امریکا کے معروف تھنک ٹینک سی ایف آر یا سینٹر آن فارن ریلیشنز کے وائس چیئرمین رابرٹ روبن صدر نے صدر جنرل پرویز مشرف کی کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ اس میں بہت سے پیچیدہ معاملات کے بارے میں وہ نقطہٴ نظر ملتا ہے جو ہماری عام زندگی میں نہیں ملتا۔ پیر کی شب نیو یارک میں صدر مشرف کی کتاب ان دی لائن آف فائر کی تقریبِ رو نمائی میں کئی سو افراد شریک تھے اور کونسل آن فارن ریلیشنز کا آڈیٹوریم کھچا کھچ بھرا ہوا تھا۔ شرکا کو پہلے ہی ہدایات دے دی گئیں تھیں کہ سیکورٹی بہت سخت ہوگی اس لیے ہر شخص وقت پر آئے اور تقریب ختم ہونے سے پہلے باہر نکلنے کی کوشش نہ کرے۔ بلکہ تقریب کے اختتام پر اس وقت تک مہمانوں کو ہال سے نکلنے نہیں دیا گیا جب تک صدر مشرف اپنی گاڑی میں بیٹھ کر روانہ نہیں ہو گئے۔ تقریب میں صدر مشرف نے اپنی کتاب کا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ یہ موجودہ پاکستان اوراس کی تشکیل میں ان کے کردار کی تصویر کشی کرتی ہے۔ اس کے علاوہ انہوں نے آج کی دنیا میں پاکستان کے کردار کی اہمیت اجاگر کرنے کی کوشش کی۔ پاکستان میں سماجی، سیاسی اور معاشی طور پر جو کچھ ہوتا ہے اس کا اثر نہ صرف دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ پر پڑے گا بلکہ وہ اسلام اور مغرب دونوں ہی کے مستقبل پر اثر انداز ہوگا۔ میں اس مستقبل کو پاکستان ہی نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے پر امن دیکھنا چاہتا ہوں۔ اور یہ تبھی ممکن ہے جب اسلامی دنیا اور مغرب، امریکی قیادت میں آج کے مسائل کے حل کے لیے کوشش کریں۔‘ صدر مشرف کی اس کتاب میں کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کے بارے میں عام خیال یہی ملتا کہ اس سے پاکستان اور امریکہ یا پاکستان اور بھارت کے تعلقات پر اثر پڑ سکتا ہے، لیکن صدر مشرف کی صدر بش اور بھارتی وزیر اعظم من موہن سنگھ کی حالیہ ملاقاتوں سے لگتا ہے کہ ایسا ہوا نہیں۔ مثلًا کارگل کے معاملے پر صدر مشرف کہتے ہیں کہ پاکستانی فوج نے بڑی کامیابی حاصل کی اور بھارت کو بے حد نقصان ہوا اوریہ کہ اگر پاکستان کی سیاسی قیادت پیچھے نہ ہٹتی تو پاکستان کی پوزیشن مضبوط تھی۔ بھارتی اخبار انڈیا ٹوڈے کے انیل پدمنابھن کا اس قسم کے بیانات کے بارے میں کہنا ہے کہ صدر مشرف اگرچہ اپنے آپ کو جنرل کہتے ہیں لیکن وہ سیاست میں بھی ماہر ہیں۔ ایک سیاست دان جو عوام کے سامنے کہتا ہے اور جو دیگر رہنماؤں کے ساتھ بات کرتا ہے اس میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ باقی رہی بات کارگل کی تو مسٹر پدمنابھن کے مطابق صدر مشرف نے پاکستان کی طرف سے ایک دعوِیٰ کیا ہے۔ کچھ دعوے بھارت بھی کرے گا اس لیے کم از کم پرنٹ میڈیا میں اس پر زیادہ دھیان نہیں دیا جائے گا۔ بھارتی میڈیا میں یہ بات ضرور اٹھے گی کی اس کتاب کا مقصد کیا ہے۔ ’ خاص طور پر جب امریکہ اور پاکستان کے تعلقات طالبان کے مسئلے پر کچھ تناؤ کا شکار ہو گئے ہیں اور ہندوستان کے ساتھ بھی جو ڈائیلاگ چل رہا ہے، پھر ایک نازک موڑ پر ہے۔ تو اس کتاب کا مقصد کیا تھا، یہ ہر خبر کا مرکزی خیال رہے گا کہ یہ کتاب کیوں لکھی گئی اور اس وقت کیوں شائع کی گئی۔‘ اس کتاب میں اگرچہ زیادہ توجہ سیاست اور عالمی واقعات پر مرکوز ہے لیکن صدر مشرف کی ذاتی زندگی کے بارے میں بھی اس میں کئی دلچسپ باتیں ہیں۔ مثلًا ان کا یہ اقرار کہ ملٹری اکیڈمی سے گریجویشن کے بعد انہوں نے کراچی میں پوسٹنگ کی کوشش اس لیے کی کہ ان کی بنگالی گرل فرینڈ وہاں رہتی تھی۔ جس سے بعد میں ان کا رومانس ختم ہو گیا کیونکہ وہ اپنے خاندان کے ساتھ مشرقی پاکستان چلی گئی۔ یا پھر ان کا یہ اقرار کہ 1965ء میں جنگ سے پہلے انہوں نے گھر جانے کے لیے چھٹی مانگی جو نہیں ملی تو وہ اپنے افسر کی مرضی کے بغیر گھر چلے گئے اور جنگ نہ ہوتی تو ان کے خلاف کورٹ مارشل ہو جاتا۔
کتاب کی تقریبِ رونمائی کےبعد وقفہٴ سوالات میں امریکی ذرائعِ ابلاغ کی توجہ طالبان اور افغانستان کے مسائل پر مرکوز رہی۔ کئی بھارتی صحافی کارگل پر ان سے سوال کرنا چاہتے تھے لیکن وقت کی کمی کی وجہ سے انہیں موقع نہ مل سکا۔
نیو یارک میں پاکستانی اخبار ڈان کے نامہ نگار اور اقوام متحدہ میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم ’انکا‘ کے صدر مسعود حیدر کا اس کتاب کے بارے میں کہنا تھا: ’اپنے انداز میں تو یہ کتاب شاندار ہے۔ مگر اس میں بہت سے ایسے واقعات ہیں جن کا حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔‘ مثال کے طور پر ان کا کہنا تھا کہ صدر مشرف کا یہ بیان غلط ہے کہ امریکہ نے پاکستان کو گیارہ ستمبر کے بعد بمباری کی دھمکی دی تھی کیونکہ امریکہ کی طرف سے سخت الفاظ ضرور استعمال کیے گئے تھے لیکن ایسی کوئی دھمکی نہیں دی گئی تھی۔
حیدرصاحب نے صدر مشرف کے اس الزام کو بھی غلط قرار دیا کہ اگر سابق وزیر اعظم بھٹو پولینڈ کی پیش کردہ قرار داد مان لیتے تو ملک نہ ٹوٹتا۔ انہوں نے کہا کہ جس وقت کی صدر مشرف بات کر رہے ہیں اس وقت کوئی پولش قرارداد میز پر نہیں تھی اور ذوالفقار علی بھٹو کے ہاتھ میں اس موقع پر جو کاغذات تھے وہ پولش قرارداد نہیں بلکہ صرف ان کے اپنے نوٹس تھے۔ حیدرصاحب کے مطابق اس کتاب میں بہت سی چیزیں ہیں جو لگتا ہے کہ کتاب کو مصالحہ دار بنانے کے لیے شامل کی گئی ہیں۔ بہرحال، اس کتاب کو پڑھنے والے اکثر لوگوں کا کہنا تھا کہ اس کا انداز بیان، صدر مشرف کے بات کرنے کے انداز ہی کی طرح بے باکانہ ہے اور کہیں بھی کوئی لگی لپٹی نہیں رکھی گئی۔
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کی کتاب’ان دی لائن آف فائر‘نے ملک میں متعدد نئے ایشوز کو جنم دیا ہے اور مختلف سیاسی جماعتوں کے رہنما اس پر اپنے اپنے انداز سے تبصرہ کر رہے ہیں۔
پاکستان پیپلز پارٹی کے رہنما اعتزاز احسن نے کہا کہ جنرل مشرف کی یہ کتاب بنیادی طور پر خود ستائشی اور مبالغہ آرائی پر مبنی ہے۔
ایم ایم اے کے ڈپٹی پارلیمانی لیڈر لیاقت بلوچ کا کہنا ہے کہ جنرل مشرف کو صدرِ پاکستان اور فوج کے سربراہ کی حیثیت سے یہ کتاب لکھنے کا حق حاصل نہیں اور اس کتاب سے دنیا میں پاکستان کے حوالے سے خدشات میں اضافہ ہو گا۔ انہوں نے کہا کہ جنرل مشرف نے جس بازاری انداز میں قومی راز افشاء کیئے ہیں وہ نہ تو قانوناً درست ہے اور نہ ہی اخلافاً۔ لیاقت بلوچ نے مطالبہ کیا کہ ڈاکٹر عبدالقدیر خان کو بھی آزادانہ طور پر میڈیا کے سامنے اپنا موقف پیش کرنے کا موقع دیا جانا چاہیئے کیونکہ جب تک ایسا نہیں ہو گا اس وقت تک ایٹمی پھیلاؤ میں ڈاکٹر خان کے کردار کے حوالے سے صدر مشرف کے دعوؤں کو تسلیم نہیں کیا جا سکتا۔
ایم ایم اے کے رہنما حافظ حسین احمد نے کہا کہ جنرل مشرف کی یہ کتاب پاکستان کے دفاعی امور کے حوالے سے ایک سکیورٹی رِسک ہے اور صدر مشرف نے اس کتاب میں جو راز بتائے ہیں ان کے حوالے سے پارلیمان کو اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل مشرف نے ڈاکٹر عبدالقدیر خان کے حوالےسے جھوٹ بولا ہے اور اس سے مستقبل میں پاکستان کے لیئے کئی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔
کتاب کے ابتدائیے میں وہ اپنے آپ پر ہونے والے جان لیوا حملوں کا ذکر کرتے ہیں تو ایسا تاثر دیتے ہیں کہ جیسے کسی غیر مرئی قوت نے ان کی جان بچا کر انہیں اس ملک اور اس کے عوام کی خدمت کے لئیے چنا ہو۔
ان حملوں کو بیان کرتے ہوئے وہ ایک جرآت مند اور مضبوط اعصاب کے مالک شخص معلوم ہوتے ہیں جو زندگی کی تلخ خقیقتوں کو آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنا جانتا ہے۔ اسی حقیقت پسندی کی ایک مثال تقسیم کے وقت ہونے والے قتلِ عام کے دو طرفہ ہونے کو تسلیم کرنا ہے۔
مشرف نے اپنی کتاب میں غیر ملکی یونیورسٹیوں کو پاکستان کے بدعنوان اور پاکستانی ثقافت سے نا آشنا لیڈروں کی پیداوار کا ذمہ دار قرار دیا ہے جسے تسلیم کرنا ممکن نہیں کیونکہ آج انہی کے دورِ حکومت میں پاکستان کے بہترین ذہنوں کو حکومتی خرچے پر انہی اداروں میں تعلیم کے حصول کے لیئے بھیجا جا رہا ہے۔
کتاب کے مطابق مشرف کو فوج میں بھیجنے کا فیصلہ ان کے شرارتی پن اور تعلیم میں اپنے بھائی جاوید کے مقابلے میں درمیانے درجے کا طالبعلم ہونے کی وجہ سے کیا گیا۔ لیکن عجیب بات یہ ہے کہ پی ایم اے میں جانے کے بعد سے نیشنل ڈیفنس کالج کے کورس تک بقول خود جنرل مشرف وہ’ہر میدان میں امتیازی کارکردگی کا مظاہرہ ‘ کرتے رہے۔
وہ پی ایم اے کی جانب سے سکھائی جانے والی تین چیزوں یعنی لوگوں کو حکم دینے اور ان سے کام کروانے، جسمانی دباؤ کو برداشت کرنے اور بحران کے لمحوں میں فوری فیصلہ کرنے کو اپنی زندگی میں اہم کردار ادا کرتے ہوئے دیکھتے ہیں اور پھر ان کے مطابق یہی صلاحیتیں بارہ اکتوبر ننانوے کو ان کی زندگی بچانے اور اس میں ایک بڑی تبدیلی لانے کا سبب بنتی ہیں۔
بطور پاکستانی شہری مجھے امید تھی کہ اس کتاب میں شریف خاندان کی جلاوطنی کے معاہدے پر روشنی ڈالی جائِے گی لیکن نجانے کیوں جنرل مشرف نے اس سارے قصے کو چند سطروں میں سمیٹ کر بہت سے سوالات تشنہ چھوڑ دیئے۔ اور ان کا یہ عمل اس لیئے بھی عجیب لگتا ہے کہ انہوں نے نہ صرف اس کتاب کا ایک باب کارگل جنگ کے حوالے سے نواز شریف کے کردار پر بحث کرتے لکھا ہے بلکہ اس کتاب میں انہوں نے شوکت عزیز اور جنرل احسن سلیم حیات پر ہوئے حملوں کو بھی تفصیلاً بیان کیا ہے۔
جنرل مشرف پاکستان مسلم لیگ (ق) کی تشکیل کی ذمہ داری تو قبول کرتے نظر آتے ہیں لیکن پاکستان کی سیاسی تاریخ کا مختصر جائزہ لیتے ہوئے پاکستان میں سیاسی جماعتوں کے امور اور اتحادوں کی تشکیل میں نجانے کیوں انہوں نے فوج کے ’بلا واسطہ‘ کردار سے صرفِ نظر کیا ہے۔
ڈاکٹرعبدالقدیر خان کے حوالے سے صدر مشرف نے ایک تفصیلی باب تو تحریر کیا ہے لیکن اسے پڑھ کر ایسا لگتا ہے کہ پاکستانی اربابِ اقتدار کو دلچسپی صرف اس امر سے تھی کہ ان کے پاس جوہری طاقت آ جـائے اور اس کے بعد جو ہو سو ہو۔ انہوں نے ڈاکٹر خان پر معلومات کی فروخت کے جو الزامات عائد کیئے ہیں ان کا جواب تو شاید اے کیو خان ہی دے سکیں لیکن جنرل مشرف نے انہیں ’محسنِ پاکستان‘ کے اعزاز سے محروم کرنے کی اپنی سی کوشش کر لی ہے۔
اور آخر میں اس کتاب کی تمام خوبیوں اور خامیوں سے قطع نظر میں یہ سمجھ نہیں پایا کہ مشرف نے صہبا فرید سے اپنی شادی کا تذکرہ اس باب میں کیوں کیا جس کا نام انہوں نے ’ان ٹو دا فائر‘ رکھا۔
پاکستان کے صدر جنرل پرویز مشرف کی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘ نے امریکی صحافی ڈینیئل پرل کیس کے سلسلے میں ایک اور تنازع کو جنم دیا ہے۔ اپنی کتاب میں انہوں نے دعویٰ کیا ہے کہ عمر شیخ پرل کے اغوا میں ملوث تھے لیکن صحافی کے قتل سے لاعلم تھے۔
امریکی اخبار ’وال سٹریٹ جرنل‘ کے صحافی ڈینیئل پرل کو جنوری سنہ دو ہزار دو میں اس وقت اغواء کرنے کے بعد قتل کردیا گیا تھا جب انہیں اپنے اخبار کی جانب سے پاکستان میں کام کی غرض سے بھیجا گیا تھا۔
اس قتل میں ملوث ہونے کے الزام میں عمر سعید شیخ کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے اور اس فیصلے کے خلاف گزشتہ چار سالوں سے ان کی اپیل ہائی کورٹ میں زیر سماعت ہے۔
صدر پرویز مشرف نے اپنی کتاب میں لکھا ہے کہ پولیس نے عمر شیخ کے رشتے داروں کو گرفتار کرلیا تھا، جس کے بعد انہوں نےگرفتاری پیش کی تھی۔
واضح رہے کہ اس وقت حکام نے یہ بتایا تھا کہ عمر شیخ کو لاہور سے گرفتار کیا گیا ہے۔
صدر مشرف لکھتے ہیں کہ عمر شیخ نے کراچی میں اپنے ایک ساتھی حسین سے فون پر رابطہ کر کے ان کو ہدایت کی کہ ڈینئل پرل کو رہا کردیا جائے مگر انہیں بتایا گیا کہ پرل کو قتل کردیا گیا ہے۔
صدر مشرف کی کتاب کی اشاعت کے بعد عمر شیخ کے وکیل رائے بشیر کا کہنا ہے کہ وہ اپنے موکل کے دفاع میں صدر مشرف کے اس موقف کا حوالہ دینگے کہ عمر شیخ کو ڈینئل پرل کے قتل کا علم نہیں تھا، اور وہ اسے رہا کرانا چاہتے تھے۔
رائے بشیر کا کہنا ہے کہ عدالت سے یہ بھی درخواست کی جائے گی کہ صدر پرویز مشرف کو عدالت میں طلب کر کے ان کا بیان رکارڈ کیا جائے۔
آج ہی منظرِ عام پر آنے والی اپنی کتاب ’ان دی لائن آف فائر‘میں پاکستانی صدر پرویز مشرف نے انکشاف کیا ہے کہ ڈاکٹر عبدالقدیر نے مختلف ممالک کو جو ایٹمی معلومات فراہم کی تھیں،قوی امکان ہے کہ ان سے بھارت نے بھی استفادہ کیا ہو۔
اپنی کتاب کےایٹمی ٹیکنالوجی کی تشہیر کے باب میں لکھتے ہوئے صدر مشرف نے بتایاہے کہ ڈاکٹر قدیر کے گروہ میں سوئٹزلینڈ، ہالینڈ، برطانیہ، سری لنکاکے باشندے شامل تھے جو دبئی اور یورپ میں قائم مراکز سے منسلک تھے۔ دبئی میں واقع مرکز میں کئی بھارتی بھی شامل تھے، جن میں سے بعض کا بعد میں کوئی پتا نہیں چل سکا کہ وہ کہاں گئے۔
صدر مشرف کے خیال میں اس بات کا قوی امکان موجود ہے کہ بھارتی یورینیم کی افزودگی کے پروگرام کی جڑیں دبئی میں واقع اسی مرکز میں ہوں۔ صدر مشرف آگے چل کر کہتے ہیں کہ اس بات کی تائید ایک ممتاز امریکی نیوکلیائی ماہر نے بھی کی ہے۔
یہ بات اس لحاظ سے نہایت اہم ہے کہ صدر مشرف کے خیال میں ڈاکٹر عبدالقدیر کے نیوکلیائی راز فروخت کرنے کے دھندے سے بھارت نے بھی استفادہ کیا ہے۔ گویا جس ملک کے خلاف ایٹم بم بنایا جارہا تھا، اسی کوحساس جوہری راز بھی فروخت کیے جارہے تھے۔ اسی باب میں صدر مشرف نےاس واقعے کا بھی ذکر کیا ہے جب بقو ل ان کے انہیں اپنی زندگی کی سب سے بڑی خجالت کا سامنا کرنا پڑا۔ انہوں نے لکھا ہے کہ جب امریکہ میں 2003ء میں صدر بش نے ملاقات کے بعدمجھے ایک طرف لے جا کر کہا کہ کیا میں اگلی صبح سی آئی اے کے ڈائرکٹر جارج ٹینٹ کوکچھ وقت دے سکتا ہوں۔میرے اثبات میں جواب پر اگلی صبح ٹینٹ نے میرے سامنے چند کاغذ لا کر رکھ دیے۔ میں نے انہیں دیکھتے ہی پہچان لیا کہ یہ پاکستانی سنٹرفیوج کے تفصیلی نقشے ہیں۔ ان پر تاریخیں، دستخط، پرزوں کے نمبر، سبھی کچھ درج تھا۔ صدر مشرف لکھتے ہیں کہ یہ دیکھ کر میں دم بخود رہ گیااور مجھے کافی دیر تک بولنے کے لیےلفظ نہیں ملے۔ اس وقت مجھے ڈاکٹر عبدالقدیر کا خیال آیا کہ انہوں نے ملک کو خطرے میں ڈال دیا ہے۔
No user commented in " جنرل صدر مشرف کی کتاب پر تبصرے اور اقتسابات "
Follow-up comment rss or Leave a TrackbackLeave A Reply