے مشکور تھے اور انہیں اعتراض پیپلزپارٹی سے تھا ۔ اب یہ تو نہیں ہو سکتا کہ تب کے رقیب آج کے حلیف ہونے کی وجہ سے ہر گناہوں سے پاک ہوگئے ہیں اور جو کل تک حلیف تھے محض رقیب ہونے کی وجہ سے رُو سیاہ قرار دئیے جائیں۔
میں یہ نہیں کہنا چاہ رہا کہ نواز شریف اچھا تھا یا ہے ۔ یا پیپلز پارٹی غلط تھی۔ کہنا یہ چاہ رہا ہوں۔ کہ الطاف بھائی کا آجکل سارا زور نواز شریف اور مسلم لیگ پہ آ کر ٹوٹتا ہے کہ نواز شریف یہ بتائیں۔ وہ بتائیں۔ نواز شریف حساب دیں۔ مسلیگ قوم کو جناح پور کے بارے میں بتائے۔ وغیرہ وغیرہ ۔ بئی ایک لیڈر کو تو ایک ایک لفظ پھونک پھونک کر بولنا چاھئیے کہ اسکے الفاظ کو اسکی زبان کواسکے مانننے والوں کی زبان سمجھا جاتا ہے۔
مسئلہ نواز شریف یا زارداری بے نظیر یا کسی دوسری سیاسی جماعت کو نہیں ۔ مسئلہ الطاف کی کریبڈیلٹی کا ہے کہ محض ایک کا حلیف اور دوسرے کا حریف کا کردار بدل جانے سے کیا حقائق بدل جایا کرتے ہیں؟
بھائی یہ بلاگ کی دنیا ہے۔ کوئی عدالتی کاروائی نہیں اور نہ کسی کو یہاں پہ سزا سنائی جارہی ہے۔ اسلئیے یہاں ہر کوئی اپنی سی دلیل سے دوسروں کو قائل کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اگر آپ کے پاس ایم کیو ایم جھگڑے سمیت دوسرے موضوعات پہ بھی آپکے پاس کوئی معلومات ، کوئی نئی بات ، مختلف وژن کی دلیل ہے تو اسے آپ بھی بیان کریں اور ہمیں اور دوسروں کا قائل کریں۔
آپ کو بتاتا چلوں کچھ لوگ تو سنجیدگی سے لکھتے ہیں مگر کچھ بس ذرا ¨چسکا¨لگانے کے لئیے کوئی نہ کوئی موضوع چھیڑ دیتے ہیں۔ او لوگوں کا تماشہ دیکھتے ہیں۔ گو کہ ایسے افراد کی بلاگ کی دنیا میں تعداد کم ہے۔ مگر ایسے لوگ ہیں۔ اسلئیے بھائی آپ اسطرح جزابتی ہونا چھوڑ دیں۔
آپکے خیال میں ایم کیو ایم ، یا مسلم لیگ۔ نون یا ق ۔ پیپلز پارٹی یا دیگر دوسرے جماعتیں مذہب سے بڑھ کر اہمیت رکھتی ہیں۔؟ نہیں رکھتیں۔ اس تہمید کا مقصد یہ ہے کہ ادہر جن ممالک میں رہنے آنے جانے کا ہمیں اتفاق ہوا ہے یہاں تو ہمارے مزہب پہ بھی تنقید کنے والے موجود ہے جو باقاعدہ ٹی ؤی پہ بیٹھ کر یا محفلوں میں یا سرِراہ عام چلتے چلتے ، لوگ ہمراے مذہب پہ بھی بہت سی کڑوی کسیلی باتیں کر جاتیں ۔ اب انکا سر تو نہیں پھاڑا جائے گا نا؟ البتہ جب دلائل سے کوئی مباحثہ ہو تو اسمیں مسلمان دلائل سے بات کرتے ہیں ۔ دوسروں کو اپنا وژن بتاتے ہیں۔ مگر تنقید کی صورت میں آپکی طرح جذباتی نہیں ہوتے۔ نہ ہی جواب میں ذاتیات وغیرہ پہ اترتے ہیں۔ اور بعض پرگرام موڈریٹرز کی بدنیتی سے یہ کوشش ہوتی ہے کہ مباحثے میں حصہ لینے والے مسلمان یا انکا کوئی نمائیندہ بے جا تنقید کی صورت میں حتے سے اکھڑ جائے اور مسلمانوں کے خلاف ایک نیا ایشوء گھڑ لیا جائے۔ مگر الحمداللہ ابھی تک مسلمان نہائیت مستقل مزاجی سے خوب تیاری کرنے کے بعد پیشگی طور پہ ایسے معاملوں کو سمجھتے ہوئے خندہ پیشانی سے انہیں لاجواب کر دیتے ہیں۔ اور کبھی بھی ان سے فضول بحث میں نھیں گھسٹتے۔ کیونکہ جزباتی حالت میں انسان وہ باتیں کر جاتا ہے جو اسی نہیں کرنی چاہئیں اسس اسطرح باقی لوگ اس کاز یا مقصد یا تنظیم جس کی وہ نمائندگی کا دعویدار ہوتا ہے ۔ اس سے بدظن ہو جاتے ہیں۔
امید ہے آپ میری اتنی محنت کو اکارت نہیں جانے دیں گے اور کسی بات کا برا نہیں منائیں گے۔
اور پھر کہیں لوگ کہ اعتبار کرو الطاف پر، نواز پر، زرداری پر ؟؟؟ ان سب تراشوں میں، ان سب خبروں میں مجھے آپ صرف ایک چیز نکال کر دکھا دیں۔۔۔۔۔ “سچ“ ؟؟
خرم جس سچ کی آپکو تلاش ہے اس کے لیئے آپ کو کراچی آنا پرے گا اور ان مظلوموں کے گھر والوں سے ملنا پڑے گا جو تاریک راہوں میں مارے گئے ہیں!
صرف سنی سنائی پر داستانیں سنانا تو سب کو آتا ہے اس لیئے کہ آسان ہوتا ہے!
Leave A Reply