ملکی تاریخ میں پہلی بار ایسا ہوا ہے کہ موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ضمنی انتخابات کرانے سے کترا رہی ہیں۔ ورنہ اس سے پہلے حکومتیں ضمنی انتخابات کو اپنی کارکردگی کا ذریعہ سمجھا کرتی تھیں اور جیسے تیسے انتخابات جیت کر ثابت کرتی تھیں کہ وہ اب بھی عوام میں مقبول ہیں۔ پنجاب میں قومی اسمبلی کی دونوں سیٹوں کے ضمنی انتخابات عرصے سے التوا میں پڑے ہوئے ہیں اور اب جب الیکشن کمیشن نے شیڈول جاری کیا تو پنجاب حکومت انتخابات رکوانے ہائی کورٹ چلی گئی۔
اگر موجودہ صورتحال کا بغور جائزہ لیا جائے تو ملک میں جو حزبِ اختلاف ہے وہ اسمبلیوں سے باہر بیٹھی ہے۔ موجودہ حکمرانوں کو اپنی غیرمقبولیت کا علم ہے اور انہیں ڈر ہے کہ وہ ضمنی انتخابات میں بری طرح شکست کھا جائیں گے۔ اگر یہ انتخابات چیف جسٹس کی بحالی کے فوری بعد کرائے جاتے تو شاید مسلم لیگ ن جیت جاتی مگر پی پی پی ایسا نہیں چاہتی تھی۔ اب مسلم لیگ ن اور نہ پی پی پی چاہتی ہے کہ ضمنی انتخابات ہوں کیونکہ دونوں پارٹیاں عوام میں مقبولیت کھو چکی ہیں۔
آج اگر انتخابات کرائے جائیں تو ہمیں سو فیصد یقین ہے کہ شیخ رشید اور عمران خان جیت جائیں گے۔ اس طرح مسلم لیگ ن کے جاوید ہاشمی اور ظفر علی شاہ کو وعدے کے مطابق سیاست چھوڑنی پڑے گی۔ لیکن وہ بھی کچی گولیاں نہیں کھیلے ہوئے۔ انہیں معلوم ہے نہ ضمنی انتخابات ہوں گے اور نہ شیخ رشید جیتں گے اور نہ وہ سیاست چھوڑیں گے۔ مگر وہ یہ بات بھول رہے ہیں جو طاقت ڈکٹیٹر مشرف کو گھر بھیج سکتی ہے وہ انتخابات کرا کے شیخ رشید کو جتوا بھی سکتی ہے۔
اب دیکھیں ہائی کورٹ اور پھر سپریم کورٹ کس حد تک حکمرانوں کی مدد کرتی ہیں اور کیسے یہ انتخابات ملتوی کرتی ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ جج صاحبان انصاف سے کام لیتے ہوئے حکومت کی اپیل مسترد کر دیں اور انتخابات کا حکم دے دیں۔ چیف جسٹس کی بحالی کے بعد ان کا سب سے بڑا امتحان اب ہونے جا رہا ہے۔ اگر وہ ناکام رہے تو ہم سمجھیں گے بقول علی احمد کرد کے عدالتوں میں فرعون بیٹھے ہیں۔
4 users commented in " ڈرپوک حکومت "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackآج کے جنگ کی یہ خبر ملاحظہ ہو!
http://ejang.jang.com.pk/9-30-2009/pic.asp?picname=1038.gif
اگر پی پی یا ن لیگ مقبولیت کھو بھی دیں تو بھی ق لیگ کا کوئی چانس نہیں۔
درست تجزیہ کیا آپ نے۔ موجودہ حکمرانوں کو بخوبی اندازہ ہے کہ آنے والے دنوں میں ان کا بھی وہی حشر ہونے والا ہے کہ جو ق لیگ اور مشرف صاحب کا ہوا۔ کیوں کہ بہرحال پالیسیاں تو انہی کی جاری ہیں۔ اس ضمن سے میں سب سے اہم اور غور طلب پہلو ن لیگ کی تلملاہٹ ہے۔ دو روپے کی روٹی سے لے وفاق سے مستعفی ہوجانے والی جماعت کو بھی پنجاب میں کسی قدر خطرہ محسوس ہورہا ہے۔ تبھی وہ سرے سے اس نظام حکومت کے ہی خلاف ہیں جو کہ مشرف دور میں شروع ہوا۔
سب سے دلچسپ پہلو پیپلز پارٹی اور متحدہ کی آئندہ دنوں میں ہونے والی رسہ کشی کی صورت میں سامنے آسکتی ہے۔ دونوں جماعتیں کراچی میں اپنے ناظمین منتخب کروانا چاہتی ہیں جو کہ ممکن نظر نہیں آتا۔ یپپلز پارٹی کی پوزیشن تو سب سے زیادہ کمزور نظر آتی ہے، کیوں کہ وہ ماسوائے وفاق کے ہر جگہ دوسری جماعتوں کے رحم و کرم پر ہے۔ اور وفاق میں جو جو گل کھلائے جارہے ہیں، اس سے تو یہ محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کے انتخابات میں دو تین لیڈر مروانے پڑیں گے۔ تاکہ لاشوں پر ہمدردی حاصل کرسکیں۔
موجودہ صوبائی اور وفاقی حکومتیں ضمنی انتخابات کےعلاوہ بلدیاتی انتخابات کرانے سے بھی کترا رہی ہیں کہتی ہیں کہ حالات خراب ہیں ۔
Leave A Reply