اس دفعہ ہميں وراثت کا انتقال لینے کیلۓ اپنے ملک کے طاقتورترین افسر یعنی پٹواری کیساتھ دو ہاتھ کرنے پڑے۔ ہمارے انتہائی جگری دوست کے چھوٹے بھائی جو ہمارے ساتھ ہی جوان ہوۓکا دوست پولیس میں منشی ہے اور آگے پٹواری اس کا دوست ہے۔ ہمیں چونکہ کبھی پٹواری سے پہلۓ واسطہ نہیں پڑا تھا اسلۓ دوست کے بھائی کی خدمات حاصل کرلیں۔ ہم نے غلطی کی جوانہیں بتا دیا کہ ہم پانچ دس پندرہ ہزار دینے کو تیار ہیں مگر کام ایک آدھ دن میں ہوجانا چاہۓ۔
پہلے تو انہوں نے اپنی دکان پر بلا کر صبح نو بجے ہی بٹھا دیا اور اپنے دوست کا انتظار کرنے لگے۔ جب ان کا دوست گیارہ بجے پہنچا تو اس نے پٹواری سے بات کی جس نے بتایا کہ وہ ساتھ والے گاؤں میں نشاندہی کیلۓ گیا ہوا ہے اور ایک گھنٹے پعد آجاۓ گا۔ اس کا ایک گھنٹہ پانچ گھنٹے کا ثابت ہوا اور ہماری ملاقات پٹواری سے پورے چار بجے ہوئی۔ پٹواری نے کھاتہ دیکھا اور انتقال وراثت کا بنا دیا مگر فرد کیلۓ صبح آنے کا کہا۔ صبح پٹواری کے نکمےپن نے ہمارا سارا دن ضائع کردیا کیونکہ اس سے ہماری زمین ہی پوری نہیں ہو پارہی تھی۔ آخرکار ہم نے ایک چھوٹی سی غلطی کے ساتھ فرد قبول کرکے اس کا کام آسان کردیا۔
سہ پہر کو دوست کے بھائی اور اس کے دوست نے ہمیں دکان پر بلایا اور کہا کہ پٹواری پندرہ ہزار روپے مانگ رہا ہے۔ اس سے قبل ہم معلوم کر چکے تھے کہ اس طرح کے سیدھے کام کی لاگت تین ہزار سے زیادہ نہیں آتی۔ ہم نے دوست سے بولا کہ ہمیں پندرہ ہزار دینے میں کوئی دشواری نہیں مگر ہمیں معلوم ہوا ہے کہ یہ کام دو تین ہزار میں ہوجاتا ہے تو پندرہ ہزار کس کام کا۔ انہوں نے کہا کہ چونکہ ہم پٹواری کو پہلے بتا چکے تھے کہ ہم باہر سے آۓ ہیں اسلۓ اس نے زیادہ رقم بتائی ہے۔ ہم نے کہا کہ ٹھیک ہے ہم آپ کی خاطر پندرہ ہزار اس کی ہتھیلی پر آپ کے سامنے رکھنے کو تیار ہیں مگر یہ رقم زیادہ ہے۔ جب انہوں نے سنا کہ ہم خود پٹواری کو رقم دیں گے تو ان کے چہرے اتر گۓ۔ انہوں نے کہا کہ چلو پٹواری سے جاکر بات کرتے ہیں۔ پٹواری سے انہوں نے معاوضہ پوچھا تو اس نے ہر بار یہی جواب دیا کہ جو مرضی ہے دے ہیں۔ ہمارے ساتھ مشورے کے بعد دوست کے بھائی نے اسے پانچ ہزار کا نوٹ دیا اور اس نے بخوشی قبول کرلیا مگر فرد کا الگ معاوضہ بھی مانگ لیا جو ہم نے پانچ سو دیا۔ اس طرح ہماری اپنی مداخلت سے ساڑھے چانچ ہزار میں ہی جان چھوٹ گئ اور ہم منی بیگم کی گائی ہوئی غزل کا یہ مصرع پڑھتے ہوۓ گھر آگۓ۔
گلہ دشمنوں سے نہیں ہے، ہمیں دوستی نے مارا
بعد میں ہم نے یہ واقعہ اپنے ایک اور دوست کو سنایا جس نے یقین نہیں کیا اور کہا کہ دوست کا دوست ہم سے مال نہیں بنانا چاہتا تھا ہوسکتا ہے اس نے اپنے دوست کیلۓ اس طرح رقم نکالنے کی کوشش کی ہو۔ ہم نے کہا کہ وہ سیدھا ہم سے مانگ سکتا تھا اسطرح چکر میں پڑنے کی کیا ضرورت تھی۔
پھر ہم نے اپنے جگری دوست کیساتھ اس کے بھائی کا گلہ کیا اور اس نے بھی یقین کرنے سے انکار کردیا کہ اس کا بھائی ہم سے مال بنانے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس کے بعد ہم آج تک مخمصے میں پڑے ہوۓ ہیں کہ ہم غلطی پر ہیں یا پھر دوست کو اپنے بھائی کی ایمانداری پر اندھا یقین ہے؟
خدا کرے ہم غلطی پر ہوں مگر دل نہیں مانتا۔ کیونکہ اگر پٹواری نے پندرہ ہزار مانگا تھا تو پھر پٹواری کو یہ نہیں کہنا چاہۓ تھا کہ جو مرضی دے دیں اور ہمارے دوست کے بھائی کو یہ پوچھنے کی بجاۓ کہ کتنا معاوضہ دیں اسے پندرہ ہزار کو کم کرانے کی بات کرنی چاہۓ تھی۔ اس بات کا فیصلہ ہم قارئین پر چھوڑتے ہیں کہ سچ کیا ہے؟
6 users commented in " اپنوں کا لگايا ہوا گھاؤ نہیں بھرتا "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackRishwat laynay wala aur daynay wala donoo jehanumi hain
اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک حدیث کے مطابق رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔
سلام
پٹواری اور رشوت خوروں سے میری پرانی شناسائی ہے۔ اس بات پر تو آپ آنکھ بند کر کے یقین کر لیں کہ ان دونوں نے پیسے بنانے کی کوشش کی تھی۔
میرے جاننے والے ایک صاحب نے اپنے سگے بھائی سے اس طرح میرے سامنے بچاس ہزار اوپر بتا کر لئے تھے۔
رہا آپکا سوال کہ پٹواری کیوں کہ رہا تھا کہ جو مرضی دے دیں تو یہ بھی میرے ساتھ بہت دفعہ ہوا ہے۔ یقین رکھیں پٹواری نے انکو رقم بتائی تھی انہوں نے اس کو زیادہ کر دیا وہ الگ بات ہے مگر آپکے سامنے جو وہ کہہ رہا تھا کہ جو مرضی دے دیں کیونکہ اگر زیادہ لوگ آ جائیں تو رشوت لینے والا ڈر جاتا ہے کہ اینٹی کرپشن کے بندے تو نہیں
“اس میں کوئی شک نہیں کہ ایک حدیث کے مطابق رشوت لینے اور دینے والا دونوں جہنمی ہیں۔”
to bhai phir aap kia ker rahay thay jab aap ko maloom bhi hai..(hum sub ko hi maloom hai) laikin aap tu kaam sai pehlay hi tayyar thai maal dewta ki nazar kernay ko..so majboori ka bhi uzar nahin ho sakta
نعمان صاحب
ہم واقعی مخمصے میں پڑ گۓ ہیں کہ ہم نے کیوں نہ اپنا کام سیدھے طریقے سے کرانے کی کوشش کی؟ دراصل اس سے پہلے ہمارے دوستوں نے ہميں یہ بتا کر ڈرا دیا تھا کہ ہمارا کام رشوت دیۓ بغیر ہو ہی نہیں سکتا اور انہوں نے ایسی ایسی مثالیں دیں کہ اپنا تو سانس اوپر ہی اٹک گیا۔ ہم نے اس دن اپنی موجودگی میں کتنے ہی باریش اور بزرگ آدمی پٹواری کیساتھ مک مکا کرتے دیکھے تھے۔ ہم اپنی کمزوری کی وجہ سے یہ تصور کربیٹھے کہ یہ کام سیدھے طریقے سے نہیں ہو پاۓ گا۔ ہو سکتا ہے کہ خدا ہمیں معاف کردے کیونکہ اس کے سوا دوسرا راستہ نظر ہی نہیں آرہا تھا۔ اگر معاف نہیں کیا تو ہم سزا کے مستحق ہیں اور آئیندہ کوشش کریں گے کہ پٹواری سے واسطہ ہی نہ پڑے۔
آپ تو بڈے دیالو نکلے
اس کا مطلب آپکی حرکات کی شکائیت آپکے ابا جان کو لگائی جائے تو وہ غیبت ہو گی؟
Leave A Reply