سپریم کورٹ کے فل بنچ نے کل این آر او کو کالعدم قرار دے دیا۔ اب اگر حکمرانوں میں ذرہ برابر بھی غیرت ہوئی تو وہ استعفیٰ دے کر مقدمات کا سامنا کریں گے۔ یہی فیصلہ اگر کسی تہذیب یافتہ ملک میں ہوتا تو حکمران اسی وقت ایوانِ صدارت خالی کر دیتے۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ صدر پر فراڈ، غبن اور رشوت کا الزام بحال ہو جائے اور وہ پھر بھی صدر رہے۔ لیکن ایسا ہو گا کیونکہ صدر میں غیرت نام کی چیز ہے ہی نہیں۔ وزیرِ داخلہ رحمان ملک جب خود کرپٹ ہو تو پھر وہ ملک میں کیسے امن بحال کرے گا۔
اب ہونا تو یہ چاہیے کہ این آر او جاری کرنے والے پر غداری کا مقدمہ چلنا چاہیے کیونکہ اس نے خلاف قانون آرڈیننس جاری کیا۔ جسٹس قیوم نے جو ڈکٹیٹر کا ساتھ دیا اس کی سزا اسے ملنی چاہیے۔ اسی طرح ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ نہ صرف این آر او کالعدم ہوتا بلکہ ہر وہ سیاسی پارٹی کالعدم قرار دے دی جاتی جس نے ڈکٹیٹر بشرف کا ساتھ دیا اور اگر مزید انصاف کرنا ہو تو پھر ان تمام سیاستدانوں پر تاحیات پابندی لگا دینی چاہیے جنہوں نے ڈکٹیٹر کے ہاتھ مضبوط کیے۔ ہمارے خیال میں یہی ایک راستہ ہے ڈکٹیٹرشپ کا راستہ روکنے کا۔ اگر پارلیمنٹ محب وطن ہو تو اسے دو تہائی اکثریت سے ایسے بل پاس کرنے چاہئیں جن کی رو سے ڈکٹیٹروں کا ساتھ دینے والے تمام سیاستدانوں پر ہمیشہ کیلیے پابندی عائد کر دی جائے۔ مگر ہم بھی بھولے ہیں کوئی آپ اپنے پاوں پر کیسے کلہاڑی مارے گا۔
ڈھیٹ جیالوں کو پھر بھی شرم نہیں آئی اور انہوں نے لاہور میں ایسے بینر آویزاں کر دیے۔
ایک زرداری سب پر بھاری
آئیں اس خوشی کے موقع پر اس فقرے کی پیروڈی بنائیں
ایک زرداری متعدی بیماری
ایک زرداری کرپٹ جواری
ایک زرداری کھوتا سواری
ایک زرداری سب کی خواری
ایک زرداری پی پی پر بھاری
ایک زرداری نری خواری
ایک زرداری جانے کی تیاری
ایک زرداری مارا ماری
19 users commented in " این آر او کالعدم "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackوہ غیرت کہاں سے لاؤں
جو ان کے سینوں سجاؤں
یہ بات سمجھ نہ آئے مجھکو
جیالوں نے کچھ غلط تو نہیں لکھا۔ ایک ہی زرداری پورے اٹھارہ کروڑ پر بھاری ہی تو ہے۔
مختصر فیصلہ واقعی خوش آئند ہے۔ اب تفصیلی فیصلہ کا انتظار ہے۔
این آر اوآئین سے متصادم تھا عدلیہ سے پہلے اسے عوام کی عدالت نے کالعدم قراردے دیا تھا۔
این ار او غلط تھا ۔۔۔۔۔ مانا ۔۔۔۔۔ ختم ہوا اچھا ہوا ۔۔۔۔۔۔
اس عوام کااحتساب کون کسی عدالت کرے گی جو ایک بے غیرت کے بعد دوسرے بے غیرت کو اپنے کندھوں پر بیٹھا کرلاتے ہیں لاتے ہیں، اور ہر ڈکٹیٹر کے اے پر مٹھایاں باٹتے اور جانے کے بعد تبرا پڑھتے ہیں۔
اس حمام میں سارے ننگے ہیں۔
یہ موقع نہ تو کسی قسم کی خوشفہمی کے شکار ہونے کا ہے اور نہ ہی بہت زیادہ امیدیں باندھنے کا ہے۔ یہ انتہائی نازک موقع ہے خاص طور پر چھوٹے صوبوں کو احساس محرومی سے بچانے کا۔
یہ ساراکھیل مفادات اور کرسی کاہے جو محب وطن ہیں وہ 16 دسمبر کو سکوت ڈھاکا کے ہی تناظر میں دیکھ رہے ہیں۔
چوروں، غنڈوں، لٹیروں، بدمعاشوں، رشوت خوروں، بھتی خوروں ۔۔۔۔۔ ان سب کا احتساب ضرور ہونا چاہے مگر اس قیمت پر نیہں کے بقول شخص ۔۔۔۔ پہلے تے کفن چور ہی سے لیکن اے تے کیلا بھی ٹھونکتا ہے۔
چودھری حشمت نے درست لکھا ہے۔۔ ابھی چند مہینوں پہلے یہ ملک گو مشرف گو کے نعروں سے گونج رہا تھا اب زراردی بھگاؤ مہم میں مشغول۔۔ یہ سب اسٹیٹس کُو کے نمائندے ہیں۔۔ ان کے آنے جانے سے کچھ نہیں بدلنے والا۔۔ پچھلے الیکشن میں عوام نے پی پی کو ووٹ کیوں دیے تھے جب انہیں معلوم تھا کے صدارت یا وزارت عظمی گھوم پھر کر زرداری کے پاس ہی آنی ہے۔۔۔ معلوم ہوتا ہے ایک مستقل کھیل بنا لیا ہے کہ جو بھی آئے اسے بھگاؤ اور پھر اس جیسا دوسرا لے آؤ۔
حشمت صاحب اور راشد صاحب
اسی امید پر کہ کبھی تو اپنا داؤ سیدھا پڑے گا لوگ کچھ دیر بعد ہر کرپٹ حکمران کے جانے کی بدعا کرنے لگتے ہیں۔
یہ ایک اچھا فیصلہ ہے۔ یہ احساس جاگا ہے کہ ہم بھی ایک باغیرت اور آئین و قانون کا احترام کرنے والی قوم ہیں۔ ورنہ تو چور ( مشرف) کی حکومت میں چوروں (این او آر زدہ ظالم ) کو عام معافی دے کر حکمران بنا دیا گیا تھا۔ دنیا یہ سمجھنے لگ گئی کہ پاکستان میں بد عنوان اور کرپٹ لوگ بستے ہیں۔ اس تاثر کو ختم ہونے میں وقت لگے گا اور دنیا ہمیں باعزت جاننے لگی گی۔ مایوس اور پسے ہوئے طبقات میں پاکستان میں “قانون سب کے لئیے برابر“ کا احساس جاگا ہے۔ بکھری ہوئی قوم کو متحد ہونے کے لئیے راہ سوجھی ہے۔
اس فیصلے سے ان گنت فوائد و برکات پاکستان اور پاکستانی قوم کو حاصل ہونگی، شاید قدرت ہم سے بہ حیثیت قوم ابھی مایوس نہیں ہوئی۔
شکریہ راشد صاحب اور افضل صاحب۔
کاش ایسا ہو ۔۔۔۔۔
کاش پاکستان کا ہر شخص بغیر ہاتھ پھلائے دو وقت کی روٹی پیٹ بھر کے کھا لیے، کاش ایسا ہو کہ میں پاکستان کہ جس محکمہ میں اپنے کسی کام کے لیے جاؤں تو مجھے یہ نہ سنا پڑے کہ کل آئے گا اور دروازے پر کھڑا ایک شخص پوچھے کہ سر کیاکام ہے، کاش کہ جب میں عدالت کا دروازہ کھٹکٹاؤں تو میری ساری جمع پونجی اور گھر تک نہ بک جائے، کاش کہ ایساہو کہ جب میں اپنے گھر میں داخل ہو رہاہوں تو ادھر ادھر یوں نہ دیکھ رہاہوں کہ کہیں کوئی ٹی ٹی میری کھوپڑی پر رکھ کر یہ نہ کہے کہ چل اندر اندر چل اور جو کچھ گھر میں ہے سب نکال ۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔۔۔
دل تو میرا بھی کہتا ہے کہ
وابستہ رہ شجر سے امید بہار رکھ
کاش کہ اقبال پھر سے زندہ ہوجاتے ۔۔۔۔۔۔
مگر اب یہ ہو نہیں سکتا ۔۔۔۔۔۔
نکلنا آپ کو پڑا گا، اور ان گنڈوں، بدمعاشوں، لٹیروں، غاصبوں، موقع پرستوں سے آپ نے خود ہی نجات حاصل کرنی ہے، بہت خون خرابہ ہوگا یہ ناسور آپ کو اس طرح تو نہیں آنے دیں گے، ان کی جڑیں ہر جگہ پر پھیل چکی ہیں اور شاید ہماری قوم ابھی اتنی زیادہ غریب نہیں ہوئی ہے کہ ہر قربانی کہ لیے تیار ہو سکے اور حقیقتآ نہ ہمارے حالات اس قابل ہیں۔
دعا اور بس دعا کہ کاش ۔۔۔۔۔ کاش ۔۔۔۔۔ اللہ ہم پر اپنا رحم فرمائے اور ہمیں فلسطینی بنے سے بچائے آمین، سمہ آمین ۔۔۔۔
کریکشن۔
نکلنا آپ کو پڑے گا، اور ان غنڈوں،
لوٹی ہوئی رقم کی واپسی میں انٹر پول نے اہم کردار ادا کیا،لاہور (صابر شاہ)
پنجاب بینک کے سابق صدر ہمیش خان کی گرفتاری کے بعد گزشتہ 9 برس کے دوران پاکستانی تاریخ میں بینکنگ کے دو بڑے اسکینڈلز کے مرکزی ملزم کو انٹر پول نے گرفتار کرلیا ہے۔ امریکا میں ریڈ وارنٹ کے ذریعے انٹر پول نے بینکوں کے دو بڑے اسکینڈلز کے اہم ملزمان کو گرفتار کرلیا ہے۔ 28 مئی 2008ء کو ملک سے فرار ہونے کے 18 ماہ اور 12 دن بعد ہمیش خان کو گرفتار کرلیا گیا، حالانکہ ان کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ پر تھا۔ قومی خزانے کو 9 ارب روپے کا نقصان پہنچانے کی پاداش میں نیب کو مطلوب ہمیش خان کی گرفتاری سے قبل انٹر پول نے اماراتی بینک کے 300 ملین روپے کے اسکینڈل میں ملوث ملزم کو بھی امریکا میں گرفتار کیا۔ اماراتی بینک کا یہ فراڈ لاہور کی ایگرٹن روڈ برانچ میں ہوا تھا جس میں سابق چیف آف آرمی اسٹاف جنرل جہانگیر کرامت کے صاحبزادے فرخ کرامت مینیجر انچارج کی حیثیت سے تعینات تھے۔ 29 نومبر 2001ء کو سنائے گئے فیصلے میں خصوصی بینکنگ کورٹ نے فرخ کرامت سمیت ایک اور ملزم عالی شفیع کو عدم شواہد کی بناء پر بری کردیا۔ لاہور ہائی کورٹ نے فرخ کرامت اور عالی شفیع کے حق میں ایک حکم امتناع بھی جاری کیا جس کے تحت نیب کو ان دونوں کے خلاف کارروائی سے روک دیا گیا ۔ اماراتی بینک کے اسکینڈل میں ملوث ملزمان، جس میں لاہور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے صدر کے دو صاحبزادے بھی شامل تھے، کو بعد میں تاجروں کو اے بی این ایمرو اور یونائیٹڈ بینک لمیٹڈ کی جعلی گارنٹی پر 300 ملین روپے کے قرضہ جات دلوانے میں مدد کرنے کا مرتکب پایا گیا۔ بعد ازاں طویل قانونی چارہ جوئی کے بعد ملزمان، جن میں مقامی تاجر اور بینک کے حکام بھی شامل تھے، سے لوٹی ہوئی رقم کا ایک بڑا حصہ واپس لیا جا چکا ہے۔ بینک آف پنجاب اسکینڈل میں سپریم کورٹ نے ہمیش خان اور ان کے بیٹے، حارث اسٹیل کے مالک اور ان کے بیٹے حارث افضل، صنعتکار سیٹھ یعقوب اور ان کی بیٹی ارم یعقوب کی گرفتاری کے احکامات جاری کئے تھے۔ سپریم کورٹ کے احکامات کی روشنی میں ان کے اثاثہ جات پہلے ہی منجمد کئے جا چکے ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ گزشتہ 18 نومبر کو، خصوصی احتساب عدالت نے بینک آف پنجاب اسکینڈل میں ملوث ایک اور ملزم کو یکم دسمبر تک جسمانی ریمانڈ پر بھیج دیا تھا۔ صرف یادداشت تازہ کرنے کیلئے یہاں ذکر کرتے ہیں کہ اس اسکینڈل کے مشترکہ ملزمان شیخ افضل اور شیخ محمد حارث کو نیب حکام نے گزشتہ ماہ ملائیشیا میں انٹر پول کی مدد سے سپریم کورٹ کے احکامات پر گرفتار کیا تھا اور انہیں پاکستان منتقل کیا۔ ہمیش خان کی گرفتاری سے قبل، بینک آف پنجاب کے اسکینڈل کے 10ملزمان پہلے ہی نیب کی گرفت میں ہیں۔ دو گھر، ایک ہوٹل اور پانچ بیش قیمت گاڑیوں کے علاوہ نیب نے ان سے 40 ملین روپے واپس لئے ہیں۔ مذکورہ بالا بینکوں کے اسکینڈلز میں ملوث ملزمان کے علاوہ انٹر پول نے سابق چیف آف نیول اسٹاف ایڈمرل منصور الحق کو بھی گرفتار کرچکی ہے۔ انہیں متنازع دفاعی خریداریوں کے الزام میں امریکا سے گرفتار کیا گیا تھا۔
پارلیمنٹ این آر او کو کالعدم قرار دیدیتی تو یہ سپریم کورٹ میں نہ آتا،اطہر من اللہ
12/18/2009
ایبٹ آباد (نمائندہ جنگ) چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری کے سابق ترجمان اطہر من اللہ ایڈووکیٹ نے کہا ہے کہ اگر پارلیمنٹ این آر او کو کالعدم قرار دے دیتی تو یہ سپریم کورٹ میں نہ آتا۔ آئین توڑنے والے سب سے زیادہ کرپشن کے مرتکب ہیں،ان کا احتساب ضروری ہے ۔ سپریم کورٹ نے عدلیہ کی بحالی کے بعد جمہوریت اور جمہوری اداروں کو مضبوط کرنے میں نمایاں کردار ادا کیا۔ ملک میں کرپشن اور لاقانونیت کینسر کی طرح پھیل گئی ہے جس کی وجہ سے ہمارا پورا نظام تباہ ہو گیا ہے اِسے صرف اکیلے عدلیہ نہیں بچاسکتی سب کو ملکر اِس سلسلہ میں کام کرنا ہو گا۔ اِن خیالات کا اظہار اُنہوں نے جمعرات کے روز پریس کلب ایبٹ آباد میں میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کیا۔ اِس موقع پر اُنہوں نے صحافیوں کے سوالات کے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کرپشن کی بنیاد 1958ء میں ایک جمہوری حکومت کو ختم کرکے اِس وقت کے آمر نے رکھی تھی جس کے بعد ملک آج تک اِس لعنت سے نہیں نکل سکا۔ گزشتہ 62 سالوں کے دوران سب سے زیادہ کرپشن اَن لکھے این آر او کے تحت کی گئی ہے جس میں جنرلز اور ججز سمیت متعدد لوگ شامل ہیں۔ جنرل ضیاء کے بیٹے کے لندن میں بنگلے اور پرویز مشرف نے حال ہی میں 25کروڑ روپے مالیت کا برطانیہ میں بنگلہ خریدا ہے ان سب لوگوں کا احتساب ضروری ہے
سے لانا پڑا ہے۔ مقتدر حلقے اب بھی مصر ہیں کہ دوسال کے لیے ٹیکنو کریٹس کی حکومت کا تجربہ ہی ملک کو صراط مستقیم پر لاسکتا ہے۔ اس کے لئے وہ راستہ کیسے ہموار کریں گے کہ موجودہ سیاسی جمہوری نظام کے خاتمے پر موجود آئینی حدود سے ماورا اس عبوری انتظام کی مزاحمت نہ ہو عدلیہ کی طرف سے تو کسی ردعمل کا امکان نہیں ہوگا کیونکہ انہی کے ذریعے آئینی ترامیم یا اقدامات کئے جائیں گے۔ میڈیا بھی اس کے لئے ذہنی طور پر آمادہ ہے۔ مسئلہ سیاسی جماعتوں خاص طور پر پی پی پی کے کارکنوں کی طرف سے ممکنہ شور و غل کا ہے۔ اس کی تیاریاں کی جارہی ہیں، پارٹی کی شریک چیئرمین کی مبینہ بدعنوانیوں پر عدلیہ کا فیصلہ آچکا ہے۔ میڈیا میں یہ نمایاں جگہ پارہے ہیں۔ مختلف خفیہ اداروں کی طرف سے پارٹی کے رہنماؤں اور کارکنوں سے رابطے کر کے یہ تاثر پیدا کیا جارہا ہے کہ یہ ساری دولت انہوں نے اپنی ذات اور ساتھیوں کی عشرت اور تعیش کے لئے جمع کی ہے۔ ملک کو اس سے کوئی فائدہ نہیں ہوا اور نہ کارکنوں کو اس سے کچھ ملا۔ وہ اسی طرح بے روزگار اور غریب ہیں۔ کچھ رہنما اور وزیر اگر اپنی قیادت کا دفاع کررہے ہیں تو انہیں بھی بالواسطہ پیغامات دیئے جارہے ہیں۔ یہ ضروری نہیں ہے کہ متعلقہ حلقے اس کوشش میں کامیاب ہوں گے یا نہیں۔ کیونکہ سابق صدر جنرل پرویز مشرف اس کوشش میں ناکام رہے تھے۔ آخر میں وہ کہنے لگے تھے کہ ہم کیا کریں۔ پی پی پی اور مسلم لیگ (ن) کے کارکن اپنے لیڈروں کو کرپشن لوٹ مار سے باخبر ہونے کے باوجود انہی کو پھر منتخب کرتے ہیں۔ انہی کو لیڈر مانتے ہیں تو سیاست پاک کیسے ہوسکتی ہے۔ جس طرح مقتدر حلقے سیاستدانوں کے بارے میں مسلسل کرپشن کی تشہیر کرتے ہیں اسی طرح سیاسی حلقوں میں جنرلوں، بریگیڈیئروں اور ججوں کی کرپشن کے اسیکنڈل بھی گردش میں رہتے ہیں۔ اس لئے سیاسی کارکن اپنے لیڈروں کی کرپشن کو بھی گناہ قرار نہیں دیتے۔ ان کا کہنا ہوتا ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہیں، اچھی حکمرانی اور کرپشن سے پاک معاشرے کے قیام کے لئے سب اداروں کا شفاف ہونا ضروری ہے غریب عوام کو تو سیاستدانوں سمیت سارے مقتدر حلقے اپنے وسائل اور آمدنی سے کہیں زیادہ اخراجات پر زندگی گزارتے نظر آتے ہیں۔ اس لئے یہ سوال اپنی جگہ رہے گا کہ تمام تر نیک خواہشات کے باوجود کیا اس دو سالہ غیر سیاسی تجربے کو اس طرح کی سازگار فضا مل سکے گی جو بنگلہ دیش میں مل گئی تھی۔ اگر یہ صرف طاقت کی بنا پر مسلط کیا گیا تو یہ زیادہ دیر چل نہیں سکے گا۔ اب سننے میں یہ آرہا ہے کہ 2010ء اور 2011ء اس کے لئے مخصوص کئے جارہے ہیں۔ چیف جسٹس تو 2013ء تک ہیں۔ چیف جسٹس جناب افتخار محمد چوہدری کو وکلاء تحریک، پھر اپنے جرأت مندانہ فیصلوں کی بنا پر عوام کے ایک حلقے میں اتنی مقبولیت حاصل کی ہے کہ وہ کوئی بھی فیصلہ کریں، اس کو قبول کرلیا جائے گا۔ اگر وہ خود اس ٹیکنو کریٹ حکومت کی سربراہی کریں تو عوام اور بھی زیادہ مطمئن ہوں گے۔ یہی حلقے کہتے ہیں کہ موجودہ آرمی چیف کی مدت ملازمت میں مزید ایک یا دو سال کی توسیع کا امکان ہے۔ مقاصد یہ ہیں کہ فوج یکسوئی سے ان دو سال میں دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کا خاتمہ کر کے ملک میں امن و امان بحال کرے۔ ٹیکنو کریٹس کی حکومت، معیشت کو پٹڑی پر لائے، سرمایہ کاری کے لئے سازگار ماحول بتدریج قائم کر کے اسی دو سال میں حکمرانی کے لئے نئے قواعد و ضوابط کی تشکیل بھی کی جائے۔ سیاسی جماعتوں کے لئے بھی نئے قوانین تشکیل دیئے جائیں۔
آئین کی شقوں کے مطابق مذہب، فرقوں اور علاقوں کی بنیاد پر قائم کی جانے والی سیاسی جماعتوں پر پابندی لگائی جائے۔ الیکشن کمیشن سیاسی جماعتوں کے اندرونی انتخابات کی بھی نگرانی کرے گا اور ان کی میعاد بھی مقرر کی جائے۔ پورے ملک میں تنظیم اور جمہوری ڈھانچہ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کے قومی انتخابات میں حصہ لینے پر پابندی عائد کی جاسکتی ہے۔ انتظامی بنیادوں پر تبدیلیاں لائی جاسکتی ہیں۔ افسوسناک اور تشویشناک امر یہ ہے کہ جاگیرداری سرداری کا خاتمہ اس پروگرام میں شامل نہیں ہے۔ پی پی پی کی اعلیٰ قیادت کا تو کہنا ہے کہ وہ ہر صورت میں اس کی مزاحمت کریں گے۔ چاہے یہ فوج کی طرف سے ہو یا عدلیہ کی جانب سے کیونکہ یہ آئین کے خلاف ہے جبکہ مسلم لیگ (ن) فوج کی طرف سے ہونے والی کسی ممکنہ کارروائی کی تو مزاحمت کا ارادہ ظاہر کرتی ہے لیکن عدلیہ کی کسی کارروائی پر مزاحمت کے سوال کا جواب نہیں، دیگر سیاسی جماعتیں اس کے لئے ذہنی طور پر آمادہ ہیں۔ یوں سمجھ لیجئے کہ پاکستان میں معاشرے کی تطہیر، سیاستدانوں کی تربیت کے لئے یہ دو سالہ ورکشاپ کی جارہی ہے۔ جس کے لئے ماہرین سے اندرون ملک اور بیرون ملک رابطے استوار کئے جارہے ہیں۔ بلوچستان پیکیج اور این ایف سی ایوارڈ میں سیاسی جماعتوں نے کسی حد تک جس تدبر کا ثبوت دیا ہے۔ اس کے باعث چند ماہ کی تاخیر ہوسکتی ہے لیکن یہ ٹیکنوکریٹ تجربہ کیا ضرور جائے گا۔ اگر قومی سیاسی جماعتیں اس تجربے کو ہمیشہ کے لیے خارج از امکان کروانا چاہتی ہیں تو انہیں اپنے اندر خود یہ تبدیلیاں لانا چاہیئں
بدعنوان لوگوں سے اپنی تنظیموں کو خود پاک کرلینا چاہیئے!
مملکت اے مملکت محمود شام
ایک زرداری جس نے کی ہوشیاری
اور اپنی بیوی ماری
ایک زرداری کرپشن کی پٹاری
عاصمہ جہانگیر کا بیان بھی پڑھنا چاہئے عدالت کی امور سلطنت میں مداخلت پر۔ ہم ایک دلدل سے نکل کر اس سے بڑی ایک دلدل میں گرنے جارہے ہیں۔ افتخار چوہدری ایک مہرہ ہے نوازشریف کا اور اب خاکم بدہن ان کے پیسے نے فوج کے بعد ایک اور قومی ادارے کو ملک کے اقتدار کی بندر بانٹ میں حصہ دار بنا دیا ہے۔ سیاستدانوں کا احتساب صرف عوام کرسکتے ہیں۔
@خرم
اگر آپ این ار او کی بابت چوہدری افتخار کی کارکردگی کو شک کی نگہ سے دیکھ کر رہے ہیں تو یہ بات درست نہیں۔ این آر او کی مخالفت میں شہباز شریف کی درخواست کے ساتھ جماعت اسلامی، ڈاکٹر مبشر حسن اور ڈاکٹر روئیداد خان جیسی شخصیات کی دائر کردہ پٹیشنز بھی تھیں۔ ایسے میں یہ کہنا کہ چیف جسٹس کسی مخصوص جماعت کے مہرہ نہیں سمجھ سے بالاتر ہے۔ یہ الزام تو عدلیہ بحالی تحریک میں بھی لگاتار لگایا جاتا رہا ہے اس وقت تو عاصمہ جہانگیر بھی چیف صاحب کے شانہ بشانہ تھیں۔
مشرف نے “کو“ کیوں کیا ۔۔۔۔ کرسی ۔۔۔۔۔
چیف جسٹس صاحب نے مشرف کو تحفظ دیا ۔۔۔۔۔
کرسی۔۔۔۔۔۔ چیف جسٹس صاحب نے مشرف کو انکار کیوں کیا۔۔۔۔۔ کرسی ۔۔۔۔۔۔۔ چیف جسٹس صاحب زرداری کے پیچھے کیوں پڑے ۔۔۔۔۔۔ کرسی ۔۔۔۔۔۔ کیونکہ ان کو پتہ ہے کہ 2013 تک اگر پی پی پی حکومت رہ جاتی ہے تو پھر ان کی ایکسٹینشن کھٹائی میں ۔۔۔۔۔ کرسی ، کرسی ۔۔۔۔۔
تے فر زرداری کیوں برا وہ بھی تے ۔۔۔۔ کرسی ۔۔۔۔۔
سب چکر صرف ۔۔۔۔۔ کرسی ۔۔۔۔۔
اس حمام میں سارے ہی ننگے ۔۔۔۔۔
انقلاب کے علاوہ کوئی راستہ نہیں ۔۔۔۔۔ ورنہ پھر لگے رہو ان کرسی پرستوں کے چکر میں ۔۔۔۔۔ جو روز کوئی نہ کوئی نیا اشو کھڑا کرتے رہیں گے کہ قوم ایسی میں لگی رہے، آج تو اعتزاز بھی عدالت کو چھوڑ کر پارٹی کا دفع کرنے نکل آئے ہیں ۔۔۔۔۔ شاید ان کی بھی سمجھ میں کرسی کا چکر آگیا ۔ اور علی احمد کرد بھی کھتے ہیں اس عدالت میں بڑے بڑے مگرمچھ بیٹھے ہیں ۔۔۔۔۔ سمجھ آتی ہے مگر زرا دیر سے ۔
چوہدری صاحب آپ کی بات بے وزن سی محسوس ہوتی ہے۔ اگر چیف جسٹس کو کرسی عزیز ہوتی تو وہ مشرف کی لگائی جانے والی ایمرجنسی کم مارشل لاء کو مان کر باآسانی اپنے منصب پر فائز رہ سکتے تھے۔ نیز موجودہ صورتحال میں بھی این آر او کے حق میں فیصلہ دے کر حکومت کے سامنے سرخرو ہوا جاسکتا تھا جو کہ ان کے لئے انعام و اکرام سمیت ‘ایکسٹیشن‘ کی بھی وجہ بن سکتا تھا۔
دنیا کے کسی خطہ میں انقلات بغیر قائد کے نہیں آیا۔ اور جسے ہر کوئی کرسی کے چکر میں لگا ہوا نظر آئے بھلا وہ قائد کو کیسے پہچان سکتا ہے؟
خدا کرے کہ افتخار چوہدری آپ کے لیے کوئی قائیدانہ صلاحیت ادا کر سکیں ۔ میرے حساب سے وہ نواز کے مہرے ہیں۔ مگر اللہ کسی سے بھی کبھی بھی کوئی اچھا کام لے سکتا ہے، جس طرح بھٹو نے بھی شراب پر پابندی لگائی اگرچہ کہ وہ خود شرابی تھا۔
Leave A Reply