جب بھی ہم کسی تحریر یا تبصرے میں مصنف کی اپنے مخالفین کیخلاف متعصب اور گندے الفاظ کی بھرمار دیکھتے ہیں تو ہمارا برا حال ہوتا ہے۔ آپ ہمارے بلاگ کے پانچ سالوں میں ایک بھی ایسا موقع تلاش نہیں کر سکتے جب ہم نے اختلاف رکھنے والوں کیخلاف غلیظ الفاظ استعمال کئے ہوں یا گالی گلوچ پر اتر آئے ہوں۔ ہمارا یہ نظریہ ہے کہ گالی گلوچ یا تعصب کی بات وہی کرتا ہے جس کے پاس کہنے کو اور کچھ نہیں ہوتا۔، وہی غصے میں پاگل ہو جاتا ہے اور اس کا بس نہیں چلتا وگرنہ وہ مخالف کو وہیں زمین میں گاڑ دے۔ پڑھا لکھا اور سمجھدار آدمی مخالف کا نقطہ نظر تحمل سے سنے گا اور پھر تحمل سے جواب دے گا اور ضروری بھی نہیں سمجھے گا کہ اس کا مدمقابل اس سے مطمن ہوتا ہے یا نہیں۔
بلاگر دوست نعمان صاحب نے بھی اسی طرح اپنی تازہ تحریر تعصب کا بھانڈا میں تعصب سے کام لیتے ہوئے اپنے مخالفین کو خوب سنائی ہیں اور وہ بھی انہیں اپنی صفائی کا موقع دیے بغیر۔ ان کی تحریر کے بعد ہم نے سوچا اس موضوع پر لکھیں اور سب کو بردباری اور تحمل سے کام لینے کی تلقین کریں۔ ابھی ہم یہ سوچ ہی رہے تھے کہ کراچی کے ناظم کی ویڈیو بلاگر دوست شعیب صاحب کے بلاگ پر دیکھ لی۔ تب ہمیں معلوم پڑا کہ یہاں تو آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے۔ ہم تو کراچی والوں کو بڑا مہذب اور تعلیم یافتہ سمجھتے تھے مگر یہ تو کچھ اور ہی نکلے۔
تحریر اور تقریر اپنا اثر کھو دیتی ہے جب اس میں گندے الفاظ استعمال کیے جائیں، مخالفین کو کوسا جائے اور انہیں طرح طرح کے القابات سے نوازا جائے۔ اچھا لکھاری وہی ہے جو تہذیب کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنا نقطہ نظر بیان کرے اور جوش خطابت میں ہوش نہ کھو بیٹھے۔ وہی لوگ زندگی میں کامیاب ہوئے ہیں جنہوں نے ہمیشہ جذبات کی بجائے عقل سے کام لیا ہے اور کبھی بھی کسی بھی موقع پر صبر کا دامن نہیں چھوڑا۔ یہی ہمارے نبی کی تعلیم ہے اوریہی اسلام کا پیغام ہے۔
41 users commented in " تعصب بھرے اور گندے الفاظ "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackافضل صاحب اپنے آرام دہ گھر میں آرام کرسی پر بیٹھ کرپاؤں پھیلا کر اس طرح کی پوسٹ لکھنا اور ایسے تبصرے کرنا جتنا آسان کام ہے،بمقابلہ کسی ایسے شہر میں جہاں ہر وقت آپکو مائکرو اسکوپ کے نیچے رکھا جاتا ہو آپکے ہر احسن کام میں کیڑے نکالے جاتے ہوں اوراپنے دن و رات ایک کرکے اس شہر کی بہتری کے لیئے جان مارنے کے باوجود بار بار آپکو یہ تاثر دیا جاتا ہو کہ آپ نے کچھ نہیں کیا، آپکی برسوں کی محنت پر بار بار پانی پھیرا جاتا رہے اور ہر ناکردہ گناہ آپکے گلے میں ڈال کر آپ سے آپ کے تاثرات پوچھے جائیں،پھر ہم دیکھیں گے کہ کہاں ہوگی اپکی تہزیب برد باری اور تحمل!
میں آپکو گارنٹی سے کہتا ہوں کہ اگر یہ سلوک کسی پنجاب کے ناظم کے ساتھ کیا جاتاجس نے مصطفی کمال کے مقابلے میں تھوڑا کام ہی کیا ہوتا تو وہ جس طرح سامنے والے کی ماں بہن ایک کرتا وہ بھی ایک دنیا دیکھتی!
رہی نعمان کی پوسٹ تو وہ آپکی بے شمار تعصبی پوسٹ سے کہیں بہتر تھی،
باقی رہی کراچی والوں کے تہذیب یافتہ اور تعلیم یافتہ ہونے کی بات تو وہ مثل تو آپنے سنی ہی ہوگی کہ چیونٹی کو بھی مسلا جائے تو وہ بھی پلٹ کر کاٹ لیتی ہے اور اب کراچی والوں کو پاکستان میں رہتے نسلیں گزر گئیں اس لیئے پانی کا اثر تو آنا ہی ہے،ویسے بھی کہا جاتا ہے کہ روم میں رہو تو روم والوںکیطرح رہو !
نعمان اور مصطفی کمال کی مثال کو آپ نے پورے کراچی والوں پر منطبق کردیا، جو میرے نزدیک درست نہیں۔ میرا جتنا تعلق کراچی والوں سے یا دوسرے لفظوںمیں اردو بولنے والوں سے رہا ہے، اس کی روشنی میں ان سے زیادہ مہذب اور شائستہ لوگ کم ہی ہیں۔ بلاگرز میں راشد کامران اس کی روشن مثال ہیں۔
مصطفی کمال ایک روشن مثال ہے کاش اللہ پورے پاکستان کو مصطفی کمال جیسا محنتی اور مخلص کردے تو اس ملک کا مستقبل شاندار ہوگا انشاءاللہ!
السلام علیکم
مجھے لگتا ہے ہم پاکستانی رہے ہی نہیں
وہاں بلوچی شور ڈال رہے ہیں
اور یہان پڑھے لکھے لوگ پنجاب اور سندھ کا رونا رو رہے ہیں
ارے بھائی اگر کسی کو کسی سے شکایت ہے تو کم از کم صرف اس کا نام لے کر اس کو مخاطب کریں۔ یہ کیا بات ہوئی
کراچی کے بے شمار لوگ بتا سکتا ہوں
م م مغل صاحب، احمد صاحب، ایم اے راجا صاحب، عمار صاحب اور بہت سے بلاگر کراچی کے ہیں
بھائی صاف اور مختصر بات یہی کروں گا ذات، پات کی لڑائی ختم کریں جو اچھا کام کر رہا ہے اس کو اچھا کہیں اور جو اچھا نہیں کر رہا اس کے لیے بھی دعا کریں کے وہ اچھا کام کرے
مگر یہ تو کچھ اور ہی نکلے۔
سر آپ کسی ایک یا دو انسانوں سے سارے کراچی کا اندازہ لگا بیٹھے ۔۔
سر ۔۔ چھوٹا موں بڑی بات ہو جائیگی ۔۔ پر امریکہ یا یورپ میں ہوتا تو شاید میرے پاس گالی دینے کو بھی وقت نا ہوتا ۔۔ کام ہی جو اتنا ہوتا ۔۔ ہر دوسرے سیکنڈ آپرچیونٹی دروازے پر دستک دیتی ۔
ہم سر ویلے سارے زمانے کے اپنی فرسٹریشن گالیوں میں نلکالتے ہیں ۔۔ ہوتے یہاں ڈسکو جاتے وہاں دنگا کر کے نکالتے پھر ۔
جب ايک بندے کو اتنا تپايا جائے گا تو اس نے آگے سے يہی کچھ کہنا ہے ويسے الو کے پٹھے گالی تو نہيں ہے يہ تو بس ہلکا سا غصے کا اظہار ہے
آپ کا تجزیہ درست کہ گندے الفاظ کسی بڑے لیڈر کو زیب نہیں دیتے۔ اس سے نہ صرف خود اس شخص کی بدنامی ہوتی ہے بلکہ ان تمام لوگوں کو بھی برا سمجھا جاتا ہے جن کی نمائندگی وہ کررہا ہو چاہے حقیقت اس کے برعکس ہی کیوں نہ ہو۔
نہ کراچی بُرا ہے نہ کراچی کے سب لوگ ۔ کچھ لوگ جو کراچی کے زبردستی مالک بن بیٹھے ہیں اُنہوں نے نہ صرف کراچی کی رونقیں اُجاڑ کے رکھ دی ہیں بلکہ کراچی کو تباہ کرنے پر تُلے بیٹھے ہیں
اوہو تو اصل تکلیف یہ ہے کہ انکو کراچی کا مالک نہیں بننے دیا گیا اسی لیئے جلے دل کے پھپھولے پھوڑا کرتے ہیں!
ایم کیو ایم کو لعن طعن کرنے سے آپ حضرات کو فرصت مل جائے تو سلیم صافی کا یہ آنکھیں کھولنے والا مضمون بھی آنکھیں اور ذہن کھول کر پڑھ لیں
کہ ان ایجینسیوں نے اور انکے ٹھیکیداروں نے کیسا بھیانک مزاق کیا ہےپاکستانیوں کے ساتھ ہمیشہ!
http://ejang.jang.com.pk/1-5-2010/pic.asp?picname=07_05.gif
دوسروںکےگھرمیں لگی آگ پر تیل اور زخموں پر نمک چھڑکنے والے زرا اپنے گھر کی بھی خبر لیں!
http://www.bbc.co.uk/urdu/pakistan/2010/01/100103_punjab_ijaz1.shtml
میری پوسٹ میں کس کے بارے میں غلط لفظ استعمال ہوئے ہیں اور کہاں؟ براہ مہربانی یا تو اس کی وضاحت کریں یا اس پوسٹ کو ڈیلیٹ کریں۔
دوسرا کراچی کے عوام کے بارے میں آپ کی رائے میرے لئیے قطعا حیران کن نہیں ہے۔ مگر جھوٹ لکھنے سے پرہیز کریں۔
مصطفی کمال (اتا ترک ثانی) چاہے جو زبان استعمال کرے وہ رہے گا وہی، لوگوں کو مشرف کی وہ بات بھی بری لگی تھی جو اس نے ایک صحافی کے متعلق کہی تھی اور اب مصطفی کمال کا غصہ ۔
تے یاراں اس طرح کے کام کرتے ہی کیوں ہو۔۔۔۔۔۔۔ کے دوسروں کو پکادو، اپنے آپ کو ٹھیک کرلو باقی سب خود بخود ٹھیک ہو جائے گا۔
اصل میں ہمیں ایک انگلی دیکھنے کی عادت ہے باقی کی تین انگلیوں کا رخ جس طرف ہوتا ہے وہ ہم نہیں دیکھتے۔
اجمل صاحب۔
یہ کیا دوغلا پن ہے، ایک طرف تو آپ جمھورت جمھورت کرتے ہو اور دوسری طرف دوسروں کا مینڈیٹ دل سے تسلیم نہیں کرتے، مجھے تو خوف ہے کہ آپ نوازے کو وزیر اعظم بنوانے کی تڑپ میں “ادھر تم ادھر ہم“ کاہی آخری نارہ نہ لگا بیٹھو۔
بزرگو دوسروں کو ان کی عینک سے بھی کبھی دیکھا کرو ہر وقت سہاہ ست اچھی نہیں ہوتی۔
مصطفی کمال جیسا شخص پہلی بار پاکستان کو ملا ہے اس نے واقعی شاندار کام کئے ہیں ایم کیوایم کے دشمن بھی مصطفی کمال کو دعائیں دیتےنہیں تھکتے۔ اس شخص سانحہ کراچی کے بعد جو کارکردگی دکھائی اور خود کھڑے ہوکر تمام کاموں کی نگرانی کی اپنی مدد آپ کے تحت مارکیٹوں کی تعمیر نو اور مرمت کے کام کا آغاز کروایا۔ جب بیچارا کام نمٹا کر وہ واپس پہنچتا ہے اس پر بلاوجہ الزام تراشی کی جاتی ہے۔ جو کبھی کبھی ناقابل برداشت بھی ہوجاتی ہے۔اور اس پر غصہ ہونا ایک فطری عمل ہے۔واقعی اللہ پورے پاکستان کو مصطفی کمال جیسا محنتی اور مخلص کردے تو اس ملک کا مستقبل شاندار ہوگا انشاءاللہ
افضل صاحب میں ذاتی طور پر اس بحث میں شامل نہیں ہونا چاہتا تھا لیکن یہ ضروری ہے کہ کچھ چیزوں کے بارے میں وضاحت کی جائے۔۔
حالیہ دنوںمیں امریکی صدر کے خلاف کئی رویوں کو سابق صدر جمی کارٹر نے نسل پرستی اور تعصب قرار دیا۔۔ ایک اخباری صحافی سے کسی نے جمی کارٹر کے بیان کے بارے میں دریافت کیا تو صحافی نے کہا کہ
He lived in the south; and he knows it when he sees it.
تو جب آپ نے بلاگنگ میں تعصب پر لکھنے کی ٹھانی تو شروعات آپ کو چند ہفتے پہلے شائع ہونے والے کچھ بلاگز سے شروع کرنا چاہیے تھا کیونکہ شستہ اردو میں تعصب کا اظہار کرنے سے وہ حلال نہیں ہوجاتا اور جب اس کا اظہار کیاجاتا ہے تو سب کو محسوس ہوتا ہے لیکن اچانک ہماری قوم اخلاق کے اس اعلی مقام پر پہنچ جاتی ہے کہ ایک شہر کے ناظم کے منہ سے چند غصیلے الفاظ — جو بہر حال غیر مناسب ہیں — سن کر اخلاقی دیوالیہ پن کے خوف کا شکار ہوجاتی ہے۔ جبکہ ابھی کچھ دن پہلے تک آمر مشرف کے حضور گلہائے عقیدت پیش کرنے کے لیےکیسی کیسی تشبیہات و استعارات استعمال کی گئیں ان کی تفصیل میں جانے کی ضرورت نہیں۔
بنیادی طور پر چند افراد یا ایک چھوٹے گروہ کی کسی غلطی کی بنیاد پر جب غیر معمولی رد عمل جیسے فیس بک پر کسی نے لکھا کہ اس قوم کی ثقافت ہی ایسی ہے تو یہ دل میں چھپا تعصب ہوتا ہے یا ایم کیو ایم کی مخالفت میں اردو بولنے والے تمام لوگوں کے خلاف نفرت کا اظہار کیاجاتا ہے تو اسے آپ نظر انداز کرکے محض ایک مثال پر اکتفا نہیں کرسکتے کیونکہ
we know it when we see it.
راشد صاحب
ہمیں کسی اور کے بارے میں تو علم نہیں لیکن بخدا ہم قسم کھا کر کہتے ہیں کہ ہمیںنہ تو کراچی سے نفرت ہے اور نہ کراچی والوں سے۔ نہ ایم کیو ایم سے ہمیںچڑ ہے اور نہ دوسری جماعتیں ہماری رشتہ دار ہیں۔ ہم تو جو غلط دیکھتے ہیں اس پر لکھے بغیر رہ نہیںسکتے اور جو اچھا دیکھتے ہیں اس کی تعریف بھی ضرور کرتے ہیں۔
دراصل ہوا ہی ایسی چل پڑی ہے کہ آپ دوسری جماعتوں بشمول مشرف کیخلاف دل کھول کر لکھیں کوئی آپ کو اتنا نہیں کوسے گا جتنا ایم کیو ایم پر تنقید کرنے پر۔ لگتا ہے دونوں طرف کے لوگ ایک دوسرے سے شاکی ہیں تبھی تو یہ بحث طول پکڑ لیتی ہے۔ ہم آئندہ کوشش کریں گے آپ کی طرح اس بحث میں نہ پڑیں۔
چند سوالات کے جوابات میل جائیں تو ہم بھی عرض کریں
1۔ قادیانی تو پنجابی ہوتے ہیں یہ نعمان قادیانی اردو بولنے والا کب سے بن گیا اور الطاف کا کون سا نمک کھایا ہے کہ شاہ سے زیادہ شاہ کا وفادار بنا ہوا ہے؟
ہم نے آج تک اردو بولنے والا قادیانی نہیں دیکھا
2۔ ایم کیو ایم کے پاس بارہا میئر شپ رہی کیا کیا؟ یہ تع بھلا ہو نعمت اللہ کا کہ اس نے خدمت کے کلچر کو فروغ دینے کیا ابتداء کی۔
3-کہاں یہ درد رکھنے والا اور کہاں مافیا کا مہرہ۔ دونوں کے کام کا فرق دیکھو۔کیا شرم تمکو مگر نہیں آتی؟
4-مافیا نے جہاں بھی اس ظالم نظام جمہوریت سے موقع ملتے حکومت کی وہاں اس سے کبھی مخلفلف رہا؟
5۔ ایم کیو ایم کی حمایت میں رافضی سب سے آگے ہیں، شک ہے تو ہمارا چیلنج ہے۔ باقی مسلمان تھوڑے بہت سب نہیں عصبیت کا ہاتھوں مجبور ہیں، اور ایک بڑا طبقہ اس لعنت سے دامن بچا چکا ہے۔ اس لیئے اب کراچی میں ایم کیو ایم کو
رافضی تناظر میں دیکھا جائے۔ کیا ظالم اور مظلوم کو ملانا ظلم نہیں؟
ہم آئندہ کوشش کریں گے آپ کی طرح اس بحث میں نہ پڑیں۔!
افضل مجھے امید کم ہی ہے کہ آپ اپنے کہے پر عمل کر پائیں گے!:)
راشد نے جو کہا وہ سچ ہے اور آپ حضرات کی اسطرح کی گفتگو ایم کیو ایم کا کام آسان کررہی ہے اور زیادہ سے زیادہ لوگ ان کے ہم خیال ہوتے جارہے ہیں!اس کے لیئے آپ حضرات کا بے حد شکریہ!
ویسے ابھی نعمان کی بات کا جواب باقی ہے!
احمد تم بلاوجہ ہی اپنےخالی دماغ کو تھکاتے رہتے ہو!
ویسے تمھاری اطلاع کے لیئے عرض ہے کہ اس سے پہلے بھی ایم کیو ایم کے پاس کراچی کی میئر شپ رہی ہے اور اس وقت ناظم فاروق ستار تھے اور تب پہلی بار کراچی کے لوگوں کی بھلائی کے کام شہری حکومت نےکیئے تھےحالانکہ اس وقت ان کے ہاتھ آج سے بھی ذیادہ بندھے ہوئے تھے!نعمت اللہ نے ذیادہ تر افتتاحی بورڈز ہی لگائے تھے یا چند ایک برج بنائے تھے چار سال کی مددت میں، جبکہ مشرف نے انکو بھی اتنا ہی فری ہینڈ دیا تھا جتنا مصطفی کمال کولیکن دونوں کے مقابلے میں ترقیاتی کاموں کا تناسب ایک اور سو کا بنتا ہے!
میرا پاکستان: میں آپ کے جواب کا انتظار کررہا ہوں۔ یا تو میرے لکھے گندے الفاظ نکال کر دکھائیں یا پھر یہ پوسٹ ڈیلیٹ کریں۔ آپ کا الزام بے جا اور جھوٹ پر مبنی ہے میں اس پر سخت احتجاج کرتا ہوں۔
نعمان صاحب
ہمیں مندرجہ ذیل الفاظ تعصب بھرے اور گندے لگے۔
“کل جماعت اسلامی کے تشدد پسند، طالبان پسند، دہشت کے دلدادہ اور ٹیررسٹوں کے ٹرینی رہنما جناب لیاقت بلوچ صاحب۔۔۔۔۔۔۔۔۔“۔
“دردمند پاکستانیوں سے اپیل ہے کہ وہ متعصب انتہاپسند، دہشت پسند اور طالبان پسند قسم کے عناصر سے دور رہیں اور ان کی ہر ممکن طریقے سے حوصلہ شکنی کریں۔“
یہ ذہن میںرہے کہ نہ جماعت اسلامی سے ہمارا تعلق ہے اور نہ لیاقت بلوچ ہمارے رشتے دار ہیں۔
عبداللہ
ہم بھی آپ کو تم ہی کہتے ہین کہ تم اسی معیار کے ہو
دیکھو ہم کئی بار وضاحت کرچکے ہیں کہ ہم خصوصاُ رافضیوں کی طرف سے عوام کو بہکانے اور گمراہ کرنے پر صرف مسلمانوں سے مخاطب ہوں گے اور ہم نے دلیل کا ہی سہارا لیا ہے
جبکہ تم لوگ تو تڑاکے ، تبراء بازی اور آئیںبائیںشائیںکرکے اپنے چہرے کو بچاتے ہو
تم لوگ تو صحابہ کرام اور رسول کے گھر والوں کو نہیں بخشتے تو عام مسلمان کیا چیز ہے تمہاری بد کلامی اور تبراءبازی سے کون بچا ہوا ہے
اب آتے ہیں نعمت اللہ صاحب کے کام کی طرف تو زرا اپنے کسی تازیے کو ہاتھ لگا کر بتائیں کہ انکے خلوص اور کام کا ایم کیو ایم سے مقابلہ ہے؟
لوگ کوئلوں کی دلالی سے نہیں تھکتے
افضل صاحب اردو بولنے والوں کا مہزب طبقہ ان لوگوں کے ساتھ نہیں ہے اور آپ بھی چوہدریوں اور شریفوں کے اعمال سامنے لائیں کیا انکو بھی مجرم مانا جائے گا؟
بہتر ہے ہم مجرم اور مظلوم کا فرق رکھیں اور منافقین کو جانیں
بہتر ہے ہم مجرم اور مظلوم کا فرق رکھیں اور منافقین کو جانیں۔احمد
اتفاق کرتا ہوں۔
میری ذاتی رائے میں احترام اور اخلاق کے جس معیار اور پہلو کی طرف افضل صاحب نے اشارہ کیا ہے ۔ ہمیں بہ حیثیت مسلمان اس اخلاق کا دامن کسی بھی صورت نہیں چھوڑنا چاہئیے۔ اور رہنمائی کا دعوایٰ کرنے والوں کو تو اخلاقی معیار کو اور اونچا رکھنا چاہئیے۔ پھر ایسے رہنماؤں کی بدکلامی کو کسی بھی صورت غلط سلط دلائل سے درست اور جائز ثابت کرنا نہلے پہ دہلے والا کام ہے۔
پاکستان میں صرف قادیانی لوگ ایک ایسا طبقہ ہے جو بدکلامی کو اپنے جھوٹے نبی کی سنت میں بدکلامی کو بہ حثیت مذہی تکنیک استعمال کرتا ہے۔ اگر اب ایم کو ایم کے سرکردہ اور رہنمائی کا دعواٰی کرنے والے بھی یوں کرنا شروع کر رہے ہیں تو یہ اُن لوگوں کی بدقسمتی ہے جنھیں ایم کیو ایم سے دلچسپی ہے۔
نعمان صاحب سے گزارش ہے کہ وہ دوسروں پہ تعصب کا الزام دہرتے ہوئے کسی حد تک خود تعصب کا شکار ہو رہے ہیں ۔ وہ اس بارے میں کیا کہیں گے یا الطاف حسین کے اس بیان کا دفاع کیسے کریں گے جس میں انھوں نے یہ شوشہ چھوڑا تھا – انکے بیان کے الفاظ کچھ بھی رہے ہوں مگر لب لباب کچھ ایسا تھا۔ہمیں اقتدار ملا تو ایم کیو ایم چند گھنٹوں ملک سے دہشت گردی ختم کر دیں گے ۔
وہ طالبان نامی لوگ بھی جن کے خلاف جنگ کا بہانہ بنا کر پاکستان کی حکومت اور حلیف، پاکستان میں الجھے ہوئے سب مسائل کے حل کی ذمہ داری سے یہ کہہ کر جان چھڑا لیتے ہیں کہ ہم دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہے ہیں۔ وہ طالبان نامی تحریک بھی جنہیں حکومت اور ایم کیو ایم دہشت گردی کی جڑ سمجھتی ہے پاکستان کے معروضی حالات میں تو شاید وہ طالبان تحریک بھی یہ دہشت گردی بند کرنا چاہے تو عملی طور پہ تو اُن کے لئیے بھی ناممکن ہے کہ چند گھنٹوں میں یہ اطلاع اپنے دہشت گردوں کو پہنچا سکے کہ وہ مزید دہشت گردی سے باز آجائیں، کیونکہ اس اطلاع کو بھی پہنچانے میں کچھ وقت لگتا ہوگا۔ تو پھر ایسے میں الطاف حسین کا چند گھنٹوں میں دہشت گردی کو روکنے کا بیان کے معانی کیا ہیں؟۔
اتنی تہمید کا مقصد صرف یہ ہے کہ سیاستدان اور خاصکر ہمارے سیاستدان سو قسم کے سیاسی حربے اور پینترے بدلتے رہتے ہیں ۔ جن کا حقیقت سے دور کا بھی واسطہ نہیں ہوتا۔ بلکہ پاکستان کے سیاستدان رہنماؤں کے پاس ماسوائے عوام کے جذبات کو ابھار کر اُن سے من پسند فوائد اٹھانے کے علاوہ انکے پاس عوام کو دینے کے لئیے کوئی سیاسی منشور نہیں ہوتا۔ ہمیں اس بات سے بھی اتفاق ہے کہ اگر سیاست و جمہوریت نامی پودے کو پاکستان میں مہذب طریقے سے پھلنے پھولنے کا موقع ملتا رہے تو ایک وقت آئے گا کہ سیاستدان بھی اچھی باتیں سیکھ جائیں گے۔ یا عوام انھیں ناکام کرتے ہوئے ان سے اچھے لوگوں کو اپنے سیاسی رہمناء چن لیں گے۔ مگر کسی ایک سیاستدان کی بدکلامی کو جائز ثابت کرنے کے لئیے جذباتی ہونا یا دفع بلا کے طور پہ اپنی سیاسی جماعت کے مخالفین کو دہشت گرد اور یہ وہ کہنے سے حقائق کسی طور نہیں بدلتے بلکہ باشعور لوگ آپ کی بات کو بے وزن جاننے لگتے ہیں۔
یہ الفاظ کہاں سے متعصب ہیں؟ نہ ان میں کسی قوم کو نشانہ بنایا گیا ہے نہ کسی نسل زبان یا مذہب کو۔ بلکہ یہ جماعت اسلامی کی آفیشل نظریاتی پالیسی ہے۔ اس کا جواب میں اپنے بلاگ کی اسی پوسٹ میں جس کا آپ حوالہ دے رہے ہیں کے تبصرہ جات میں لفظ بہ لفظ کرچکا ہوں۔
دوسرا یہ الفاظ گندے کہاں سے ہوگئے؟ آپ کو ان سے اتفاق نہ ہو تو یہ گندے ہوگئے؟ عجیب منطق ہے۔
جیسا کہ راشد کامران نے کہا کہ آپ ہی کے بلاگ پر مشرف اور زرداری کے لئے اس سے کہیں زیادہ برے الفاظ استعمال کئے گئے ہیں جن پر نہ کبھی آپ کو خود شرم آئی نہ کبھی کسی اور نے آپ کو گندگی پھیلانے کا طعنہ دیا۔
نعمان کن دیواروںسےسرپھوڑ رہے ہو!کن لوگوں سے تعصب کی تعریف پوچھ رہے ہو!
شکر کرو صرف گندہ ہی کیا ہے ورنہ ان سے اتفاق نہ کرنے والے تو غدار اور دہشت گرد کہلاتے ہیں!:(
ویسے ان لوگوں کا واویلا سن کر وہ مشہور محاورہ یاد آگیا چور مچائے شور!
تعصب کی تعریف :
جب کسی قوم،علاقے یامذہب کے لوگوں کے خلاف دوسری قوم، علاقہ یا مذہب کے لوگ خصوصی برتاؤ کریں تو یہ تعصب کے زمرے میں آتا ہے۔
نعمان صاحب کی تحریر کو سیاسی اختلاف تو کہا جاسکتا مگر متعصبانہ نہیں، باقی سب اپنی اپنی عینکوں کا کمال ہے آپ جسے چاہیں جس عینک سے پڑھیں، اب اگر کچھ لوگوں کی عینک اتنی خراب ہو کہ انہیں کام اور کتبے کا فرق ہی نظر نہ آئے تو ان کی عقل پر ماتم ہی کیا جاسکتاہے ویسے اس میں قصور ان کا بھی کیا ان بچاروں کی سوئی تو بس ایک ہی جگہ اٹکی رہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں یار یہ ان کی کمزوری ہے ویسے اب وہ اس کا نام لیتے زرا محتاط ہو گئے ہیں، مگر “چور چوری سے جاےے مگر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سے نہ جائے ۔
مجھے افسوس ہے کہ یہ جھوٹا الزام آپ ابھی تک سجائے بیٹھے ہیں۔ آپ یا تو اس الزام کا دفاع کریں یا پھر معافی طلب کرکے اس کو مٹائیں یا ایڈیٹ کریں۔
افضل صاحب
میں بھی اپنا احتیجاج رکارڈ کرنا چاہتا ہوں آپکو نعمان سے معافی مانگی چاہیے اور اپنی پوسٹ اپڈیٹ/ ڈلیٹ کرنی چاہیے
میں بھی نعمان کے اس احتجاج میں اس کے ساتھ ہوں! وہ تمام لوگ جو اس ملک سے تعصب پسند عناصر کا خاتمہ چاہتے ہیں اور واقعی یہاں کے لوگوں کو ایک قوم دیکھنا چاہتے ہیں اس پر احتجاج کریں اور جھوٹ اور غلط بیانی کو ختم کرنے میں اپنا کردار ادا کریں!
لیںجناب ہم نے ہار مانی اور نعمان صاحب سے معافی بھی۔ ہم نے اکثریت کے آگے اپنا سر تسلیم خم کر لیا ہے۔ ہم چاہتے تو اس پوسٹ کو ختم کر کے اپنی غلطی کا نام و نشان مٹا دیتے۔ مگر ہم نے اسے ایڈٹ کرنا مناسب سمجھا تا کہ اس کا ریکارڈ موجود رہے۔
ہم نے اپنی غلطی کا اعتراف کر کے ایک مثال قائم کر دی ہے اور ہمیں امید ہے کہ ہماری اس روش کی دوسرے لوگ بھی تقلید کریں گے۔
آپ کی معافی قبول کی جاتی ہے۔
مگر آپ نے کوئی مثال قائم نہیں کی اخلاقی طور پر آپ کو یہی کرنا چاہئے تھا۔
نعمانصاحب
چلیں یہی بہت ہے کہ آپ نے معافی قبول کر لی۔ مثال کو نہیںمانتے تو نہ مانیں کوئی بات نہیں۔
افضل صاحب آپنے دل خوش کردیا ہے!اور سچ پوچھیں توآپنے اپنی غلطی تسلیم کر کے اعلی ظرفی کا ثبوت دیا ہے!اس سے ان لوگوں کو سبق حاصل کرنا چاہیئے جو کبھی اپنی غلطی تسلیم نہیں کرتے اور الٹے سیدھے جواز پیش کر کے عذر گناہ بدتر ازگناہ کا ارتکاب کرتے رہتے ہیں یا دوسروں کے تبصرے ڈلیٹ کرکے سمجھتے ہیں کہ انہون نے خلق خدا کا منہ بند کردیا !
آپ نے واقعی دل خوش کردیا اور ایک عمدہ روش قائم کی –
میرا پاکستان بھائی بہت خوب آپ نے معافی مانگ کر بہت اچھا کیا مجھے خوشی ہوئی اخلاقی طور پر تو آپ کو یہی کرنا چاہے تھا لیکن میرے خیال میں یہ ایک مثال بھی ہے ہم بلاگرز کے لیے بہت شکریہ
یہاں میںایک بات کا اضافہ کرنا چاہونگی کہ اسی بلاگ پہ ابحی کچح دنوں پہلے ایک صاحب نے مجحے شیعہ خاتون سمجح کر جو بازاری زبان اور انداز اختیار کیا تھا وہ آپکو گندہ نہیں لگا تھا۔ اسکی وجہ تو بہتر طور پہ آپ ہی بتا سکتے ہیں۔ آپکے سینءیر ساتھی تو اپنے بلاگ پہ ان سے بڑی شفقت سے پیش آءے تو کیا مذہب کے نام پہ گالی دینا ایک بالک صحیح رویہ ہے یا کسی خاتون کو جو منہ میں آءے کہہ دینا انتہائ مناسب بات ہے۔ اس وقت آپ اور آپکے سینیئر ساتھی کے قلم سے ایک لفظ نہ نکلا۔ آپ لوگوں کی یہ خامشی ہی ظاہرت کرتی ہے کہ آپ پڑھے لکھے لوگوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے کے عمل میں شامل رہتے ہیں اور بس۔ کیا یہ تعصب کے زمرے میں نہیں آتا۔
عنیقہ صاحبہ
جوانی کے دنوں میںہم نے اپنے بھائی جو دبئی میںہوتے تھے ایک کی بورڈ کی فرمائش کی۔ پتہ ہے انہوں نے کیا لکھا۔ کہنے لگے بھائی جو جو طبلے، ڈھول، باجے منگوانے ہیں ایک ہی دفعہ ان کی لسٹ بھیج دو۔ ہم یہ پڑھ کر بہت شرمندہ ہوئے اور دوبارہ ایسی فرمائش کبھی نہیںکی۔
اب آپ بھی ایک ہی دفعہ بتا دیں کہ کس کس کی غلطی ہمیں اپنے سیر لینی پڑے گی تا کہ معاملہ ایک ہی دفعہ حل ہو جائے۔
چہ جائیکہ آپ دوسروں کی طرح ہمارے اس رویے کی تعریف کرتیں آپ نے پھر سے ہمیں نشانہ بنانا شروع کر دیا ہے۔
نہیں میں نے محض آپکی یاد دہانی کے لئے اسے یہان نوٹ کروایا ہے۔ کیونکہ مجھے یہ بات اس وقت اتنی شدت سے محسوس نہیں ہوئ تھی اور میں نے اس وقت ان صاحب کی ذہنی سطح بس اتنی ہی ہے کہہ کر اسے نظر انداز کر دیا تھا۔ لیکن اس تحریر کو پڑھنے کے بعد اندازہ ہوا کہ آپ لوگوں کو گندے الفاظ کیا لگتے ہیں، اور مجھے کیا۔
میں نے سوچا مجھے کہیں تو ریکارڈ کروانا چاہئیے۔ کیونکہ وہ بحث آپکے بلاگ پہ ہوئ تھی اور یہ بھی۔ اس لئیے مناسب یہی خیال کیا کہ اسے یہاں ڈالا جائے۔
عنیقہ صاحبہ۔
آپ جس کالم پر تبصروں کا تذکرہ کررہی ہیں وہاں حساب برابر کردیاگیاتھا، اچھے برے لوگ تو ہر قوم اور مذہب میں ہوتے ہیں۔ بڑائی اسی میں ہے کہ غلطی کو مان لیا جائے، اس لحاظ سے افضل صاحب کا عمل قابل تحسین ہے، اور میرا خیال ہے کہ اپنے احتجاج رکاڈ کروانے کے ساتھ ساتھ اچھی بات کی تعریف کرنے میں آپ کو کنجوسی نہیں کرنی چاہئے۔
ہا ہائے
لیٹ ہو گیا میں تو
اب تو حلیم پک کر ختم بھی ہو گیا
Leave A Reply