اس دفعہ ہمارا بلاگ دوبارہ فعال ترین بلاگ کیلیے نامزد ہوا اور منظرنامہ والوں نے ایک اچھے اور صاف ستھرے انداز سے ووٹنگ کرانے کا حق ادا کر دیا۔ ہماری کیٹیگری میں ہمارا مقابلہ افتخار اجمل صاحب اور عنیقہ ناز صاحبہ کیساتھ تھا۔ ہم اپنی ہار تسلیم کرتے ہوئے افتخار اجمل صاحب کو ان کی کامیابی پر مبارکباد دیتے ہیں اور امید ہے ہماری تقلید میں اگلے ضمنی الیکشن ہارنے والے امیدوار قومی اسمبلی کے کامیاب امیدواروں کو ضرور مبارکباد دیں گے مگر شرط یہ ہے کہ حکومتِ وقت یہ انتخابات منظر نامہ والوں کی طرح شفاف طریقے سے کرائے۔
افتخار اجمل صاحب جس تواتر اور عمدگی سے لکھ رہے ہیں یہ ان کا حق بنتا تھا کہ وہ یہ مقابلہ جیتیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے انہوں نے اپنے بلاگ پر سیاست کی بجائے نوجوانوں کی تربیت کا سامان مہیا کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ سلسلہ پسند بھی کیا جا رہا ہے۔ عنیقہ ناز صاحبہ نے کم عرصے میں جس طرح کامیابیاں حاصل کی ہیں ان سے لگتا ہے وہ اگلے سال ضرور کوئی نہ کوئی ایوارڈ جیت لیں گی۔ انہیں یہ منفرد اعزاز حاصل ہوا ہے کہ ان کا بلاگ ایک سے زیادہ کارکردگیوں کیلیے نامزد ہوا اور وہ مقابلے میں واحد خاتون امیدوار تھیں۔ اگر ہو سکے تو منظرنامہ والے اس انفرادی کارکردگی پر عنیقہ ناز صاحبہ کو خصوصی ایوارڈ سے نواز سکتے ہیں۔
یہ تو سب مانتے ہیں کہ سب سے بڑا ایوارڈ بہترین بلاگ کا تھا اور اس کیٹیگری میں مقابلہ بھی خوب ہوا۔ راشد صاحب کے ہارنے کی وجہ شاید ان کا کم لکھنا ہے۔ ہاں ڈفر صاحب نے جس مختصر عرصے میں جو کامیابی حاصل کی ہے وہ ہماری موجودہ حکومت کیلیے مشعلِ راہ ہے۔ اگر حکومت چاہے تو اپنی کارکردگی بہتر بنانے کیلیے ڈفر صاحب سے مشاورت کر سکتی ہے۔
بہترین نئے بلاگ کی کیٹیگری میں بھی مقابلہ خوب رہا اور حسبِ توقع جعفر صاحب جیت گئے۔ ان کے جیتنے کی سب سے بڑی وجہ ان کا منفرد اندازِ تحریر ہے۔ ان کی کھانا پکانے کی تراکیب ان کیلیے بہت معاون ثابت ہوئیں۔ امید ہے وہ اس کیٹیگری میں کبھی کبھار لکھتے رہیں گے۔
ایک تجویز ہے جس میں خودغرضی کی بو تو آئے گی مگر ہے بہت اچھی۔ منطر نامہ والے اگر ایوارڈ ز میں نامزد بلاگرز کیلے کوئی سانچہ بنا دیں تو اس سے دو فائدے ہوں گے۔ ایک نئے لکھنے والوں کو بلاگ بنانے کی تحریک ملے گی اور دوسرے ان ایوارڈذ کی مشہوری بھی ہو گی۔ اس طرح اگلے ایوارڈز میں ووٹ زیادہ پڑنے کے امکانات بڑھ جائیں گے۔
ایک تجویز ایوارڈ کے بارے میں بھی سوجھی ہے یعنی ہر ایوارڈ پر ایوارڈ جیتنے والے بلاگر یا ان کے بلاگ کا نام کندہ کر دیا جائے تو کیسا لگے گا۔
8 users commented in " مقابلہ تو دلِ ناتواں نے خوب کیا "
Follow-up comment rss or Leave a Trackbackکیا خوب تجزیہ کیا ہے بلاگران کا۔
ویسے آپ کی خود غرضی والی بات بھی خوب ہے۔ خیر اس پر میرا یہ کہنا تھا کہ مجھے منظرنامہ منتظمین اور ان کی ٹیکنیکل ٹیم کی فرصت کا اندازہ تو نہیں پھر بھی وہ ایسا کچھ بنا بھی دیں تو وہ غالباً عمومای استعمال کے لئے ہوگا۔ اور نامزدگان تک اس کی تخصیص کرنا شاید مناسب نہ ہوگا۔ اس کے علاوہ ایک مسئلہ یہ ہے کہ ہر بلاگر کا اپنا حسن نظر ہوتا ہے اور ضروری نہیں کہ ایک تھیم کسی کو پسند آئے تو وہ دوسرے کو بھی پسند آئے۔ ویسے بھی کون ایک تھیم کے ساتھ پورے سال گزارہ کرتا ہے۔
ویسے ورڈ پریس تھیم کی اردو کاری کے حوالے سے میرے پاس ایک پلان ہے۔ اس پر کچھ کام کر لوں تو بتاتا ہوں ان شاء اللہ۔
بہت اچھا تجزیہ اور عمدہ تجاویز ہیں
آپکی باقی باتیں تو اپنی جگہ صحیح ہیں مگر،
افتخار اجمل صاحب جس تواتر اور عمدگی سے لکھ رہے ہیں یہ ان کا حق بنتا تھا کہ وہ یہ مقابلہ جیتیں۔ پچھلے کچھ عرصے سے انہوں نے اپنے بلاگ پر سیاست کی بجائے نوجوانوں کی تربیت کا سامان مہیا کرنا شروع کر دیا ہے اور یہ سلسلہ پسند بھی کیا جا رہا ہے۔
اپنی نسل کی منافقت اور تعصب کو نوجوان نسل تک منتقل کرنا اگر آپکے نزدیک ان کی تربیت ہے تو کیا کہا جاسکتا ہے!
hum pay hi yeh zulm kion
kia humari ghalti h k hum nay altaf ko zulm karny say roka
pora karachi pay kabza kia h khuda k lya hum pay pabandi hatain hum 24 ghantay m altaf ko our ous k deshat ghardoun ko bata dain gay k karachi oun k baap ka nay h karachi k log waris rakhtay hain
G.A AFAQ AHMED
G.A MOHAJIR
بھاجی انعام کا حق تو آپ کا بنتا تھا کیونکہ آپ بڑے صبر و تحمل کے ساتھ بونو کو بھی موقع فراہم کرتے ہو کہ وہ بھی بول لیں، اب کیسی کے ماتھے پر تے نہیں لکھیا ہوتا ہے کہ وہ حقیقی دہشت گرد ہے، اس کی گواہی تو اسکے لوگی ہی دیتے ہیں۔
ek bar ek bar sirf 24 ghantay do hum inshaAllah mqm altaf k dehshat gardoun ko wid in k asla k sath samnay la k khara na kardain tou kehna k hum b deshat gard hain wkt ek sa nai hota mairay bhai karachi m akar baat karo bhr beth k sabi boltay hain
jitna zulm our lashain hum nay outhain hain hum hi jantay hain
G.A AFAQ AHMED
G.A MOHAJIR
ہزاروں خواہشیں ایسی کہ ہر خواہش پر دم نکلے
بہت نکلے مرے ارمان لیکن پھر بھی کم نکلے
بھا جی ابھی ان کی چمڑے کے سکے چلوانے کی خواہش باقی ہے جتنا خون خرابا کرلیا اتنا کافی نہیں۔
حشمت صاحب ہوشیارباش! بدمعاش آپکو دھمکی لگا رہا ہے کہ کراچی میں آکر بات کرو باہر بیٹھ کر تو سبھی بولتے ہیں!
جناب اپنا خیال رکھیں یہ بڑے ہی ظالم لوگ ہیں ایجینسیوں کے بل بوتے پر اچکتے ہیں!یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنوں کو مارنے اور لوٹنے سے نہ چھوڑا!
Leave A Reply