جیسا کہ ہم جانتے ہیں 1971 سے پہلے بنگلہ دیش مشرقی پاکستان تھا مگر افسوس کی یہ بات ہے کہ مشرقی پاکستان کی علیٰحدگی کے بعد کبھی کسی پاکستانی حکومت نے بنگلہ دیش کیساتھ اقتصادی اور ثقافتی تعلقات استوار کرنے کی کوشش نہیںکی۔ بنگلہ دیش کے مجیب الرحمٰن اسلامی کانفرنس میں شرکت کیلیے پاکستان تشریف لائے تھے اس کےبعد تعلقات پر جمود طاری ہو گیا اور دونوں ممالک کسی مصلحت کے تحت ایک دوسرے سے دور دور ہی رہے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ جونہی بنگلہ دیش کے ہندوستان کیساتھ تعلقات سردمہری کا شکار ہوئے، پاکستان اس موقع سے فائدہ اٹھاتا اور بنگلہ دیش کے ساتھ ملکر ہندوستان کیخلاف ایک اتحاد تشکیل دیتا ناں کہ بنگلہ دیش کو چھوڑ کر ہندوستان کیساتھ پینگیں چڑھاتا جو ہندوستان نے ممبئی دھماکوں کے بعد توڑ دیں۔
بنگلہ دیش کیساتھ تعلقات استوار نہ کرنے کی کیا وجہ ہو سکتی ہے۔
کیا ہمارے غیرملکی آقا رکاوٹ ہیں؟
کیا ہماری فوج مخالفت کر رہی ہے؟
کیا بہاریوں کی بنگلہ دیش میں موجودگی مسئلہ ہے؟
کیا ہماری انا آڑے آ رہی ہے؟
حقیقت تو یہ ہے کہ 1971 کی جنگ میں جس ملک نے بنگلہ دیش کی علیحٰدگی میںاہم کردار ادا کیا اور جس کی فوج کے سامنے ہم نے ہتھیار ڈالے اس کیساتھ ہم ہر قسم کے تعلقات قائم کرنے کیلیے تیار ہیں مگر اپنے بچھڑے ہوئے حصے کے زخموں پر مرہم رکھنے کیلیے تیار نہیں۔
حیرانی تمام سیاسی جماعتوں پر ہے کہ کبھی کسی نے اسمبلی میں ایسی کوئی قرارداد پیش نہیں کی حتیٰ کہ ایم کیو ایم بہاریوں کی واپسی کا مسئلہ بھی اسمبلی میں اٹھانے سے کترا رہی ہے۔
اچھا ہوتا اگر ہمارے حکمران بنگلہ دیش کا دورہ کرتے اور بنگلہ دیش کو پھر سے قریب لانے کی کوششیں کرتے چاہے اس کیلیے انہیں 1971 کی جنگ میں بنگالیوں پر ڈھائے گئے مظالم کی معافی ہی کیوں ناں مانگنی پڑتی۔ بات پھر وہی ہے کہ اگر ہم ہتھیار ڈلوانے والوں کے ظلم کو بھول سکتے ہیں تو پھر بنگلہ دیش سے معافی کیوں نہیںمانگ سکتے۔
یہی درخواست ہم نے مشرف حکومت سے بھی چار سال پہلے کی تھی مگر ہم حقیر لوگوں کی کون سنتا ہے۔ اس ناکامی کے باوجود ہم ہمت نہیںہارے اور ایک بار پھر درخواست لیکر حاضر ہو گئے ہیں۔
9 users commented in " پاکستان اور بنگلہ دیش بھائی بھائی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآپ کی یہ درخواست بھی سابقہ درخواست کی طرح داخلِ دفتر کردی جائے گی..
فوج کیوںمخالفت کرے گی؟
اس نے تو بہت گلچھرے اڑائے ہیںوہاں
پاء جی بنگلہ دیش نے نال ناں 71 توں پہلاں بنی سی نا ای ہُن بن سکدی اے۔ اسیں لوگ جاگیرداری دے مارے ہوئے۔ تے بنگالیاں دا مزاج اینج دا نئیں۔ سادہ لوگ سادگی نال رہن والے۔ تے ساڈے وچ ہزارہا میل دا فاصلہ۔ نہ زبان اک نہ ثقافت۔
بہاریوں کو واپس لایا جائے۔
افضل صاحب ہم سے ہمارا موجودہ بلوچستان نہیں دیکھا جارہا اور اس سے جان چھڑانے میں لگے ہوئے ہیں ایسی صورت میں پرانے بلوچستان کو کون پوچھے۔ ویسے بھی سرکاری تاریخ میں تو بنگالی غدار ہی تھے نا جناب؟ تو پھر غدار سے کیسے پینگیں بڑھائیں۔۔
اچھا ہے جی جان چھوٹ گئی بنگالیوں کی ہم سے
بڑے سادہ مزاج اور رونقی بندے ہیں جی وہ
نہ کسی سے دبتے ہیں نہ کسی کو دباتے ہیں
کیوں دوبارہ بےچاروں کو پھنسانا ہے۔۔
پہلے پاکستان میں جو قومیں آباد ہیں انہیں تو ایک کر کے بھائی بھائی بنالیں،بنگلہ دیشیوں کی فکر بعد میں کیجیئے گا،
پہلے ہاتھی کے دانت کھانے کے اور دکھانے کے اور لکھا گیااور اب بنگالیوں اور بہاریوں کی محبت کی آڑ میں ایم کیو ایم کو ذلیل کرنے کی کوشش کی جارہی ہے کچھ تو ہے اس پردہ زنگاری میں!
عبداللہ کا تبصرہ سب سے صائب ہے۔ باقی بنگالی بھی کوئی اتنے دودھ کے دُھلے نہیں جتنا ہم ثابت کرنا چاہ رہے ہیں۔ پہلے اپنے اندرونی حالات سدھار لئے جائیں پھر باہر بھی بھائی بھائی کھیل لیں گے انشاء اللہ۔
Leave A Reply