اسلام میں ہم جنس پرستی ممنوع ہے اور اس سے بچنے کیلیے قرآن کریم حضرت لوط علیہ اسلام کی قوم کی مثال دیتا ہے۔ یعنی حضرت لوط علیہ اسلام کی قوم ہم جنس پرستی کی شکار ہوئی اور اللہ نے اس کو عبرت کا نشان بنا دیا۔
بی بی سی کی خبر کے مطابق ہم جنس پرستی اب پاکستان میں اوپن ہو رہی ہے۔ پاکستان کے بڑے بڑے شہروں میں ہم جنس پرستوں نے اپنے کلب بنانے شروع کر دیے ہیں۔ بی بی سی کے بقول پچھلے دنوں ہم جنس پرستوں نے کراچی کی شاہراہ پر پریڈ بھی کی۔
ہم جنس پرستی انسان کے ساتھ ازل سے چپکی ہوئی ہے۔ ترقی یافتہ اور غیرمسلم ممالک میں اسے قانونی حیثیت ملنا شروع ہو چکی ہے۔ ابھی صرف اسلامی ممالک ایسے ہیں جہاں ہم جنس پرستی کو غیرقانونی سمجھا جاتا ہے۔
پاکستان میں ہم جنس پرستی کی وبا کافی پرانی ہے۔ یہ بچوں کے سن بلوغط میں داخل ہونے کے مرحلے سے شروع ہوتی ہے اور لڑکے کے کالج تک پہنچنے تک ختم ہو جاتی ہے۔ شادی کے بعد تو بہت کم لوگ اس عادت کو جاری رکھ پاتے ہیں۔ پہلے پہلے شہر میں ہم جنس پرست چند ایک ہوتے تھے جن کی مشہوری زبان زد عام ہوتی تھی۔ آج کل کے حالات سے نوجوان طبقہ زیادہ آگاہ ہو گا۔
ہم جنس پرستی میں پٹھانوں کو بہت بدنام کیا جاتا ہے مگر ہمیں اس بات کی سمجھ نہیں آتی کہ تسبیح ہاتھ میں پکڑنے والا جانتے بوجھتے ہوئے کہ یہ اسلام میں ممنوع ہے لڑکوں کیساتھ جنسی تعلقات کیسے قائم کر سکتا ہے۔
کبھی کبھار امام مسجد اور ہائی سکول کے اساتذہ بھی اس بدنامی کا حصہ بنتے رہے ہیں۔ کئی اساتذہ تو شادی شدہ ہونے کے باوجود اس لت سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتے۔
اگر ہم جنس پرستی اسلامی، اخلاقی اور میڈیکلی نقصان دہ ہے تو پھر حکومت نے ہم جنس پرستوں کو کھلی چھٹي کیوں دے رکھی ہے اور اسے پھلنے پھولنے سے روکنے کی تدابیر کیوں نہیں کر رہی؟
7 users commented in " ہم جنس پرستی "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackہم جنسی تو شیطانی حوس کا نتیجہ ہے۔ جب کفر کا نظام رائج ہو تو یہ کیوں نہ پھل پھلے؟
باقی ہر کام کونسا سائنس و شرع کے مطابق ہورہاہے بھائی جان؟؟ اتنی مصیبتوں میں یہ قوم ایسے ہی تو نہیں پڑی۔ ویسے بھی مال حرام اور کیا گُل کھلا سکتا ہے؟
پیٹ بھرے کی باتیں ہيں جی
ورائیٹی چاہتے ھیں جی لوگ
ہر کام میں
بس جی ورائٹی کی بات ہی ہے۔ یا جب عورت نہیں ملتی تو بچے بازی سے کام چلا لیتے ہیں۔ کب یہ چیز ہمارے ہاں نہیں تھی؟ اب ذرا فیشن ہورہا ہے اس کا اور لوگ سرعام بتاتے پھرتے ہیں بس۔
آج کل کا فاٹا ہمیشہ سے جرائم کی آماجگاہ رہا ہے۔۔صرف عبادات سے مسلمان تو نہیں ہو جاتے۔۔پٹھان ہوسکتا ہے زیادہ بدنام ہوں لیکن دھواں بلاوجہ تو نہیں اٹھتا۔۔
شادی ھمارے ہاں اتنا مشکل بنا دی گئی ہے کہ اب بے راہ روی ھی عام ہوگی-
ابلیس کی زبانی اقبال کہتے ہیں :
کارگاہ شیشہ گر؟ جو ناداں سمجھتا ہے اسے
توڑ کر دیکھے تو اس تہزیب کے جام و سبو
ہوس تو ہمیشہ سے رہی ہے انسان میں، اور رہے گی بھی، جب تک کہ اس کا دل ذات خداوند کی طرف رجوع نہیں کرتا۔ ورنہ دلیل پر دلیل جو مرضی دیتے رہیں، دل ہی چاہتا نہ ہو اثر کہاں ہو گا۔
پٹھانوں کا تو بس نام ہی بدنام ہے ورنہ پنجاب بھی اس لعنت کا اتنا ہی شکار ہے،
اور پھر یہ اتنے سارے ہجڑے جو وہاں پھل پھول رہے ہیں آخر ان کا بھی تو یہی مصرف ہے،اب ایسے لوگوں نے کراچی کو گھیرنا شروع کیا ہوا ہے،
اور سزا تو اللہ رب العزت نے مقرر کر ہی دی ہے جو اس دنیا میں بھی ملتی ہے اور آخرت میں بھی!
Leave A Reply