کارگل کا معرکہ
پرویز صاحب اپنی کتاب میں کارگل کا واقعہ ملکی مفاد کی پرواہ کۓ بغیرنواز شریف کی تقلید کرتے ہوۓ دو وجوہات کی بناں پر زیرِ بحث لاۓ ہیں۔ ایک تو کارگل کا معرکہ پہلا معرکہ ہے جس میں پاکستانی فوج کا پلّہ بھاری رہا اور دوسرے نواز شریف کے بیانات کے جوابات دینے اور انہیں ذلیل کرنے کیلۓ اس کا ذکر ضروری تھا۔ اسی لۓ پرویز صاحب نے کارگل کے باب میں اس وقت کی سول انتظامیہ کی خوب خبر لینے کی کوشش کی ہے۔ اس جوش میں انہوں نے اپنے حلیفوں کا بھی خیال نہیں رکھا جو اس وقت نواز شریف کی حکومت میں شامل تھے۔
پرویز صاحب نے سیکرٹ ایکٹ کی پرواہ کۓ بغیر سارے راز کھول کر رکھ دیۓ ہیں اب ان میں سچائی کتنی ہے یہ وہی جانتے ہیں یا ہماری ایجینسیاں۔ بقول ان کے کارگل پر قبضہ پاکستانی فوج نے نہیں بلکہ پاکستانی فریڈم فائٹرز نے کیا تھا۔ اب تک تو ہم نے کشمیری فریڈم فائٹرز کا نام سن رکھا تھا لیکن یہ معلوم نہیں تھا کہ پاکستان میں فوج کے علاوہ بھی کوئی مسلح طاقت ہے جسے پاکستانی فریڈم فائٹر کہتے ہیں اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ پاکستانی فریڈم فائٹرز کا حدف یا ارادہ یا مشن کیا تھا۔
ساری جنگی صورتحال بیان کرنے کے بعد پرویز صاحب کے بقول انڈیا اس وقت اس قابل نہیں تھا کہ وہ پاکستان پر حملہ کرسکے۔ پاکستان کو کارگل میں برتری حاصل تھی اسی لۓ انڈین آرمی کا اس معرکے میں زیادہ جانی نقصان ہوا۔
پرویز صاحب اس معرکے میں فوج پر پانچ الزامات کا جواب بھی تفصیل سے دیتے ہیں اور بتاتے ہیں کہ فوج حق پر تھی اور انڈين آرمی پر ہاوی تھی۔ یہ سول انتظامیہ تھی جس نے یہ جنگ ڈپلومیٹک فورم پر ہاری۔
پہلا الزام یہ ہے کہ کارگل کا مشن سول انتظامیہ کوبتاۓ بغیر شروع کیا گیا اور وہ اسے بہت بڑا جھوٹ قرار دیتے ہیں۔ پرویز صاحب کی یہ بات سچ ہے اور یہ ہو ہی نہیں سکتا کہ اتنا بڑا قدم فوج سول انتظامیہ کے بغیر اٹھاۓ اور وہ بھی اس وقت جب فوج اور سول انتظامیہ کا آپس میں مکمل اتفاق تھا۔
دوسرا الزام یہ ہے کہ پاکستانی فوج انڈیا کا مقابلہ نہیں کرسکتی تھی اسلۓ نواز شریف نے کلنٹن کی مدد سے کارگل خالی کردیا۔ پرویز صاحب یہ بات ماننے کیلۓ تیار نہیں ہیں اور کہتےہیں کہ انڈیا اس پوزیشن میں نہیں تھا کہ پاکستانی فوج کو شکست دے سکتا۔
یہ بات ماننے والی ہے کہ کارگل میں پاکستانی فوج کو برتری حاصل تھی وہ اسلۓ کہ پاکستانی فوج نے چوٹی پر قبضہ کیا ہوا تھا جہاں سے وہ انڈین آرمی کو جہاں چاہتی آسانی سے نشانہ بنا رہی تھی۔ لیکن یہ بات ماننے والی نہیں ہے کہ انڈیا اس وقت مکمل جنگ چھیڑنے کے قابل نہیں تھا اور وہ کشمیر میں پھنسا ہوا تھا۔ پاکستان کو سب سے بڑا ڈر فل سکیل جنگ کا تھا اور پاکستان اپنے پچھلے تجربات سے جانتا تھا کہ وہ کبھی بھی جنگ نہیں جیت سکے گا۔ سول انتثامیہ نے ہوسکتا ہے انڈیا کیساتھ جنگ سے بچنے کیلۓ امریکہ کی مدد لی ہو۔ اس وقت قیاس بھی یہی تھا کہ اگر کارگل کچھ دنوں میں خالی نہ کیا گیا تو انڈیا پاکستان پر حملہ کردے گا۔
تیسرا الزام یہ ہے کہ اس معرکے کاآرمی کی ہائی کمانڈ کو علم نہیں تھا۔ یہ تو نواز شریف صاحب سرا سر جھوٹ بول رہے ہیں۔ پھر وہی بات ہے کہ یہ کوئی چھوٹی موٹی جھڑپ نہیں تھا یا رینجرز والے سمگلنگ نہیں کررہے تھے کہ ہائی کمان ان س بےخبر رہتی۔ کارگل کا معرکہ نہ صرف فوج کی ہائی کمان کو اعتماد میں لے کر لڑا گیا ہوگا بلکہ سول انتظامیہ کی بھی اس میں مرضی شامل ہوگی۔
چوتھا الزام یہ ہے کہ ہم کارگل پر قبضے کی وجہ سے ایٹمی جنگ کے دہانے پر پہنچ چکے تھے۔ پرویز صاحب اس بات کو نہیں مانتے اور کہتےہیں کہ اس وقت پاکستان اس قابل نہیں تھا کہ وہ انڈیا پر ایٹم بم پھینک سکتا۔ مگر پرویز صاحب یہ بات بھول رہے ہیں کہ انڈیا اس قابل تھا کہ وہ پاکستان پر ایٹمی حملہ کرسکتا تھا۔ شائد اسی وجہ سے سول انتظامیہ نے کارگل خالی کیا تاکہ ایٹمی جنگ کا خطرہ ٹالا جاسکے۔
پانچواں اور آخری الزام یہ ہے کہ اس معرکے میں پاکستان آرمی کا بہت زیادہ جانی نقصان ہورہا تھا۔ پرویز صاحب یہ ماننے کو تیار نہیں ہیں اور کہتےہیں کہ انڈیا کا ہم سے بہت زیادہ نقصان ہورہا تھا۔ پرویز صاحب کی بات بجا مگر پاکستانی آرمی بھی جانی نقصان سے بچی ہوئی نہیں تھی۔ ویسے ہم یہ ماننے کیلۓ تیار نہیں ہیں کہ سول انتظامیہ نے اسلۓ کارگل خالی کیا کہ فوج کا بہت زیادہ نقصان ہورہا تھا۔ اس کی وجہ یہی ہے کہ سول انتظامیہ ہو یا فوجی چیف اسے فوجیوں کی جانوں کی پرواہ نہیں ہوتی اسے اپنے مفاد کی فکر ہوتی ہے اور وہ اسی تگ ودو میں ہوتے ہیں کہ کسی طرح ان کا جھنڈا بلند ہو چاہے اسکیلۓ سینکڑوں فوجیوں یا عام لوگوں کی ہی قربانی کیوں نہ دینی پڑے۔
ہماری نظر میں کارگل سے پسپائی کی صرف ایک ہی وجہ تھی اور وہ تھی انڈیا کیساتھ جنگ سے گریز۔ انڈیا چونکہ کارگل میں کافی ہزیمت اٹھا چکا تھا اور جب اس کا کوئی چارہ نہ چلا تو اس نے عام جنگ کی دھمکی دے دی۔ پاکستان کی سول اور فوجی انتظامیہ دونوں اس دھمکی سے ڈر گۓ اور انہوں نے کارگل خالی کردیا۔ ہمارے خیال میں یہ مشکل فیصلہ فوج اور سول انتظامیہ نے ملکر کیا اور اب سیاسی فائدہ حاصل کرنے کیلۓ دونوں ایک دوسرے پر فضول الزامات لگا رہے ہیں۔ بہتر ہوتا اگر دونوں پارٹیاں پانے مفاد کی خاطر اس نازک مسلے کو زیرِ بحث نہ لاتیں۔ مگر ہمیں کیا پاکستان جاۓ بھاڑ میں ہمیں تو اپنا ذاتی مفاد عزیز ہے۔
1 user commented in " ان دی لائن آف فائر – 10 "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackنواز شریف کے امریکہ آنے سے دو ہفتے پہلے ہی کارگل میں جنگ کا پانسہ پلٹ رہا تھا اور انڈین فوج معرکے جیتنا شروع کر چکی تھی۔ جولائی کے شروع تک تو یہ حالت تھی کہ پاکستان اپنے فوجیوں کو لاجسٹک سپورٹ بھی نہیں دے سکتا تھا۔
کارگل کے بارے میں کچھ سائٹ:
http://www.ccc.nps.navy.mil/research/kargil/
http://www.sas.upenn.edu/casi/publications/Papers/Riedel_2002.pdf
Leave A Reply