پوائنٹ بلینک کے پروگرام میں علامہ ابتسام الٰہی نے سرحد میں نظر آنے والے چاند کی حمایت کی اور مفتی منیب الرحٰمن کو سارے مسائل کا ذمہ دار قرار دیا۔
لیکن جب میزبان لقمان نے پوچھا کہ آپ نے سرحد والوں کی گواہی پر عید کیوں نہیں کی۔ علامہ صاحب کا استدلال یہ تھا کہ وہ اٹھائیس روزوں کے بعد کیسے عید کرتے۔ اس کی ذمہ داری بھی انہوں نے مفتی منیب صاحب پر ڈال دی۔
حالانکہ شریعت کہتی ہے کہ جب چاند دیکھنے کی گواہی مل جائے تو عید کر لینی چاہیے اور جو روزہ رہ جائے اسے بعد میں رکھ لیں۔ عید والے دن روزہ رکھنے کی ممانعت کی گئی ہے۔
اس طرح علامہ ابتسام الٰہی صاحب نے اگر سرحد میں چاند دیکھنے کو ٹھیک قرار دیا ہے تو انہیں ان کیساتھ عید کرنی چاہیے تھی۔
7 users commented in " علامہ ابتسام الٰہی کا غلط استدلال "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackعلامہ صاحب نے اب سرحد میںچاند نکال دیا ہے جبکہ سرحد والوںنے سعودی چاند کے ساتھ عید کی۔ اللہ ہی جانے ان سب کی منطقوں کو۔
محترم ! افضل صاحب!!
امید ہے کہ آپ کے علم میں بات رہی ہو گی کہ سرحد کے چاند نظر آنے کی گواہی کے بارے میں بھی شکوک و شبہات ہیں۔اور گواہی دینے والوں کے ختم نبوت عقیدے پہ یقین پہ اعتراضات ہیں۔ مفتی منیب الرحمان کے بیان کو سیاق و سباق سے ہٹا کر پیش کیا گیا ۔ان پہ الزامات تراشی کی گئی۔ جبکہ پڑھے لکھے لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ گزشتہ ھفتے کی شب کو پاکستان اور اسی رینج میں واقع دوسرے علاقوں یا ممالک میں ہلالِ عید نظر آنا، علم فلکیات کے حساب سے دو منٹ کے ہلال کا بننا ،سورج کی روشنی میں بصری ہونا ، ایسی صورتحال میں کبھی بھی، کسی بھی صورت میں ہلال عید کا بصری ہونا، ناممکنات میں شمار کیا جاتا ہے ۔ اب جبکہ ہلالِ عید کا انسانی آنکھ کے لئیے بصری ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔ اورایسی صورت میں گواہی دینے والے اگر مسلمان صالح نہ ہوں اور اگر غیر مسلم ہوں تو انکی گواہی کیسے قابلِ قبول ہوگی۔
آپ کا استدلال درست سہی ، بجا مگر مفتی منیب الرحٰمن کایہ بیان اپنی جگہ بہت معنی خیز ہے کہ۔ “کیا اے این پی17کروڑ پاکستانیوں کو قادیانیوں کے ساتھ سمجھتی ہے”۔ اگر آپ نے اسی مبشر لقمان ٹی وی میزبان کے پروگرام کی بات کی ہے جس کے بارے میں سمجھدار لوگ جانتے ہیں کہ اسکا اپنا عقیدہ کیا ہے اور بات یہی تک نہیں بلکہ وہ آنے بہانے سے قادیانیوں کے پس پردہ اور پوشیدہ مفادات کی آبیاری کرتا رہا ہے اور کر رہا ہے۔ اسکے سارے پروگرامز جن کا کسی نہ کسی طور مذہب اسلام یا پاکستان سے تعلق بنتا ہو ان میں وہ اپنے مطلب کی بات اگلوانے کے لئیے ٹی وی مدعوین کو کبھی وقت کی کمی کا بہانہ کر کے۔ کبھی صرف ۔ ہاں یا نہ میں جواب مانگ کر اور سیاق و سباق سے ہٹ کر صرف اپنے مطلب کی بات ( مطلب جو قادیانیوں اور پاکستان دشمنوں کی ریشہ دوانیوں پہ پردہ ڈالنا اور اسلام سے مناسبت رکھنے والی شناختوں مثلا داڑھی اور مولوی وغیرہ پہ ملامت وغیرہ کرنا۔ اور نوجوان نسل کو اسلام سے برگشتہ کرنا) کرنا ہے۔ الطاف حسین کو اپنے دامِ فریب میں بھی لانے والا یہی لقمان مبشر ہے۔جس نے الطاف حسین سے بذریعہ انٹرویو اپنے مطالب کی باتیں اگلوائیں۔ پھر انکا جی بھر کر تشہیر کی گئی۔ کہ پاکستان کی پوری سیاسی جماعتوں اور غیر سیاسی تنظیموں میں بے چینی اور ہلچل مچ گئی۔
اب یہ علم نہیں کہ آپ نےٹی وی میزبان اسی مبشر لقمان کا ذکر کیا ہے یا کسی اور لقمان کا، بہتر ہوتا اگر ممکن تھا تو آپ پروگرام کے بارے میں زیادہ تفضیلات دیتے یا ویڈیو لنک لگا دیتے ۔ کیونکہ اس طرح ایک ان دیکھی یا کم تفضیلات ہونے پہ رائے دینا کچھ مشکل ہوتا ہے۔ اگر تو یہ موصوف وہی مبشر لقمان ہیں جن کا اوپر ذکر ہے تو یہ بات آپ اور تمام قارئین کو جان لینی چاہئیے کہ عید گزر جانے کے بعد مبشر لقمان جس کا عقیدہ سب کو علم ہے وہ کیونکر پاکستان کے جید علماء کو آپس میں اختلاف ابھارنے کی سازش کررہا ہے۔ جبکہ شنیداًہے کہ مبشر لقمان نامی صاحب کا علم صحافت سے دور کا بھی واسطہ نہیں اور موصوف کو مشرف دور میں باقاعدہ ایک منصوبے کے تحت چند دوسرے ٹی وی کے ساتھ ٹی وی میزبانی تک لایا گیا تانکہ یہ کھلم کھلا پاکستان کو روشن خیالی کا امریکی تڑکہ لگا سکیں۔اور اسمیں قادیانی لابی کا خصوصی کردار ہے۔
اسلام میں یہ پہلی دفعہ نہیں کہ کسی خاص مسئلے بارے میں ثانوی سے اختلافات سامنے آئے ہوں ۔ ماضی میں بھی اسطرح کے اختلافات ہوتے رہے ہیں مگر خود اختلاف رائے رکھنے والے مسلمان زعماء نے کبھی بھی ایک دوسرے کو غلط نہیں کہا بلکہ ایسی روایتیں موجود ہیں کہ مذکورہ اختلاف کے بعد صاحب اختلاف ہمیشہ باہم شیر و شکر رہے اور ساری عمر ایک دوسرے کا احترام کیا اور اپنے شاگردوں کے لئیے اختلاف رائے کو زحمت کی بجائے رحمت گرداننے کی مثال قائم کی۔ مگر دور حاضر میں پاکستان کے کچھ میڈیا پروگرامز پہ بجائے خود اپنے آپ کو دانشور سمجھنے والے اینکرز مین کچھ چینلز پہ قادیانی یا قدیانیوں اور پاکستان و اسلام دشمنوں کے مفادات کے لئیے کام کرنے والے لوگ قابض ہیں۔جو صبح و شام ایک باقاعدہ پروگرام کے تحت، ُ مولوی مولوی، کی گردان کر کے لوگوں کو اسلام بیزار بنانے پہ تُلے ہیں اور اچھے خاصے اہلِ علم انکے پروپنگنڈہ کے قائل ہوتے جارہے ہیں۔
یہ بہت خطرناک صورتحال ہے اور پڑھے لکھے باشعور طبقے کو اسکا فہم ہونا اور ادراک کرنا ضروری ہے۔اور ابھی سے اسکا توڑ کرنا بہت ضروری ہے۔ ورنہ آئیندہ سالوں میں پاکستان کے دیگر مسائل اس فتنے کے تباہی کے سامنے چنداں حقیر نظر آئیں گے۔ اس فتنے کی سازشوں کا نقصان پاکستان کی موجودہ دہشت گردی کی جنگ کے نقصانات سے کہیں بڑھ کر ہوگا۔
سب جانتے ہیں کہ علامہ ابتسام الہٰی ظہیر پاکستان کے ایک مسلک کے ناظمِ اعلٰی ہیں اور امریکہ کے سخت خلاف ہیں۔ جبکہ مفتی منیب الرحٰمن بھی ختم ِ نبوت کے داعی و شیدائی ہیں۔ اور قادیانیوں کی ہمیشہ کوشش رہی ہے کہ پاکستان کے سب مسالک کو آپس میں لڑا دیا جائے ۔ ہماری ایجینسیوں کے ریکارڈ میں ہے کہ پاکستان میں بہت سے مسلکی فسادات میں بھارتی و اسرائیلی را اور موساد کے مقامی ایجنٹ قادیانی ہیں۔ اور مختلف مساجد اور جلوسوں پہ حملے کر کے نہتے لوگوں کو ظالمانہ طریقے سے شہید کنے میں قادیانی فتنے کے سو کال “فدائین” کا ہاتھ ہے تا نکہ پاکستان کی انپڑھ مگر انتہائی جذباتی اکژیت آپس میں الجھ جائے اور ملک افراتفری اور انتشار کا شکار ہوجائے اور نتیجتا پاکستان کو عالمی طور پہ بدنام کیا جاسکے یوں دوہرے مفادات حاصل کیے جاسکیں۔ اور افسوس سے کہنا پڑتا ہے ۔ ہماری کم عقلیوں اور پاکستان حکومت کے ذمہ دار کرتا دھرتاؤں کی ناہلیوں اور کمزوریوں کی وجہ سے یہ فتنہ اپنی مذموم سازشوں میں وقتی طور پہ کسی حد کامیاب نظر آتا ہے۔
ہمیں آپ سے یہ امید ہے کہ آپ ایسی سازشوں کو چاک کرنے میں اپنی گراں قدر کوششوں کا حصہ ڈالیں گے تانکہ عوام الناس قادیانی فتنے کے نئے رنگ ڈھنگ اور لبِ لباب کو جان سکیں، اورقادیانیوں کی “تقسیم کرو= کمزور کرو” سازش کو سمجھتے ہوئے اور اسکا سارا پس منظر بیان کرتے ہوئے اپنے بلاگ کا موضوع بنائیں گے۔
مکہ مکرمہ میں چاند نظر آنے کیساتھ اسلامی مہینوں کا آغاز کرنا ایک الگ موضوع ہے۔ جسکا اس موضوع سے تعلق نہ ہونے کی وجہ سے اس بات نہیں۔
دو عیدوں کے معاملہ پر یہ پوائنٹ بلیک کا غالبآ دوسرا پروگرام تھا۔ ایک روز پہلے والے پروگرام کے پہلے حصہ میں اے این پی کے رہنا و وفاقی وزیر بشیر بلور صاحب اور دوسرے حصہ میں مفتی منیب الرحمن شریک ہوئے۔ دونوں سے بیک وقت بات چیت تو ممکن نا ہوسکی، لیکن مفتی منیب الرحمن نے جس مدلل انداز میں اپنے موقف کو درست ثابت کیا اس کے بعد شاید مزید بحث کی گنجائش ہی نہ تھی۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس طرح کے معاملات میں قوم کو الجھا کر پس پردہ کچھ کام نمٹائے جارہے ہیں یا پھر سیاست دانوں کی طرح علماء کرام کو ایک دوسرے کے خلاف صف آراء کرنے کی کوشش کی جارہی ہے۔
افضل صاحب کتنی عجیب بات ہے کہ کچھ لوگ سعودی عرب کے ساتھ عید کرنے کو مچل رہے ہیں اور اس کے لیے اپنے افق پر چاند دیکھنے کی قربانی دینے کو تیار ہیں اور ان کے لیے یہ اتحاد امت کی علامت بھی ہے لیکن پاکستان کے ساتھ عید کرنے میں ان کی جان جاتی ہے اور اس وقت ہجوم کا ہجوم نا معلوم کہاں سے چاند دیکھ کر آجاتا ہے جب کہ اس کا دکھنا ممکن ہی نہ ہو۔
ميں نے تو آئندہ روزہ رکھنا ہے مفتی منيب ساتھ اور عيد کرنی ہے سرحد (پختونخواہ) والوں کے ساتھ وہ سب بھی خوش اور ميں بھی
چھوڑ بھائی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سانپ گزر گیا اب لکیر پیٹنے کا کیا فائدہ
فرحان یہ سانپ ہر سال اسی طرح آتا رہے گا اصل مسئلہ یہ ہے
Leave A Reply